انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ سامانیہ اسد بن سامان اپنے آپ کو بہرام چوبین کی اولاد میں بتاتا تھا،اسد بن سامان اپنے چاروں بیٹوں کے لے کر مامون الرشید عباسی کو اپنے بھائی امین کے خلاف تختِ خلافت حاصل کرنے میں جو کامیابی حاصل ہوئی تھی،اُس میں سب سے زیادہ ایرانیوں کی امداد واعانت کو دخل تھا،مامون الرشید کا اسد بن سامان اور اس کی اولاد پر مہربان ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی، سامانیوں کے اقتدار نے اسی زمانے سے تیز رفتار ی کے ساتھ ترقی کی،چونکہ یہ خاندان ایران کے ایک مشہور سردار کی اولاد سے تھا، اس لئے ماوراء النہر خراسان میں ان لوگوں کی سیادت کے خلاف آمادہ ہونے کا امکان اوربھی ضعیف ہوگیا تھا،اسمعیل سامانی جو اسد بن سامان کا پوتا تھا،عمروبن لیث پر غالب آنے کے بعد بہت جلد بادشاہت کے مرتبہ کو پہنچ گیا،فرق صرف اس قدر تھا کہ خاندانِ صفار خلافتِ بغداد کے خلاف اورمعاندرہا،لیکن اسمعیل اوراُس کے جانشین برائے نام دربار خلافت کی سیادت کو تسلیم کرتے رہے۔ اسمعیل سامانی نے ماوراء النہر اورخراسان میں سات آٹھ سال حکومت وسلطنت کی خلیفہ معتضد باللہ عباسی نے اُس کو ملکِ خراسان کی سند حکومت عطا کی تھی،اسمعیل کی وفات کے بعد ابو نظیر احمد بن اسمعیل سامانی باپ کا جانشین ہوا،اسمعیل سامانی اپنے عادات وخصائل کے اعتبار سے نہایت شریف ،سیر چشم اورمتوکل علی اللہ شخص تھا،جہانگیری کے ساتھ ہی جہاں داری کے اُصولوں سے بھی خوف واقف تھا،رعایا اُس سے خوش تھی، اوراُس نے اپنے طرز عمل سے اس بات کا کافی ثبوت بہم پہنچادیا تھا کہ وہ ایران کے نہایت شریف اورسردارخاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ احمد بن اسمعیل نے تخت نشین ہوکر اپنے عزیزوں اوررشتہ داروں کو اپنی بد اخلاقی سے ناراض کردیا،چھ سات سال تک اُس نے حکومت کی،مگر یہ تمام زمانہ دربارخلافت کے خلاف ریشہ دوانیوں اوراپنے رشتہ داروں کو ناراض رکھنے میں اُس نے صرف کردیا آخر خود اپنے ہی غلاموں کے ہاتھ سے مقتول ہوا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا نصر بن احمد سامانی آٹھ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا،یہ بالکل اپنے دادا اسمعیل کا نمونہ تھا، اس نے چند ہی روز کے بعد اپنی سلطنت کے حدود کو اسمعیل سامانی کی حدود سلطنت سے زیادہ وسیع کرلیا اورتیس سال سے زیادہ عرصہ تک بڑے زور شور اورناموری کے ساتھ حکومت کی،اسی کے دربار میں رود کی شاعر جو نابینا تھا،بڑے اعزاز واکرام کے ساتھ رہتا تھا، نصر بن احمد اپنے دارالسلطنت بخارا میں فوت ہوکر مدفون ہوا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا نوح بن نصر تخت نشین ہوا،اُس نے تیرہ سال حکومت کرکے ۳۴۳ھ میں وفات پائی۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا عبدالملک بن نوح تخت نشین ہوا،اُس نے اپنے ممالک مقبوضہ کے جنوبی حصے یعنی صوبۂ خراسان کی گورنری پر اپنے ایک سردار الپتگین کو مامور کیا تھا،آخر سات سال حکومت کرنے کے بعد چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا بھائی منصوربن نوح تخت نشین ہوا،اُس نے رکن الدولہ ویلمی کی بیٹی سے شادی کی تھی اس لئے عراق وفارس کے صوبوں میں بھی اُس کی سیادت تسلیم کی گئی، اس کا وزیر ابو علی بن محمد تھا،جس نے تاریخ طبری کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا،منصور بن نوح نے پندرہ سال حکومت کی۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا ابوالقاسم نوحِ ثانی تخت نشین ہوا،اس کے تخت نشین ہوتے ہی سلطنت بخارایعنی دولتِ سامانیہ پر ادبار تنزل کی گھٹائیں چھاگئیں، اُس کے درباریوں نے اُس کے خلاف ملک میں بغاوتیں برپا کرائیں اور مغولستان کے بادشاہ بغراخان کو اُس پر حملہ آور کرایا،بخارا کے متصل لڑائی ہوئی،بغرا خاں نے نوح ثانی کو شکست دے کر بخارا پر قبضہ کرلیا،مگر عجیب اتفاق یہ پیش آیا کہ بغراخان اس فتح کے بعد ہی بخارا میں فوت ہوگیا،اوراُس کی فوج اپنے ملک کو واپس چلی گئی، نوح ثانی نے پھر بخارا پر قابض ہوکر اپنی سلطنت کو مضبوط کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ غزنین میں سبکتگین نے اپنی مستقل حکومت قائم کرلی تھی اور اُس کی فوج اپنے ملک کو واپس چلی گئی،نوح ثانی نے پھر بخارا پر قابض ہوکر اپنی سلطنت کو مضبوط کیا،یہ وہ زمانہ تھا کہ غزنین میں سبکتگین نے اپنی مستقل حکومت قائم کرلی تھی اورنوح ثانی کی تخت نشینی کے چند روز بعدالپتگین کا انتقال ہوچکا تھا،نوح ثانی نے سبکتگین کو اس خدمت کے صلہ میں کہ اُس نے بغراخان کے خلاف نوح ثانی کی مدد کی تھی،ناصر الدین کا خطاب دیا تھا، وقیقی شاعر اُس کا معاصر تھا جس نے داستان گشتا سپ کے ایک ہزار اشعار لکھے تھے،بغراخان کے حملہ سے فارغ ہونے کے بعد نوح ثانی نے اپنے باغی اوربے وفا امیروں کو سزائیں دینی چاہئں،جنہوں نے ملک میں بغاوتوں کے لئے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بچھارکھا تھا، ان باغی امرا نے فرار ہوکر فخر الدولہ ویلمی کے پاس پناہ لی اوراُس سے مدد لے کر سلطنت بخارا پر حملہ آور ہوئے ،نوح ثانی نے سبکتگین سے پھر امداد طلب کی،سیکتگین نے ہرات کے قریب باغیوں کا مقابلہ کیا اورجنگ عظیم کے بعد اُن کو شکست فاش دے کر بھگادیا اس لڑائی میں سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی نے بڑی بہادری دکھائی اورخوب بڑھ بڑھ کر تلوار چلائی،نوح ثانی نے خوش ہوکر محمود کو سیف الدولہ کا خطاب دیا، بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ اسی لڑائی میں سبکتگین کو ناصر الدین کا خطاب ملا تھا اوراسی لڑائی کے بعد ملک خراسان کی سند حکومت سبکتگین کو نوحِ ثانی کے دربار سے عطا ہوئی تھی، نوح ثانی نے ۲۲ سال حکومت کی مگر اُس کا زمانہ اکثر لڑائی جھگڑوں اوربغاوتوں کے فرو کرنے میں بسر ہوا اور ملک کے صوبے یکے بعد دیگرے قبضے سے نکلتے گئے۔ نوح ثانی کے بعد اُس کا بیٹا منصور ثانی باپ کا جانشین ہوا،اُن امیروں نے جو اُس کے باپ کے لئے موجب اذیت رہتے تھے،اُس کو پریشان رکھا اورشکست دے کربخارا سے بے دخل کیا،پھر انہوں نے اُسی کو بادشاہ تسلیم کرکے امورِ سلطنت اپنے اختیار میں لے کر خراسان میں ایک نئے حاکم سے متعلق کیا،محمود غزنوی نے اس نئے حاکم کو خراسان سے بے دخل کرکے اپنا قبضہ کرلیا۔ اسی عرصہ میں امیروں نے منصور کو تخت سے اُتار کر اندھا کیا اوراُس کی جگہ اُس کے بھائی عبدالملک ثانی بن نوح ثانی کو تخت پر بٹھایا اوراُس کو ہمراہ لے کر محمود غزنوی پر حملہ آور ہوئے، محمود غزنوی نے عبدالملک ثانی اوراُس کی فوج کو شکست دے کر بخارا کی طرف بھگادیا،اُدھر ایلج (ایلج خان،ایلک خان ،علی تگین یہ تینوں ایک ہی شخص کے نام ہیں) خان حاکم کا شغر نے خوارزم پر قبضہ کرکے بخارا پر حملہ کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایلج خان نے عبدالملک ثانی کو گرفتار کرکے بخارا پر قبضہ کیا اورعبدالملک ثانی کا تیسرا بھائی منتصر بھیس بدل کر بخارا سے فرار ہوا اورچند روز تک قزاقوں کی ایک جمعیت کے ساتھ آوارہ رہ کر ایک شخص کے ہاتھ سے مقتول ہوا اس طرح سامانی خاندان اوراُس کی دولت وحکومت کا خاتمہ ہوگیا۔