انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آغاز جنگ بالآخر اگلے روز ۱۷ رمضان المبارک ۲ھ کو میدانِ کار زار گرم ہوا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اول اپنے عبادت کے چھوٹے سے چھپر میں گئے اور رو رو کر جناب الہی میں دعا کی اورعرض کیا کہاَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِکَ ھٰذِہِ الْعَصْبَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِیْمَانِ الْیَوْمَ فَلَا تُعْبَدُ فِی الْاَرْضِ ابدًا(الہی اگر تونے اس چھوٹی سے جماعت کو ہلاک کردیا تو زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت نماز پڑھی،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذراسی دیر کے لئے یکایک غنودگی طاری ہوگئی،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر مسکراتے ہوئے نکلے اور فرمایا کہ کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے سَیُھْزَم الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الْدُّبُر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تم جنگ میں ابتداء نہ کرنا،مسلمانوں میں اسی یا اسی سے دو تین زیادہ مہاجرین تھے، باقی انصارؓ تھے،انصار میں ۶۱ قبائل اوس کے آدمی تھے اور ۱۷ خزرج کے ،طرفین سے صفوف جنگ آراستہ ہوئیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تیر تھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اشارے سے تسویہ صفوف فرماتے تھے، اس کے بعد لشکر کفار سے رسم عرب کے موافق اول عتبہ و شیبہ پسران ربیعہ اورولید بن عتبہ نکل کر میدان میں آگے آئے اورجنگ مبارزہ کے لئے للکار کر لشکر اسلام سے اپنے مقابلہ پر لڑنے والے تین شخص طلب کئے،ان تینوں کا مقابلہ کرنے کے لئےانصار کے تین شخص عوف ومعوذ پسران عفراء اورعبداللہ بن رواحہ نکلے، عتبہ نے کہا:مَنْ اَنْتُمْ (تم کون ہو؟)انہوں نے جواب دیا:رَھْطٌ مِنَ الْاَنْصَارِ(ہم انصار یعنی مدینہ میں سے ہیں)عتبہ نے نہایت متکبرانہ انداز اوردرشت لہجہ میں کہا:مَالَنَا بِکُمْ مِّنْ حَاجَۃٍ (ہم کو تم سے لڑنے کی ضرورت نہیں)۔ پھر چلا کر کہا:مُحَمَّدٌ اَخْرَجَ اِلَیْنَا اکفَاءُنَا مِنْ قَومِنَا(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے مقابلے کے لئے ہماری ذات برادری کے لوگوں کو یعنی قریش میں سے مہاجرین کو بھیجو) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر حکم دیا کہ عتبہ کے مقابلے کو حمزہ بن عبدالمطلب اورعتبہ کے بھائی شیبہ کے مقابلے کو عبیدہ بن الحرث اور عتبہ کے بیٹے ولید کے مقابلے کو علی بن ابی طالب جائیں،یہ حکم سنتے ہی بلا تامل تینوں صحابی میدان میں نکلے، عتبہ نے ان تینوں کے نام دریافت کئے ؛حالانکہ وہ ان کو خوب پہچانتا تھا،ان کے نام سُن کر کہا: ہاں تم سے ہم لڑیں گے،مقابلہ شروع ہوا،حضرت حمزہؓ اورحضرت علیؓ نے عتبہ اور ولید دونوں باپ بیٹے کو ایک ہی وار میں قتل کردیا،شیبہ کے مقابلہ میں حضرت عبیدہؓ زخمی ہوئے،زخم بہت کاری لگا جس سے وہ جاں برنہ ہوسکے،یہ دیکھ کر حضرت علیؓ نے بڑھ کر شیبہ کو قتل کردیا اور عبیدہ کو اٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے،اس کے بعد کفار کی صفیں حملہ آور ہوئیں،ادھر سے مسلمانوں نے حرکت کی اور جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی،طرفین سے خوب خوب داد مردانگی دی گئی،نتیجہ یہ ہوا کہ کفار اپنے ستر بہادر وں کو قتل اورنوے کو اسیر کراکر میدان سے بھاگ نکلے ،جنگ مغلوبہ شروع ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک سائبان کے نیچے کھڑے ہوئے معرکہ جنگ کا نظارہ دیکھ رہے تھے اورمجاہدین کو مناسب احکام وہدایات دے رہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ بنو ہاشم کے جو لوگ کفار کے ساتھ آئے ہیں وہ اپنی خوشی سے نہیں آئے ہیں ؛بلکہ مجبوراً ان کو آنا پڑا ہے اس لئے ان کے ساتھ رعایت کرنی چاہیے اورعباسؓ بن عبدالمطلب کو قتل نہیں کرنا چاہیے،اسی طرح ابو البختری کی نسبت درگذر اوررعایت کا حکم دیا تھا،اس حکم کو سُن کر ابو حذیفہؓ نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اپنے بھائی کو قتل کروں اور عباس کو چھوڑدوں،اگر عباسؓ میرے مقابلہ پر آیا تو میں درگذر نہیں کروں گا،بعد میں حذیفہ اپنے ان الفاظ پر بہت پشیمان ہوئے اور ندامت کا اظہار کیا،محذر بن زیاد کا مقابلہ ابو البختری سے ہوا، تو محذر بن زیادؓ نے کہا ہم کو حکم ہے،تم سے نہ لڑیں،لہذا تم ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ،ابو البختری نے اپنے ایک ساتھی کے بچانے کی کوشش کی جس کو محذر بن زیاد قتل کرنا چاہتے تھے،اس کو شش میں ابو ابختری مقتول ہوا،امیہ بن خلف اوراس کا بیٹا علی بن امیہ دونوں اپنی جان بچانے کے لئے سراسمیہ پھر رہے تھے،امیہ اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان عہد جاہلیت میں دوستی تھی،عبدالرحمن بن عوف نے ان کو پریشان دیکھ کر اپنی حفاظت میں لے لیا اورامیہ کا ہاتھ پکڑ کر لے چلے،لیکن حضرت بلالؓ نے دیکھا تو فوراً آواز دے کر چند انصار کے جوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اورسب نے مل کر امیہ اور علی بن امیہ کو قتل کرنا چاہا،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ہر چند بچانے کی کوشش کی مگر حضرت بلالؓ نے ان کی ایک نہ مانی اور دونوں باپ بیٹوں کو قتل ہی کرکے چھوڑا،ایک صحابی عمیرؓ بن الحمام انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں کھاتے ہوئے آئے اور پوچھا کہ اگر میں کفارسے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو فورا جنت میں چلا جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں وہ اُسی وقت اپنے ہاتھ کی بقیہ کھجوریں پھینک کر اور تلوار کھینچ کر دشمنوں پر جاپڑے اورلڑکر شہید ہوئے۔ جب لڑائی خوب زور شور سے جاری تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی بھرخاک اُٹھائی اوراس پر کچھ دم کرکے کفار کی طرف پھینک دی،اسی وقت کفار کے لشکر نے بھاگنا شروع کیا ،ایک نو عمر انصاری حضرت معاذ بن عمرو کا مقابلہ اتفاقاً ابو جہل سے ہوگیا،ابو جہل خود اورزرہ وغیرہ پہنے ہوئے غرق آہن تھا،حضرت معاذ بن عمروؓ نے موقع پاکر اوراس کے پاؤں کو زرہ سے خالی دیکھ کر تلوار کا ایک ہاتھ ان کی نصف پنڈلی کے قریب ایسا مارا کہ اس کا پاؤں کٹ کر الگ جاپڑا،ابو جہل کے بیٹے عکرمہ بن ابوجہل نے باپ کو زخمی دیکھ کر معاذ بن عمروؓ پر حملہ کیا اور تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ حضرت معاذ بن عمروؓ کا بایاں ہاتھ مونڈھے کے قریب سے کٹ کر لٹک گیا،صرف ایک تسمہ لگا ہوا باقی رہا،حضرت معاذ بن عمروؓ اسی طرح تمام دن لڑتے رہے،لٹکے ہوئے ہاتھ نے جب بہت دق کیا تو اُسے پاؤں کے نیچے دبا کر زور سے جھٹکا دے کر الگ کردیا،اس کے بعد انصار کے ایک دوسرے نو عمر معوذؓ بن عفراء ابوجہل کے قریب پہنچے اور تلوار کی ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ زخمی ہوکر نیم بسمل ہوگیا،جب کفار میدان خالی چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگ گئے اورلشکرِ اسلام کو فتح حاصل ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابو جہل کی نسبت تحقیق کرو کہ اُس کی لاش میدان میں موجود ہے یا نہیں،یہ حکم پاتے ہی حضرت عبداللہ بن مسعود مقتولین کی لاشیں دیکھنے کو چلے،ابو جہل کو دیکھا کہ نیم مردہ پڑا ہے،عبداللہ بن مسعودؓ اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور کہا کہ اے دشمنِ خدا دیکھ تجھ کو خدا نے کیسا ذلیل کیا،ابو جہل نے پوچھا: لڑائی کا نتیجہ کیا ہوا؟ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو فتح اورکفار کو ہزیمت ہوئی،یہ کہہ کر عبداللہ بن مسعودؓ جب اس کا سرکاٹنے لگے تو اس نے کہا کہ میری گردن مونڈھوں سے ملا کر کاٹنا تاکہ میرا سر دوسرے کٹے ہوئے سروں میں بڑا معلوم ہو اوریہ سمجھا جائے کہ سردار کا سرہے،عبداللہ بن مسعودؓ اس کا سرکاٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں ڈال دیا، آپ نے ابو جہل کا سر دیکھ کر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا،اس لڑائی میں کل چودہ صحابی شہید ہوئے، جن میں چھ مہاجرین اورآٹھ انصار تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ جنگ سے فارغ ہوکر مسلمان شہداء کو دفن کیا،مشرکین کی لاشوں کو ایک بڑے گڑھے یا کنوئیں میں ڈلواکر اوپر سے مٹی ڈلوادی ،صرف امیہ بن خلف کا لاشہ اس لئے کہ پارہ پارہ ہوکر اُٹھا نے کے قابل نہ رہا تھا،اٹھا کر اورمشرکوں کے لاشوں کے ساتھ گڑھے میں نہ ڈالا جاسکا لہذا اُس کو وہیں مٹی ڈال کر چھپادیا گیا۔ کفار اس سراسمیگی سے بھاگے کہ اپنے سپہ سالار ابوجہل کو بھی نیم مُردہ میدان ہی میں چھوڑ گئے حرث بن زمعہ ابو قیس بن الفاکہ علی بن امیہ، عاص بن خبہ،یہ سب کے سب نوجوان تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام مکہ کے زمانہ میں محبت اورتعلق رکھتے تھے یا شاید مسلمان ہوگئے تھے،ہجرت نبوی کے بعد ان لوگوں کے عزیزوں ،رشتہ داروں اورقبیلہ والوں نے ان کو بہت سختی سے ڈانٹا ڈپٹا اور مرتد ہونے کو کہا،انہوں نے علانیہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزاری کا اظہار کیا اوراس لشکرِ کفار میں شامل ہوکر مسلمانوں سے لڑنے کے لئےا ٓئے یہ سب کے سب مقتول ہوئے،مکہ کے بڑے بڑے سردار جو اس لشکر میں آئے تھے قریبا سب کے سب مقتول ہوئے اور منھزم لشکر کے مکہ پہنچے پر گھر گھر صفِ ماتم بچھ گئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مالِ غنیمت جو کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا ایک جگہ جمع کرکے عبداللہ بن کعبؓ (بنونجار سے تھے) کے سپرد کیا،عبداللہ بن رواحہ اورزید بن حارثؓ کو مدینہ کی بالائی اورنشیبی بستیوں کی طرف مژدہ فتح سنانے کے لئے روانہ کیا،حضرت اسامہ بن زیدؓ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اپنا نائب بنا کر چھوڑ آئے تھے فرماتے ہیں کہ ہمیں اس فتح کی خوش خبری عین اس وقت پہنچی ہے جبکہ ہم حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوجۂ حضرت عثمان بن عفانؓ کو دفن کررہے تھے،یہ خبر مدینہ میں ۱۸ رمضان المبارک کو پہنچی تھی۔ بدر کے میدانِ جنگ سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے،مقام صفراء میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الہیٰ کے موافق تمام غنیمت بحصہ مساوی مسلمانوں میں تقسیم فرمایا اوراسیرانِ جنگ میں سے نضر بن الحارث بن کلاہ(از بنو عبدالدار) کی گردن مارنے کا حکم دیا،یہاں سے روانہ ہوکر مقام عرق انطبیہ میں پہنچے،یہاں عقبہ بن ابی معیط بن ابی عمرو بن لینہ کی گردن مارنے کا حکم دیا،یہ دونوں جو اسیرانِ جنگ ِ بدر میں شامل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام سے نہایت سخت وشدید دشمنی رکھتے اور اپنے عناد میں ابو جہل کے ہمسر تھے،نضر بن الحارث کو مقام صفراء میں حضرت علیؓ نے اور عقبہ بن ابی معیط کو مقام عرق انطبیہ میں عاصم بن ثابت انصاری نے قتل کیا،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کے ساتھ تیز رفتاری سے روانہ ہوکر اسیروں اوران کے محافظ دستے کو پیچھے چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن بعد قیدی بھی مدینہ میں پہنچ گئے۔