انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معجزہ شق القمر شعب ابی طالب میں محصوری کے دن اسی طرح گزر رہے تھے ، محصورین صرف ایام حج میں شعب سے باہر نکل سکتے تھے،مقاطعہ کا دوسرا سال تھا اور حج کے دن تھے ، آنحضرت ﷺ بعض صحابہؓ کے ساتھ مِنیٰ میں تھے ، آسمان پر بدرِ کامل تھا، ایسے میں کفّار نے آپﷺ سے مطالبہ کیا کہ اگرآپﷺ سچے نبی ہیں تو اس چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیے، حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک کوہِ حرا کے اوپراور دوسرا اس کے دامن میں تھا، آپﷺ نے فرمایا : گواہ رہو، گواہ رہو ؛لیکن کفار نے اسے جادو کہا اور یہ بھی کہا کہ دیکھیں سفر سے آنے والے لوگ کیا کہتے ہیں، بعد میں کچھ لوگ سفر سے واپس آئے اور تصدیق کی کہ ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے ، صحابہ ؓ کرام میں حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود ، حضرت حُذیفہ ؓ ، اور حضرت جبیر بن مطعمؓ اس کے عینی شاہد ہیں، قرآن مجید میں سورۂ قمر کی ابتدائی آیات میں شق القمر کا ذکر ہے: " قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے " (سورہ قمر ۵۴:۱ تا ۲) ہندوستان کی مشہور مستند تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں اس کا ذکر موجود ہے جو انھوں نے بحوالہ کتاب " تحفۃ المجاہدین " میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ" شبِ انشقاقِ قمر" کے نام سے مقرر کی گئی۔ (صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ، سورۂ قمر، مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ معجزۂ شق القمر ۸ نبوت میں ہوا ،یہ معجزہ حضور کے سوا کسی اور پیغمبر کو نہیں عطا کیا گیا۔