انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ بنو مصطلق یا مریسیع(شعبان۵ہجری) بنو مصطلق قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ تھے، مکہ کے قریب قدید کے نواحی ساحل پر ایک کنواں تھا جو مریسیع کے نام سے مشہور تھایہ مدینہ سے نو منزل کے فاصلہ پر تھا ،یہاں بنوخزاعہ کا ایک شخص جس کانام جزیمہ بن سعد اور لقب مصطلق تھا آباد ہوا، اس کے نام پر یہ قبیلہ بنو مصطلق کہلانے لگا، یہ قریش کا حلیف تھا اس کے سردارحارث بن ابی ضرار نے از خود یا اپنے حلیف کے اشارہ سے مدینہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا،یہ اطلاع مدینہ پہونچی تو آنحضرت ﷺنے حضرت بریدہ ؓ بن خصیب اسلمی اور بہ روایت دیگر حضرت زیدؓ بن خصیب کو تصدیق کے لئے روانہ فرمایا، انھوں نے واپس آکران کے ارادوں کی تصدیق کی۔ اس خبر کی تصدیق ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ ۲ شعبان ۵ھ یوم دوشنبہ کو بنو مصطلق کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے ، مدینہ میں اپنا نائب حضرت زیدؓ بن حارثہ اور بروایت دیگر حضرت ابو ذر ؓ غفاری کو مقرر فرمایا، مہاجرین کاپرچم حضرت ابو بکر ؓ صدیق کو اور انصار کا پرچم حضرت سعدؓ بن عبادہ کو عطا فرمایامقدمۃ الجیش پر حضرت عمرؓ فاروق کو مقرر فرمایا، آپﷺ کے ہمراہ تقریباً ایک ہزار مجاہدین کا لشکر تھا جس میں تیس گھڑ سوار تھے۔ ( دس مہاجرین اور بیس انصار) ابن ہشام کے بیان کے مطابق اس غزوہ میں مسلمانوں نے اپنا شعار کوڈ ورڈ (Code Word) " یا منصور اَمث اَمث" بنا لیا تھا ( منصور جس کی مدد کی گئی ہو اور اَمث مارو) منافقین بھی مجاہدین کے ساتھ شریک ہوگئے تھے، حالانکہ کبھی بھی کسی غزوہ میں اتنی تعداد میں شریک نہیں ہوئے تھے، اُمہات المومنین میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اُم سلمہؓ ساتھ تھیں، بعض مورخوں نے اس غزوہ کو ۶ ہجری میں بتلایا ہے لیکن زیادہ صحیح ۵ ہجری ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بطور جنگی حکمت عملی بنوسلمہ کے محلہ سے ہو کرشام کی راہ اختیار فرمائی، ایک دن اسی سمت پر چلتے رہے ، پڑاؤ کے بعد اپنا رُخ تہامہ کے علاقہ کی طرف پھیر دیا ، صخیرات کی راہ سے مڑ کر بنو مصطلق کے ٹھکانوں پر پہونچ گئے، راستہ میں ایک جاسوس پکڑا گیا جسے حضرت عمرؓ نے گرفتار کر کے قتل کر دیا، اس اطلاع سے دشمن پر رعب طاری ہوا اور دوسرے جمع شدہ قبائل منتشر ہو گئے ، بے خبری کی حالت میں وہ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے کہ اچانک مسلمانوں نے حملہ کر دیا، دیر تک تیروں سے مقابلہ ہوتا رہا جس کے بعد حارث اور اس کے قبیلہ کے لوگ بھاگ گئے ، دشمن کے دس آدمی قتل ہوئے ، گرفتار ہونے والوں کی تعداد چھ سو تھی جس میں مرد اور عورتیں شامل تھے جن میں سردار کی بیٹی برّہ( جویریہ ) بھی تھیں ، مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ملیں ، مسلمانوں میں سے کوئی شہید نہیں ہوا البتہ غلطی سے حضرت ہشام ؓ بن صبابہ ( جو بنی کلب بن عوف کے فرد تھے ،حضرت عبادہ ؓ بن صامت کے گروہ کے ایک انصاری کے ہاتھوں قتل ہوئے) حضورﷺ کا حضرت جویریہؓ سے نکاح ( شعبان ۵ھ) اس لڑائی میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں برّہ (حضرت جویریہ) بھی تھیں جو قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں، ابن اسحاق کی روایت ہے جو بعض حدیث کی کتابوں میں بھی ہے کہ تمام اسیران جنگ لو نڈ ی غلام بنا کر تقسیم کر دئیے گئے، برّہ (حضرت جویریہؓ) حضرت ثابتؓ بن قیس کے حصہ میں آئیں ، انھوں نے حضرت ثابتؓ سے درخواست کی کہ مکاتبت کرلو یعنی مجھ سے کچھ روپیہ لے کر چھوڑ دو، واقدی اور ابن سعد کے مطابق یہ زر مکاتبت نو(اوقیہ سونا یاتقریباً چار ہزار درہم تھی ، عہد نبوی کے فدیہ کی گراں ترین شرح یہی تھی جو غزوہ بدر میں مقرر ہوئی تھی، حضرت ثابتؓ نے منظور کیا،برّہ کے پاس یہ رقم نہ تھی ، چاہا کہ لوگوں سے مانگ کر یہ رقم ادا کردیں ، آنحضرت ﷺکے پاس بھی گئیں اور عرض کیا کہ سردار بنی مصطلق کی بیٹی ہوں بدل کتابت جو بہت زیادہے اس کی ادائیگی میں مدد فرما کر آزادی عطا فرمائیے، آپ ﷺنے فرمایا:اگرپسند کرو تو اس سے بہترصورت ممکن ہے، وہ یہ کہ مکاتبت کی رقم ادا کر کے آزادی کے بعدتمہیں اپنی زوجیت میں لے لوں، انہوں نے اسے منظورکر لیا، کیونکہ یہ ان کے ایک خواب کی تعبیر تھی، ان کا بیان ہے کہ ابھی مسلمانوں نے ہم پر حملہ نہیں کیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مدینہ کی جانب سے اتر کر میری گود میں آکر ٹھہر گیا، پہلے ان کا نام برّہ( نیکو کار) تھا، حضور ﷺ نے بدل کر جویریہ رکھا ، یہ ابن اسحٰق کی روایت ہے جو ابن ہشام اور ابو داؤد دونوں میں موجود ہے؛ لیکن دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت جویریہؓ کا باپ حارث رئیس ِقبیلہ تھا، حضرت جویریہؓ جب گرفتار ہوئیں تو حارث آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی ، میری شان اس سے بالاتر ہے اسلئے آپﷺ اس کو آزاد کردیں ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ خود جویریہ ؓکی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ، حارث نے جاکر جویریہؓ سے کہا کہ محمد (ﷺ) نے تیری مرضی پر رکھا ہے، دیکھنا مجھ کو رسوا نہ کرنا ، انھوں نے کہا ! میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں ، آپ ﷺ نے حضرت ثابتؓ بن قیس کو بلایا، وہ بھی راضی ہو گئے چنانچہ آپ ﷺنے ان سے نکاح فرمایا۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ آپ کے والد حارث بن ابی ضرار فدیہ کے اونٹ لے کر مدینہ چل پڑے وادیٔ عقیق میں ان میں سے دو قیمتی اونٹ چھپا دئیے ، باقی لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اپنی بیٹی کے زر فدیہ کے طور پر پیش کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا و ہ دو اونٹ جو وادیٔ عقیق کی فلاں گھاٹی میں ہیں کیا ان میں شامل نہیں ، حارث یہ سن کر حیران رہ گئے اور بے اختیار کلمہ پڑھ کر اسلام لائے ، ان کے دو بیٹے اورقوم کے چند افراد نے بھی اس موقع پر اسلام قبول کیا۔ حضرت جویریہ ؓ سے نکاح کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ حضور اکرم ﷺ اس قبیلہ کے ساتھ دشمنی میں اضافہ نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ بنو مصطلق کے دل جیتنا چاہتے تھے، چنانچہ آپﷺ نے قبیلہ کے سردار کی بیٹی سے نکاح کر لیا، اس طرح اس کے تمام رشتہ دار حضور ﷺکے رشتہ دار بن گئے،یہ چر چا جب پھیلا تو قبیلہ بنو مصطلق کے تمام لونڈی غلاموں کو اس بناء پر آزاد کر دیا کہ آنحضرت ﷺ نے ان سے رشتہ قائم کر لیا ہے، چنانچہ جب بنو مصطلق کے تمام بچے اور عورتیں رہا ہوکر واپس پہنچے تو انھوں نے حضور ﷺکی داستان مردوں کو سنائی تو بنومصطلق کے مرد مدینہ آئے اور اسلام قبول کرلیا، بعد میں یہ قبیلہ اسلام کا زبر دست حلیف ثابت ہوا۔