انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طائع اللہ ابوبکر عبدالرکیم طائع اللہ بن مطیع اللہ ایک اُم ولد موسومہ ہزار کے بطن سے پیدا ہوا اور بہ عمر پینتالیس سال بعداز خلع مطیع بہ روز چہارشنبہ بہ تاریخ ۲۳/ذیقعدہ سنہ۳۶۳ھ تختِ خلافت پربیٹھا، سبکتگین کونصرالدولہ کا خطاب اور پرچم عطا کیا اور بجائے عزالدولہ کے نائب السلطنت اور سلطان بنایا؛ اسی سال مکہ اور مدینہ میں معزعبیدی فرماں روائے مغرب کے نام کا خطبہ پڑھا جانا شروع ہوا، اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جب خلیفہ مطیع نے خلع خلافت کیا ہے توبغداد میں سبکتگین کی حکومت تھی اور عزالدولہ بن معزالدولہ اہواز میں تھا، سبکتگین نے عزالدولہ کی ماں اور بھائیوں کوواسط بھیج دیا تھا، یہ خبر سن کرعزالدولہ اپنی والدہ کی ملاقات کوواسط آیا اور اپنے چچا حسین بن بویہ المخاطب بہ رکن الدولہ کوجوفارس میں حکومت کررہا تھا، سبکتگین اور ترکوں کے خلاف امداد بھیجنے کے لیے لکھا، رکن الدولہ نے اپنے وزیر ابوالفتح بن حمید کوایک فوج دے کراپنے بیٹے عضدالدولہ کے پاس اہواز میں بھیجا اور عضدالدولہ کوخط لکھا کہ تم بھی فوج لے کراور ابوالفتح کے ساتھ مل کراپنے چچازاد بھائی عزالدولہ کی مدد کوپہنچو، ادھرسبکتگین نے خلیفہ طائع اللہ اور اس کے باپ مطیع دونوں کوہمارہ لے کرترکی فوج کے ساتھ واسط کی طرف کوچ کیا، ابوتغلب حاکم موصل نے یہ سن کرموصل سے روانہ ہوکر بغداد پرقبضہ کرلیا، واسط کے قریب پہنچ کرسبکتگین اور مطیع دونوں کا انتقال ہوگیا، ترکوں نے افتگین کواپنا سردار بنالیا اور واسط کا محاصرہ کرلیا، افتگین معزالدولہ بن بویہ کا آزاد ترکی غلام تھا، افتگین نے پچاس یوم تک نہایت سختی سے محاصرہ جاری رکھا، عضدالدولہ مع اپنے باپ کے وزیرابوالفتح بن حمید کے واسط پہنچا، عضدالدولہ کے قریب پہنچنے کی خبرسن کرافتگین واسط سے محاصرہ اُٹھا کربغداد کی طرف روانہ ہوا، افتگین کے قریب پہنچنے کی خبر سن کرابوتغلب بغداد چھوڑ کرموصل کوچل دیا، عزالدولہ اور عضدالدولہ دونوں نے چند روز واسط میں قیام کیا؛ پھردونوں بھائیوں نے چاروں طرف سے بغداد کا محاصرہ کرلیا اور طرف سے رسد کا آنا بند کردیا اہلِ شہر کوسحت تکلیف ہونے لگی، ترکوں نے افتگین کے مکان کولوٹ لیا اور آپس میں فتنہ وفساد برپا کرنے لگے، آخرافتگین خلیفہ طائع اللہ کواپنے ہمراہ لے کر اور محاصرہ توڑ کرصاف نکل گیا اور تکریت میں جاکر دم لیا۔ جمادی الاوّل سنہ۳۶۴ھ میں عضدالدولہ اور عزالدولہ بغداد میں داخل ہوئے، عضدالدولہ نے ترکوں سے خط وکتابت کرکے ماہ رجب سنہ۳۶۴ھ میں خلیفہ طائع اللہ کوبغداد واپس بلالیا اور قصرِ خلافت میں فروکش کرکے بیعت کی اور عزالدولہ کوگرفتار کرکے خود حکومت کرنے لگا، محمد بن بقیہ کوعضدالدولہ نے واسط کی حکومت پرمامور کرکے بھیج دیا، عزالدولہ کا بیٹا زبان نامی بصرہ میں حکومت کررہا تھا، اس نے عضدالدولہ کی شکایت اور عزالدولہ کے گرفتار کرکے قید کردینے کا حال لکھ کررکن الدولہ کے پاس بھیج دیا، رکن الدولہ کوسحت ملال ہوا اور عضدالدولہ کوعتاب آموز فرمان لکھا، عضدالدولہ نے اس کے جواب میں اپنے نائب رکن الدولہ کوخط لکھا کہ: عزالدولہ میں ملک داری کی قابلیت اور طاقت نہ تھی؛ اگرمیں دست اندازی نہ کرتا توبنی بویہ کے قبضہ سے بغداد کی حکومت نکل جاتی، میں صوبہ عراق کا حراج تیس لاکھ درھم سالانہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں؛ اگرآپ صوبہ عراق کی نگرانی وحکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں توشوق سے تشریف لائیں، میں فارس چلا جاؤں گا۔ اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ صوبہ عراق اور بغداد دیلمی حکومت کا ماتحت تھا اور دیلمیوں کا سب سے بڑا حاکم اس زمانہ میں رکن الدولہ تھا جوخراسان میں تھا اور خلیفہ بغداد صوبہ دار عراق کی نگرانی وماتحتی کے اندر بغداد میں قیدیوں کی طرح تھا، آخررکن الدولہ کے حکم کے موافق عضدالدولہ نے عزالدولہ کوقید سے نکال کرعراق کی حکومت سپرد کی اور یہ اقرار لیا کہ عراق میں خطبہ عضدالدولہ کے نام کا پڑھا جائے گا اور عزالدولہ اپنے آپ کوعضدالدولہ کا نائب سمجھے گا، ابوالفتح کوعزالدولہ کے پاس چھوڑا اور خود فارس کی طرف چلا گیا، افتگین ان واقعات کے بعد دشمق کی طرف گیا اور وہاں معزعبیدی کے عامل کونکال کرخود دمشق پرقابض ومتصرف ہوگیا، اہلِ دمشق افتگین کی حکومت سے خوش ہوئے؛ کیونکہ وہاں روافض اپنے اعتقادات کوزبردستی لوگوں سے منواتے اور تنگ کرتے تھے، افتگین کے پہنچنے سے ان کونجات ملی، افتگین نے بجائے عبیدی سلطان کے خلیفہ طائع کے نام کا خطبہ جاری کیا، یہ واقعہ شعبان سنہ۳۶۴ھ میں وقوع پذیر ہوا۔