انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فرقہ قدریہ امام احمد او رابوداؤد نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میری امت میں ایک قدریہ گروہ ہوگا وہ گروہ میری امت میں ایسا ہے جیسےمجوس۔ یہ روایت طبرانی کی معجم اوسط میں بھی حضرت انس سے مروی ہے۔ قدریہ ایک فرقہ ہےجو کہتا ہے بندے کو پوری قدرت حاصل ہےوہ جو چاہے کرے خدا تعالی کو بندےکے افعال میں کوئی عمل دخل نہیں ہے،گویا خدا تعالی معذور ومجبور ہے اور بندے قادر ومختار ہیں،آنحضرتﷺ کی یہ پیشن گوئی بھی صحیح ثابت ہوئی،چنانچہ فرقہ معتزلہ اور روافض سب اسی گروہ میں شامل ہیں،کیونکہ انہوں نے بندوں کو اپنے افعال کا قادر قرار دیا اور اس بات کا انکار کیا کہ ہر چیز تقدیر الہی کی پابند ہے،مجوس کا عقیدہ یہ ہے کہ اچھائی اور برائی دونوں کےدو الگ الگ خالق اور خدا ہیں، اچھائی کے خالق کو یزداں اور برائی کے خالق کو اہرمن کہتے ہیں،چونکہ بالکل اسی طرح قدریہ لوگ بھی دو خالق قراردے کر مادی چیزوں کا خالق خدا کو اور افعال کا خالق انسان کو مانتے ہیں،اس لیے اس مناسبت کی وجہ سے قدریہ کو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وہ بیمار ہو ں تو بیمار پرسی نہ کرو اور ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو۔ قدریہ کے متعلق مسلم،ابوداؤد اور ترمذی کی روایت میں ایک پیشن گوئی کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں کچھ لوگ تقدیر کے منکر ہوں گے ان لوگوں میں خسف ومسخ ہوگا؛ یعنی ان کی آبادی زمین میں دھنسادی جائےگی اور ان کی صورتیں بدل کر بد نما کردی جائیں گی؛ چنانچہ روافض بھی قدرکا انکار کرتے ہیں اور ان میں خسف اور مسخ کے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ ان سے رسول اللہﷺ کی پیشن گوئی سچی ثابت ہوجاتی ہے، چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ واقعہ:امام مستغفری نے دلائل النبوۃ میں ایک مضبوط راوی سے روایت کیا ہے، راوی کا بیان ہے کہ تین آدمی یمن جارہے تھے ہمارے ساتھ کوفے کا رہنے والا ایک شخص تھا جو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کو برا بھلا کہتا تھا ،ہم نے اس کو بہت سمجھایا کہ ان بزرگوں کو برا بھلا مت کہو؛ مگر وہ نہ مانا، اتنے میں رات ہوگئی ،ہم یمن سے قریب ایک جگہ اتر کر سورہے،صبح سویرے جب سفر کا وقت ہواتو ہم نے اٹھ کر وضوکیا،اس کوفی کو بھی ہم نے جگایا وہ نیند سے اٹھ کر کہنے لگا افسوس !کہ اب میں تم سے جدا ہوکر یہیں رہ جاؤں؛کیونکہ میں نے خواب میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے، آپﷺ میرے سرہانے کھڑے ہوکر فرمارہے ہیں کہ اے فاسق بدکار تیری صورت یہیں مسخ کردی جائے گی، ہم نے اس کوفی سے کہا کہ اٹھ وضو کر،اس نے پاؤں سمیٹا تو ہم نے دیکھا کہ انگلیوں سے اس کی صورت تبدیل ہونی شروع ہوگئی ہے، تھوڑی دیر میں ہی دونوں پاؤں بندر کے ہوگئےاور رفتہ رفتہ سارا بدن اور منہ بھی بندر کا ہوگیا وہ بالکل بندر ہوگیا، ہم نے اس کو اونٹ پر باندھ لیا اور سفر شروع کردیا ،سورج ڈوبنے سے پہلے ایک جنگل میں ہم پہنچے اس جگہ کئی بندر جمع تھے، جب اس کوفی نے ان بندروں کو دیکھا تو ہماری رسی توڑ کر ان ہی بندروںمیں یہ بھی مل گیا۔ واقعہ:امام مستغفری کی روایت ہے کہ سچے اور ایک نیک آدمی نے بیان کیا کہ کوفے کا ایک شخص ہم سفر ہوا، وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بہت برا بھلا کہا کرتا تھا، ہم نے اس کو بہت روکا مگر وہ نہ مانا، آخر کار ہم اس کو اپنے ساتھیوں سے علیحدہ کرکے سفر کو چلے گئے سفر سے جب ہم واپس ہوئے تو اس کوفی کے غلام سے ملاقات ہوگئی، ہم نے اس کا حال پوچھا اور کہا کہ اپنے آقا سے کہہ دینا کہ ہمارے ساتھ گھر چلے، غلام نے کہا کہ اس کی تو عجیب ہی حالت ہوگئی ہے اس کے دونوں ہاتھ سور کے سے ہوگئے ہیں، ہم اس کوفی کے پاس گئے اور گھر چلنے کو کہا تو اس نے جواب دیا میں بڑی مصیبت میں مبتلا ہوں یہ کہہ کر اس نے آستین سے اوپرہاتھ نکالے جو سور جیسے ہوگئے تھے، وہ ہمارے ساتھ ہولیا راستہ میں ایک جگہ بہت سے سور نظر آئے کوفی نے خود کو سواری سے گرادیا اور اسی وقت اس کی پوری صورت سور کی سی ہوگئی؛چنانچہ وہ سوروں میں جاکر مل گیا۔ واقعہ:زمین میں دھنسانے کا واقعہ طبری نے ریاض النفرہ میں نقل کیاہے کہ مقام حلب کے رافضیوں کی ایک جماعت مدینہ منورہ کے حاکم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بہت سارا مال عمدہ عمدہ تحفے پیش کرکے اس جماعت نے حاکم مدینہ سے درخواست کی کہ حضرت رسول پاکﷺ کے حجرہ کا ایک دروازہ کھلوادیجیے ہم ابوبکرؓ وعمرؓ کی مقدس لاش کو نکال کر وہاں سے لے جائیں (ان بزرگوں کی لاش اس لیے یہ نکالنا چاہتے تھے کہ رافضیوں کے خیال میں یہ لوگ نعوذ باللہ اس قابل نہیں ہیں کہ رسول پاک ﷺ کے پاس آرام کریں)مدینہ کا حاکم چونکہ بد عقیدہ دنیا کے لالچ میں پڑکر اس نے یہ درخواست منظور کرلی اور حرم شریف کے دربان کو بلاکر کہدیا کہ جب یہ لوگ آئیں تو ان کے لیے حرم شریف کا دروازہ کھول دینا اور اندر گھس کر جو کچھ کریں کرنے دینا منع نہ کرنا، دربان کا بیان ہے کہ نماز عشاء کے بعد مسجد خالی ہوگئی اور حرم شریف کے دروازے بند ہوگئے تو چالیس آدمی پھاوڑے کدال اور روشنی ہاتھوں میں لیے باب السلام پر آکھڑے ہوئے، دروازہ کھٹکٹایا،میں نے امیر مدینہ کے حکم کے مطابق دروازہ فوراً کھول دیااور خود میں نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر رونا شروع کردیا کہ اے خدا !یہ کیسی قیامت آن پڑی، خدا کی قدرت دیکھیے کہ ابھی یہ لوگ منبر شریف کے قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ محراب عثمانی کے ستون کے پاس زمین پھٹ گئی اور ان تمام لوگوں کو ان کے سامانوں کے ساتھ نگل گئی اور امیر مدینہ کو انتظار تھا کہ یہ لوگ کام تمام کرکے اب آئےتب آئے،مگر جب بہت دیر ہوگئی تو اس نے مجھے بلاکر حال پوچھا،میں نے کل آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تو اس نے مجھے دیوانہ کہہ کر میری باتوں کو دیوانے کی بڑ بتایا ،میں نے کہا اے امیر! آپ خود تشریف لے چلیں اور دیکھ لیں کہ اب تک زمین کے پھٹنے کا نشان باقی ہے اور اس جگہ ان کے کپڑے بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ طبری نے ایسے لوگوں کی طرف منسوب کیا ہے جو سچائی دیانت داری اور ثقاہت میں بہت اونچے تھے، ان واقعات سے یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہﷺ نے جو پیشن گوئی کی تھی کہ روافض کو دھنسایا جائےگا، ان کی صورتیں سور، بندر کی بنادی جائیں گی یہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔