انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۶۹۔مسروق بن اجدعؒ نام ونسب مسروق نام،ابو عائشہ کنیت،ان کے والد کا خاندانی نام اجدع اوراسلامی نام عبدالرحمن تھا، و ہ یمن کے مشہور خاندان ہمدان کے سردار اورعرب کے نامور شہسوار معدیکر ب کے عزیز تھے، نسب نامہ یہ ہے مسروق بن اجدع ،عبدالرحمن ابن مالک بن امیہ بن عبداللہ ابن مربن سلیمان بن معمر بن حارث بن سعد بن عبداللہ بن وداعہ بن عمرو بن عامر بن ناشج ہمدانی۔ اسلام مسروق نے جاہلیت اوراسلام دونوں کا زمانہ پایا،عہد رسالت میں موجودتھے،ان کے گھرانے کے اورافراد اسی عہد میں مسلمان ہوگئے تھے،خود ان کے عزیز عمرو بن معدیکرب نے مدینہ جاکر آنحضرت ﷺ کے دست حق پر ست پر اسلام قبول کیا تھا(ابن سعد،ج ۵،ص ۳۸۴)لیکن مسروق اس عہد میں اس شرف سے محروم رہے،ان کے زمانہ اسلام کا صریح تذکرہ نہیں ملتا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عہد صدیقی میں مسلمان ہوچکے تھے،ابن سعد میں خود ان کی زبانی یہ روایت ملتی ہے کہ میں نے ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔ (ایضاً) عہد فاروقی عہد فاروقی میں مسروق نمایاں نظر آتے ہیں،فاروقی عہد میں ایک مرتبہ وہ یمن کے وفد میں مدینہ آئے،حضرت عمرؓ نے ان سے نام ونشان پوچھا، انہوں نے بتایا مسروق ابن اجدع ،حضرت عمرؓ نے فرمایا اجدع شیطان ہے،تم مسروق بن عبدالرحمن ہو، اس وقت سے ان کے والد کا نام بدل گیا، ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان سے نہیں ؛بلکہ ان کے والد ہی سے نام پوچھ کر اجدع کے بجائے عبدالرحمن نام تجویز کیا تھا ،(ایضاً:۵۰) بہرحال ان دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد فاروقی میں باپ بیٹے دونوں مدینہ آئے تھے۔ مسروق یمن کے نامور شہسواروں میں تھے، عہد فاروقی میں اپنے تین بھائی عبداللہ ابوبکر اورمنتشر کے ساتھ قادسیہ کے مشہور معرکہ میں شریک ہوئے،تینوں بھائی شہید ہوئے مسروق کا لڑتے لڑتے ہاتھ شل ہوگیا اورسر میں گہرا زخم آیا،جس کا نشان ہمیشہ باقی رہا اس نشان کو وہ بہت محبوب رکھتے تھے،کہ شجاعت وجانبازی کی سند تھااور اس کا مٹ جانا ناپسند کرتے تھے۔ (ابن اثیر:۳/۱۸۵) حضرت عثمان کی حمایت لیکن ان کی یہ شجاعت وشہامت اسلام کی خدمت کے لیے اورغیروں کے مقابلہ میں تھی،مسلمانوں کی خانہ جنگی میں ان کی تلوار نیام میں رہی ،عثمانی عہد کے ہنگاموں میں انہوں نے کسی جانب سے حصہ نہیں لیا،لیکن بحیثیت خیر خواہِ اسلام کے وہ اپنے شہر(کوفہ) والوں کو اہل مدینہ کی اعانت اورحمایت پر آمادہ کرتے تھے۔ (ایضاً) حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جب جنگ جمل کی تیاریاں شروع ہوئیں اورحضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ اورعمار بن یاسرؓ کو حصولِ مدد کے لیے کوفہ بھیجا تو سب سے پہلے مسروق ان سے ملے اورعمار بن یاسرؓ سے پوچھا ابوالیقظان تم لوگوں نے عثمان کو کس بات پر شہید کردیا انہوں نے جواب دیا اپنی آبروریزی اورمار پر،مسروق نے کہا خدا کی قسم تم لوگوں نے جتنی سزا پائی تھی اس سے زیادہ انتقام لیا،اگر تم لوگوں نے صبر کیا ہوتا تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر تھا۔ (ایضاً:۳/۲۳۰) خانہ جنگی سے احتراز جنگ جمل سے خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ جنگ صفین تک جاری رہا، مسروق نے ان میں سے کسی میں حصہ نہیں لیا کوفہ حضرت علیؓ کے حامیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا،یہاں رہ کر مسروق کے لیے بچنا مشکل تھا،اس لیے وہ اپنے کو بچانے کے لیے کوفہ چھوڑ کر قزدین چلے گئے تھے۔ (ایضاً:۳/۲۳۰) شعبی کابیان ہے کہ مسروق کسی جنگ میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ نہ تھے جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم نے علیؓ کا ساتھ کیوں نہیں دیا، تو کہتے تم لوگوں کو خدا کا واسطہ دلا کر پوچھتا ہوں کہ فرض کرو کہ جب ہم لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آرا ہوں اور فریقین اسلحہ نکال کر ایک دوسرے کو قتل کررہے ہوں، اس وقت تمہاری آنکھوں کے سامنے آسمان میں کوئی دروازہ کھل جائے اوراس سے فرشتے اتر کر دونوں صفوں کے درمیان آکر کہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء:۲۹) اے وہ لوگ جو ایمان لائے ہو تم ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ پر نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری رضامندی سے تجارت سے حاصل ہو اوراپنے نفسوں کو ہلاک نہ کرو اللہ تمہارے حال پر رحیم ہے۔ توان کا یہ کہنا فریقین کے لیے جنگ سے مانع ہوگا یا نہیں،لوگ جواب دیتے ضرور ہوگا، اس وقت مسروق کہتے،خدا کی قسم تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ خدا آسمان کا دروازہ کھول چکا ہے اور اس کے راستہ سے ایک فرشتہ اتر کر تمہارے نبی ﷺ کی زبان سے یہ حکم سنا چکا ہے جو صحائف میں موجود ہے اوراس کو کسی شے نے منسوخ نہیں کیا۔ (ابن سعد:۶/۵۱،۵۲) ایک دوسری روایت میں عامر بیان کرتے ہیں کہ مسروق نے مجھ سے کہا کہ جب مومنین کی دو جماعتیں آپس میں لڑنے کے لیے صف بستہ ہوں اور اس وقت آسمان سے کوئی فرشتہ نمودار ہوکر ندا دے کہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اے ایمان والو ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔ تو تمہارا کیا خیال ہے کیا لوگ جنگ کریں گے یارُک جائیں گے میں نے کہا اگر وہ بے حس اورجامدپتھر نہیں ہیں تو ضروررک جائیں گے، یہ جواب سُن کر انہوں نے کہا تو خدا کا ایک سماوی صفی اس حکم کے ساتھ ایک ارضی صفی پر نازل ہوچکا ہے،لیکن اس کے باوجود لوگ نہ رُکے،حالانکہ ایمان بالغیب عینی مشاہدہ کے بعد کے ایمان سے بہتر ہے، ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف خو کنارہ کش رہے ؛بلکہ عام مسلمانوں کو روکنے کے لیے صفین کے میدان تک گئے اور دونوں صفوں کے درمیان میں کھڑے ہوکر یہ وعظ سنا کرلوگوں کو جنگ سے روکتے (ابن سعد،ج ۶،۵۱۵۲) لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ وہ خود نہیں شریک ہوئے اور کسی حیثیت سے بھی صفین میں نہیں گئے۔ قضات اموی دور میں کچھ دنوں قاضی رہے۔ (ایضاً:۵۵) وفات ۶۳ھ کے وسط میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے، زند گی ہمیشہ سے متوکلانہ تھی، دولت دنیا سے کبھی دامن آلود نہ ہوا تھا،قضاءت کے زمانہ میں بھی کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے (ایضاً) اس لیے کفن تک کی کوڑی نہ تھی۔ شعبی کا بیان ہے کہ مسروق نے مرتے وقت کفن تک کی قیمت نہ چھوڑی اوراس کے لیے قرض کی وصیت کی ،مگر یہ ہدایت کردی کہ زراعت پیشہ اورچرواہے سے نہ لیا جائے؛بلکہ مویشی رکھنے والے یا تجارت پیشہ سے لیا جائے،دمِ آخر بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا،خدایا میں رسول اللہ ﷺ اورابوبکرؓ وعمرؓ کی سنت کے خلاف طریقہ پر نہیں مررہا ہوں،خدا کی قسم میں نے اپنی تلوار کے علاوہ کسی انسان کے پاس کوئی سونا اورچاندی نہیں چھوڑا ہے،اسی کے ذریعہ مجھے کفنانا،غالباً اس سے تلوارکو بیچ کر روپیہ حاصل کرنے کی طرف اشارہ تھا۔ ان وصایا کے بعد سلسلہ وسط میں وفات پائی اوریہیں سپرد خاک کیے گئے،ان کی وفات کے بعد بھی ان کا روحانی فیض جاری رہا، خشک سالی کے مواقع پر خلق اللہ ان کے مزار پُر انوار پر جمع ہوکر پانی کے لیے دعا کرتی تھی اوراس کی برکت سے پانی برستا تھا۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے علمائے تابعین میں تھے،انہیں آغاز عمر ہی سے طلب علم کا ذوق تھا، شعبی کا بیان ہے کہ ان سے زیادہ علم کا طلب کرنے والا کوئی نہ تھا، خوش قسمتی سے انہیں عائشہ صدیقہؓ جیسی شفیق اورفاضلہ ماں مل گئی تھیں جو انہیں لڑکے کی جگہ سمجھتی تھیں ،مسروق کے ساتھ ان کو مادرا نہ محبت تھی، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کو متبنی بنالیا تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۲)مگر یہ صحیح نہیں ہے ،اس میں شبہ نہیں ہے کہ مسروق پر وہ غیر معمولی شفقت فرماتی تھیں اورانہیں بیٹا کہہ کر پکارتی تھیں،جب وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو شہد سے ان کی تواضع کرتی تھیں، ایک مرتبہ مسروق چند آدمیوں کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے،انہوں نے حکم دیا کہ میرے لڑکے کے لیے شہد گھولو، حضرت عائشہ کے بعد مسروق نے ابن مسعودؓ کے خرمنِ کمال سے خصوصیت کے ساتھ خوشہ چینی کی تھی اور ان کے نہایت ممتاز اصحاب میں تھے،ابن مدائنی کا بیان ہے کہ میں عبداللہ ابن مسعود کے اصحاب میں مسروق پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۲) مسروق کے ذاتی شوق وجستجو اوران دونوں بزرگوں کے فیض صحبت نے مسروق کو علماء اعلام میں بنادیا،حافظ ذہبی ان کو فقیہ اورعلمائے اعلام میں لکھتے ہیں (ابن سعد:۶/۵۲)علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت،توثیق،فضیلت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۲)مرہ کہا کرتے تھے کہ کوئی ہمدانی عورت مسروق جیسا فرزند پیدا نہ کرسکی۔ (ایضاً) حدیث وسنت حدیث وسنت میں مسروق کا علم خاصہ وسیع تھا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کانت لہ احادیث صالحۃ اس فن میں انہوں نے حضرت عائشہ اور ابن مسعودؓ کےعلاوہ حضرت ابوبکرؓ،عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، معاذ بن جبلؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ، خباب بن ارتؓ،عبداللہ بن عمرؓ،ابن عمروبن العاصؓ،مغیرہ بن شعبہؓ وغیرہ جیسے اکابر صحابہ سے فیض پایا تھا،حدیث کے ساتھ وہ سنت کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱) فقہ وفتاویٰ مسروق کا خاص فن تھا،اس میں وہ امامت واجتہاد کا درجہ رکھتے تھے وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے ان اصحاب میں تھے جن کا شغل ہی درس وافتا تھا(ایضاً:۱۱۱) افتا میں قاضی شریح ان سے مشورہ لیا کرتے تھے ،شعبی کا بیان ہے کہ مسروق افتا میں شریح سے فائق تھے وہ ان سے مشورہ لیا کرتے تھے (ابن سعد،ج۶ص۵۵)اور خود مسروق ان کے مشورہ سے بالکل بے نیاز تھے۔ (ابن سعد:۶/۵۵) قضاءت اس فقہی کمال کی بنا پر انہیں قضاءت میں خاص ملکہ تھا اوریہ مشغلہ ان کے پسند خاطر بھی تھا،قاضی شریح کا فیصلوں میں ان سے مشورہ لینا اس کی سب سے بڑی سند ہے اوپر گزرچکا ہے وہ اموی دور میں کچھ دنوں قاضی بھی رہے انہیں قضاء سے اس قدر ذوق تھا کہ کہا کرتے تھے کہ مجھے کسی قضیہ میں صحیح اور حق کے موافق فیصلہ کرنا ایک سال کے جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ پسند ہے۔ (ابن سعد:۶/۵۵) فضائل اخلاق علم کے ساتھ مسروق عمل اورفضائل اخلاق کے زیور سے بھی آراستہ تھے ۔ خشیت الہیٰ تمام محاسن اخلاق کا سرچشمہ خشیت الہی ہے مسروق اہل علم خوفِ خدا کو سمجھتے تھے اوراس کے مقابلہ میں غرور عمل کو جہل تصور کرتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ انسان کے لیے یہ علم کافی ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا رہے اورجہل یہ ہے کہ اپنے علم پر غرور کرے۔ (ایضاً:۵۴) عبادت وریاضت عابد مرتاض تھے،بڑی ریاضت کرتے تھے،نمازوں کی کثرت سے دونوں پاؤں ورم کرآتے تھے،خاص خاص زمانوں میں ان کی عبادت اورزیادہ بڑھ جاتی تھی،طاعون کی وباء کے زمانے میں وہ عبادت کے لیے گوشہ تنہائی اختیار کرلیتے تھے،بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا تھا کہ طاعون کی وجہ سے ہٹ گئے ہیں؛حالانکہ اس کی غرض محض عبادت ہوتی تھی،انس ابن سیرین کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ مسروق طاعون سے بھاگتے تھے، لیکن محمد کو اس کا یقین نہ آیا، انہوں نے کہا ان کی بیوی سے چل کر پوچھنا چاہئے؛چنانچہ ہم لوگوں نے جاکر ان سے پوچھا، انہوں نے کہا خدا کی قسم ایسا نہیں ہے، وہ کبھی بھی طاعون سے نہیں بھاگتے تھے؛البتہ جس زمانہ میں طاعون کی وبا پھیلتی تو وہ کہتے کہ یہ شغل و ذکر کے ایام ہیں میں چاہتا ہوں کہ تنہائی میں عبادت کروں ؛چنانچہ وہ عبادت کرنے کے لیے گوشۂ خلوت اختیار کرلیتے تھے اوراپنے نفس کے اوپر ایسی سختیاں کرتےتھے کہ بسا اوقات میں ان کی حالت دیکھ کر ان کے پیچھے بیٹھ کر روتی تھی (ابن سعد:۶/۵۴) حج کے زمانہ میں جب تک مکہ میں رہتے اس وقت سجدہ ہی میں سوتے رہتے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۳) توبہ واستغفار وہ اپنے نفس کا محاسبہ اورگناہوں کو یاد کرکے ان کے لیے استغفار کرنا ضروری سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ انسان کے لیے ایسی مجالس ہونی چاہیے جن میں بیٹھ کر و ہ اپنے گناہوں کو یاد کرکے خدا سے استغفار کرتے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۳) دنیا کی حقیقت ان کی نگاہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہ تھی،وہ اس کو ایک مزبلہ سے زیادہ وقعت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ اپنے بھتیجے کا ہاتھ پکڑ کر ایک مزبلہ لے گئے اور فرمایا میں تم کو دنیا دکھاؤں،دیکھو یہ دنیا ہے کہ اس کو کھاکر دفنادیا،پہن کر پرانا اور بوسیدہ کردیا، سوار ہوکر لاغر کردیا، اس کے لیے خون بہایا، محارم اللہ کو حلال اور رحم کو قطع کیا۔ (ایضاً:۵۵) دنیاسے بے تعلقی اس لیے دنیا کی جانب ان کا دل کبھی مائل نہ ہوا اورکسی دنیاوی شے میں ان کے لیے کوئی کشش نہ تھی،حضرت سعید بن جبیرؓ ان کے ہم مذاق وہم مشرب تھے ان میں اور مسروق میں راز ونیاز کی باتیں ہوا کرتی تھیں،ابن جبیر کا بیان ہے کہ مسروق نے ایک مربتہ مجھ سےکہا، سعید ابن جبیر کوئی ایسی شے نہیں جس کی جانب میلان خاطر باقی ہو بجز اس کے کہ اپنے چہروں کو اسی مٹی میں آلودہ کریں۔ (ابن سعد:۶/۱۲۶) دولتِ دنیا سے بے نیازی اس دل شکستگی کی وجہ سے وہ دولتِ دنیا سے ہمیشہ بے نیا ز رہے لوگ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے،لیکن وہ قبول نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ خالد بن اسید نے ان کے پاس تیس ہزار کی رقم بھیجی، انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کردیا، ان کے اعزہ نے بہت سمجھا یا کہ لے لیجئے اس صدقہ کیجئے گا ،عزیزوں کے ساتھ سلوک کیجئے گا اور اس قبیل کے دوسرے کاموں میں لائیے گا مگر انہوں نے کسی طرح قبول نہ کیا۔ (ایضاً:۵۳) توکل وقناعت اس بے نیازی کی وجہ سے کبھی کبھی فاقہ کی نبوت آجاتی تھی،لیکن توکل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا،ایک مرتبہ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا عائشہ کے باپ آج تمہارے بال بچوں کے کھانے کو کچھ نہیں ہے،یہ سن کر مسروق مسکرائے اورکہا خدا کی قسم وہ ضرور ان کے لیے رزق کا انتظام کرے گا۔ (ایضاً) انفاق فی سبیل اللہ اس قناعت اورتوکل کے باوجود بڑے فیاض اورسیر چشم تھے،جب انہیں کوئی رقم ہاتھ آجاتی تھی تو اس کو خدا کی راہ میں صرف کردیتے تھے،اپنی لڑکی کی شادی سائب بن اقرع کے ساتھ کی اوران سے مہر کے علاوہ دس ہزار اپنے لیے حاصل کیے یہ کل رقم مجاہدین فی سبیل اللہ مساکین اور مکاتب غلاموں کی آزادی کے لیے مخصوص کردی تھی۔ (ایضاً:۵۳) احتیاط اتنے محتاط تھے کہ ادنی ادنی باتوں میں احتیاط ملحوظ رکھتے تھے، جب کشتی پر سوار ہونے لگتے تو طہارت کے خیال سے ایک اینٹ ساتھ لےلیتے ،جس پر سجدہ کرتے ،جس کا کوئی کام ان سے نکلتا تھا،اس سے ہدیہ تک قبول نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی معاملہ میں ایک شخص کی سفارش کی،ا س نے شکر یہ میں ایک لونڈی لاکر پیش کی، یہ اسے دیکھ کر سخت برہم ہوئے اورکہا اگر مجھے پہلے تمہارے اس خیال کا علم ہوتا تو میں کبھی تمہاری سفارش نہ کرتا، جتنی سفارش کرچکا وہ کرچکا،اب جتنی ضرورت اورباقی رہ گئی ہے،اس کے بارے میں میں کچھ نہ کہوں گا، میں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے سنا ہے کہ جو شخص کسی کا حق دلانے یا ظلم کے انسداد کے لیے کسی کی سفارش کرے اور اس کے معاوضہ میں اس کو ہدیہ دیا جائے اور سفارش کرنے والا قبول کرلے تو وہ ہدیہ اس پر حرام ہے۔