انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شہادت کی فضیلت دین حق پر،یعنی اسلام پر قائم رہنے کیوجہ سےاگر اللہ کے کسی بندے یابندی کو مارڈالاجائے،یادین کی کوشش اورحمایت میں کسی خوش نصیب کی جان چلی جائے تو دین کی خاص زبان میں اس کو شہید کہتے ہیں اوراللہ کے یہاں ایسے لوگوں کا بہت بڑادرجہ ہے،ایسے لوگوں کے متعلق قرآن مجید میں فرمایاگیا ہے کہ ان کو ہرگزمراہوا نہ سمجھو،بلکہ شہید ہوجانے کے بعد اللہ کی طرف سے ان کو خاص زندگی ملتی ہے، اوران پر طرح طرح کی نعمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًاo بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ"۔ (آل عمران:۱۶۹) جولوگ اللہ کی راہ میں(یعنی اس کے دین کے راستے میں)مارے جائیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے پاس،ان کوطرح طرح کی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ شہیدوں پر اللہ تعالیٰ کاکیساکیسا پیارہوگااوران کو کیسے کیسے انعامات ملیں گے،اس کا اندازہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے کیاجاسکتا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنتیوں میں سے کوئی شخص بھی یہ:چاہے گا کہ اس کو پھر دنیا میں واپس بھیجا جائے؛اگرچہ ان سے کہا جائے کہ تم کو ساری دنیا دے دی جائے گی؛لیکن شہید اس کی آرزوکریں گے کہ ایک دفعہ نہیں ان کو دس دفعہ پھر دنیا میں بھیجا جائے؛ تاکہ ہر دفعہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کے آئیں،انہیں یہ آرزو شہادت کے مراتب اوراس کے خاص انعامات دیکھ کر ہوگی"۔ (مسلم،بَاب فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى،حدیث نمبر:۳۴۸۹، شاملہ، موقع الإسلام) شہادت کی تمنا اوراس کے شوق میں خودرسول اللہﷺ کا حال یہ تھا کہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "میرا جی چاہتا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ،پھر مجھے زندہ کردیا جائےاورپھر میں قتل کیاجاؤں اور پھر مجھے زندہ کیاجائے اورپھر میں قتل کیاجاؤں پھر مجھے زندگی بخشی جائےاورپھر میں قتل کیاجاؤں"۔ (بخاری، بَاب الْجَعَائِلِ وَالْحُمْلَانِ فِي السَّبِيل،حدیث نمبر:۲۷۵۰، شاملہ، موقع الإسلام) ایک حدیث میں ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "شہید کو اللہ تعالی کی طرف سے چھ انعام ملتے ہیں، ایک یہ کہ وہ فوراًہی بخش دیاجاتا ہے اور اس کوجنت میں ملنے والا اس کا مکان ومقام دکھایاجاتاہے،دوسرے یہ کہ قبر کے عذاب سے اس کوبچادیاجاتاہے،تیسرے یہ کہ حشر کے دن کی اس سخت گھبراہٹ اورپریشانی سے اس کو امن دی جائے گی جس سے وہاں سب بے حواس ہوں گے(الامن شاء اللہ) چوتھے یہ کہ قیامت میں اس کے سرپر عزت ووقارکا ایک ایسا تاج رکھا جائے گا جس میں ایک یاقوت تمام دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا، چھٹے یہ کہ اس کے قرابت داروں میں سے ستر کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی "شہید ہونے والے کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں البتہ اگر کسی آدمی کا قرض اس کے ذمہ ہوگا تو اس کا بوجھ باقی رہے گا"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ الشُّهَدَاء،حدیث نمبر:۱۵۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) اوریادرہے کہ ثواب اورفضیلت اسی پر موقوف نہیں ہے کہ دین کے راستہ میں آدمی مارہی ڈالاجائے؛بلکہ اگردین کی وجہ سے کسی ایمان والے کو ستایاگیا،بے عزت کیاگیا،ماراپیٹاگیا،یااس کا مال لوٹاگیا،یاکسی اورطرح کا اسکو نقصان پہونچایاگیا تو اس سب کا بھی اللہ کے یہاں بہت بڑاثواب ہے اور اللہ تعالی ایسے لوگوں کو اتنے بڑے مرتبے دےگا کہ بڑے بڑے عابدوزاہد ان پر رشک کریں گے۔ جس طرح دنیاوی حکومتوں میں ان سپاہیوں کی بڑی عزت ہوتی ہے اور انہیں بڑے بڑے انعامات اورخطابات دیے جاتے ہیں جواپنی حکومت کی وفاداری اورحمایت میں چوٹیں کھائیں،مارےپیٹے جائیں،زخمی کئے جائیں اورپھر بھی اس حکومت کے وفادار ہیں اسی طرح اللہ کے یہاں ان بندوں کی خاص عزت ہے جو اللہ کے دین پر چلنے اور دین پر قائم رہنے کے جرم میں یا دین کی ترقی اور سرسبزی کے لیے کوشش کرنے کے سلسلہ میں مارے پیٹے جائیں یابے عزت کئے جائیں یا دوسری طرح کے نقصانات اٹھائیں یا بے عزت کئے جائیں ۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو جب خاص انعامات بٹیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے خاص اعزازواکرام سے انہیں نوازے گا تو دوسرے لوگ حسرت کریں گے کہ کاش!دنیا میں ہمارے ساتھ بھی یہی کیا گیا ہوتا ،دین کے لیے ہم ذلیل کئے گئے ہوتے،مارے پیٹے گئے ہوتے،ہمارے جسموں کو زخمی کیاگیاہوتا، تاکہ اس وقت یہی انعامات ہم کو بھی ملتے۔ اے اللہ!اگرہمارے لیے کبھی ایسی آزمائشیں مقدرہوں توہم کو ثابت قدم رکھنااوراپنی رحمت اورمددسے محروم نہ فرمانا۔