انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبیداللہ بن زیاد کا قتل اوپر ذکر ہوچکا ہے ابل کے میدان میں بروز عیدالاضحیٰ سنہ۶۶ھ کوفیوں کے مقابلے میں شامیوں کوشکست ہوئی تھی؛ مگرکوفی سپہ سالار ابن زیاد کے آنے کی خبر سن کرپیچھے ہٹ آیا تھا اس خبر کوسن کرمختار نے اپنے سپہ سالارِاعظم ابراہیم بن مالک بن اشترکوسات ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا تھا؛ لیکن راستے ہی سے ابراہیم کوکوفہ کی طرف واپس لوٹنا پڑا تھا، کوفہ میں نہایت کثرت سے لوگ قتل کیے گئے اور شیعانِ علی کی مخالف جماعت یاشیعانِ علیہ کے سوا جولوگ تھے ان کواچھی طرح کچل دیا گیا جس سے آئندہ کے لیے اس قسم کے خطرے کا سدباب ہوگیا، اس کام سے فارغ ہوکر ۲۲/ذی الحجہ سنہ۶۶ھ کومختار نے کوفہ سے ابراہیم بن مالک کوپھراسی مہم پرابن زیادکے مقابلے کی غرض سے روانہ کیا، اس مرتبہ چونکہ کوفہ کی بغاوت کا کوئی خطرہ قطعاً باقی نہ رہا تھا اور لوگ بہت زیادہ خائف ہوچکے تھے؛ لہٰذا ابراہیم کے ساتھ تمام بڑے بڑے سردار اور بہادر لوگ بھیج دیئے گئے، ساتھ ہی وہ تابوت بھی بھیجا گیا جس میں وہ کرسی رکھی تھی، اس تابوت کے بھیجنے سے مدّعا یہ تھا کہ فوج کوپہلے ہی سے اپنی فتح کا یقین ہوجائے۔ ابراہیم نہایت تیزی سے سرحد عراق کوعبور کرکے حدودِ موصل میں داخل ہوا جہاں عبیداللہ بن زیاد عبدالملک بن مروان کی طرف سے بطورِ گورنرمامور تھا، عبیداللہ بن زیاد اس لشکر کے آنے کی خبر سن کرموصل سے روانہ ہوا اور نہرخارز کے متصل دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن ہوئے، رات بسر کرنے کے بعد نمازِ فجر پڑھتے ہی دونوں لشکر ایک دوسرے پرحملہ آور ہوئے، بڑی سخت وخوں ریز جنگ ہوئی، اوّل کوفیوں کی طرف آثارِ ہزیمت نمایاں ہوئے؛ مگرابراہیم بن مالک کی جرأت اور استقامت سے کوفیوں کے پاؤں جم گئے، دونوں طرف کے سرداروں نے بڑی بڑی بہادریاں دکھائیں، آخرلشکرِ شام کوشکست ہوئی اور اُن کا سپہ سالارِاعظم عبیداللہ بن زیاد بھی مارا گیا، عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ شامیوں کا دوسرا زبردست سردار حصین بن نمیر بھی شریک بن جدیرتغلبی کے ہاتھ سے مارا گیا، لڑائی کے ختم ہونے اور شامیوں کے مقتول ومفرور ہونے کے بعد ابراہیم بن مالک نے کہا کہ نہر کے کنارے علم کے نیچے میں نے ایک شخص کوقتل کیا ہے، جس کے لباس سے مشک کی خوشبو آرہی تھی، میری تلوار نے اس کے دوحصے کردیئے ہیں جاکر دیکھو کہ وہ کون شخص تھا، لوگ اس کی طرف گئے اور دیکھا تومعلوم ہوا کہ وہی عبیداللہ بن زیاد ہے؛ چنانچہ اس کا سرکاٹ کرجسم کوجلادیا گیا، فتح کی خوشخبری کے ساتھ عبیداللہ بن زیاد کا سربھی مختار کے پاس کوفہ کی جانب روانہ کیا گیا۔