انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کعبہ کی تعمیر نو اس سال قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا بیڑہ اُٹھایا، کعبہ کی عمارت سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کی لیکن طوفانِ نوح ؑ میں یہ عمارت گر گئی، ایک طویل عرصہ بعد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ نے پُرانی بنیادوں پر اس کی دوبارہ تعمیر کی، اس کے بعد قوم یما لقہ اور بنو جر ہم نے اسے تعمیر کیا، اس سال جبکہ حضور اکرم ﷺ کی عمر ۳۵ سال تھی قریش نے پُرانی اور بوسیدہ عمارت کو گراکر تعمیر نو کی،اس لئے کہ تمام عرب کے لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے اور نذر و نیاز کرتے جس سے قریش کو آمدنی ہوتی، کعبہ کے اندر ایک کنواں سا تھا جس میں ایک سانپ آ کر بیٹھ گیا اس لئے لوگ قریب جانے سے ڈرتے تھے ، ان ہی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ( جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا،یہ اطلاع قریش کو ملی تو انھوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لیے خرید لئے ، طوفان میں بچنے والوں میں باقوم نامی ایک مصری معماربھی تھا، اس نے تعمیر کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھاجس سے کام لیا جا سکتا تھا ، تعمیر کا سامان تو فراہم ہو گیا؛ لیکن کنوئیں کا سانپ بڑا خطرہ تھا، اتفاق سے ایک دن وہ کعبہ کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عقاب کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور اسے جھپٹ کر لے گیا، قریش نے اسے تائید ِ غیبی سمجھ کر تعمیر کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں لوگ اپنی پاک کمائی لگائیں، سہولت کی خاطر انھوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا، دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی، حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا، بنی عبدالدار بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی۔ اس مرحلہ پر پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے اس لئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ ابرہہ ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا تو اس کا برا انجام ہوا تھا جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے، قریش نیک نیتی سے حرم کی پُرانی عمارت گرا کر اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے تھے، آخر کار ولید بن مغیرہ مخزومی نے کُدال سے ضرب لگائی جس سے کچھ حصہ منہدم ہو گیا ؛لیکن کوئی آفت نہیں آئی ، پھر ساری عمارت گرا کر تعمیر شروع کی گئی، اس کی بنیاد سات ستونوں پر رکھی گئی(ابن سعد - طبقات ) جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہواجو چار پانچ روز تک جاری رہا، ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو، نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں۔ عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبولیتا تھا، اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی، اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا، پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص ابو امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دے دیا جائے ، سب نے یہ رائے تسلیم کی، دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے ، خدا کی کرنی کہ سب سے پہلے جس چہرہ پر سب کی نظریں پڑیں وہ چہرہ ٔ محمدیﷺ تھا، سب نے ایک ساتھ کہا:یہ تو امین آرہا ہے ، یہ تو امین آرہا ہے، ہم اس سے راضی ہیں،یہ معاملہ حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو حضور ﷺنے کندھے سے ردائے مبارک اتاری اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا، پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں، پہلی بڑی جماعت نے بنی عبد مناف میں عتبہ بن ربیعہ ، دوسری نے ابوزمعہ ، تیسری نے ابو حذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا، آپﷺ نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے، جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کردیا،یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپﷺ ہی کےہاتھوں سے نصب ہوگا۔ کعبہ کا کچھ حصہ حطیم کے نام سے بغیر چھت کے نیم دائرہ شکل کا باہر رکھا گیا اور دیوار دونوں طرف سے کعبہ کیساتھ غیر متصل رکھی گئی تا کہ ہر کوئی ہر وقت وہاں جا سکے، اس کے اندر جانا گویا کعبہ کے اندر جانا تھا اور معمولی معاہدہ کرنا ‘ قسم وغیرہ کھانا ہو تو اب لوگ حطیم کو استعمال کرنے لگے اور اصل کعبہ کے اندر ہفتہ میں صرف دو بار پیر اور جمعرات کو نیزخاص خاص تقریبوں کے موقع پر داخلہ دیا جانے لگا۔ جب مکعب شکل کا کعبہ تیار ہوگیا تواسی زمانہ میں بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی، کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاءکے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے، نیز بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تصویریں بھی بنائی گئیں، اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے جو تمام ہی قبائل کے تھے ،کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی دیوستھان" بنادینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دئیے گئے، مثال کے طور پر نائیلہ بنت دیک ایک حسین عورت تھی جونیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی، اسے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا، اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار اساف بن بغی بھی تھا، دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا، بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کے بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے، نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ا ن کے بت بنائے اور انہیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے، یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے۔ (مصباح الدین شکیل - سیرت احمد مجتبیٰ) آنحضرت ﷺ اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے اور ان سے بچنے کے لئے کسی پہاڑ کے دامن میں تنہا گذارا کرتے ، مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے جنھیں قوم کی یہ حرکتیں پسندنہ تھیں، وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضور ﷺ کے شریک صحبت رہتے ، ان میں بنو تیم کے حضرت ابو بکرؓ بھی تھے جو حضور ﷺ سے دو سال چھوٹے تھے، وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے، بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ نے اسلام قبول کیا، اسی طرح حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے اور حضور ﷺسے پانچ سال بڑے تھے لیکن فطری طور پر حضورﷺسے ہم آہنگ تھے، فتح مکہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا ، حضور ﷺ کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ بھی تھے جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا، بعثت کے بعد قریش نے آپ ﷺ کو مجنون مشہور کردیا تو وہ آپﷺ کے علاج کی خاطر ملنے کے لئے آئے، ان کے پوچھنے پر حضور ﷺنے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی جنھیں سن کر وہ ایمان لائے، حضرت صہیبؓ بن سنان رومی اور حضرت عماربن یاسر بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے، مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان ؓبن عفان ، زبیرؓ بن عوام، عبدالرحمنؓ بن عوف ، سعدؓ بن ابی وقاص، جعفرؓ بن ابو طالب، عبیدؓ اللہ بن جحش اور ابو سلمہؓ شامل ہیں، مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو ذرؓ بھی ہم فکر تھے، عرب کے باہر سلمان فارسی ایران سے تلاش حق میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کئے۔