انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبیداللہ بن زیاد کی مایوسی عبیداللہ بن زیا دکوتوقع تھی کہ قتلِ امام حسین علیہ السلام کے بعد میری خوب قدردانی ہوگی؛ لیکن یزید نے واقعہ کربلا کے بعد سلم بن زیاد کوخراسان کا حاکم مقرر کرکے ایران کے بعض وہ صوبے بھی جوبصرے سے تعلق رکھتے تھے سلم کے کے ماتحت کرکے اس کوکوفہ کی جانب روانہ کرکے اور ایک خط عبیداللہ بن زیاد کے نام لکھ کردیا کہ تمہارے پاس عراق کی جس قدر فوج ہے اس میں سے چھ ہزار آدمی جن کوسلم پسند کرے اس کے ساتھ کردو، عبیداللہ کویہ بات ناگوار گذری اور امام حسین علیہ السلام کے قتل پرافسوس کرنے لگا کہ اگروہ زندہ ہوتے تویزید کومیری احتیاج رہتی اور وہ میری عزت ومرتبہ کے بڑھانے میں کمی نہ کرتا؛ لیکن اب وہ بے فکر ہوگیا ہے؛ اسی لیئے اس نے ملک اور فوج دونوں میرے تصرف سے نکالنی شروع کردیں، سلم نے جب لشکر کوفہ کی موجودات لے کر سردارانِ لشکر سے کہا کہ تم میں سے کون کون میرے ہمارہ خراسان کی طرف چلنا چاہتا ہے توہرایک شخص نے جانے کی خواہش ظاہر کی، عبیداللہ بن زیاد نے رات کے وقت سردارانِ لشکر کے پاس اپنا آدمی بھیجا اور کہا کہ تعجب ہے، تم سلم کومیرے اوپر ترجیح دیتے ہو، سردارانِ لشکر نے جواباً کہلا بھجوایا کہ آپ کے پاس رہ کرتوہمیں اہلِ بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرنے کا موقع رنگنے پڑتے ہیں؛ لیکن سلم کے ساتھ جاکر ہم کوترکوں اور مغلوں کے ساتھ جہاد کرنے کا موقع ملے گا، اگلے دن سلم چھ ہزار چیدہ آدمی لشکر کوفہ سے لےکرخراسان کی جانب روانہ ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کوواقعہ کربلا کے بعد ندامت وافسوس کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔