انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطان محمد خان اوّل سلطان محمد خان ابن بایزید یلدرم نے ۸۱۶ ھ میں بمقام ایڈریا نوپل تخت نشین ہوکر نہایت ہوشیاری اوردانائی کے ساتھ امورِ سلطنت کو انجام دینا شروع کیا،قسطنطنیہ کے عیسائی قیصر اورعیسائی بادشاہ سے پہلے ہی اُس کی صلح ہوگئی تھی، اب اُس کے تخت نشین ہونے پر ان دونوں نے اُس کو مبارکبادی اورقیمتی تحف وہدایا بھیجے، محمد خان نے اس کے جواب میں اپنی طرف سے اپنی آشتی پسند ہونے کا اس طرح ثبوت دیا کہ اُس نے شاہ سرویا کے لئے بہت سی رعایتیں منظور کیں اورشاہ قسطنطنیہ کو بھی تھسلی کے وہ قلعے جو ترکوں کے قبضے میں چلے آتے تھے اوربحیرہ اسود کے ساحل پر بعض ،مقامات جن کے نکل جانے سے قیصر قسطنطنیہ سخت بے چین تھا اُس کو دیجئے،وینس کی جمہوری ریاست جو ایک زبردست بحری طاقت تھی،ترکوں سے برسرِ پُر خاش رہتی تھی،سلطان محمد خاں کی سلامت روی اورصلح پسندی کا شہرہ سُن کر اُنہوں نے بھی صلح کی درخواست پیش کی اور سلطان انگورہ کی خبر سنتے ہی خود مختار ہوگئے تھے اورہر ملک میں عیسائیوں نے اپنی سلطنتیں قائم کرلی تھیں،ان سب کو اندیشہ تھا کہ عثمانی سلطان تکت نشینی کے بعد مطمئن ہوکر اپنے باپ کے صوبوں کو پھر اپنی سلطنت میں شامل کرنا چاہے گا اورہمارے اوپر حملہ آور ہوگا سلطان محمد خان کی اس کامیابی کا حال سُن کر اُن سب نے ڈرتے ڈرتے اپنے اپنے سفیر دربار سلطانی میں مبارکباد کے لئے روانہ کئے،سلطان محمد خان نے ان سفیروں سے نہایت تپاک کے ساتھ ملاقات کی اوررُخصت کرتے وقت اُن سفیروں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اپنے آقاؤں سے جاکر میری طرف سے یہ ضرور کہہ دینا، میں سب کو امن دیتا ہوں اورسب سے امن قبول کرتا ہوں،خدائے تعالیٰ امن وامان کو سپند کرتا اورفساد کو بُرا جانتا ہے،سلطان محمد خان کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں امن وامان قائم ہوگیا، حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ جو ابھی ایک مہلک اورخطرناک بیماری سے اٹھی تھی اس کے لئے حرکت اور جسمانی ریاضت بے حد مضر تھی اُس کو چند روز آرام کرنے اورپرہیزی غذا کھانے کی سخت ضرورت تھی،یہ خدائے تعالیٰ کا فضل تھا کہ سلطان محمد خان نہایت ہی موزوں سلطان تختِ عثمانی پر متمکن ہوا اوراُس کا طرز عمل ہر ایک اعتبار سے سلطنت کی تقویت اورآئندہ ترقیات کا موجب ثابت ہوا۔ یورپ میں اس طرح سلطان محمد خان نے امن وامان قائم کرلیا مگر ایشیائے کوچک میں بغاوتوں کا سلسلہ موجود تھا،؛چنانچہ سلطان کو مع فوج خود ایشیائے کوچک میں جانا پڑا وہاں اُس نے اوّل سمرنا کی بغاوت فرو کی،اس کے بعد فرمانیہ کے باغیوں کو طاقت کے ذریعہ خاموش ومحکوم بنایا گیا پھر سلطان نے یہ عاقلانہ تدبیر کی کہ ایشیائے کوچک کی مشرقی حدود کے متصل جو ریاستیں یا سلطنتیں تیمور کی وفات کے بعد قائم ہوئیں،اُن سب سے دوستانہ تعلقات قائم کئے اورتمام ایشیائے کوچک کو اپنے قبضے میں لے کر اطمینان حاصل کیا کہ پھر کوئی حملہ تیموری حملہ کی مانند نہ ہوسکے۔ ۸۲۰ ھ میں جبکہ سلطان محمد خان ایشیائے کوچک ایڈریا نوپل میں آچکا تھا تو دردانیال کے قریب بحیرہ ایجین میں وینس کے جنگی بیڑہ سے سلطان کے جنگی بیڑہ کی سخت لڑائی ہوئی جس میں ترکی کی بیڑہ کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، اس لڑائی کا باعث یہ تھا کہ بحیرہ ایجبین کے جزیروں کے رہنے والے برائے نام وینس کی جمہوری حکومت کے ماتحت تھے، یہ لوگ سلطان کے ساحلی علاقے مثلا گیلی پولی وغیرہ پر چھاپے مارتے رہتے تھے،سلطان نے ان کی سرکوبی کے لئے اپنے جنگی بیڑہ کو حکم دیا لیکن اس کا مقابلہ وینس کے بیڑہ سے ہوگیا جو بہت طاقتور تھا لہذا سلطان کی بحری فوج کو نقصان اٹھانا پڑا، اس بحری لڑائی کے بعد بہت جلد پھر وینس کے ساتھ عہد نامہ صلح کی تجدید ہوگئی،وینس ایک بہت چھوٹی سی ریاست تھی جو جمہوری اصول پر قائم تھی،لیکن بحر روم میں اُس کی بحری طاقت سب پر فائق تھی، اس کے بعد سلطان کے لئے کوئی خطرہ اورکوئی جنگ بظاہر موجود نہ تھی اور سلطان اپنی مملکت کو وسیع کرنے کے مقابلے میں اندرونی طور پر اس کو مضبوط کرنا چاہتا تھا ؛چنانچہ سلطان نے جا بجا شہروں اور قصبوں میں مدرسے قائم کئے،علما کی قدر دانی کی راستوں کے امن وامان اورتجارت کی گرم بازاری کا بندوبست کیا، غرض کہ سلطان نے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جس کی وجہ سے دوستوں اور دشمنوں دونوں میں اُس کی قبولیت بڑھ گئی اور سب کو اُس کی تعریف کرنی پڑی، اُس کی رعایا نے اُس کو چلپی یعنی بہادر وسنجیدہ مزاج کا خطاب دیا اور تمام ملکوں میں وہ سلطانِ صلح جو، مشہور ہوا مگر باوجود اس کے اُس کی عمل داری میں ایک فتنہ برپا ہوا جو اُس کی فوج کے قاضی بدرالدین نے برپا کیا۔ تفصیل اس اجمالی کی یہ ہے کہ ایک نو مسلم یہودی مرتد ہوکر اس بات کا محرک ہوا کہ سلطان کو معزول کرکے جمہوری ریاست قائم کرنی چاہئے، قاضی بدر الدین اُس کا ہم خیال ہوگیا اوراُن دونوں نے ایک ترک مصطفیٰ نامی کو جو کوئی تعلیم یافتہ شخص نہ تھا اپنا مذہبی پیشوا بنایا اوریورپ وایشیا دونوں علاقوں میں اپنے خیالات کی اشاعت شروع کرکے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا،اس بغاوت نے ترقی کرکے خطرناک صورت اختیار کرلی اورسلطان محمد خان کو بڑی فکر پیدا ہوئی،اس بغاوت نے اندر ہی اندر اس کی رعایا کو معاؤف کرنا شروع کردیا،یہ بغاوت اس لئے اور بھی جلد اورزیادہ کامیاب ہوسکی کہ سلطان محمد خا ن نے عیسائی سلاطین سے دوستی کے عہد نامے کرکے اچھے تعلقات قائم کئے تھے اُس کا دوستانہ برتاؤ جو عیسائیوں کے ساتھ تھا عام طور پر اُس کی مسلمان رعایا کو ناپسند اورگراں گذرتا تھا، عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس زمانے میں صلح و آشتی ہی کی حکمتِ عملی سلطنت عثمانیہ کے لئے زیادہ مفید ہے؛چنانچہ جب اُن کو مذکورہ باغیوں نے بھڑکا یا تو وہ فوراً اُن کی باتوں میں آگئے،آخر سلطان محمد خان نے اس بغاوت کے فرو کرنے میں پوری ہمت اور مستعدی سے کام لے کر چند ہی روز میں اُس کا خاتمہ کردیا اور تینوں باغی مارے گئے،اس خطرہ سے نجات پاکر سلطان محمد خان کو ایک اورخطرناک باغی کا مقابلہ کرنا پڑا، جنگ انگورہ میں سلطان بایزید خاں یلدرم کا ایک بیٹا مصطفیٰ نامی مارا گیا تھا مگر جنگ کے بعد اُس کی لاش کا کوئی پتہ نہ چلا،تیمور نے بھی جنگ کے بعد مصطفی کی لاش کو تلاش کرایا مگر کہیں دستیاب نہ ہوئی اس لئے مصطفی کا مارا جانا مشتبہ رہا تھا، اب سلطان محمد خان کے آخر عہدِ حکومت یعنی ۸۲۴ھ میں ایک شخص نے ایشیائے کوچک میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ میں مصطفیٰ ابن بایزید یلدرم ہوں وہ صورت و شکل میں بھی مصطفیٰ سے مشابہ تھا اس لئے بہت سے ترکوں نے اُس کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا اور سمرنا کے عامل جنید اور صوبہ دار والیشیا نے اُس کے اس دعوے کی اس لئے اور بھی تصدیق کی کہ وہ محمد خان سے کوش نہ تھے؛چنانچہ مصطفی مذکور ان صوبہ داروں کی امداد سے گیلی پولی میں پہنچ کر تھسلی کے قریبی علاقے پر قابض ہوگیا،سلطان محمد خان اس خبر کو سنتے ہی فوراً فوج لے کر مقابلے پر پہنچا اورسالونیکا کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد مصطفی مذکور شکست فاش کھا کر بھاگا اورقیصر قسطنطنیہ کے پاس پہنچ کر پناہ گزیں ہوا، سلطان محمد خان نے قسطنطنیہ کے بادشاہ کو لکھا کہ مصطفی ہمارا باغی ہے، اُس کو ہمارے پاس بھیج دو، لیکن قیصر نے اُس کے واپس دینے سے انکار کرکے اس بات کا وعدہ کیا کہ میں اُس کو نہایت احتیاط کے ساتھ قید اورنظر بند رکھوں گا بشرطیکہ آپ اُس کے نان ونفقہ اوراخراجات کے معاوضہ میں ایک رقم میرے پاس بھجواتے رہیں؛چونکہ ان دنوں مسلسل بغاوتوں سے سلطان محمد خان زیادہ فکر مند ہوگیا تھا اوراسی لئے وہ اور بھی زیادہ اس حکمتِ عملی پر عمل کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ قیصر یادوسرے عیسائیوں سے لڑائیاں نہ چھیڑی جائیں؛چنانچہ اُس نے قیصر کی بات کو منظور کرلیا اور مصطفی باغی کے قید و نظر بند رکھنے کے معاوضہ میں ایک مناسب رقم بھجوانی بھی منظور کرلی،اس بغاوت کے فرو ہونے کے بعد بھی سلطان محمد خان کو مصطفیٰ باغی کا زیادہ خیال رہا اور اُس نے قسطنطنیہ کے قیصر سے اپنے تعلقات کو زیادہ خوشگوار واستوار بنانا ضروری سمجھ کر خود قسطنطنیہ جانے کا قصد کیا جب کہ وہ ایشیائے کوچک سے درد انیال کو عبور کرکے گیلی پولی ہوتا ہوا ایڈریانوپل کو آرہا تھا، قیصر قسطنطنیہ نے سلطان محمد خان کی آمد کا حال سُن کر بڑی آؤ بھگت کی اوراُس کا نہایت شانداار استقبال کرکے قسطنطنیہ میں لایا، یہاں سلطان وقیصر میں دوبارہ عہد نامہ دوستی کی تجدید ہوئی اس کے بعد سلطان کو پھر گیلی پولی کی طرف جانا پڑا جہاں ۸۲۵ھ میں سلطان محمد خان کا سکتہ کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال ہوا۔