انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قتلِ ابومسلم جب عبداللہ بن علی کوشکست ہوئی اور ابومسلم نے اس کے لشکر گاہ کولوٹ لیا اور مالِ غنیمت خوب ہاتھ آیا توالمنصور نے اس فتح کا حال سن کراپنے خادم ابوخصیب کومالِ غنیمت کی فہرست تیار کرنے کے لی روانہ کیا، ابومسلم کواس بات سے سحت غصہ آیا کہ منصور نے میرا اعتبار نہ کیا اور اپنا آدمی فہرست مرتب کرنے کے لیے بھیجا، ابومسلم کی اس ناراضی وناخوشی کی اطلاع جب منصور کے پاس پہنچی تواس کویہ فکر ہوئی کہ کہیں ابومسلم ناراض ہوکر خراسان کونہ چلاجائے؛ چنانچہ اس نے مصروشام کی سندِ گورنری لکھ کرابومسلم کے پاس بھیج دی، ابومسلم کواس سے اور بھی زیادہ رنج ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ منصور مجھ کوخراسان سے جدا کرکے بے دست وپاکرنا چاہتا ہے؛ چنانچہ ابومسلم جزیرہ سے نکل کرخراسان کی طرف روانہ ہوگیا، یہ سن کرمنصور انبار سے مدائن کی طرف روانہ ہوا اور ابومسلم کواپنے پاس حاضر ہونے کے لی ےبلایا، ابومسلم نے آنے سے انکار کرکے لکھ بھیجا کہ میں دور ہی سے اطاعت کرونگا، آپ کے تمام دشمنوں کومیں نے مغلوب کردیا ہے، اب جب کہ آپ کے خطرات دور ہوگئے ہیں، توآپ کومیری ضرورت بھی باقی نہیں رہی؛ اگرآپ مجھ کومیرے حال پرچھوڑدیں گے تومیں آپ کی اطاعت سے باہر نہ رہوں گا اور اپنی بیعت پرقائم رہوں گا؛ لیکن اگرآپ میرے درپئے رہے تومیں آپ کی خلع خلافت کا اعلان کرکے آپ کی مخالفت پرآمادہ ہوجاؤں گا، اس خط کوپڑھ کرمنصور نے ابومسلم کونہایت نرمی اور محبت کے لہجہ میں ایک خط لکھا کہ ہم کوتمہاری وفاداری اور اطاعت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، تم بڑے کارگذار اور مستحقِ انعام ہو، شیطان نے تمہارے دل میں وسوسے ڈال دیئے ہیں، تم ان وسوسوں سے اپنے آپ کوبچاؤ اور ہمارے پاس چلے آؤ، یہ خط منصور نے اپنے آزاد غلام ابوحمید کے ہاتھ روانہ کیا اور ان کوتاکید کی کہ منت سماجت سے جس طرح ممکن ہوابومسلم کومیرے پاس آنے کی ترغیب دینا اوراگروہ کسی طرح نہ مانے توپھر میرے غصہ سے اُس کوڈرانا، یہ خط جب ابومسلم کے پاس پہنچا تواس نے مالک بن ہثیم سے مشورہ کیا، اس نے کہا کہ تم ہرگز منصور کے پاس نہ جاؤ وہ تم کوقتل کردے گا؛ لیکن ابوداؤد خالد بن ابراہیم کو خراسان کی گورنری کا لالچ دے کرمنصور نے بذریعہ خط پہلے ہی اس بات پرآمادہ کرلیا تھا کہ ابومسلم کوجس طرح ممکن ہومیرے پاس آنے پرآمادہ کرو، ابوداؤد کے مشورے سے ابومسلم منصور کے پاس جانے پرآمادہ ہوگیا؛ مگرپھربھی اس احتیاط کوضروری سمجھا کہ اپنے وزیرابواسحاق خالد بن عثمان کواوّل منصور کے پاس بھیج کروہاں کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل کرے، ابواسحاق پرابومسلم کوبہت اعتماد تھا۔ چنانچہ اوّل ابواسحاق کوروانہ کیا گیا، ابواسحاق جب دربارِ خلافت کے پاس پہنچا توتمام سردارانِ بنوہاشم اور اراکینِ دولت استقبال کوآئے، منصور نے حد سے زیادہ تکریم ومحبت کا برتاؤ کیا اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسحاق کواپنی جانب مائل کرکے کہا کہ تم ابومسلم کوخراسان جانے روک کراوّل میرے پاس آنے پرآمادہ کردو تومیں تم کوخراسان کی حکومت اس کام کے صلہ میں دے دوں گا، ابواسحاق یہ سن کرآمادہ ہوگیا، رخصت ہوکر ابومسلم کے پاس آیا اور اس کومنصور کے پاس جانے پرآمادہ کرلیا؛ چنانچہ ابومسلم اپنے لشکرکوحلوان میں مالک بن ہثیم کی افسری میں چھوڑ کرتین ہزار فوج کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوا، جب ابومسلم مدائن کے قریب پہنچا توابومسلم کے پاس منصور کے اشارہ کے موافق ایک شخص پہنچا اور ملاقات کرنے کے بعد ابومسلم سے کہا کہ آپ منصور سے میری سفارش کردیں کہ وہ مجھ کوکسکر کی حکومت دے دے؛ نیز یہ کہ وزیرالسلطنت ابوایوب سے منصور آج کل سحت ناراض ہے، آپ ابوایوب کی بھی سفارش کردیں، ابومسلم یہ سن کرخوش ہوگیا اور اس کے دل سے رہے سہے خطرات سب دور ہوگئے، ابومسلم دربار میں عزت واحترام کے ساتھ داخل ہوا اور عزت کے ساتھ رخصت ہوکر قیام گاہ پرآرام کرنے گیا، دوسرے روز جب دربار میں آیا تومنصور نے پہلے سے عثمان بن نہیک، شبیب بن رواح، ابوحنیفہ حرب بن قیس وغیرہ چند شخصیتوں کوپس پردہ چھپاکر بٹھادیا اور حکم دے دیا تھا کہ جب میں اپنے ہاتھ پرہاتھ ماروں توتم نکل کرفوراً ابومسلم کوقتل کرڈالنا؛ چنانچہ ابومسلم دربار میں حاضر ہوا، خلیفہ منصور نے باتوں باتوں میں اس سے ان دوتلواروں کا حال دریافت کیا، جوابومسلم کوعبداللہ بن علی سے ملی تھیں، ابومسلم اس وقت انہیں تلواروں میں سے ایک کواپنی کمر سے لگائے ہوئے تھا، اس نے کہا کہ ایک تویہ موجود ہے، منصور نے کہا ذرا میں بھی دیکھوں، ابومسلم نے فوراً خلیفہ منصور کے ہاتھ میں تلوار دے دی وہ تھوڑی دیر تک اس کودیکھتا رہا؛ پھراس کواپنے زانو کے نیچے رکھ کرابومسلم سے اس کے حرکات کی شکایت کرنے لگا؛ پھرسلیمان بن کثیر کے قتل کاذکر کیا اور کہا کہ تونے اس کوکیوں قتل کیا؟ حالانکہ وہ اس وقت سے ہمارا خیرخواہ تھا جب کہ تواس کام میں شریک بھی نہ ہوا تھا، ابومسلم اوّل خوشامدانہ اور عاجزانہ لہجہ میں معذرت کرتا رہا؛ لیکن دم بدم منصور کے طیش وغضب کوترقی کرتے ہوئے دیکھ کرجب اس کویقین ہوگیا کہ آج میری خیر نہیں ہے تواس نے جرأت سے جواب دیا کہ جوآپ کا جی چاہے کیجئے، میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، منصور نے ابومسلم کوگلیاں دیں اور ہاتھ پرہاتھ مارا، تالی کے بجتے ہیں عثمان بن نہیک وغیرہ نکل کرابومسلم پروار کیے اور اس کا کام تمام کردیا۔ یہ واقعہ ۲۵/شعبان سنہ۱۳۷ھ کا ہے، ابومسلم کے مارے جانے کے بعد وزیرالسلطنت نے باہر آکرابومسلم کے ہمراہیوں کویہ کہہ کرواپس کردیا کہ امیراس وقت امیرالمؤمنین کی حدمت میں رہیں گے، تم لوگ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ نے دربارِ خلافت میں حاضر ہوکر ابومسلم کودریافت کیا؟ جب اس کے قتل کا حال معلوم ہوا تو اس کی زبان سے إِنَّالِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ نکل گیا، یہ بات منصور کوناگوار گذری اور اس نے کہا کہ ابومسلم سے زیادہ تمہارا کوئی دشمن نہ تھا؛ پھرمنصور نے جعفر بن حنظلہ کوبلوایا اور ابومسلم کے قتل کی نسبت مشورہ کیا، جعفر نے اس کے قتل کی رائے دی، منصور نے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے، اس کے بعد ابومسلم کی لاش کی طرف اشارہ کیا، جعفر نے ابومسلم کی لاش کی طرف دیکھتے ہی کہا کہ: امیرالمؤمنین آج سے آپ کی خَافت شمار کی جائے گی، منصور مسکراکرخاموش ہوگیا۔ ابونصر مالک بن ہیثم جس کوابومسلم اپنا لشکر اور مال سپرد کرآیاتھا، حلوان سے بقصد خراسان ہمدان کی طرفروانہ ہوگیا؛ پھرمنصور کی خدمت میں واپس چلا آیا، منصور نے اس کوملامت کی کہ تونے ابومسلم کومیرے پاس آنے کے خلاف مشورہ دیا تھا، اس نے کہا کہ جب تک ابومسلم کے پاس تھا اس کونیک مشورہ دیا، اب آپ کے پاس آگیا ہوں توآپ کی بہتری کے لیے کوشاں رہوں گا، منصور نے اس کوموصل کی حکومت پربھیج دیا۔