انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ولید بن مسلمؒ شیخ ولید بن مسلم کا شمار ان اتباع تابعین میں ہوتا ہے جنہوں نے بکثرت تصانیف یادگار چھوڑیں،وہ امام اوزاعی کے ارشد تلامذہ میں تھے،مغازی ان کا خاص فن تھا،طویل احادیث اورآثار قیامت کے سلسلہ کی احادیث کے خاص طور پر حافظ تھے۔ نام ونسب ولید نام ابو العباس کنیت تھی،والد کا نام مسلم تھا،اس سے آگے کے سلسلہ نسب کا پتہ نہیں چلتا،بنو امیہ کے غلام ہونے کی بنا پر اموی لکھے جاتے ہیں۔ وطن اور ولادت دمشق کے رہنے والے تھے،وہیں ۱۱۹ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۷۶) تحصیل علم اور شیوخ شیخ ولید کو اپنے وقت کے جن ممتاز اہل علم وفضل سے اکتساب فیض کا موقع ملا ان میں کبار تابعین اوراتباع تابعین کے نام شامل ہیں،چند نام یہ ہیں: یحییٰ بن الحارث،ثور بن یزید، محمد بن عجلان،ہشام بن حسان،ابن جریج،امام اوزاعی،یزید بن مریم، صفوان بن عمرو۔ وہ بعض اساتذہ کی خدمت میں مدت دراز تک رہے ؛چنانچہ ان کے کاتب حمام شیخ ولید کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: جالست ابن جابر سبع عشر سنۃ میں سترہ برس تک جابر کی صحبت میں رہا۔ فقیہ شام امام اوزاعی سے ولید بن مسلم کو خاص تلمذ کی سعادت حاصل تھی،مروان بن محمد کہا کرتے تھے کہ جب ولید کے واسطے سے امام اوزاعی کی روایت کسی کو مل جائے تو اسے پھر کسی اور راوی کے چھوٹنے کی پرواہ نہ کرنا چاہئیے۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۵۳) ان ائمہ وفضلا کی صحبت اورفیض نے ان میں حدیث نبوی کا خاص ذوق پیدا کردیا تھا اور بعد میں وہ خود بھی اکابر محدثین میں شمار کیے جانے لگے۔ علم و فضل ولید بن مسلم کے علمی مرتبہ اورمہارتِ فنی کو تمام محققین نے سراہا ہے، امام نوویؒ کا بیان ہے کہ ان کی علمی بلندی،جلالتِ شان اور ثقاہت پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء:۲/۱۴۷)حافظ ذہبیؒ انہیں الامام الحافظ لکھتے ہیں،ابن ناصر الدین کہتے ہیں کہ ولید امام حافظ اوردمشقیوں کے عالم تھے۔ (شذرات الذہب:۱/۳۴۴) علاوہ ازیں صدقہ بن الفضل المروزی بیان کرتے ہیں کہ طویل حدیثوں اور تمام ابواب کو یاد رکھنے میں ان سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا (تہذیب التہذیب:۸/۱۵۴،وتذکرہ الحفاظ:۱/۲۷۷)ابراہیم بن المنذر کا قول ہے کہ ایک مرتبہ مجھ سے علی بن المدینی نے فرمائش کی کہ میں ان کو ولید بن مسلم کی بعض احادیث سُناؤں میں نے کہا سبحان اللہ! آپ کے سماع کو میرے سماع سے کیا نسبت ہوسکتی ہے؟ وہ بولے کہ ولید جب شام آئے،تو ان کے پاس علم کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اورمیں اس سب سے فیض یاب نہیں ہوسکتا تھا، میں نے ان کو کچھ حدیثیں سنائیں،تو بہت متعجب ہوئے اورکہنے لگے واقعی ولید بالکل ٹھیک کہتے تھے۔ ابن مدینی ہی کا بیان ہے کہ میں نے ان سے حدیث کا سماع حاصل کیا ہے،جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ بہت سی ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے جس میں ان کا کوئی دوسرا شریک نہیں تھا۔ (تہذیب التہذیب:۸/۱۵۵) ائمہ حدیث کی رائے تمام ائمہ حدیث نے ان کے علم و فضل اور روایت حدیث پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے،ابو حاتم سے محمد بن ابراہیم نے دریافت کیا کہ آپ ولید بن مسلم کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں؟ بولے وہ صالح حدیث ہیں،امام احمد بن حنبل نے ابوزرعہ الدمشقی سے کہا تین بزرگ واقعی اصحاب حدیث ہیں مروان بن محمد، ولید بن مسلم اور ابو مسہر۔ یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ لوگوں کا علم صرف دو شخصوں کے پاس ہے،اسماعیل بن عیاش اور ولید بن مسلمؒ، لیکن ولید کو تو میں جانتا ہوں کہ وہ نہایت قابل تعریف طور پر اخیر وقت تک چلتے رہے ،وہ اہل علم کے نزدیک پسندیدہ قابلِ وثوق،صحیح الحدیث اورصحیح العلم تھے۔ (تہذیب التہذ:۸/۱۵۳) واجمعوا علیٰ جلالتہ وارتفاع محلہ وتوثیقہ (تہذیب الاسماء:۲/۱۴۷) ان کی جلالت علم بلندی مرتبہ اوروثوق فی الحدیث پر سب لوگ متفق ہیں۔ تلامذہ ان کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے اس میں جلیل القدر ائمہ اورنادرہ روزگار فضلاء کی بھی خاصی تعداد شامل ہے،ابن حوضا کا بیان ہے کہ: لم نزل نسمع انہ من کتب مصنفات الولید صلح ان یلی القضاء (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۵۳) ہم لوگ برابر اس بات کو سنتے آئے ہیں کہ جس شخص نے ولید کی کتابیں لکھ لیں وہ عہد قضا کے قابل ہوجائے گا۔ ان کے تلامذہ میں درجِ ذیل اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔ احمد بن حنبل،ہشام بن عمار، ابو خثیمہ،کثیر بن عبید، محمود بن غیلان،موسیٰ بن عامر(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۶)حمیدی ،صفوان بن صالح،عبداللہ بن وہب،محمد بن المبارک،عبدالرحمن بن ابراہیم، نعیم بن حماد،اسحاق بن اسرائیل۔ جرح بعض ناقدینِ حدیث نے کہا کہ ولید بھی کبھی ضعیف راویوں سے احادیث روایت کرتے تھے اور کبھی وہ تدلیس بھی کرتے تھے،یعنی جس شخص سے روایت کرتے تھے،اس کا معروف نام نہیں لیتے تھے،ہشیم بن خارجہ نے ان سے کہا کہ:"آپ امام اوزاعی کی احادیث کو خراب کرڈالتے ہیں،آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ بولے تم یہ بات کیسے کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کبھی عن الاوزاعی عن ابن عمر کرکے روایت بیان کرتے ہیں اور کبھی عن الاوزاعی عن الزھری اورکبھی یحییٰ بن سعید سے روایت بیان کرتے ہیں ،آپ کے علاوہ لوگ تو امام اوزاعی اورنافع کے درمیان عبداللہ بن عامر کا ذکر کرتے ہیں، امام زہری اوراوزاعی کے درمیان ابراہیم بن مرہ کا ذکر کرتے ہیں، تو آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ،فرمایا کہ میں امام اوزاعی کو ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں پھر انہوں نے کچھ کہا،مگر شیخ ولید نے کوئی توجہ نہ دی،بہرحال اتنا مسلم ہے کہ وہ کبھی کبھی تدلیس سے کام لیتے تھے،مگر اس سے ان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛چنانچہ علامہ ذہبیؒ ان پر لوگوں کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: لانزاع فی حفظہ وعلمہ وانما الرجل مدلس فلا یحتج بہ الا اذا صرح بالسماع (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:۱/۲۷۴) ولید کے حفظ اوران کے علم میں کوئی اختلاف نہیں ہے،البتہ وہ مدلس تھے اس لیے جب تک سماع کی تصریح نہ کریں اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔ عقل وفرزانگی فہم ودانش کے اعتبار سے بھی وہ معاصرین ارباب کمال میں ممتاز تھے،امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:"میں نے اہل شام میں ان سے زیادہ عقلمند نہیں دیکھا’۔ اخلاق وعادات کمال علم وفضل کے ساتھ ان کے اخلاق وعادات بھی نہایت کریمانہ اوربزرگانہ تھے،ہشام بن عمار سے کسی نے ان کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ولید بہت بڑے عالم صاحب زہد وورع اورمتواضع الطبع تھے۔ وفات حج سے واپس آرہے تھے کہ دمشق پہنچنے سے پہلے ہی ذی المروہ نامی ایک موضع میں بیمار پڑگئے،اپنے ایک دوست حرملہ بن عبدالعزیز کے مکان پر قیام کیا اوروُہیں ان کی وفات ہوگئی،سنہ وفات میں محققین کا قدرے اختلاف ہے،کسی نے ۱۹۵ھ اورکسی نے۱۹۹ھ لکھا ہے،مگر صحیح ۱۹۴ھ ہے امام بخاریؒ وغیرہ نے ا سی کو مرجح قرار دیا ہے۔ تصنیفات شیخ ولید کا شمار ان محدثین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بہت سی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں علامہ ذہبیؒ ،حافظ ابن حجرؒ اور دوسرے اہل تذکرہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ستر کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ ومصنفات الولید سبعون کتاباً ولید کی تصنیفات کی تعداد ستر ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان کی یہ تصانیف حدیث،فقہ اورتاریخ سے متعلق تھیں؛چنانچہ علامہ ذہبیؒ نے فن تاریخ میں بھی ان کی کچھ کتابوں کا ذکر کیا ہے"صنف التصانیف والتواریخ"علاوہ ازیں ابو زرعہ رازی کا بیان ہے کہ ولید مغازی میں وکیع بن جراحؒ سے بڑے عالم تھے،ظاہر ہے مغازی بھی تاریخ ہی کا ایک شعبہ ہے۔ تاہم ولید کی تصنیفات کی مزیدکوئی تصریح اورتفضیل نہیں ملتی اورنہ ان میں سے کسی کے وجود کا پتہ چلتا ہے،مشہور مؤرخ اسحاق بن ندیم نے دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ (الفہرست:۳۱۸) ۱۔کتاب السنن فی الفقہ ۲۔کتاب المغازی