انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تدبیر وسیاست امیر معاویہؓ کی فہرست کمال میں سب سے زیادہ نمایاں تدبیر وسیاست ہے یہ استعداد ان میں فطری تھی لیکن علمی اور فنی حیثیت سے انہوں نے اس استعداد کو اورچمکایا تھا؛چنانچہ وہ روزانہ ایام عرب ،اخبار عرب، اخبار عجم اور سلاطین کے حالات ،ان کے طریق جہانبانی اوردوسری اقوام کے سلاطین ،ان کی لڑائیوں،ان کی سیاسی چالوں اوررعایا کے ساتھ ان کی پالیسی اوردوسری گذشتہ قوموں کے حالات عروج وزوال سنتے تھے۔ (مروج الذہب:۲/۴۲۵) تاریخ کی ابتدائی داغ بیل ان ہی کے زمانہ میں پڑی اس وقت تک تاریخ کی تدوین کی طرف کسی خلیفہ نے توجہ نہیں کی تھی،سب سے پہلے امیر معاویہؓ کو اس کا خیال ہوا؛چنانچہ انہوں نے اس عہد کے ایک بڑے اور باخبر عالم عبید بن شربہ سے تاریخ قدیم کی داستانیں ،سلاطین عجم کے حالات انسان کی بولی پھوٹنے کی تاریخ اوراس کے مختلف ملکوں اورمقامات پر پھیلنے کے واقعات سن کر ان کو قلمبند کرنے کا حکم دیا۔ (فہرست ابن ندیم ،صفحہ۱۲۲،طبع مصر) ان رسمی علوم کے علاوہ امیر معاویہؓ کے صحیفہ کمال کا سب سے روشن باب ان کی فطری سیاست اوردانشوری ہے،تمام مورخین انہیں اپنے زمانہ کا سب سے بڑا مدبر سیاست دان اوربیدار مغز فرما روا مانتے تھے،علامہ فخری لکھتے ہیں کہ معاویہ دنیا کے سمجھنے والے فہیم ،علیم اورقوی بادشاہ تھے، سیاست اورتدبر میں ممتاز درجہ رکھتے تھے (الفخری:۹۵) ان کے عہد میں تمام بڑے بڑے اکابران کی سیاست ودانائی کے معترف تھے،حضرت عمرؓ جو خود سیاست اورتدبر میں یگانہ تھے،معاویہ کو "کسرائے عرب" کہتے تھے (طبری:۷/۱۹۷،الفخری:۱۰۳)سعید مقبری راوی ہیں کہ عمرؓ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ معاویہ کے ہوتے ہوئے کسریٰ اور قیصر اوران کے تدبر کا تذکرہ کرتے ہو (اسد الغابہ:۳/۲۲۳) حضرت عمرؓ جیسے شخص کو یہ اپنی زبان آوری اور تدبیروں سے چپ کرادیتے تھے،حضرت عمرؓ نے جب شام کا سفر کیا تو امیر معاویہؓ بڑے خدم وحشم کے ساتھ ان کے استقبال کو نکلے، اس شان وشکوہ پر حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ تم صبح و شام خدم وحشم کے ساتھ نکلتے ہو، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم چین سے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے ہو اورتمہارے دروازہ پر حاجتمندوں کا ہجوم رہتا ہے، امیر معاویہؓ نے برجستہ کہا امیر المومنین !یہاں ہمارے دشمن ہم سے قریب رہتے ہیں اوران کے جاسوس لگے رہتے ہیں، اس لئے چاہتا ہوں کہ وہ لوگ اسلام کو باعزت دیکھیں، یہ عذر سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا ! تمہارا بیان عقلمند آدمی کا فریب ہے، معاویہ نے کہا پھر جیسا فرمائیے ویسا کیا جائے، حضرت عمرؓ نے زچ ہوکر جواب دیا معاویہ جب میں تم سے بحث کرتا ہوں یا تم پر نکتہ چینی کرتا ہوں تو تم مجھے ایسا لاجواب کردیتے ہو کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کو اس بات کا حکم دوں یا منع کروں۔ (طبری:۷/۲۰۷) حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو امیر معاویہ سے بڑا سردار نہ پایا کسی نے پوچھا اور ابوبکرؓ ،عمرؓ،عثمانؓ علیؓ، جواب دیا ! خدا کی قسم یہ لوگ امیر معاویہ سے بہتر تھے؛ لیکن امیر معاویہ میں سرداری ان سے زیادہ تھی (استیعاب:۱/۲۶۲) امیر معاویہؓ کے مخالف ان کے اس وصف کے معترف تھے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو امیر معاویہؓ کے شدید مخالفتوں میں تھے وہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو امیر معاویہؓ سے زیادہ حکومت کے لئے موزوں نہیں پایا۔ (طبری:۷/۲۱۵) ذاتی فضیلت اوراستحقاق خلافت میں امیر معاویہ اورحضرت علیؓ کا کوئی مقابلہ نہ تھا، ان کو آپ کے مقابلہ میں صرف پولٹیکل تدبیروں سے کامیابی حاصل ہوئی ان کے فہم وتدبر کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جب پہلی مرتبہ ان کا مدینہ جانا ہوا تو وہ تعزیت کے طور پر ان کے گھر گئے، انہیں دیکھ کر حضرت عثمانؓ کی صاحبزادی اپنے پدر بزرگوار کو یاد کرکے رونے لگیں،معاویہؓ کے ساتھ بہت سے عماید قریش بھی تھے جن کو اس واقعہ سے بد گمانی ہوئی، اس لئے امیر معاویہؓ نے ان لوگوں کو واپس کردیا اور عائشہ سے کہا بیٹی ان لوگوں نے میری اطاعت قبول کرلی ہے؛ لیکن ابھی تک ان کے دلوں میں کینہ ہے اورہم نے بھی ان کی اطاعت کی وجہ سے حلم اوردرگذر سے کام لیا ہے؛ لیکن ہمارے دل میں بھی ان کے خلاف غم وغصہ موجود ہے، اس لئے یہ سودا برابر کا ہے اوران کی حامی جماعت بھی موجود ہے اب اگر ہم ان کی اطاعت کے معاوضہ میں ان کے حقوق نہ ادا کریں اوران سے بد عہدی کریں گے تو وہ بھی ہم سے بد عہدی کریں گے اوردونوں میں مقابلہ ہوجائے گا جس کا انجام معلوم نہیں کیا ہو(البدایہ والنہایہ،۸/۱۳۲) اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ غرض سیاست وتدبیر، حکومت و فرما نروائی ،جہانبانی وکشور کشائی کے اوصاف جلیلہ میں ان کا کوئی معاصر ،ان کا حریف نہ تھا، تم ان کی پوری تاریخ پر نظر ڈال جاؤ اس کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوگی۔