انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہود کے پیشے جزیرۂ عرب میں جہاں بھی یہود آباد تھے عموماً ان کے خاص تین پیشے تھے، زراعت، تجارت اور صنعت وحرفت۔ زراعت بعض مستشرقین کا خیال ہے کہ زراعت میں یہود عربوں کے استاذ تھے (تاریخ الیہود:۱۷،۱۸) اس کا یہ مطلب نہیں کہ عرب یہود کی آمد سے پہلے زراعت کرنا نہیں جانتے تھے اور یہود نے آکر ان کوسکھایا؛ بلکہ انھوں نے زراعت کے نئے نئے طریقے اور اس کے لیے جدید قسم کے آلات عربوں بتائے اور بعض نئے قسم کے پودوں اور درختوں سے ان کوآگاہ کیا۔ (ابن ہشام، بحوالہ تاریخ الیہود) جن سے پہلے یہاں کے لوگ واقف نہیں تھے؛ اسی طرح یہودیوں کوپرندوں اور جانوروں کے پالنے کا بھی شوق تھا۔ (فتوح البلدان:۶۷،۶۸) حجاز کے یہود عموماً شام وفلسطین سے آئے تھے؛ جہاں کی زمین زرخیزی اور زراعت کی موزونیت کے لحاظ سے ضرب المثل تھی، اس لیے وہاں سے آنے والے یہودیوں نے؛ اگرعربوں کونئے طریقہ زراعت سے آگاہ کیا ہوتواس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے؛ پھرشام کی سرزمین کوصحفِ قدیم میں تین وزیتون (انجیل اور زیتون قرآن نے بھی سورۂ تین میں ان چیزوں کا تذکرہ کیا ہے) کی زمین کہا گیا ہے، بہت ممکن ہے کہ یہ اور اسی قسم کے اور دوسرے درخت بھی یہویدوں کے ذریعہ جزیرہ میں آئے ہوں؛ لیکن جانوروں کے پالنے کا شوق تواس میں دونوں شریک ہیں؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ یہودیوں سے کہیں زیادہ عربوں میں تھا، اس لیے کہ جزیرۂ عرب کی بیشترآبادی کا مدار زندگی جانوروں کے دُودھ ہی پرتا، دوسرے وہاں کی زیادہ ترآبادی خانہ بدوش تھی، جن کوایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور اسباب لے جانے کے لیے بھی جانوروں کی ضرورت ہوتی تھی، یہ بات ضرور ہے کہ عرب زیادہ ترنقل وحمل اور دودھ اور غذا کے لیے جانوروں کی پرورش اور ان کا گونا گوں استعمال عربوں نے یہود سے سیکھا ہو۔ تاریخ الیہود کے مصنف نے ابن ہشام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ بعض یہود مرغیاں بھی پالتے تھے؛ مگرمجھے ابنِ ہشام میں یہ واقعہ نہیں مل سکا؛ اگریہ صحیح ہے تویہ یہود کی خصوصیت تھی۔ تجارت ظہورِ اسلام کے وقت اور اس سے بہت سے پہلے یہود اور عرب دونوں جزیرہ ہیں اور جزیرہ سے باہر تجارت کرتے نظر آتے ہیں اور خصوصیت سے قریش تواس حیثیت سے پورے عرب میں ممتاز تھے، اس لیے ان میں سے کسی ایک کومقدم یامؤخر کرنا بہت دشوار ہے؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ یہود کئی سوبرس قبل مسیح سے تجارت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جہاں بھی وہ رہے یہ پیشہ ان کے ساتھ رہا، جزیرۂ عرب میں آئے تویہاں بھی انھوں نے یہی پیشہ اختیار کیا جیسا کہ ہم اُوپرذکر کرچکے ہیں، دوسرے اپنی سکونت ورہائش کے لیے بھی انھوں نے خاص طور سے جزیرہ کے ان ہی خطوں اور علاقوں کوپسند کیا، جن میں پہلے سے کچھ زرعی وکاروباری صلاحیت موجود تھی، بخلاف اس کے عربوں کی عام بستیوں اور آبادیوں کواس طرح کی کوئی خصوصیت حاصل نہیں تھی؛ ہاں مکہ کوکعبۃ اللہ اور بیت الحرام کی وجہ سے دینی اہمیت ومرکزیت ضرور حاصل تھی اور اسی کی کوشش دور دور سے لوگوں کویہاں کھینچ لاتی تھی اور اس طرح وہ سال کے کچھ مہینوں میں تجارتی منڈی بن جاتا تھا؛ لیکن بذاتِ خود اس می ںکوئی زرعی یاتجارتی صلاحیت نہیں تھی اور اسی لیے رب کعبہ نے اس کوقرآنِ پاک میں وادی غیرذی زرع سے تعبیر کیا ہے، پورے حجاز میں طائف اور مدینہ دوایسے مقامات تھے جنھیں تجارتی اور زرعی اہمیت بھی حاصل تھی اور جہاں عربوں کی عددی اکثریت بھی تھی اور یہود اقلیت میں تھے مگروہاں کی تجارت وزراعت پریہودی ہی چھائے ہوئے تھے، ان دونوں مقامات کا تذکرہ اُوپر آچکا ہے۔ یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پرہمارا قیاس ہے کہ یہ پیشہ عربوں میں یہودیوں ہی کے ذریعہ آیا تھا۔ تجارتی بازار عربوں کی ہرمشہور بستی میں ہرچھوٹے بڑے میلے اور بعض جگہ ہفتہ وار بازار لگتے تھے (نظام حکمرانی، ڈاکٹرحمیداللہ:۲۳۴) ان کے علاوہ سال میں بعض اور بھی بڑے بڑے بازار اور میلے لگتے تھے جہاں یہود کی شرکت کی تصریح کم ملتی ہے؛ مگروہ ان میں شریک ضرور ہوتے ہوں گے اس لیے کہ جزیرہ عرب کے ۲۰/مشہور شہروں میں سے تقریباً دس، گیارہ شہروں میں یہود کا معاشی واقتصادی غلبہ تھا، محمد بن حبیب نے لکھا ہے کہ بحرین اور دومۃ الجندل میں جہاں یہود آباد تھے دومشہور میلے لگتے تھے۔ (کتاب المجر:۱۵۷) یقیناً اِن میلوں میں ان کی مؤثرشرکت ہوتی ہوگی، مدینہ میں ایک بازار سوق بنی قینقاع تویہود کے مشہور قبیلہ قینقاع ہی کے نام سے مشہور تھا جس کا تذکرہ سیر کی کتابوں میں موجود ہے۔ سامانِ تجارت سامانِ تجارت میں عموماً غلے، کھجوریں، اسلحے اور کپڑے وغیرہ وہتے تھے، جنھیں یہ بیچنے کے لیے باہر لے جاتے تھے، بعض حصوں کے یہود مچھلی کی بھی تجارت کرتے تھے، مثلاً مقنا کے یہودیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جومعاہدہ کیا تھا اس میں جوچیزیں بطورِ ٹیکس لینے طے پائی تھیں ان میں مچھلیاں بھی تھیں۔ (فتوح البلدان، ذکر مقنا) ظہورِ اسلام کے وقت جزیرہ سے باہر یہود سے زیادہ عرب اور ان میں بھی خصوصیت سے اہلِ مکہ ہم کوتجارتی سفر کرتے نظر آتے ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہود جن کا قدیم زانہ سے عرب سے باہر بھی کاروبار تھا اور جن کا ایک فرد، ابورافع یہودی آخری دور میں بھی بہت زیادہ مدہور تھا؛ یہاں تک کہ اس کا لقب ہی تاجر الحجاز والشام پڑگیا تھا (تاریخ الخمیس:۲/۱۲، بخاری، باب قتل النائم والمشرک) ظہورِ اسلام کے وقت دفعۃًان کی برآمدی تجارت کیوں کم ہوگئی اور ان کا کاروبار اندرون ملک تک کیوں محدود ہوکر رہ گیا؛ اسی کے ساتھ یہ بھی قابل ذکر امر ہے کہ پورے جزیرۂ عرب میں رِبَا یعنی سود خوری کا بھی رواج تھا جس میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب سب برابر کے شریک تھے، خصوصیت سے اہلِ طائف سودی کاروبار میں زیادہ مشہور تھے، معجم البلدان میں ہے: وَكَانُوْا أَصْحَاب رِباً۔ (فتوح البلدان:۱/۶۶، شاملہ، موقع يعسوب) ترجمہ:اہلِ طائف بڑے سود خوار تھے۔ مشرکینِ عرب اگرسودی کاروبار کرتے تھے توکچھ زیادہ تعجب خیرز نہیں تھا؛ لیکن یہود ونصاریٰ کی سودخواری البتہ حیرت انگیز ہے کہ وہ صاحب شریعت اوراہلِ کتاب تھے اور قرآن کی تصریح ہے کہ ان کوجہاں اور بہت سی باتوں پرملامت کی گئی تھی اور ان سے روکا گیا تھا ان میں ایک سود بھی تھا؛ مگروہ باز نہ آئے: وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ۔ (النساء:۱۶۱) ترجمہ:اور ان کے سودلینے کی وجہ سے (ملامت کی گئی) حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے۔ البتہ عربوں کا خیال تھا کہ رباء بھی ایک قسم کی تجارت ہے، قرآن میں ہے: قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا۔ (البقرۃ:۲۷۵) ترجمہ:ان لوگوں نے کہا کہ بیع مثل رباء کے ہے۔ بہرحال یاتویہ لعنت یہود کے ذریعہ عربوں میں آئی، یاعربوں کے اثر سے یہود اس میں مبتلا ہوئے، دونوں باتوں کا امکان ہے؛ لیکن سورۂ مائدہ میں جہاں یہود کے ان مصائب کا جوبہت قدیم زانہ سے ان میں موجود تھے تذکرہ ہے ان میں ایک سود خواری بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت قدیم زمانہ سے وہ اس میں مبتلا تھے، اس کے برخلاف عربوں کی تجارت کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے، اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ اس طریق تجارت کویہود ہی نے یہاں فروغ دیا ہوگا جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ربا کا جتنا عام رواج یہود میں تھا اور اس کی جتنی سخت سے سخت شرحیں وہ مقرر کرتے تھے، عرب اس میں ان سے پیچھے تھے۔ رہن وارتہان کا طریقہ بھی یہود اور عرب دونوں میں رائج تھا، خصوصیت سے مدینہ اور خیبر کے یہودیوں میں یہ بہت عام تھا، یہ بھی سود خواری ہی کی ایک شاخ تھی؛ مگر اس کو بھی وہ ایک قسم کی تجارت سمجھتے تھے۔ صنعت وحرفت صنعت وحرفت کا رواج اگرچہ جزیرۂ عرب کے تمام باشندوں میں تھا مگریہود اس میں بہت ممتاز تھے اور وہ عموماً کپڑے، اسلحے اور سونے اور لوہےکا کام کرتے تھے اور بعض حصوں کے یہودیوں میں لکڑی کی صنعت بھی تھی (ابن سعد:۲/۲۸۔ فتوح البلدان:۶۷۶۸) رُوئی کی کتائی اور کپڑے کی بتائی میں مردوں کی ساتھ عورتیں بھی حصہ لیتی تھیں، یثرب کے یہودیوں میں توکپڑے کی صنعت بہت کم تھی؛ مگرمقنا، دومۃ الجندل اور یمن کے یہودی اس میں بڑی مہارت رکھتے تھے (فتوح البلدان) اسلحہ سازی یہود کا خاص پیشہ تھا، یہود جس جگہ بھی آباد تھے یہ صنعت ان میں موجود تھی، مدینہ میں بنوقینقاع اور خیبر کے یہودی اس میں بہت ممتاز تھے، اس زمانہ کے ہرقسم کے مروج اسلحے مثلاً تلوار، نیزے، ڈھال، خود اور زرہ وہ تیار کرتے تھے، خیبر کے یہود توشاید منجنیق تک جواس وقت کا سب سے ترقی یافتہ اسلحہ تھا، تیار کرتے تھے، غزوۂ خیبر میں انھوں نے مسلمانوں کے خلاف اسے استعمال بھی کیا تھا (فتوح البلدان) کیاعجب ہے کہ مسلمانوں کومنجنیق یہیں سے ہاتھ لگی ہو، جس کوانہووں نے بعد میں طائف وغیرہ کی جنگ میں استعمال کیا۔ اس صنعت کی وجہ سے یہود اپنے کودفاعی حیثیت سے بہت زیادہ مضبوط اور مامون تصور کرتے تھے اور اس کی وجہ سے ان میں ایک قسم کا غرور وتکبر بھی پیدا ہوگیا تھا؛ چنانچہ بنوقینقاع نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بطورِ تحدی کے کہا تھا کہ ہم سے مقابلہ ہوگا تومعلوم ہوگا، فن تعمیر میں بھی عربوں کے مقابلہ میں یہود زیادہ ترقی یافتہ تھے، مدینہ اور خیبر کے یہودیوں کے بعض مکانات اور قلعوں کے نشانات اب بھی باقی ہیں جوان کے ذوقِ تعمیر کی شہادت دیتے ہیں۔