انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** طلیحہ اسدی طلیحہ ایک کاہن تھا، پھر اسلام میں داخل ہوا آخر زمانہ حیات نبوی میں مردود ہوکر خود مدعی نبوت بن بیٹھا،بنی اسرائیل کے بعض قبائل اس کی جماعت میں داخل ہوگئے، اس کی سرکوبی کے لئے حضرت ضرار بن الازورؓ روانہ ہوئے تھے، ابھی وہ اپناکام ختم نہ کرچکے تھے کہ وفاتِ نبوی کی خبر مشہور ہوئی، اورحضرت ضرار اس مہم کو نا تمام چھوڑ کر معہ اپنے ہمراہیوں کے مدینہ کی طرف آئے،طلیحہ کو اس فرصت میں اپنی حالت درست کرنے اور جمعیت کے بڑھانے کا خوب موقع ملا، عطفان وہوازن وغیرہ کے قبائل جوذی القصہ وذی خشب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شکست کھا کر بھاگے تھے،طلیحہ کے پاس پہنچے تھے اور اس کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے،نجد کے مشہور چشمۂ بزاخہ پر طلیحہ نے اپنا کیمپ قائم کیا،اور یہاں غطفان ہوازن ،بنو عامر، بنو طے وغیرہ قبائل کا اجتماع عظیم اس کے گرد ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب گیارہ سردار منتخب فرما کر روانہ کرنا چاہے تو حضرت عدی بن حاتمؓ مدینہ منورہؓ میں موجود تھے،وہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی روانگی سے پہلے اپنے قبیلہ طے کی طرف روانہ ہوئے اوراُن کو سمجھا کر اسلام پر قائم کیا،اس قبیلہ کے جو لوگ طلیحہ کے لشکر میں شامل تھے،اُن کے پاس قبیلۂ طے کے آدمیوں کو بھیجا کہ خالدؓ کے حملہ سے پہلے اپنے قبیلہ کو وہاں سے بلوالو ؛چنانچہ بنی طے کے سب آدمی طلیحہ کے لشکر سے جُدا ہوکر آگئے اور سب کے سب اسلام پر قائم ہوکر حضرت خالد بن ولیدؓ کے لشکر میں جو قریب پہنچ چکا تھا شامل ہوگئے،حضرت خالد بن ولید نے بزاخہ کے میدان میں پہنچ کر لشکر طلیحہ پر حملہ کیا، جنگ وپیکار اورعام حملہ کے شروع ہونے سےپیشتر لشکر اسلام کے دو بہادُرحضرت عکاشہ بن حصنؓ اورثابت بن اقرمؓ انصاری جو طلایہ گردی کی خدمت پر مامور تھے دشمنوں کے ہاتھ سے شہید ہوگئے تھے ،حضرت خالد بن ولیدؓ نے ثابت بن قیسؓ کو اوربنی طے پر عدیؓ بن حاتم کو سردار مقرر کرکے حملہ کیا ،طلیحہ کے لشکر کی سپہ سالاری اُس کا بھائی خیال کرہا تھا اورطلیحہ ایک چادر اوڑھے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے الگ ایک طرف وحی کے انتظار میں بیٹھا تھا، لڑائی خوب زور شور سے جاری ہوئی۔ جب مرتدین کے لشکر پر کچھ پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے تو طلیحہ کے لشکر کا ایک سردار عینیہ بن حصن طلیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ کوئی وحی نازل ہوئی یا نہیں؟ طلیحہ نے کہا ابھی نہیں ہوئی پھر تھوڑی دیر کے بعد عینیہ نے دریافت کیا اور وہی جواب پایا،پھر میدان پر جاکر لڑنے لگا اب دم بدم مسلمان غالب ہوتے جاتے تھے اور مرتدین کے پاؤں اکھڑنے لگے تھے، عینیہ تیسری مرتبہ پھر طلیحہ کے پاس گیا اور وحی کی نسبت پوچھا تو اس نے کہا کہ ہاں جبرئیل میرے پاس آیاتھا،وہ کہہ گیا ہے کہ تیرے لئے وہی ہوگا، جو تیری قسمت میں لکھاہے،عینیہ نے یہ سن کر کہا کہ لوگو! طلیحہ جھوٹا ہے،میں تو جاتا ہوں ،یہ سنتے ہی مرتدین یک لخت بھاگ پڑے،بہت سے مقتول،بہت سے مفرور اوربہت گرفتار ہوئے ،بہت سے اُسی وقت مسلمان ہوگئے،طلیحہ معہ اپنی بیوی کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے بھاگا اورملکِ شام کی طرف جاکر قبیلہ قضاعہ میں مقیم ہوا، جب رفتہ رفتہ تمام قبائل مسلمان ہوگئے اور خود اس کا قبیلہ بھی اسلام میں داخل ہوگیا تو طلیحہ بھی مسلمان ہوکر حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں مدینے آیا اوراُن کے ہاتھ پر بیعت کی ،عینیہ بن حصن بھی گرفتار ہوکر حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے آیا، اس کو حضرت خالدؓ نے صدیق اکبرؓ کے پاس مدینہ میں بھیج دیا، حضرت صدیق اکبرؓ نے اسلام پیش کیا اس نے نہایت سختی ودرشتی سے انکار ی جواب دیا؛چنانچہ وہ مقتول ہوا۔ مقام بزاخہ پر لشکرِ طلیحہ جب شکست کھا کر بھاگا ہے تو مفروروں میں غطفان سلیم وہوازن وغیرہ قبائل کے لوگ مقام حواب میں جاکر مجتمع ہوئے، اورسلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر بن ظفر کو اپنا سردار بنایا اورمقابلہ کی تیاری میں مصروف ہوئے ،حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ اس طرف متوجہ ہوئے،سلمیٰ اپنے لشکر کو لے کر مقابلہ پر آئی اورایک ناقہ پر سوار ہوکر خود سپہ سالاری کی خدمت انجام دینے لگی، حضرت خالد بن ولیدؓ نے حملہ کیا،سخت مقابلہ ہوا ،سلمیٰ کے ناقہ کی حفاظت میں سو آدمی مرتد ین کے مقتول ہوئے،آخر سلمیٰ کا ناقہ زخمی ہوکر گرا اورسلمیٰ مقتول ہوئی،اُس کے مقتول ہوتے ہی مرتدین سےمیدان خالی ہوگیا یہاں یہ ہنگامہ برپا تھا۔ اُ دھر مدینہ منورہ میں بنو سلیم کا ایک سردار الفجات بن عبد یالیل حضرت ابوبکرصدیقؓ کی خدمت میں پہنچااور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوں آپ آلات حرب سے میری مدد کریں میں مرتدین کا مقابلہ کروں گا، حضرت صدیق اکبرؓ نے اُس کو اوراس کے ہمراہیوں کو سامان حرب عطا کرکے مرتدین کے مقابلہ کو بھیجااس نے مدینہ سےنکل کر اپنے ارتداد کا اعلان کیا اوربنو سلیم بنو ہوازن کے ان لوگوں پر جو مسلمان ہوگئے تھے شب خون مارنے کو بڑھا،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس حال سے آگاہ ہوکر عبداللہ بن قیس کو روانہ کیا انہوں نے ان دھوکہ باز مرتدین کو راستہ ہی میں جالیا بعد مقابلہ و مقاتلہ الفجاۃ بن عبد یالیل گرفتار ہوکر صدیق اکبرؓ کے سامنے مدینہ میں حاضر کیا گیا اور مقتول ہوا۔