انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ثابتؓ بن ضحاک نام ونسب ثابت نام، ابوزید کنیت،قبیلہ اشہل سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے ثابت بن ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ بن عدی بن کعب بن عبدالاشہل بعثت نبوی کے تیسرے سال تولد ہوئے، بعض لوگ نے ۳ھ سال ولادت قرار دیا ہے،لیکن یہ قطعا غلط ہے۔ غزوات غزوۂ احمرالاسد میں شریک تھے،خندق میں آنحضرتﷺ کے ساتھ سوار تھے اورصحیح مسلم کی روایت کے بموجب بیعت رضوان میں شرکت کی تھی ،ابن مندہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے ان کی شرکت بدر تسلیم کی ہے عجب نہیں کہ یہ خیال صحیح ہو، ترمذی نے بھی بدر میں شریک ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ ابن سعد کی روایت کے بموجب غزوۂ احد کی شرکت بھی ثابت ہوتی ہے ؛کیوں کہ انہوں نے حمراء الاسد کے ذکر میں ضمناً یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس غزوہ میں صرف وہی لوگ شریک تھے جنہوں نے غزوہ احد میں شرکت کی تھی۔ (طبقات :۳۴) لیکن ہمارے نزدیک یہ تمام روایتیں ناقابل اعتبار ہیں، کیونکہ جہاد کی شرکت کے لئے ۱۵ سال کا سن ضروری تھا اورجیسا کہ اوپر معلوم ہوا حضرت ثابتؓ کا سال ولادت ۳ نبوی ہے اس بنا پر ہجرت کے وقت ان کی عمر کم و بیش۱۰ سال تھی۔ غزوہ بدر ۲ ھ اور غزوہ احد ۳ھ میں ہوا، اس لئے اس وقت ان کا سن ۱۲،۱۳ سال کا تھا، جو جہاد کے لئے ناکافی ہے،بخاری میں عبداللہ بن عمر سے روایت آئی ہے کہ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً فَلَمْ يُجِزْهُ وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَأَجَازَهُ (بخاری،باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب،حدیث نمبر:۳۷۸۸) وہ احد میں چودہ سال کے تھے،آنحضرتﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی؛ لیکن دوسرے سال خندق میں پندرہ سال کےتھے، اس بنا پر آنحضرتﷺ نے اجازت دے دی۔ حضرت براء بن عازبؓ کے متعلق بھی اسی قسم کی روایت ہے ان روایتوں کی موجودگی میں جو صحیح سندسے ثابت ہیں دوسری روایتوں پر کسی طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک بدر واحد کے بجائے ان کا پلا غزوہ خندق تھا اور حمراء الاسد میں لڑنے کے بجائے دوسرے کاموں کے لئے منتخب ہوئے تھے؛چنانچہ مصنف اصابہ لکھتے ہیں۔ وکان لیلہ الی احمراء الاسد (کتاب مذکور:۱/۲۰۱) یعنی وہ آنحضرتﷺ کو حمراء الاسد کا راستہ بتاتے تھے۔ وفات عہد نبوی ﷺ کے بعد شام کی سکونت اختیار کی پھر وہاں سے بصرہ چلے گئے،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے عہد خلافت میں انتقال فرمایا، بعضوں نے ۶۴ھ کی تصریح کی ہے۔ اولاد ایک بیٹا چھوڑا، زید نام تھا، اسی بنا پر بعض نے ان کو حضرت زید بن ثابت صحابی مشہور کا والد سمجھا ہے،لیکن یہ غلطی ہے،زید بن ثابتؓ کے والد جاہلیت میں فوت ہوئے اورکفر کی حالت میں مارے گئے ،اس کے ماسواء زید خود ان کے ہمسن تھے اوراس بنا پر یہ ان کے باپ کیونکر ہوسکتے ہیں۔ یہ خیال اس لحاظ سے بھی ناقابل التفات ہے کہ ابو قلابہ نے ان سے یہ روایتیں کی ہیں اور ابو قلابہؓ ۶۴ھ سے پیشتر کسی طرح روایت کے قابل نہیں ہوسکتے تھے، کیونکہ انہوں نے ۶۹ ھ کے بعد تحصیل میں قدم رکھا تھا اورحضرت زید بن ثابتؓ کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ ۴۸ھ میں فوت ہوچکے تھے۔ فضل وکمال حضرت ثابتؓ کے سلسلۂ سے جو روایتیں مروی ہیں ان کی تعداد ۱۴ ہے، راویوں کے زمرہ میں ابو قلابہ اورعبدالرحمن بن معقل داخل ہیں۔