انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ ؓبن ارقم نام ونسب عبداللہ نام،باپ کا نام ارقم تھا، نسب نامہ یہ ہے، عبداللہ بن ارقم بن عبد یغوث ابن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ قرشی،ام النبی حضرت آمنہؓ ان کے والد ارقم کی پھوپھی تھیں۔ اسلام فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے پاس کسی کا خط آیا، آپ نے فرمایا اس کا جواب کون لکھے گا،عبداللہ بن ارقم نے اس خدمت کے لیے اپنے کو پیش کیا ان کا لکھا ہوا، آنحضرتﷺ کو بہت پسند آیا، حضرت عمرؓ بھی موجود تھے،انہوں نے بھی پسندید گی ظاہر کی،اس دن سے عبداللہ مراسلات کی کتابت کی خدمت پر مامور ہوگئے (استیعاب:۱/۳۴۸) چنانچہ سلاطین اور امراء کے نام یہی خطوط لکھتے تھے اورجواب بھی یہی دیتے تھے اوراس دیانت کے ساتھ اس فرض کو انجام دیتے تھے کہ پوشیدہ سے پوشیدہ مراسلات ان کی تحویل میں رہتے تھے،مگر یہ کبھی کھول کر نہ دیکھتے تھے۔ (مستدرک حاکم:۲/۳۳۵) عہدِ خلفاء حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں بھی اس خدمت پر رہے (ایضاً) حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں اس عہدہ کے علاوہ متعدد خدمتیں عبداللہ ابن ارقم کے سپرد کیں، وہ حضرت عمرؓ کے خاص مشیروں میں تھے(ایضاً) بیت المال کی نگرانی بھی ان کے سپرد تھی (اسد الغابہ:۳/۱۱۵) حضرت عمرؓ ان کا بہت لحاظ کرتے تھے،ایک مرتبہ بطور اظہار خوشنودی فرمایا اگر تم کو تقدم فی الاسلام کا شرف حاصل ہوتا تو میں کسی کو تمہارے اوپر ترجیح نہ دیتا (ایضا:۱۱۶) حضرت عثمانؓ کے ابتدائی عہد میں بھی وہ اپنے قدیم عہدہ پر مامور رہے لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد مستعفی ہوگئے۔ (ایضاً) وفات ۳۵ میں وفات پائی آخر عمر میں آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے۔ (مستدرک حاکم:۳/۳۳۴) فضل وکمال ان سے چند حدیثیں مروی ہیں، اسلم عددی اورعروہ نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۹۱) خشیتِ الہی خشیتِ الہی مذہب کی روح ہے ، عبداللہ میں جس حد تک یہ روح ساری تھی اس کا اندازہ حضرت عمرؓ کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے،آپ فرماتے تھے کہ میں نے عبداللہ سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ (اسد الغابہ:۳/۱۱۶) قومی کام حبۃ للہ اور بلا معاوضہ انجام دیتے تھے اوراس پر کسی قسم کا صلہ اورانعام لینا نہیں پسند کرتے تھے،حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب خزانچی کے عہدہ سے استعفا دیا، تو حضرت عثمانؓ نے تیس ہزار اور ایک روایت کی رو سے ۳ لاکھ درہم کی رقم بطور معاوضہ پیش کی عبداللہ نے اس کے قبول کرنے سے انکار کردیا اورکہا میں نے یہ کام حبۃ للہ کیا ہے وہی مجھ کو اس کا اجر دیگا۔ (اسد الغابہ:۳/۱۱۸)