انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کے مقابل کسی کی بات نہ مانے ائمۂ اربعہ جن کی اجتہادی اُمور میں تقلید جاری ہوئی اور جن کا قول ان کے مقلدین کے ہاں حجت اور سند سمجھا جاتا ہے ان سب کا بھی ارشاد ہے کہ حدیث صحیح سامنے آجاے توہماری بات فوراً چھوڑدو، حدیث کے مقابل کسی کی بات مانے جانے کے لائق نہیں، حضرت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "فَقَدْ صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: إذَاصَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَمَذْهَبِي، وَقَدْ حَكَى ذَلِكَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ..... وَنَقَلَهُ أَيْضًا الْإِمَامُ الشَّعْرَانِيُّ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ، وَلَايَخْفَى أَنَّ ذَلِكَ لِمَنْ كَانَ أَهْلًالِلنَّظَرِ فِي النُّصُوصِ وَمَعْرِفَةِ مُحْكَمِهَا مِنْ مَنْسُوخِهَا"۔ (ردالمحتار، مقدمہ:۱/۱۶۶، شاملہ، موقع الإسلام،المؤلف: ابن عابدين، محمد أمين بن عمر،المتوفى:۱۲۵۲) ترجمہ:حضرت امام صاحب سے صحیح طور پر ثابت ہوچکا کہ جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہوجائے تووہی میرا مذہب ہے، ابنِ عبدالبر نے بھی یہی امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے اماموں سے نقل کیا ہے، امام شعرانی نے ائمہ اربعہ سے یہی نقل کیا ہے اور یہ بات مخفی نہیں کہ یہ اس کے لیے ہے جس کی نصوص (کتاب وسنت) پر نظر ہو اور محکم اور منسوخ کوسمجھتا ہو۔ جولوگ حدیث کے محض ترجمے پڑھ کر امام کی بات کو ٹھکرانے لگتے ہیں اور فن حدیث اور اس خاص موضوع کی دیگر روایات پر نظر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ محض اپنی رائے سے کسی روایت کو حدیث نہ سمجھیں؛ بلکہ بات سمجھنے کے لیے راسخ العلم علماء کی طرف رجوع کریں تاہم یہ پھربھی ضروری ہے کہ اِن کے سامنے جوحدیث پیش ہو اس کے مقابل کوئی کلمہ جسارت زبان پر نہ آجائے، ہاں جس وسیع النظر عمیق العلم عالم کی دوسری احادیث پر بھی پوری نظر ہو اور پھر وہ دیانتداری سے محسوس کرے کہ اس میں میرے امام کی بات واقعی حدیث کے مقابل ہے توپھر صرف حدیث ہی ہے جس کی اتباع کی جائے قولِ امام کو حدیث کے سامنے کوئی وزن حاصل نہیں نہ مقلدین کے ہاں امام شریک فی الرسالۃ سمجھاتاہے؛ سواس صورتحال میں فقہ کی تعلیم یہی ہے کہ وہ شخص امام کی بات چھوڑدے اور حدیث کی بات مانے۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (۳۲۱ھ) اور امام کرخیؒ جیسے سادات حنفیہ نے اسی اُصول پر کئی مواقع میں قولِ امام کوچھوڑا ہے، ہروقت ملحوظ رہے کہ مقلدین کے ہاں قولِ امام ہرگز حدیث کے مقابلے میں نہیں لیا جاتا، نہ ان کے ہاں ان کا امام معصوم سمجھا جاتا ہے، اصولِ برحق یہی ہے کہ حدیث کے مقابل کسی کی بات نہ مانی جائے، یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ضروری نہیں کہ اگرکچھ علماء نے کسی حدیث کے باعث قولِ امام چھوڑا ہوتو سب علماء بھی ان کے ہم خیال ہوجائیں؛ ہوسکتا ہے کہ ان دوسرے علماء راسخین کوکچھ اوراحادیث ایسی مل گئی ہوں کہ انہیں قولِ امام کی صحت پھرمتحقق ہوگئی ہو، علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں کہ ائمہ کا یہ ارشاد کہ حدیث کے بالمقابل ہماری رائے چھوڑ دو انہی لوگوں کے لیے ہے جو فہم حدیث میں اونچے درجے کے عالم ہوں، جوحدیث جانتے ہی نہیں؛ انہیں حق نہیں کہ محض ترجمہ پڑھ کر مجتہدین پر بحثیں کرنے لگیں اور ان کے فیصلوں پر جلد بازی میں خلافِ حدیث ہونے کا فتویٰ دینے لگیں۔