انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سعد کا فیصلہ بنو قریظہ نے اپنے حلیف قبیلہ اوس کے لوگوں سے اصراراً کہا کہ بنی نضیر کے لئے خزرج والوں ے سفارش کی تھی، اسی طرح تم بھی ہمارے لئے حضور ﷺ سے سفارش کرو جس پر قبیلہ اوس والوں نے حضور ﷺ سے ان کے لئے سفارش کی ، یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے انصار سے فرمایا ! کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم میں اور ان میں کوئی شخص حکم مقرر کر دیا جائے ، سب نے کہا یہ بہت مناسب ہے ، فرمایا !ان سے کہو کہ قبیلہ اوس میں سے جس کو چاہیں حکم مقرر کریں ، بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذ کی ثالثی پر رضامندی ظاہر کی۔ حضرت سعد ؓ بن معاذ غزوہ خندق میں ایک تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے جن کے علاج کے لئے حضورﷺ نے حضرت رفیدہؓ کے خیمہ میں بھجوادیا تھاجو مسجد نبوی سے قریب ہی تھا، حضرت رفیدہؓ اسلمی بنو نجار کی ایک صالح خاتون تھیں جو بیماروں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، اس غرض کے لئے ایک خیمہ لگایاگیاتھا جسے شفا خانے کی حیثیت حاصل تھی ، حضور اکرم ﷺ روزانہ ان کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے، چنانچہ انہیں ایک سواری میں وہاں لایا گیا تو انہوں نے دونوں فریقوں سے عہد لیا کہ وہ ان کا فیصلہ قبول کریں گے،قرآن مجید میں جب تک کوئی خاص حکم نہیں آتا تھا آنحضرت ﷺ تورات کے احکام کی پابندی فرماتے تھے ، چنانچہ اکثر مسائل مثلاً قبلہ ، رجم، قصاص بالمثل وغیرہ میں جب تک خاص وحی نہیں آئی آپ ﷺنے تورات ہی کی پابندی فرمائی ، حضرت سعد ؓ نے بحیثیت ثالث حکم دیا کہ بنو قریظہ کے تمام افراد قلعوں سے اتر آئیں اور ہتھیار ڈال دیں، جب یہ کام مکمل ہو چکا تو فرمایا : ان سب لوگوں کو باندھ دیا جائے ، یہ کام حضرت محمد ؓ بن مسلمہ کی نگرانی میں ہوا، مردوں کے ہاتھ کندھوں سے باندھ دیئے گئے ، فیصلہ سنایا گیا کہ لڑنے والے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کے مال کو غنیمت کے طور پر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے ، عورتیں اور بچوں کو قید کر دیا جائے ،