انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** زکوۃ کی ادائیگی کے اعتبار سے قرض کی قسمیں warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. زکوۃ کی ادائیگی کے اعتبار سے قرض کی تین قسمیں ہیں: (۱) دَین قوی، (۲) دَین متوسط، (۳) دَین ضعیف (۱) دَین قوی: وہ قرض اور مال تجارت کا بدل ہوتا ہے ، جب کہ مقروض قرض کا اعتراف کرتا ہو، اگرچہ وہ مفلس ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر قرضدار انکار کررہا ہو، لیکن قرض خواہ انکار کرنے والے قرضدار پر بینہ (دلیل) قائم کرسکتا ہو۔حوالہ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ : أَخَذَ الوَلِيدِ بن عَبْدِ الْمَلِكِ مَالَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الرَّقَّةِ يُقَالُ لَهُ : أَبُو عَائِشَةَ عِشْرِينَ أَلْفًا ، فَأَلقَاهَا فِي بَيْتِ الْمَالِ ، فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَتَاهُ وَلَدُهُ ، فَرَفَعُوا مَظْلِمَتَهُمْ إلَيْهِ ، فَكَتَبَ إلَى مَيْمُونٍ : ادْفَعُوا إلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ، وَخُذُوا زَكَاةَ عَامِهِ هَذَا ، فَلَوْلا أَنَّهُ كَانَ مَالاً ضِمَارًا أَخَذْنَا مِنْهُ زَكَاةَ مَا مَضَى (مصنف ابن ابي شيبة مَا قَالُوا فِي الرَّجُلِ يَذْهَبُ لَهُ الْمَالُ السِّنِينَ ثُمَّ يَجِدُهُ ، فَيُزَكِّيه ؟: ۲۰۲/۳) ولو كان الدين على مقر ملئ أو معسر تجب الزكاة لإمكان الوصول إليه ابتداء أو بواسطة التحصيل وكذا لو كان على جاحد وعليه بنية أو علم به القاضي لما قلنا (الهداية كتاب الزكاة: ۹۵/۱)فالقوي:هو بدل القرض ومال التجارة كثمن العروض التجارية، إذا كان على مقرٍّ به ولو مفلساً ، أو على جاحد عليه بينة، (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳)۔ بند مسئلہ: اگردَین قوی ہو تو قرض خواہ پر زکوۃ نکالنا اس وقت ضروری ہوگا کہ جب چالیس درہم پر قبضہ کرلے، پھر جب چالیس درہم پر قبضہ کرے تو زکوٰۃ میں ایک درہم نکالے ،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر وہ چالیس درہم سے کم پر قبضہ کرے تو اس پر کچھ نکالنا واجب نہیں،امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبضہ شدہ کم ہو یا زیادہ زکوۃ واجب ہوگی۔حوالہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ :زَكُّوا مَا كَانَ فِى أَيْدِيكُمْ ، وَمَا كَانَ مِنْ دَيْنٍ فِى ثِقَةٍ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ مَا فِى أَيْدِيكُم (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مُعْسِرٍ أَوْ جَاحِدٍ ۷۸۷۴) بند مسئلہ: دَین قوی میں سال کا اعتبار اس وقت سے ہوگا جس وقت وہ نصاب کا مالک ہواہو، اس وقت سے نہیں جس وقت وہ قرض پر قبضہ کرے ، چنانچہ گذشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی قبضہ کے بعد ہی لازم ہوگی۔ حوالہ عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالاَ :مَنْ أَسْلَفَ مَالاً فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ فِى كُلِّ عَامٍ إِذَا كَانَ فِى ثِقَةٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مَلِىٍّ مُوَفِّى ۷۸۷۰) فَتَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ إلَّا أَنَّهُ لَا يُخَاطَبُ بِالْأَدَاءِ لِلْحَالِ لِعَجْزِهِ عَنْ الْأَدَاءِ لِبُعْدِ يَدِهِ عَنْهُ وَهَذَا لَا يَنْفِي الْوُجُوبَ كَمَا فِي ابْنِ السَّبِيلِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ: ۴۰۰/۳)۔ بند (۲) دَین متوسط: وہ دَین تجارت تو نہیں ہوتا، بلکہ اپنے حوائج اصلیہ میں سے بیچی ہوئی چیز کی قیمت ہوتی ہے جیسے رہائش کا گھر، پہننے کے کپڑے ، غذائی چیزیں اور خریدار کے ذمہ باقی ماندہ قیمت۔حوالہ والمتوسط:هو بدل ما ليس للتجارة أي ما ليس دين تجارة كثمن دار السكنى وثمن الثياب المحتاج إليها، (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳) بند مسئلہ: دَین متوسط میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی جب کہ وہ اس پر مکمل قبضہ کرلے، اگر قرضدار کے ذمہ مثلا ہزار درہم ہوں اور وہ ان میں سے دو سو درہم پر قبضہ کرے تو پانچ درہم نکالنے واجب ہوں گے۔۔حوالہ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳) بند امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر نصاب سے کم مال پر قابض ہو تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبضہ شدہ میں خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ زکوۃ واجب ہوگی، دَین متوسط میں سال کے گذرنے کا اعتبار اسی وقت سے ہوگا جس وقت وہ نصاب کا مالک ہوا ہو، نہ کہ قبضہ کے وقت، اور گذشتہ سالوں کی زکوۃ واجب ہوگی، لیکن اسکی ادائیگی قبضہ کے بعد ہی لازم ہوگی۔حوالہ عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالاَ :مَنْ أَسْلَفَ مَالاً فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ فِى كُلِّ عَامٍ إِذَا كَانَ فِى ثِقَةٍ. (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مَلِىٍّ مُوَفِّى ۷۸۷۰) عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ ۵۶۳) فَتَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ إلَّا أَنَّهُ لَا يُخَاطَبُ بِالْأَدَاءِ لِلْحَالِ لِعَجْزِهِ عَنْ الْأَدَاءِ لِبُعْدِ يَدِهِ عَنْهُ وَهَذَا لَا يَنْفِي الْوُجُوبَ كَمَا فِي ابْنِ السَّبِيلِ (بدائع الصنائع فَصْلٌ الشَّرَائِطُ الَّتِي تَرْجِعُ إلَى الْمَالِ: ۴۰۰/۳) بند (۳) دَین ضعیف:یہ مال کے علاوہ کسی دوسری چیز کے مقابلہ میں ہوتا ہے ، جیسے عورت کا مہر، اس لئے کہ مہر ايسے مال کے بدلہ میں نہیں ہوتا جسےشوہر نے بیوی سے ليا ہو، اس طرح دین خلع، دين وصيت ،دَین صلح عن دم العمد (جان بوجھ کر قتل کر کے مقتول کے وارثوں سے پیسوں کی ایک مقدار پر صلح کرنا) اور دَین ضعیف میں زکوٰۃ کی ادائیگی اسی وقت ضروری ہوتی ہے جبکہ مکمل نصاب کا مالک ہواور قبضہ کے بعد اس پر سال گذرا ہو ، دَین ضعیف میں گزشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوتی ۔حوالہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ … وَمَا كَانَ مِنْ دَيْنٍ ظَنُونَ فَلاَ زَكَاةَ فِيهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ (السنن الكبري للبيهقي باب زَكَاةِ الدَّيْنِ إِذَا كَانَ عَلَى مُعْسِرٍ أَوْ جَاحِدٍ ۷۸۷۴) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي الذَّهَبِ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ (ابوداود بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ ۱۳۴۲)والضعيف:هو بدل ما ليس بمال، كالمهر والميراث والوصية وبدل الخلع والصلح عن دم العمد، والدية، فإن المهر ليس بدلاً عن مال أخذه الزوج من زوجته، وكذا بدل الخلع ليس بدلاً عن مال تدفعه الزوجة لزوجها. ومثله دين الوصية، والدية وبدل الصلح، والميراث (الفقه الاسلامي وادلته زكاة الدين ۱۹۲/۳) بند