انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دریائے نیل امام مستعفری نے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ کےزمانے میں جب مصر فتح ہوا تو مصر کے لوگوں نے وہاں کے گورنر عمرو بن العاص سے کہا کہ دریائے نیل کا یہ دستور ہے کہ جب اس مہینہ کی بارہویں تاریخ کو ایک کنواری حسین لڑکی کو اس کے ماں باپ سے اجازت لے کر اپنے کپڑے اور زیور پہناکر نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اس میں پانی جاری ہوجاتا ہے بغیر اس رسم کے نیل میں پانی نہیں آتا اس لیے آپ بھی ایسا ہی کریں، عمرو بن العاص نے کہا کہ یہ رسم اسلام میں نہیں چلےگی ،اسلام نے سابقہ تمام بری رسموں کو مٹادیا ہے چنانچہ تین مہینہ تک دریائے نیل خشک رہا اور چونکہ مصر کی کھیتی کا دارمدار نیل کے پانی پر ہی تھا اس لیے تمام آبادی نے پریشان ہوکر مجبوراً شہر چھوڑنے کا ارادہ کرلیا ،عمروبن العاص نے سارا حال لکھ کر حضرت عمر کی خدمت میں بھیج دیا، حضرت عمر نے جواب لکھا کہ تم نے بہت اچھا کیا کہ مصر کی پرانی رسم پر عمل نہ کیا ،اسلام تو اس قسم کی رسموں کو مٹانے کے لیے آیا ہے نہ کہ اس قسم کی مشرکانہ رسوم کی سرپرستی کرنے کو، اس خط میں حضرت عمر ؓنے ایک ملفوت رقعہ رکھ کر حکم دیا کہ تم اس رقعہ کو دریائے نیل میں ڈال دینا ،جب خط عمرو بن العاص کے پاس پہنچا اور وہ رقعہ پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ اللہ کے بندے عمر امیرالمسلمین کی طرف سے یہ رقعہ نیل کے نام بھیجا جاتا ہے اے نیل! اگر تیرا جاری ہونا خود تیرے اختیار میں ہے اور تو جاری ہوتا ہے تو مت جاری ہو اور اگر خدائے واحد کے حکم سے جاری ہوتا ہے تو ہم اس ذات سے دعا کرتے ہیں کہ جاری کردے ،عمرو بن العاص نے رقعہ کو نیل میں ڈال دیا ، اسی رات نیل کا پانی جاری ہوگیا سولہ گز پانی ایک رات میں بڑھ گیا ،اسی وقت سے وہ رسم بد ختم ہوگئی، آنحضورﷺ کی امت کے ایک فرد کی یہ کرامت ہے جس نبی کی پیروی میں یہ کرامت پیدا ہو اس کا یہ معجزہ کہا جائے تو بے جا نہیں۔