انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** استادشاگرد،پیر مرید،میاں بیوی ،حاکم ومحکوم اورسسرالی رشتہ داروں کے حقوق استاد کے حقوق (۱)ان کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جائے (۲)ادب کے ساتھ پیش آئے (۳)عزت واحترام کی نگاہ سے ان کو دیکھے (۴)جو بتلائے اس کو خوب توجہ سے سنے (۵)اس کو خوب یاد رکھے (۶)جو بات سمجھ میں نہ آئے اپنا قصور سمجھے (۷)اس کے روبرو کسی اور کاقول مخالف ذکر نہ کرے (۸)اگر کوئی استاذ برابھلا کہے تو جہاں تک ہوسکے اس سے عذر معذرت کرے ورنہ وہاں سے چلاجائے (۹)جب درسگاہ کے قریب پہنچے توسب حاضرین کو سلام کرے پھر استاذ کو خاص کر سلام کرے لیکن وہ اگر تقریر وغیرہ میں مشغول ہو اس وقت سلام نہ کرے (۱۰)استاذ کے روبرو نہ ہنسے، نہ بہت باتیں کرے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، نہ کسی او رکی طرف متوجہ ہو، بالکل استاد کی طرف توجہ رکھے (۱۱)استاد کی بدخلقی کو نظر انداز کردے (۱۲)اس کی سختی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ اس کے کمال سے بداعتقاد ہو؛ بلکہ اس کے اقوال اور افعال کی تاویل کرے (۱۳)جب استاد کسی کام میں لگا ہو یاملول ومغموم ہو یابھوکا پیاسا ہو یااونگھ رہا ہو یااور کوئی عذر ہو جس سے تعلیم دشوار ہو یاحضور قلب نہ ہو ایسے وقت نہ پڑھے (۱۴)اس کے دور ہونے پر یااس کے نہ ہونے پر بھی اس کے حقوق کا خیال رکھے (۱۵)کبھی کبھی تحفہ تحائف، خط وکتابت سے اس کا دل خوش کرتا رہے، حقوق اور بہت ہیں مگر ذہین آدمی کے لیے اس قدر کافی ہیں وہ اس سے باقی حقوق بھی سمجھ جائیگا۔ ("فمن صفته لإرادته في طلب العلم: أن يعلم أن الله عز وجل فرض عليه عبادته، والعبادة لا تكون إلابعلم، وعلم أن العلم فريضة عليه، وعلم أن المؤمن لايحسن به الجهل، فطلب العلم لينفي عن نفسه الجهل، وليعبد الله كما أمره، ليس كما تهوى نفسه. فكان هذا مراده في السعي في طلب العلم، معتقدا للإخلاص في سعيه، لايرى لنفسه الفضل في سعيه، بل يرى لله عز وجل الفضل عليه ، إذ وفقه لطلب علم ما يعبده به من أداء فرائضه، واجتناب محارمه" اخلاق العلماء، باب ذکرصفتہ فی طلب العلم:۱/۴۰۔ "يمشي برفق وحلم، ووقار، وأدب، مكتسب في مشيه كل خير، تارة يحب الوحدة، فيكون للقرآن تاليا، وتارة بالذكر مشغولا، وتارة يحدث نفسه بنعم الله عز وجل عليه، ويقتضي منها الشكر، يستعيذ بالله من شر سمعه، وبصره، ولسانه، ونفسه، وشيطانه، فإن بلي بمصاحبة الناس في طريقه"الخ بطولہ وباب صفتہ فی مشیہ الی العلماء: ۱/۴۱۔ "فإذا أحب مجالسة العلماء جالسهم بأدب، وتواضع في نفسه، وخفض صوته عن صوتهم، وسألهم بخضوع، ويكون أكثر سؤاله عن علم ما تعبده الله به، ويخبرهم أنه فقير إلى علم ما يسأل عنه، فإذا استفاد منهم علما أعلمهم: أني قد أفدت خيرا كثيرا، ثم شكرهم على ذلك" الخ بطولہ وباب صفتہ مجالستہ للعلماء:۱/۴۲) پیر (روحانی تربیت کرنے والے) کے حقوق جو حقوق استاد کے لکھے گئے ہیں وہی پیر کے بھی حقوق ہیں اور کچھ حقوق جو زائد ہیں وہ یہ ہیں: (۱)یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کریگا تو مرشد کے فیض وبرکات سے محروم رہیگا (۲)ہرطرح مرشد کا مطیع ہو اور جان ودل سے اس کی خدمت کرے؛ کیونکہ پیر کی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے (۳)مرشد جو کچھ کہے اس کو فوراً بجالائے اور بغیراجازت اس کے فعل کی اقتداء نہ کرے؛ کیونکہ بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کو اس کا کرنا زہر قاتل ہے (۴)جودرود وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے؛ خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا ہو یاکسی اور نے بتلایا ہو (۵)مرشد کی موجودگی میں مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے؛ یہاں تک کہ سوائے فرض وسنت کے نفل نماز اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے (۶)حتیٰ الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہوکہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یااس کے کپڑے پر پڑے (۷)اس کے مصلیٰ پر پیر نہ رکھے، اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یاوضو نہ کرے (۸)مرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لائے (۹)اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پئے او رنہ وضو کرے، ہاں! اجازت کے بعد کرسکتے ہیں (۱۰)اس کے روبرو کسی سے بات نہ کرے؛ بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو (۱۱)جس جگہ مرشد بیٹھا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے اگرچہ سامنے نہ ہو (۱۲)اور اس کی طرف نہ تھوکے (۱۳)جو کچھ مرشد کہے یاکرے اس پر اعتراض نہ کرے؛ کیونکہ مرشد جو کچھ کرتا ہے یاکہتا ہے الہام سے کرتا اور کہتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے (تو اسے اپنی سمجھ کا قصور سمجھے جب تک کہ شریعت کے بالکل ہی خلاف نہ ہو اور کوئی تاویل نہ ہوسکتی ہو؛ کیونکہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا آدمی تو پیر ہی نہیں ہوسکتا، اللہ کے ولی صرف متقی ہی ہوتے ہیں؛ لیکن خلافِ شرع قرار دینے میں جلدی نہ کرے، علماء متقین سے معلوم کرے، حقیقی پیر تو اسی طرح کا ہوتا ہے، آج کل بناوٹی پیر دھوکہ باز بہت مل رہے ہیں) تو حضرت موسیٰ اور خضر علیہماالسلام کا واقعہ یاد کرے (۱۴)اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے (۱۵)اگر کوئی شبہ دل میں گزرے فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے اور اگر مرشد اس کا کچھ جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس کے جواب کے لائق نہ تھا (۱۶)خواب میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آئے تو اسے بھی عرض کردے (۱۷)مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز بلند اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے (۱۸)مرشد کے کلام کو دوسروں سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ سمجھے کہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیان نہ کرے (۱۹)مرشد کے کلام کو رد نہ کرے؛ اگرچہ حق مرید ہی کی جانب ہو؛ بلکہ یہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا میرے صواب (درستگی) سے بہتر ہے (۲۰)جو کچھ اس کا حال ہو، بھلا یابُرا، اسے مرشد سے عرض کرے؛ کیونکہ مرشد طبیب (ڈاکٹر) قلبی ہے، اطلاع کے بعد اس کی اصلاح کریگا، مرشد کے کشف پر اعتماد کرکے سکوت (خاموش) نہ کرے (۲۱)اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو اگر کچھ پڑھنا ضروری ہے تو اس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے (۲۲)جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے اسے مرشد کا طفیل سمجھے؛ اگرخواب میں یامراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے، تب بھی یہ جانے کہ مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ کی صورت سے ظاہر ہوا ہے۔ (المعجم الکبیر، باب صدی بن عجلان ابوامامۃ الاباھلی،حدیث نمبر:۷۸۸۰۔ آداب الصحبیۃ، باب الصحبۃ مع اولیاء اللہ: ۱/۱۷۵) شاگرد اور مرید کے حقوق چونکہ شاگرد اور مرید اولاد کے درجہ میں ہے، اس لیے شفقت ودلسوزی میں ان کا حق اولاد کے حق کی طرح ہے۔ بیوی کے حقوق (۱)اپنی وسعت کے موافق اس کے نان ونفقہ (خرچہ وغیرہ) میں کمی نہ کرے، اعتدال (درمیانی حالت) سے خرچ کرے، نہ تنگی کرے اور نہ فضول خرچی کی اجازت دے، رہنے کے بقدر گھر دے، ان کودینی مسائل سکھلاتا رہے اور نیک عمل کی تاکید کرتا رہے، حیض وغیرہ کے مسائل سیکھ کر اس کو سکھلائے، نماز اور دین کی تاکید کرے، بدعات اور ممنوعات سے روکے۱؎ (۲)اس کے خونی رشتہ دار (جن سے نکاح حرام ہے) سے کبھی کبھی ملنے دے، اس کی کم فہمیوں پر اکثر صبروسکوت اختیار کرے؛ اگر کبھی ضرورت تادیب (ادب سکھلانے) کی ہو تو توسط (اعتدال) کا لحاظ رکھے۲؎ (۳)اچھے اخلاق سے پیش آئے؛ لیکن اس کی خواہش اتنی نہ سنے کہ اس کا مزاج بدل جائے اور اپنا رعب باقی رکھے۳؎ (۴)اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے حقوق برابر ادا کرے۴؎ (۵)ضرورت کے بقدر اس سے صحبت کرے۵؎ (۶)بغیر ضرورت کے طلاق نہ دے۶؎ (۷)جماع وغیرہ کے راز ظاہر نہ کرے۷؎ (۸)حد سے زیادہ نہ مارے۸؎۔ (۱)"عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ" البقرۃ:۲۳۶۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ" تحریم:۶۔ "وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى" طٰہٰ:۱۳۲۔ "عَنْ عَبْد اللَّهِ بْن عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" بخاری، باب الجمعۃ فی القری والمدن، حدیث نمبر:۸۴۴۔ "عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ" ترمذی، باب ماجاء فی استکمال الإیمان وزیادتہ، حدیث نمبر:۲۵۳۷۔ "والصحبة مع الأهل والولد بالمداراة، وحسن الخلق، وسعة النفس، وتمام الشفقة، وتعليم الأدب والسنة ، وحملهم على الطاعات" آداب الصحبۃ، الصحبۃ مع الأھل والولد:۱/۱۷۷۔ (۲۔۳)"حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً فَقَالَ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ يَعْنِي أَسْرَى فِي أَيْدِيكُمْ" ترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۰۸۳۔ "عَنْ مُعَاوِیَۃ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ قَالَ أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبْ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" ابن ماجہ، باب حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر:۱۸۴۰۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا وَإِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ" بخاری، باب المداراۃ مع النساء، حدیث نمبر:۴۷۸۶۔ (۴)"وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا" النساء:۱۲۹۔ "عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ قَالَ السُّنَّةُ إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا" بخاری، باب العدل بین النساء، حدیث نمبر:۴۸۱۲۔ (۵)"عَنْ عَبْداللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" بخاری، باب الجمعۃ فی القری والمدن، حدیث نمبر:۸۴۴۔ (۶)"وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا" النساء:۳۔ (۷)"عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا" مسلم، باب تحریم افشاء سرالمرأۃ، حدیث نمبر:۲۵۹۷۔ (۸)"عَنْ مُعَاوِیَۃ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ قَالَ أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبْ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ" ابن ماجہ، باب حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر:۱۸۴۰۔ شوہر کے حقوق (۱)اس کی اطاعت اور ادب وخدمت، دلجوئی، رضا جوئی پورے طور پر بجالائے؛ البتہ ناجائز امور میں عذر کردے۱؎ (۲)اس کی گنجائش سے زیادہ اس سے فرمائش نہ کرے۲؎ (۳)اس کا مال بلااجازت خرچ نہ کرے۳؎ (۴)اس کے رشتہ دار سے سختی نہ کرے کہ جس سے شوہر کو تکلیف پہنچے، خاص کر شوہر کے ماں باپ کو اپنا مخدوم سمجھ کر ادب وتعظیم سے پیش آئے۴؎ (۵)شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے نہ دے۵؎ (۶)اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۶؎ (۷)اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کوئی چیز نہ دے۷؎ (۸)اس کی اجازت کے بغیر نفل نماز، نفل روزہ نہ رکھے۸؎ (۹)اگر صحبت کے لیے بلائے شرعی موانع کے بغیر اس سے انکار نہ کرے، اپنے وسائل اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زیب وزینت کا دھیان رکھے۹؎ (۱۰)اپنے شوہر کو افلاس یابدصورتی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھے۱۰؎ (۱۱)اگر کوئی چیز خلافِ شرع دیکھے تو ادب سے منع کرے، اس کا نام لیکر نہ پکارے۱۱؎ (۱۲)کسی کے سامنے خاوند کی شکایت نہ کرے۱۲؎۔ (۱)"فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ" النساء:۳۴، "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا" ترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۰۷۹۔ "لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶۔ (۲)"لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ" البقرۃ:۲۳۶۔ (۳)"عَنْ أبی هريرة قال: قال رسول اللهﷺ: لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلابإذنه، ولاتأذن في بيته وهوشاهد إلا بإذنه، وماأنفقت عن كسبه من غير أمره، فإن نصف أجره له" الآداب للبیہقی، باب فی مراعاۃ حق الأزواج، حدیث نمبر:۴۸۔ (۴)"إِنْ تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا" النساء:۱۴۸۔ "عن أبي هريرةؓ، قال : سئل النبيﷺ: أي النساء خير ؟ فقال: خير النساء من تسر إذا نظر ، وتطيع إذا أمر، ولاتخالفه في نفسها ومالها" المستدرک، باب خیرالنساء من تسراذانظر، حدیث نمبر:۲۶۳۳۔ (۵)"وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ" ترمذی، باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجھا، حدیث نمبر:۱۰۸۳۔ (۶)"وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى" الاحزاب:۳۳۔ (۷)"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَوَلَدِي إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ فَقَالَ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ" ابن ماجہ، باب ماللمرأۃ من مال زوجھا، حدیث نمبر:۲۲۸۴۔ "عَنْ أبی هريرة قال: قال رسول اللهﷺ: لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلابإذنه، ولاتأذن في بيته وهوشاهد إلا بإذنه، وماأنفقت عن كسبه من غير أمره، فإن نصف أجره له" الآداب للبیہقی، باب فی مراعاۃ حق الأزواج، حدیث نمبر:۴۸۔ (۸)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ" بخاری، باب صوم المرأۃ باذن زوجھا تطوعا، حدیث نمبر:۴۷۹۳۔ (۹)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ" بخاری، باب ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر:۲۹۹۸۔ حاکم ومحکوم (مالک وخادم) کے حقوق حاکم ومحکوم کے حقوق میں حاکم کا مطلب بادشاہ ونائب بادشاہ، آقا وغیرہ اور محکوم سے مراد رعایا، نوکر وغیرہ سب داخل ہیں اور جہاں مالک ومملوک (خادم) ہو وہ بھی داخل ہوجائیں گے۔ محکوم کے حقوق (۱)محکوم پر دشوار احکام نہ جاری کرے۱؎ (۲)اگر باہم محکومین میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو عدل وانصاف کی رعایت کرے؛ کسی کی طرف داری نہ ہو۲؎ (۳)ہرطرح ان کی حفاظت وآرام رسانی کی فکر میں رہے، داد خواہوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسان طریقہ مقرر کرے۳؎ (۴)اگراپنی شان میں اس سے کوئی کوتاہی یاغلطی ہوجائے تو کثرت سے معاف کردیا کرے، ناروا اور ناجائز سختی کرنے سے پرہیز کرے۴؎۔ (۱)"عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ رَأَيْتُ عَلَيْهِ بُرْدًا وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدًا فَقُلْتُ لَوْ أَخَذْتَ هَذَا فَلَبِسْتَهُ كَانَتْ حُلَّةً وَأَعْطَيْتَهُ ثَوْبًا آخَرَ فَقَالَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ كَلَامٌ وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً فَنِلْتُ مِنْهَا فَذَكَرَنِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي أَسَابَبْتَ فُلَانًا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَفَنِلْتَ مِنْ أُمِّهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ قُلْتُ عَلَى حِينِ سَاعَتِي هَذِهِ مِنْ كِبَرِ السِّنِّ قَالَ نَعَمْ هُمْ إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا يُكَلِّفُهُ مِنْ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ" بخاری، باب ماینھی من السباب واللعن:۵۵۹۰۔ (۲)"وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ" المائدۃ:۴۲۔ (۳)……؟؟؟ (۴)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَقَالَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً" ترمذی، باب ماجاء فی العفو عن الخادم، حدیث نمبر: ۱۸۷۲۔ "عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِي فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِي صَوْتًا اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ فَقَالَ أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْكَ النَّارُ أَوْ لَمَسَّتْكَ النَّارُ" مسلم، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، حدیث نمبر:۳۱۳۶) حاکم کے حقوق (۱)حاکم کی خیرخواہی واطاعت کرے؛ البتہ خلافِ شرع امور میں اطاعت نہ کرے۱؎ (۲)اگرحاکم سے کوئی امرخلافِ طبع پیش آئے تو صبر کرے شکایت وبددعا نہ کرے؛ البتہ اس کے نرم مزاجی کے لیے دعا کرے اور خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اہتمام کرے تاکہ حکام کے دل نرم کردے۲؎ (۳)اگرحاکم سے آرام پہنچے تو اس کے ساتھ شکرگزاری کریں۳؎ (۴)اپنی ذات کے واسطے اس سے سرکشی نہ کرے اور جہاں غلام پائے جاتے ہوں، غلاموں کا نان ونفقہ واجب ہے اور غلام کو اس کی خدمت چھوڑ کر بھاگنا حرام ہے باقی غلام کے علاوہ محکومین آزاد ہیں، دائرۂ حکومت میں رہنے تک اس پر حقوق ہوں گے اور خارج ہونے کے بعد ہروقت مختار ہے۴؎۔ (۱)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ" النساء:۵۹۔ "لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ" بخاری، باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد، حدیث نمبر:۶۷۱۶۔ "عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: نعما للعبد أن يتوفاه الله بحسن عبادة ربه وبطاعة سيده نعما له ونعما له" مسنداحمد، مسند ابی ھریرۃؓ: ۷۶۴۲۔ (۲)"يَابُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" لقمان:۱۷۔ "والدعاء له بظهر الغيب ليصلحه الله ويصلح على يديه، والنصيحة له في جميع أموره، والصلاة والجهاد معه" آداب الصحبۃ، باب الصحبۃ مع السلطان:۱/۱۷۶۔ (۳)"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللَّهَ" ترمذی، باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک، حدیث نمبر:۱۸۷۸۔ "عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن السلطان ظل الله في الأرض ، يأوي، إليه كل مظلوم من عباده، فإذا عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر، وإذاجار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر" شعب الایمان، باب فضل الامام العادل، حدیث نمبر:۷۱۱۷۔ سسرالی رشتہ داروں کے حقوق قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے نسب کے ساتھ علاقہ مصاہرۃ (سسرالی رشتہ) کا بھی ذکر فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ساس، خسر، سالے، بہنوئی، داماد، بہو اور ربیب (بیوی کی پہلی اولاد) کا بھی حق ہوتا ہے، اس لیے ان تعلقات میں بھی احسان واخلاق کی رعایت کسی قدر خصوصیت کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ (الفرقان:۵۴)