انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابن ام مکتومؓ نام ونسب حضرت ابن ام مکتوم کی کنیت اتنی مشہور ہوئی کہ ان کا اصلی نام بالکل چھپ گیا ؛چنانچہ ارباب سیر نے ان کے مختلف نام لکھے ہیں بعض عبداللہ کہتے ہیں اور بعض عمرو بتاتے ہیں باپ کا نام قیس تھا؛لیکن ماں کی نسبت سے ابن ام مکتوم مشہور ہوئے،سلسلہ نسب یہ ہے عمربن قیس بن زائدہ بن اصم بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن عدی ابن معیص بن عامر بن لوئی القرشی،ماں کانام عاتکہ تھا، نانہالی شجرہ عاتکہ بنت عبداللہ ابن عنکشہ بن عامر بن محزوم ہے۔ (اسد الغابہ:۳/۱۲۷) اسلام ابتدائے بعثت میں سرزمین مکہ میں مشرف باسلام ہوئے ،ابن ام مکتومؓ گوظاہری آنکھوں کی روشنی سے محروم تھے،مگر چشم دل کھلی تھی،اس لیے مکہ میں جیسے ہی اسلام کا نور چمکاوہ کفر کی تاریکی سے باہر نکل آئے اور ذات نبویﷺ سے ایک خاص قرب واختصاص حاصل ہوگیا؛چنانچہ اکثر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہواکرتے تھے، مکہ کے مغرورامراء اوررؤساء بھی مجلس نبویﷺ میں آیا کرتے تھے ،جو ابن ام مکتومؓ کی ظاہری نابینائی اورغربت وافلاس کی وجہ سے ان کو ذلیل سمجھتے تھے اورآنحضرتﷺ سے کہتے تھے کہ ہماری مجلس میں ایسے لوگ برابر نہ بیٹھا کریں،آنحضرتﷺ کے دل میں یہ لگن تھی کہ کسی طرح قریش کے روساء دعوت حق قبول کرلیں،اس لیے آپ ان کی خاطر داری کرتے تھے،ایک مرتبہ آنحضرتﷺ روسائے قریش میں تبلیغ فرمارہے تھے کہ اس درمیان میں حضرت ابن ام مکتومؓ آگئے اور کچھ مذہبی مسائل پوچھنا شروع کردیے، آنحضرتﷺ کو ان کی یہ بے موقع گفتگو اس لیے ناگوار ہوئی کہ اس سے روسائے قریش کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہوتی اوران کے دلوں میں تاثر کے بجائے تکدرپیداہوتا،اس لیے ابن ام مکتومؓ کی طرف التفات نہ فرمایا اوربدستور سلسلہ گفتگوجاری رکھا، آنحضرتﷺ کا طرز عمل گو تبلیغ حق اوردعوت اسلام کی سچی خواہش پر مبنی تھا؛تاہم اللہ کے دربار میں ناپسندیدہ ہوا اوراس پر یہ آیت نازل ہوئی: (فتح الباری:۸/۵۳۱) عَبَسَ وَتَوَلَّى ، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى ، أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى ، أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى ، فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى،وَمَاعَلَيْكَ أَلَّايَزَّكَّى،وَأَمَّامَنْ جَاءَكَ يَسْعَى،وَهُوَيَخْشَى،فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى (عبس:۱،۱۰) (پیغمبرنے) منہ بنایا اور رخ پھیر لیا،اس لیے کہ اُن کے پاس وہ نابینا آگیاتھا،اور(اے پیغمبر) تمہیں کیاخبر؟شاید وہ سدھر جاتا،یا وہ نصیحت قبول کرتا اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا،وہ شخص جو بے پرواہی دکھارہا تھا،اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو ،حالانکہ وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی،اور وہ جو محنت کرکے تمہارے پاس آیا ہے اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے، اس کی طرف سے تم بے پروائی برتتے ہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اکرم ﷺ خاص طور پر ابن ام مکتومؓ کا لحاظ رکھتے تھے اور کاشانۂ نبوی میں ان کی بڑی خاطر مدارات ہوتی تھی،حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ کو لیموں اور شہد کھلایا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نزول آیت کے بعد یہ ابن ام مکتومؓ کاروزینہ تھا۔ (متدرک حاکم:۳/۶۳۴) ہجرت اذنِ ہجرت کے بعد حضرت ابن ام مکتومؓ بھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے ،اس وقت تک آنحضرتﷺ نے ہجرت نہیں فرمائی تھی،(ابن سعدجز۴،ق۱،صفحہ:۱۵۰) آپ کی ہجرت کے بعد موذنی کے جلیل القدر منصب پر مامور ہوئے ،رمضان میں ان کی اذان اختتام سحر کا اعلان ہوتی تھی ،اس کے بعد لوگ کھانا پینا بند کردیتے تھے۔ (بخاری کتاب الاذان باب اذان قبل الفجر) غزوات ہجرت مدینہ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا؛لیکن ابن ام مکتومؓ اپنی مجبوری کے باعث جہاد کی شرکت سے معذور رہا کرتے تھے،جب یہ آیت نازل ہوئی: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (نساء:۹۵) یعنی وہ مسلمان جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں وہ رتبہ میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہیں۔ اور آنحضرتﷺ کا تب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے اس کو لکھانے لگے تو ابن ام مکتومؓ بھی پہنچ گئے اور عرض گذار ہوئے یا رسول اللہﷺ اگر مجھ کو جہاد کرنے کی قدرت ہوتی اوراس کے لائق ہوتا تو میں بھی شرف جہاد حاصل کرتا، ان کی یہ پر حسرت آرزو بارگاہ خداوندی میں اتنی پسند ہوئی کہ وحی الہی نے ان کو اوران کے جیسے تمام مجبوراشخاص کو اس حکم کے ذریعہ سے: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ (نساء:۹۵) یعنی ضرررسیدہ لوگوں کے علاوہ مسلمان جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں وہ مرتبہ میں ان مجاہدین فی سبیل اللہ کی برابر نہیں ہیں جو اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں۔ مستثنیٰ کردیا،(بخاری کتاب التفسیرباب لا یستوی القاعدون) اور تمام مجبوراشخاص پر سے شرکت جہاد کا فرض ساقط ہوگیا؛لیکن اس حکم سے ان کا ولولہ جہاد کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا؛چنانچہ نابینا ہونے کے باوجود کبھی کبھی جنگ میں شریک ہوتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ مجھ کو علم دے کر دونوں صفوں کے درمیان کھڑا کردو میں نابینا ہوں اس لیے بھاگنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے،(اصابہ واستیعاب ترجمہ ابن ام مکتوم) اللہ اللہ یہ جوش فدویت وجاں نثاری کہ ظاہری آنکھیں بے نور ہیں،ایک قدم چلنا مشکل ہے؛لیکن جہادفی سبیل اللہ میں کٹنے کے لیے رگ جاں تڑپ رہی ہے اور حقیقت یہی وہ کمال اخلاص تھا، جس نے ذات خداوندی کو متوجہ کرلیا تھا اور یہی ولولہ تھا جس نے اسلام کی قوت کا لوہا ساری دنیا سے منوالیا تھا۔ گو حضرت ابن ام مکتومؓ اپنی معذوری کے باعث اکثر جہاد کے شرف سے محروم رہتے تھے؛لیکن اس سے بڑھ کر شرف یہ حاصل ہوتا تھا کہ جب آنحضرتﷺ بہ نفس نفیس اکابر مہاجرین وانصار کے ساتھ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو ابن ام مکتومؓ کو جو معذوری کی وجہ سے مدینہ ہی میں رہتے تھے،امامت کی نیابت کا شرف عطا فرماتے تھے،چنانچہ غزوۂ ابوار،بواط ،ذوالعسیر،جہینہ،سویق،غطفان،حمراء الاسد،نجران،ذات الرقاع وغیرہ میں ان کو یہ جلیل القدر منصب عطا ہوا،بدر میں بھی کچھ دنوں اس منصب کے حامل رہے؛لیکن چند روز کے بعد یہ شرف ابو لبابہ کی جانب منتقل ہوگیا،(اسد الغابہ:۴/۱۳۷) مجموعی حیثیت سے ان کو ۱۳ مرتبہ آنحضرتﷺ کی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔ (تہذیب الکمال:۲۸۹) وفات آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سے خلافت فاروقی کے اختتام تک ان کے حالات پردۂ خفا میں ہیں، صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ جنگ قادسیہ میں علم بلند کیے،زرہ بکتر لگائے میدان کارزار میں کھڑے تھے،واقدی کے بیان کے مطابق ان کی وفات مدینہ میں ہوئی؛لیکن زبیر بن بکار کی روایت کی رو سے قادسیہ میں شہادت پائی،(ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۵۶واصابہ:۴/۱۸۴) اکثر ارباب سیر اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں۔ جماعت کی حاضری نابینا تھے،مسجد نبویﷺ سے گھر دور تھا،راستہ میں جھاڑیاں پڑتی تھیں، کوئی راہ نما بھی نہ تھا، ان تمام دشواریوں کے باوجود ابن ام مکتومؓ ہمیشہ مسجد نبویﷺ میں نماز پڑہتے تھے،ایک مرتبہ آنحضرت سے گھر پر نماز پڑہنے کی اجازت چاہی؛لیکن اذان اور اقامت کی آواز ان کے گھر تک جاتی تھی، اس لیے آپ نے اجازت نہ دی،چنانچہ اسی حالت میں چھڑی سے ٹٹولتے مسجد آتے تھے،حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں ان کو رہنمادیا تھا۔ فضل وکمال حضرت ابن ام مکتومؓ کا سب سے بڑا طغرائے امتیاز یہی ہے کہ ان کو ۱۳مرتبہ رسولﷺ کی نیابت کا اعزاز ملا جس میں وہ مسجد نبویﷺ کی امامت کرتے تھے،اس کی علاوہ قرآن مجید کے حافظ تھے اورمدینہ آنے کے بعد لوگوں کو قرأت سکھاتے تھے (ابن سعد:۱۵۱) آنحضرتﷺ کے فیض صحبت سے احادیث سے بھی ان کا دامن خالی نہ تھا؛چنانچہ ان سے انس اورزربن جیش نے احادیث روایت کی ہیں۔ (تہذیب الکمال:۲۸۹)