انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سریہ اسامہ بن زید(۲۶صفر۱۱ہجری) ۲۶ صفر ۱۱ ہجری دوشنبہ کے دن آنحضرت ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کا آخری سریہ روم کی طرف جہاد کے لئے روانہ کرنے کا حکم دیا ، لشکر کشی کا حکم آپﷺ نے ماہ محرم ۱۱ ہجری ہی میں دے دیا تھا ، اس لشکر پر آپﷺ نے حضرت اسامہ ؓ بن زید کو امیر مقرر فرمایا اور ان سے فرمایا: اپنے باپ کے مقتل کی طرف جاؤ اور کفار کو کچل دو ، فلسطینی علاقہ کی سرحدوں کو اپنے گھوڑوں سے روند دو ، اپنے ساتھ راستہ بتانے والوں کو رکھو اور اتنی عجلت سے کام لو کہ انہیں خبر ہونے سے پہلے ان کے سروں پر پہنچ جاؤ۔ اس وقت حضرت اسامہؓ کی عمر صرف ۱۸ سال تھی ، منافقین کو اعتراض کا موقع ہاتھ آیا اور انھوں نے نکتہ چینی کی کہ ایک نو عمر غلام زادہ کو مہاجرین و انصار پر سپہ سالار مقرر فرمایا ہے ، جب یہ بات آپﷺ کے گوش گذار ہوئی تو فرمایا :تم نے ان کے باپ زیدؓ بن حارثہ پر بھی یہی اعتراض کیا تھا، اسامہؓ بھی امارت کے لائق ہے اور اس کا باپ بھی تھا، وہ (زید) ان لوگوں میں سے تھے جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے اور اسامہؓ بھی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ ابھی لشکر کی ترتیب ہو رہی تھی کہ آنحضرت ﷺ پر علالت کے آثار ظاہر ہونے لگے ، اس رات نصف شب گذرنے کے بعد آپ نے اپنے غلام ابو مویہیہ کو اُٹھایا اور فرمایا کہ مجھے بقیع میں مدفون ہونے والوں کے لئے مغفرت کا حکم ہوا ہے ، تم بھی ساتھ چلو، وہاں پہنچ کر فرمایا: " ائے اہل قبر تم پر سلامتی ہو ، مبارک ہو تمہیں اپنی یہ حالت جو اس سے بہتر ہے جس میں کہ اب لوگ موجود ہیں، کاش تمہیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر عظیم فتنوں سے تمہیں محفوظ کردیا، اب فتنے ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہیں، دوسرا پہلے سے زیادہ مہیب اور خطر ناک ہے " اس کے بعد آپﷺ نے ابو مو یہیہ کی طرف پلٹ کر فرمایا : مجھے دنیا کے خزانے اور یہاں ہمیشہ رہنے کا اختیاراور پھر جنت کی چابیاں دی گئیں، عرض کیا : یا رسول اللہ : آپ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں بقائے دوام کے ساتھ لے لیجئے اور اس کے بعد جنت بھی لے لیجئے، فرمایا : میں نے اپنے رب کی ملاقات اور جنت کو اختیار کیا ، بقیع میں دعائے مغفرت کرکے جب آپﷺ واپس ہوئے تو درد شروع ہوا اور بخار بھی آگیا، دوسرے دن جمعرات کو اسی حالت میں آپﷺ نے اسامہؓ کے لئے جھنڈا باندھا اور حکم دیاکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، وہ جھنڈا اٹھا کر نکلے اورمقام جرف میں لشکر جمع ہوا ، حضرت اسامہؓ نے جھنڈا حضرت بریدہؓ بن خصیب ا سلمی کے حوالہ کیا،یہ عجیب اتفاق تھا کہ حضور ﷺ کے قبا میں داخل ہوتے وقت بھی جھنڈا حضرت بریدؓ اٹھائے ہوئے تھے اور آپﷺ کا عطا کردہ آخری جھنڈا بھی ان کے سپرد ہوا، اکابر صحابہ ؓ میں حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح شامل تھے جو مقام جرف میں مقیم ہو گئے، آنحضرت ﷺ کی علالت کی اطلاع پر صحابہ ؓ کرام مضطرب ہو گئے، ان ہی دنوں حضرت عائشہؓ کے گھر میں حضور ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپﷺ کے بازوؤںمیں سونے کے کنگن ہیں ، آپﷺ نے انہیں کراہت سے پھونک دیا تو وہ اڑ گئے، حضور ﷺنے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ یہ یمن اور یمامہ کے دو جھوٹے نبیوں کی طرف اشارہ ہے، علالت کے آغاز کے بعد ایک دن سر کے درد نے شدت اختیار کی جس کی وجہ سے پٹی باندھی گئی، اسی حالت میں آپﷺ حجرے سے برآمد ہوئے اور خواب بیان فرمایا اور جھوٹے نبیوں کے فتنہ سے لوگوں کو آگاہ کیا، حضرت اسامہؓ کی امارت پر اعتراضات کو آپﷺ نے رد فرمایا اور حکم دیا کہ اسامہ ؓ کی مہم میں جو لوگ شریک ہیں وہ ان کے ساتھ ضرور جائیں، اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے،