انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسد بن فراتؒ نام ونسب اسدنام،ابو عبداللہ کنیت،والد کا اسمِ گرامی فرات اورجدِامجد کا نام سنان تھا،وہ اکثر راہِ مزاح کہا کرتے تھے کہ میں اسد (شیر) ہوں جو وحشی جانوروں میں سب سے بہتر ہے،میرے والد فرات ہیں،جو دریاؤں میں اعلیٰ ہیں اورمیرے دادا سنان (نیزے کی انی)تھے جو ہتھیاروں میں بہترین ہے۔ خاندان ،ولادت اورابتدائی حالات ان کا خاندان بنو سلیم بن قیس کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا، قاضی اسد کا آبائی وطن نیشا پور(خراسان) تھا،وہ ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ ان کے والد ہجرت کرکے حران(دیار ابابکر)چلے آئے اور یہیں ۱۴۲ھ میں ان کی ولادت ہوئی (سال ولادت کے بارے میں علماء کی رائیں مختلف ہیں،بعض ۱۴۴ھ ۱۴۳ھ اوربعض ۱۴۵ھ قرار دیتے ہیں لیکن خود قاضی اسد کی زبان سے ۱۴۲ھ ہی مروی ہے،اس لئے وہی اصح واولیٰ ہے)آبائی پیشہ سپہ گری تھا،دوبرس کے سن میں اپنے والد کے ہمراہ ۱۴۴ھ میں محمد بن اشعث کی فوج کےہمراہ افریقہ آئے،پانچ سال کی عمر تک قیروان میں رہے،پھر جب ان کے والد نے تیونس میں قیام کیا تو نو سال وہاں مقیم رہے۔ ۱۸سال کی عمر میں ٹیونس کے ایک گاؤں میں قرآن مجید کی تعلیم ختم کی، ان دنوں ان کی والدہ نے ان کے متعلق عالم رویا میں دیکھا کہ ان کی پشت پر گھاس اُگی ہوئی ہے اوراُسے مویشی چررہے ہیں،علمائے تعبیر نے بتایا کہ یہ لڑکا آئندہ علم وفضل کا مالک ہوگا اور تشنگان علم اس کے چشمۂ فیض سے شاد کام ہوں گے۔ تحصیل علم اس کے بعد ان کے دینی علوم کی تکمیل کا وقت آیا، اس وقت ٹیونس میں علی بن زیاد مسند درس بچھائے ہوئے تھے، قاضی اسد نے بھی اسی کی طرف رجوع کیا اوران سے حدیث و فقہ کی تحصیل کی،موطا امام مالک پہلی مرتبہ ان ہی سے پڑھی۔ پھر ۱۷۲ھ میں تکمیل علم کے لئے مشرق کی طرف روانہ ہوئے اورمدینہ منورہ پہنچ کر امام مالکؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے،امام مالکؒ کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مؤطا کے درس میں طلبہ کے سوالوں کے جوابات دیتے جنہیں تلامذہ لکھتے جاتے ،عبداللہ بن وہب اورعبد الرحمن بن قاسم امام مالک کے ارشد تلامذہ میں تھے اور ان کی حیثیت امام ابو حنیفہ کے اصحاب امام محمد اورامام ابو یوسف کے مثل تھی اوریہی دونوں ان کے جوابوں کو لکھتے تھے۔ امام مالک طبعاً قیل وقال کو پسند نہ فرماتے تھے اور سہل وسادہ طورپر محض روایات کی بنیاد پر جوابات دیتے تھے اور اس کی وجہ سے تلامذہ اپنے دلی خدشات کو پیش کرتے ہوئے جھجکتے تھے،جب اسدان کی مجلس میں شریک ہوئے تو ابنِ قاسم وغیرہ نے ان کے ذریعہ سے اپنے خدشات مٹانے چاہے؛چنانچہ وہ انہیں سوال در سوال سکھاتے،اسدامام صاحب کے سامنے پیش کرتے،بالآخر امام صاحب نے انہیں بھی ممانعت کردی،یہ پورا واقعہ خود قاضی اسد کی زبان سے ملاحظہ فرمائیں۔ مالکؒ کے اصحاب ابن قاسم وغیرہ مجھے سکھاتے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق ان سے دریافت کروں؛چنانچہ میں جب ان سے سوال کرتا تو وہ مجھے جواب دیدیتے،اس کے بعدمیرے ساتھی مجھے یوں سکھانے لگے کہ ،اگر یہ ایسا ہے تو یوں ایسا ہوگا اوریہ یوں ہے تویہ یوں ہوگا، اس پر میں اسی طریقہ سے سوالات کرنے لگا،ایک دن وہ مجھ سے تنگ آگئے اورفرمانے لگے ، سلسلہ پر سلسلہ چھیڑ رکھا ہے،اگر ایسا ہو تو یہ ایسا ہے اورایسا ،اگر تم یہ چاہتے ہو تو تمہارے لئے عراق کا راستہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میرا سہارا پکڑتے ہو،میں آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کروں گا۔ (اس واقعہ کو بعض مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے کہ اسد نے ایک دن امام مالک سے سوال کیا، انہوں نے جواب دیا، اسد نے دوبارہ پوچھا،امام صاحب نے دوبارہ جواب دیا اور پھر سہ بارہ بھی جواب ملا؛ لیکن جب چوتھی مرتبہ اس پر کچھ پوچھا تو امام مالک نے فرمایا کہ "مغربی "بس یہ تمہارے لئے کافی ہے اگر تم رائے چاہتے ہو تو عراق جاؤ، اس پر بعض مورخین نے لکھا ہے کہ وہ اسی وجہ سے عراق چلے گئے ،لیکن جیسا کہ اسد کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے یہ صحیح نہیں ہے؛بلکہ جب یہاں درس کی تکمیل کرلی تب عراق گئے تاکہ فقہ حنفی کی تحصیل کریں) امام مالک سے سبقاً سبقاً موطا پڑھ چکنے کے بعد انہوں نے کسی دوسری کتاب کے پڑھنے کا شوق ظاہر کیا تو امام صاحب نے فرمایا: "وہی تمہارے لئے بھی کافی ہے جو میں دوسروں کو دے رہا ہوں" جب یہاں تعلیمی سلسلہ کی تکمیل ہوگئی تو انہیں عراق جاکر فقہ حنفی کی تحصیل کا خیال پیدا ہوا اورامام مالک سے رخصت ہونے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے امام صاحب نے التفات خاص کے ساتھ انہیں الوداع کہا، اسد بیان کرتے ہیں کہ: "میں اور حار ث بن اسد قفصی اورغالب بن مہدی امام صاحب کی خدمت میں رخصت ہونے کے لئے حاضر ہوئے،میرے دونوں ساتھی مجھ سے پہلے باریاب ہوئے اورامام مالک سے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے،انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی،اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لئے تقویٰ،قرآن اوراس امت کی خیر خواہی کی وصیت کرتاہوں،اس کے بعد ہم لوگ باہر نکلے تو میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ اے عبداللہ! واللہ انہوں نے تمہیں اپنی وصیت میں ہم لوگوں سے زیادہ عطا فرمایا: راوی سلیمان کا بیان ہے کہ امام مالک رخصت کرتے وقت اپنے تلامذہ کو صرف"تقوی اللہ "کی وصیت فرماتے تھے۔ اس کے بعد اسد مدینہ سے عراق روانہ ہوئے،یہاں امام اعظمؒ کے ارشد تلامذہ کی مجلس درس آراستہ تھی،وہ یہاں آکر امام ابو یوسف،امام محمدؒ اوراسدؒ بن عمرو (ان شیوخ میں صاحبین کے اسماء معلوم ومشہور ہیں،مؤخر الذکر اسد بن عمروبھی امام اعظم کے ارشد تلامذہ میں تھے،ان کا امتیاز خاص یہ ہے کہ انہی نے سب سے پہلے امام اعظم کی کتابیں ان سے نقل کی ہیں ،الجواہر المضیہ میں ان کے حالات درج ہیں، :۱/۱۴۰) کے حلقوں میں شریک ہوئے اوران کے علاوہ کچھ دوسرے ممتاز فقہائے احناف کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ امام محمد کا التفاتِ خاص امام محمد کی خدمت میں انہیں نمایاں اختصاص حاصل ہوا،ان کی اجازت سے ان کے عام درس میں شریک ہونے کے علاوہ شب کے وقت بھی ان سے پڑھتے تھے اور پھر جب ان کی غریب الوطنی کا علم ہوا تو امام محمد نے ان کی مالی امداد بھی فرمائی،انہوں نے یہ واقعات خود سلیمان بن سالم سے بیان کئے ہیں،فرماتے ہیں: "میں نے امام محمد بن حسن سے کہا کہ میں پردیسی ہوں اور آپ سے فقہ اورحدیث کا بہت کم سرمایہ جمع کرسکا ہوں؛کیونکہ آپ کے تلامذہ کی تعداد زیادہ ہے، اس لئے میرے لئے کیا خاص عنایت ہوسکتی ہے،انہوں نے فرمایا عراقی طلبہ کے ساتھ دن کے وقت درس میں شریک رہو اوررات کا وقت صرف تمہارے لئے خاص کرتا ہوں،رات میرے ہی پاس گزارو، میں تمہیں حدیثیں سنایا کروں گا؛چنانچہ میں شب کو امام محمد کے یہاں رہنے لگا، وہ خود کوٹھے پر رہتے تھے اورمیں نیچے کی منزل میں رہتا تھا؛ لیکن میری خاطر سے وہ نیچے ہی اتر آتے اور درس کے لئے اپنے سامنے ایک پیالے میں پانی رکھ کر بیٹھ جاتے، جب پڑھتے پڑھتے رات زیادہ گذرجاتی تو مجھے نیند آنے لگتی، وہ مجھے اونگھتے دیکھ کر ایک چلو پانی میرے منہ پر چھڑکتے اورمیں بیدار ہوجاتا ان کا اور میرا یہی طریقہ بدستور جاری رہا،یہاں تک کہ میں جس قدر ان سے پڑھنا چاہتا تھا، پڑھ لیا۔ امام محمد کی شفقتوں کے سلسلہ میں وہ مزید کہتے ہیں: میں ایک دن محمد بن حسن کے حلقۂ درس میں بیٹھا تھا ناگاہ سبیل لگانے والے کی آواز آئی، میں جلدی سے اٹھ کر گیا اورپانی پی کر حلقہ میں واپس چلا آیا،اس پر امام محمد نے مجھ سے پوچھا،مغربی تم سبیل کا پانی پیتے ہو؟ میں نے عرض کیا خدا آپ کو فلاح دے میں تو ابن السبیل ہوں،درس ختم کرکے میں گھر چلا گیا،تو رات کے وقت کسی نے دروازہ پر آوازدی دروازہ کھولا تومعلوم ہوا کہ امام محمد کا خادم ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ آقانے آپ کو سلام کہا ہے اورآپ سے کہا ہے کہ مجھے آج سے پہلے بالکل معلوم نہ تھا کہ تم ابن السبیل ہو،اس لئے اس نفقہ کو لے لو اوراپنی ضرورتیں پوری کرو اس کے بعد اس خادم نے ایک بھاری تھیلی میری طرف بڑھائی،میں دل میں خوش ہوا کہ اس میں دراہم کی کافی تعداد ہے جب گھر میں آکر تھیلی کھولی تو دیکھتا ہوں کہ اس میں اسی اشرفیاں بھری ہوئی ہیں۔ امام مالک کی وفات اورلوگوں کا ان کے تلامذہ کی طرف مرجوعہ اسد عراق میں تحصیل علم میں مصروف تھے کہ اچانک مدینہ سے امام مالک کی وفات کی خبر صاعقہ اثر ملی اوراسی وقت سے امام مالک کے تلامذہ طالبانِ علم کے مرجوعہ کے مرجوعہ بن گئے،جن میں قاضی اسد بھی شامل تھے اس واقعہ کو وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں: ہم لوگ ایک دن امام محمد کے حلقہ درس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اورلوگوں کو پھاند تا ہوا امام محمد کے قریب پہنچا اوران سے کوئی خبر بیان کی جس پر امام محمد بول اٹھے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ایک مصیبت ہے کہ اس سے بڑھ کر دوسری مصیبت نہیں،مالک بن انس کا انتقال ہوگیا،امیر المومنین فی الحدیث نے وفات پائی۔ یہ خبر مسجد میں پھیلی پھر بجلی کی طرح سارے شہر میں دوڑ گئی لوگ مالک بن انس کی وفات پر اظہارِ غم کے لئے جمع ہونے لگے اور اس کے بعد یہ حال ہوگیا کہ جب کوئی مالک بن انس کی حدیث روایت کرنے لگتا تو ایک خلقت اس کے گرد امنڈ آتی اوراس قدر مجمع ہوتا کہ راستے بند ہوجاتے۔ صاحبین کی قاضی اسد سے مؤطا کی تحصیل اسی سلسلہ میں قاضی اسد سے بھی لوگوں نے امام مالک کی روایتیں حاصل کیں،بلاشبہ انہیں یہ قابلِ فخر اعزاز حاصل ہوا کہ امام ابو یوسف نے اس تشنہ علم کو سیراب کرنے کے بعد اس سے اس فیض کے حاصل کرنے کی خواہش کی جو وہ مدینۃ العلم سے حاصل کرکے لایا تھا؛چنانچہ امام ابو یوسف نے اسد سے مؤطا امام مالک کا درس لیا۔ پھر جب امام محمد کو اس کی خبر پہنچی تو فرمایا،ابو یوسف علم کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں، اور اس کے بعد انہوں نے بھی قاضی اسد سے مؤطا کے درس کی خود بھی خواہش ظاہر کی اور اس حیثیت سے اسد کی شخصیت اسلام کے دو اہم مذاہب کے اساطین اولین کے درمیان ایک سلسلۃ الذہب قرار پاتی ہے۔ اسد نے مشرق میں فقہ مالکی وحنفی کی تحصیل کے علاوہ علمِ حدیث پر بھی نظر رکھی،امام محمد سے تحصیلِ حدیث کا ذکر اوپر گذرا، ان کے علاوہ شیوخ عراق میں سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کوفی،ابوبکر بن عیاش،مسیب بن شریک،اورہشیم بن شریک وغیرہ سے علم حدیث حاصل کیا اور ان سے حدیثیں نقل کیں، ان میں سے صرف مؤخر الذکر ہثیم بن شریک سے بارہ ہزار حدیثیں لکھیں۔ وطن کو مراجعت قاضی اسد نے مشرق میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوچکنے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا،لیکن مصارفِ سفر کا کوئی سامان نہ تھا اس لئے سخت پریشان تھے،بالآخر امام محمد کے سامنے اس کا تذکرہ آیا،انہوں نے فرمایا،تمہارا ذکر ولی عہد (غالباً شہزادہ امین مراد ہے) کے سامنے کروں گا،اُمید ہے تم بآسانی وطن پہنچ جاؤ گے۔ چنانچہ امام محمد نے ولی عہد سے قاضی اسد کا تذکرہ کیا اوراس سے اسد کے ملنے کی تاریخ مقرر ہوئی،جب اسد ولی عہد کے محل میں جانے لگے تو امام محمد نے انہیں سمجھا یاکہ تم ان لوگوں کے پاس جس رکھ رکھاؤ سے پیش آؤ گے ویسا ہی وہ بھی تم سے برتاؤ کریں گے اگر تم اپنی خود داری قائم رکھ کر ان سے ملو گے تو وہ بھی تمہیں باعزت اورخود دار سمجھیں گے۔ اس کے بعد اسد ولی عہد کے محل میں پہنچے،ایک خادم نے ان کا استقبال کیا اور ایک جگہ بٹھادیا یہاں ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا،اسد نے پوچھا یہ جو کچھ تم لائے ہو تمہاری طرف سے ہے یا تمہارے آقا کی جانب سے؟ وہ بولا آقا کے حکم سے لایا ہوں،اسد نے نہایت خوبصورتی سے جواب دیا: تمہارا آقا کبھی اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا مہمان اس کی شرکت کے بغیر کھانا کھائے صاحبزادے! یہ تمہارا ہی احسان ہے،مجھ پر بھی تمہاری مکافات واجب ہے،یہ کہہ کر جیب ٹٹولی، اس میں ان کا سارا سرمایہ کل چالیس درہم تھا،انہوں نے اس کے صلے میں اس کو بڑی فراخ حوصلگی سے چالیسوں درہم اس کی طرف بڑھادئے،اور خوان اٹھالینے کا اشارہ کیا، خادم اسد سے بے حد خوش ہوا اورسارا واقعہ اپنے آقا سے سُنایا وہ سُن کر بہت محظوظ ہوا اور اسد کو اندر طلب کیا،اس کے بعد خود اسد کی زبانی سُنئے۔ میں ولی عہد کی خدمت میں پہنچا،وہ ایک تخت پر جلوہ افروز تھا اس کے سامنے ایک دوسرا تخت بچھا تھا، جس پر حاجب بیٹھا تھا،تیسرا تخت خالی تھا، اس پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا،پھر مجھ سے مختلف گفتگو کرتا رہا اور میں مناسب جوابات دیتا رہا،جب میری واپسی کا وقت آیا تو ایک رقعہ لکھ کر سر بمہر لفافہ میرے حوالہ کیا اور کہا کہ اسے صاحبِ دیوان کے یہاں لے جاؤ،پھر مجھ سے دوبارہ ملنا،تمہیں انشاءاللہ یہاں آنے سے مسرت ہوگی۔ اس لفافہ میں دس ہزار دئے جانے کی ہدایت تھی،جب یہ رقم وصول ہوگئی تو اسد نے ولی عہد کی ہدایت کے مطابق اس کے یہاں دوبارہ جانا چاہا،مگر امام محمد نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر اب ان لوگوں کے پاس دوبارہ جاؤ گے تو وہ تمہیں اپنا ملازم تصور کریں گے؛چنانچہ اسد نے دوبارہ ملنے کا خیال ترک کردیا اوراپنے شفیق استادوں سے رخصت ہوکر مصر روانہ ہوگئے۔ اسد نے امام محمد کے دل پر اپنی محنت ،جفا کشی اور تحصیل علم کے شوق کے گہرے نقوش چھوڑے تھے،وہ ان کے آنے کے بعد مجلسوں میں ان کی تعریف فرماتے تھے،صاحب معالم نے لکھا ہے۔ امام محمد مکہ میں ان کی تعریف کرتے تھے اوران کے مناظرہ طریق درس اورعلم حدیث کی توصیف وستائش فرماتے تھے: مصر میں مصر میں اس وقت عبداللہ بن وہب، اشہب اورعبدالرحمن بن قاسم کے علمبردار تھے،اوریہ تینوں امام مالک کے ایسے جلیل القدر تلامذہ تھے، جن کا احترام امام مالک کے تمام شاگرد کرتے تھے،اسد باری باری ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے، لیکن عبداللہ بن وہب اور اشہب سے نبھ نہ سکی اورمؤخر الذکر سے تو ایسی سخت نوک جھونک ہوئی کہ اگر عبداللہ بن عبدالحکیم وغیرہ درمیان میں نہ آجاتے تو بُرے نتائج پیدا ہوتے۔ آخر میں عبدالرحمن بن قاسم کی طرف رجوع کیا، یہ اپنے علم وفضل ،زہد وورع اورکبر سنی کی وجہ سے بڑے احترام سے دیکھے جاتے،عبادت وریاضت کا یہ حال تھا کہ دن رات میں تین ختم پڑھتے،اورگھنٹوں نماز میں قیام کرتے تھے۔ علمِ فقہ میں روایت ،رائے اورقیاس سب پر یکساں نظر رکھتے تھےاور ابنِ قاسم کی یہی جامعیت قاضی اسد کے لئے وجہ کشش تھی،ایک دن انہوں نے جوشِ عقیدت میں ان کے متعلق مسجد میں بآوازِ بلند یہ کہا: حضرات !اگر مالک بن انس کا انتقال ہوچکا ہے تو یہ دوسرا امامِ مالک ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ کہتے ہوئے ابنِ قاسم کی طرف اشارہ کیا اور پھر التزام سے روزانہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ اسد یہ کی تدوین اس کے بعد قاضی اسد کا یہ دستور ہوگیا کہ وہ ابنِ قاسم سے روزانہ فقہی مسائل پر سوالات کرتے وہ جوابات دیتے،اسد سوال وجواب دونوں کو بالترتیب لکھتے جاتے،عبدالرحمن بن قاسم اپنے جوابوں میں امام مالک کے فتاویٰ بیان کرتے ان پر احادیث سے استدلال لاتے اورقیاس ورائے سے ان جوابوں کی صحت کے ثبوت بہم پہنچاتے،یہاں تک کہ انہوں نے ان جوابوں کے املا کرانے میں روزانہ کے تین ختموں کے معمول میں سے ایک ختم کو ترک کردیا۔ اس طرح یہ سوال وجواب ساٹھ جزوں میں مدون ہوگئے اوریہی کتاب دنیا میں فقہ مالکی کی اولین کتاب ہے، اسد نے اس مجموعہ کو اپنے نام پر "السدیہ" سے موسوم کیا۔ الاسدیہ کی شہرت اوراس کی نقلیں الاسدیہ کی تدوین کے بعد قاضی اسد کو افریقہ واپسی کا خیال آیا،اس اثناء میں الاسدیہ کی شہرت پھیل چکی تھی،اہل مصر نے اسد سے اس کا ایک نسخہ حاصل کرنا چاہا، انہوں نے اس کے دینے میں تامل کیا اور یہ معاملہ قاضی تک پہنچا،اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی نقل ان کے حوالہ سے کی جائے لیکن اہل مصر اس پر آمادہ نہ تھے،تھوڑے سے ردوکد کے بعد قاضی نےا س کی نقل اسد سے دلوادی۔ جب اسد مصر سے روانہ ہونے لگے تو ابن قاسم نے کچھ سامان ان کے حوالہ کیا کہ اسے افریقہ میں فروخت کرکے اس کی قیمت سے کاغذ خریدا جائے اوراسد یہ کی نقل ان کے پاس بھیج دی جائے؛چنانچہ افریقہ پہنچ کر قاضی اسد نے اس کی نقل ایک عدد تیار کرا کے اپنے استاد کی خدمت میں ارسال کردی۔ ۱۸۱ھ میں قاضی اسد مصر سے قیروان واپس آئے اوریہاں پہنچتے ہی خلقِ خدا کا ہجوم امنڈ پڑا اور انہوں نے مؤطا امام مالک اورالاسد یہ کا درس جاری کردیا،ا مام مالک سے بیک واسطہ احادیث لینے اور الاسدیہ کی روایت اورسماع کیلئے افریقہ اورمغرب کے جلیل القدر علماء نے اسد کے سامنے زانو تلمذ تہہ کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی "اسد یہ کی روایت جسے عرفِ عام میں المدونہ بھی کہنے لگے تھے سارے افریقہ ومغرب میں پھیل گئی۔ تیسری نقل موسومہ المدونۃ الکبریٰ اورامام سحنون اورقاضی اسد میں علمی چشمک جب الاسدیہ شہرۂ آفاق حیثیت حاصل کرکے خاص و عام میں مقبولیت کی نگاہ سے دیکھی گئی تو اہلِ علم نے خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ کی اوراس کی نقل کا اہتمام کیا اسد کے حلقہ درس میں دو جلیل القدر علماء سحنون اورمحمد بن رشید بھی شریک تھے ان دونوں نے اسد کی لا علمی میں اس کی نقل تیار کرنی شروع کی۔ لیکن اس زمانہ میں اہلِ علم کے درمیان کتاب کے نسخوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی تلامذہ کا فرض تھا کہ استاد کی اجازت کے بغیر اس کی نقل نہ لیں اور دراصل وہ نسخے جو استاد کی تصدیق کے بغیر ہوتے معتبر بھی نہ سمجھے جاتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے اس کی نقل حاصل کرنی شروع کی،اس لئے جب اسد کو اس کا حال معلوم ہوا تو انہیں سخت ناگوار گذرا،اب وہ لوگوں کو نسخہ کی جزوی نقل دینے میں بھی احتیاط برتنے لگے،مگر اس وقت تک سحنون قریب قریب مکمل ہوچکا تھا،صرف ایک باب کتاب القسم کی نقل باقی رہ گئی تھی۔ بہرحال سحنون اس کی نقل حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے؛چنانچہ ایک دن ایک شخص جزیرہ سے اسد کے پاس آیا اوران سے کتاب القسم کی نقل چاہی ،قاضی اسد کو شبہ ہوا کہ کہیں یہ سحنون کافر ستادہ نہ ہوا سلئے اسے نقل دینے سے انکار کردیا،بالآخر ا س شخص نے حلف اٹھایا کہ وہ اس کی نقل سحنون کو نہ دے گا، اس پر قاضی صاحب نے کتاب القسم اس کے حوالہ کردی اوراس نے نقل حاصل کرلی۔ وہ شخص فی الواقع سحنون کا فرستادہ ہی تھا؛چنانچہ مطلوبہ نقل لے کر جب وہ امام سحنون کی خدمت میں واپس گیا تو اس نے کہا: "ابو سعید! یہ لو، مگر یہ نقل مجھے بغیر حلف اٹھائے نہ مل سکی،اب مجھے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ اس طریقہ سے"الاسدیہ" کی نقل سحنون کے پاس مکمل تیار ہوگئی مگر اسد کو اس کی خبر نہیں ہوئی، چند دنوں کے بعد سحنون مصر کا قصد کیا، روانگی کے وقت افریقہ کے اہلِ علم ان کی مشایعت کو نکلے، ان میں اسد بھی موجود تھے،اسد نے درپردہ دریافت کرنے کے لئے کہ الاسد یہ کی نقل مکمل ہو گئی یا نہیں، ان سے کہا: " اگر تمہارے پاس یہ مدونہ ہوتی تو تم اسے ابنِ قاسم سے سُن سکتے۔ سحنون نے نہایت سنجید گی سے جواب دیا: وہ میرے سامان میں موجود ہے۔ قاضی اسد یہ سُن کر خاموش ہوگئے،اس کے بعد معلوم ہوا کہ سحنون کے سفرِ مصرکی اصل غرض وغایت ابن قاسم سے الاسدیہ کی روایت وسماع ہی ہے۔ المدونۃ بسماع سحنون کی وقعت واہمیت چنانچہ امام سحنون مصر میں عبدالرحمن بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے،انہوں نے سب سے پہلے قاضی اسد کی خیر وعافیت دریافت کی،سحنون نے کہا "تمام ممالک میں ان کا علم پھیل گیا ہے"ابن قاسم یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد سحنون نے ابنِ قاسم سے الاسدیہ کی روایت اس طرح لینی شروع کی کہ اسد کے مرتب کئے ہوئے سوالات سحنون پڑھتے اورابنِ قاسم اپنے جوابات کو دوہراتے اس طریقہ سے پوری "اسدیہ" تما م ہوئی۔ اس قرأت میں ابن قاسم نے "اسدیہ" کے جوابوں میں حذف وترمیم بھی کردی تھی اور بعض فتووں سے رجوع کرلیا تھا،جب سحنون مصر سے رخصت ہونے لگے تو ابنِ قاسم نے اسد کے نام ایک خط لکھا کہ: تمہاری مدونہ کے جوابوں میں کہیں کہیں ترمیم ہوگئی ہے،تم اپنے نسخہ کی سحنون کے نسخہ سے ملا کر تصحیح کرلو: اگرچہ موجود زمانہ میں بظاہر یہ معمولی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک نسخہ سے دوسرے نسخہ کی تصحیح کرلی جائے مگر اس عہد میں کتابوں کے نسخہ کے لئے جو اہتمام کیا جاتا تھا اوران کی مختلف حیثیات کے لحاظ سے ان میں جو فرقِ مراتب قائم ہوتا تھا،اس لحاظ سے اسد کے لئے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا،لیکن وہ بڑی فراخدالی سے سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہوگئے، مگر دوسری طرف ان کے تلامذہ کی جماعت تھی، اسد نے ان سے بھی تذکرہ پر آمادہ ہوگئے،انہوں نے اس میں اپنے اُستاد کی توہین محسوس کی کہ وہ امام مالک سے شرفِ تلمذ رکھنے کے باوجود سحنون کی شاگردی میں داخل ہوں، کیونکہ سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرلینے کے بعد اس زمانہ کے درس وتدریس کے قواعد کے مطابق اسد سحنون کی شاگردی میں داخل ہوجاتے ؛چنانچہ ان لوگوں نے اسد کو آمادہ کرلیا کہ وہ ابن قاسم کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کردیں اوراسد نے فیصلہ کا اعلان کردیا، لیکن افسوس ہے کہ اسد کا فیصلہ الاسدیہ کے حق میں اچھا نہیں ہوا، امام سحنون نے مصر سے واپس آکر بڑی شان وشوکت سے اپنی مسند درس بچھائی ، سارے مغرب میں ابنِ قاسم کے مکتوب کی شہرت ہوچکی تھی،لوگ جوق درجوق سحنون کے پاس آئے اوران کی ترمیم شدہ اسدیہ کی روایت ان سے لی، جس کی وجہ سے اسد کا نسخہ روز بروز بے وقعت ہوتا گیا اور سحنون کی مدونہ کو اعتبار حاصل ہوتا گیا ،یہاں تک کہ سحنون کو "امام" کا لقب حاصل ہوا اور ان کے نسخہ کی بدولت ان کا نام اسد کے نام پر غالب آگیا۔ اگرچہ موجودہ زمانہ میں سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے سے اسد کا گریز کرنا پسندیدہ نہ سمجھا جائے،مگر اس زمانہ میں نسخوں کی برتری اورپستی اورروایتوں میں راویوں کے بقاء وسماع کے جو اعتبارات قائم تھے، انہیں دیکھتے ہوئے، اسد کا طرزِ عمل شاید قابلِ الزام نہ سمجھا جائے اوردراصل اس میں صحیح رائے اسی زمانے کے اہلِ علم قائم کرسکتے ہیں؛چنانچہ شیخ ابو الفاضل ابو القاسم بن احمد برزلی رحمہ اللہ اسد کے اس طرزِ عمل کے متعلق یوں اظہارِ رائے فرماتے ہیں: درست وہی ہے جو اسد نے کیا؛کیونکہ انہوں نے ابن قاسم سے اپنے سوالوں کے جواب بالمشافہ حاصل کئے تھے،خط کے ذریعہ سے سماع کی مقبولیت کامسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے،اس لئے کسی ایسی چیز کو جو متفق علیہ ہو کسی ایسی چیز کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے جو مختلف فیہ ہے۔ یعنی ابن قاسم کے اس خط کی بنیاد پر جسے سحنون مصر سے لائے تھے ،اسد کے اپنے نسخہ میں جو بالمشافہ سنا ہوا تھا ترمیم واصلاح کرنے سے وہ متفق علیہ نسخہ مختلف فیہ بن جاتا ہے۔ اسد کے لئے اس وقت بہتر شکل یہ تھی کہ وہ خود مصر کا سفر کرتے اورابنِ قاسم کے سامنے اپنے نسخہ کو دہرالیتے ،مگر ان کے مکتوب کے رد کردینے کے بعد شاید استاد وتلمیذ میں ایسی صفائی باقی نہ رہ گئی ہوکہ وہ مصر کا سفر کرتے ،البتہ اس کا امکان مکتوب کے رد کردینے سے پہلے ہی تھا، تاہم ان تمام حالات کے باوجود قاضی اسد تمام عمر ابنِ قاسم کا نام عزت واحترام سے لیتے رہے،اگرچہ یہ روایت بھی مشہور ہوچکی تھی کہ جب عبدالرحمن بن قاسم کو اسد کے انکار کی خبر ملی تو انہوں نے اسد یہ کے غیر مقبول ہونے کی بددعا کی اورشہرت تھی کہ ان کی دعا باب اجابت تک پہنچی، مگر اسد نے کبھی استاد کے ادب واحترام میں کمی نہیں کی اسی زمانہ میں جب یہ مسئلہ چھڑا ہوا تھا، فقیہ معمران کی خدمت میں پہنچے اور انہیں روتے ہوئے پایا،معمر نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا نہیں کوئی مصیبت نہیں لیکن میرے پاس ابن قاسم کا خط آیا ہے ،وہ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں اپنی کتاب سحنون کی کتاب سے دہرا لوں ؛حالانکہ سحنون کی میں نے تربیت کی ہے۔ اس پر معمر نے اسد سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ان کی تعریف کی اورابنِ قاسم کے خط لکھنے پر نکتہ چینی شروع کی،تو اسد فوراً بولے، ایسا نہ کرو اگر تم ابن قاسم کو دیکھتے تو تمہارے لئے یہ کہنا دشوار ہوتا۔ اسی طرح اسد کے عہدہ قضا کے زمانہ میں کسی فقیہ نے ابنِ قاسم کی تنقیص کی اوران کی روایتِ حدیث پر جرح کی جب اسد کو خبر ملی تو انہوں نے اس کی تفتیش کرکے اس فقیہ کو سنگین سزادی اور انہیں بُری طرح پٹوایا۔ الغرض اسد یہ کی تیسری نقل یہی "المدونۃ الکبریٰ"ہے،صرف ان دونوں میں چند مسائل کا فرق ہے اور اس وقت سے دورِ حاضرتک یہی کتاب فقہِ مالکی کی سب سے بڑی اورمستند ترین کتاب خیال کی جاتی ہے۔ "المدونۃ"پہلی مرتبہ ۱۳۲۴ ھ میں مطبع خیر یہ مصر سے چار جلدوں میں شائع ہوئی،اگرچہ اس مطبوعہ نسخہ میں الاسدیہ کاکوئی ذکر نہیں ہے کیونکہ سحنون کے مصر جانے کے بعد ضابطہ کے لحاظ سے ان کی تملیک کا حق سحنون کو بھی حاصل ہوچکا تھالیکن اہل علم وخیر اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ یہ اصل کمائی اسد ہی کی ہے اورامام سحنون نے بھی بخوبی اس کا اعتراف کیاہے ؛چنانچہ ابنِ فرحون نے بھی اپنی کتاب میں امام سحنون کے وہ کلمات درج کئے ہیں جو انہوں نے المدونہ کے متعلق ظاہر کئے تھے اور اس نے المدونہ کے تمام شروح وحواشی اورملحضات وغیرہ کو اسد کے ترجمہ میں الاسدیہ ہی کی طرف منسوب کیا ہے؛چنانچہ رقمطراز ہے: قال سحنون علیکم بالمدونۃ فانھا کلام رجل صالح وروایتہ وکان یقول انما المدونۃ من العلم بمنزلۃ ام القران تجزی فی الصلوۃ عن غیر ھاولا یجزی غیر عنھا سحنون کا قول ہے کہ تمہیں اس مدوّنہ کو اپنے لئے لازم کرلینا چاہئے وہ ایک صالح شخص (ابن قاسم)کا کلام ہے اورایک صالح شخص (اسد)کی روایت ہے اورسحنون کہا کرتے تھے یہ مدونہ علم میں وہی درجہ رکھتی ہے جو نماز میں ام القرآن کا ہے، نماز میں اس کے علاوہ دوسری صورتیں پڑھنے کی اجازت ہے،لیکن اس کے بغیر کوئی نماز جائز نہیں۔ (الایباج المذہب:۹۸) اس لئے گویا علم کی تکمیل مدونہ کے بغیر ممکن نہیں رہی،مدونہ کے ساتھ دوسری کتابیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں؛علامہ ابن فرحون اس کے بعد مزید لکھتے ہیں۔ افرغ الرجال فیھا عقولھم وشرحوھا وبینو ھا فما اعتکف احد علی المدونۃ ودراستھا الاعرف فی ورعہ وزھدہ (معالم الایمان:۲/۱۰) لوگوں نے اس میں اپنی خوب طبع آزمائیاں کی ہیں، شرحیں لکھی ہیں اور اس کی تو ضیحیں کی ہیں، ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس نے اس مدونہ پر بھروسہ نہ کیا ہو اوراس کا درس نہ لیا ہو اورپھر وہ اسد کے زہد وورع کا قائل نہ ہو۔ فقہی مسلک الاسدیہ کے متعلق جس واقعہ کا ذکر سطورِ بالا میں ہوا، اس کے بعد قاضی اسد نے اپنے فتوؤں میں دوسری روش اختیار کی یعنی بعض مسائل خصوصاً معاملات میں وہ فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دینے لگے، پھر عہدۂ قضا پر مامور ہونے کے بعد تو تقریباً تمام معاملات کے فیصلے فقہ حنفی کی رو سے کرتے تھے؛کیونکہ ایک طرف ان کے نسخہ کے مسائل امام سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے کے باعث کلیۃً مشتبہ ہوگئے تھے،اس کے علاوہ مسائل معاملات میں جس قدر جزئیات دولتِ عباسیہ کی سرپرستی کی وجہ سے فقہ حنفی میں منضبط ہوگئے تھے، وہ الاسدیہ میں موجود نہ تھے؛چنانچہ ابوالقاسم زیاد بن یونس سیوری کا بیان ہے۔ "اسد نے ابن قاسم کے خط کو قبول نہیں کیا اوراپنی کتاب موسومہ الاسدیہ پر اعتماد کئے رہے،پھر اہل عراق (احناف) کے مذہب کی اشاعت کرنے لگے" اس طریقہ سے اسد افریقہ میں فقہ حنفی کے سب سے بڑے علمبردار بن گئے اوریہ قدرۃ مالکیوں کو ناگوار گزرا اور ان کے خلاف مختلف افواہیں پھیلائیں،جن میں ایک یہ بھی تھی کہ انہیں امام مالک سے شرفِ تلمذ حاصل نہیں ہوا، اس کا اندازہ مقدسی (۳۷۵ھ) صاحب احسن التقاسیم کی ایک روایت سےہوتا ہے جسے اس نے کسی افریقی سے سُن کر اپنی کتاب میں جگہ دی ہے وہ رقمطراز ہے: میں نے بعض اہل افریقہ سے سوال کیا کہ تمہارے یہاں امام ابو حنیفہ کا مسلک کیونکر پہنچا؛حالانکہ وہ تمہارے راستہ میں نہیں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ: ۱۔ہمارے یہاں سے وہب بن وہب مالک کے یہاں سے فقہ ودیگر علوم میں ماہر ہوکر واپس آئے تو اسد بن عبداللہ(؟)پر ان کی جلاتِ شان اورکبر نفس کی وجہ سے یہ شاق گذرا کہ وہ وہب کے سامنے درس کے لئے زانوئے ادب تہہ کریں اس لئے انہوں نے براہِ راست امام مالک کی طرف رُخ کیا،لیکن وہ اس زمانہ میں بیمار تھے،جب انہیں وہاں ٹھہرے ہوئے کچھ زمانہ گذر گیا اور امام مالک صاحبِ فراش رہے تو انہوں نے اسد سے فرمایا کہ تم وہب کے پاس چلے جاؤ میں نے لوگوں کو سفر کی تکلیفوں سے بچانے کے لئے انہیں اپنا تمام علم ودیعت کردیا ہے۔ امام مالک کا یہ ارشاد اسد پر اور بھی گراں گذرا وہ امام مالک سےمایوس ہوکر کسی ایسے شخص کی جستجو میں لگے جو علمی وقار میں ان کے ہم پلہ ہو،لوگوں نے امام محمد صاحب ابی حنیفہ کا نام بتایا۔ ۲۔چنانچہ وہ امام محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے،انہوں نے ان کا خیر مقدم کیا اوربڑی توجہ سے پیش آئے اوران کی ذکاوت ذہانت اورتحصیل علم کے شوق سے متاثر ہوکر بڑی جانفشانی سے علم فقہ پڑھا یا۔ ۳۔جب اسد کی علمی استعداد قابل اطمینان ہوگئی تو امام محمد نے انہیں حنفی مذہب کا علمبردار بناکرمغرب کی طرف بھیجا،جہاں پہنچ کر انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اورمغرب میں فقہ حنفی کے لئے بہت عمدہ زمین تیار کردی،لوگ فروعات میں ان کی نکتہ رس نگاہ دیکھ کر حیرت کرتے اوروہ ایسے دقیق مسائل بیان کرتے جنہیں لوگوں نے کبھی سُنانہ تھا،تلامذہ کی بڑی جماعت حلقہ بگوش ہوگئی اورانہی تلامذہ نے مغرب کے گوشہ گوشہ میں پہنچ کر اس مذہب کی ایسی ترویج کی کہ وہ مغرب کے تمام افق پر چھا گیا۔ (احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم:۲۳۷،۲۳۸) یہ کسی مالکی المسلک افریقی کا بیان ہے ،اس میں اسد کے مدینہ اورعراق کے سفر کے متعلق جو باتیں ہیں ،وہ قطعی بے اصل ہیں، اس کے صحیح حالات اور مستند روایتوں سے گزر چکے ہیں،پھر وہب بن وہب کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ امام مالک کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے،ورنہ وہب تو اسد کے قیام مدینہ کے زمانہ میں وہیں موجود تھے،اس روایت میں امام مالک سے موطا پڑھنے سے بھی انکار کیا گیا ہے؛حالانکہ جو روایتیں اس سلسلہ میں اوپر گذر چکیں،قاضی عیاض نے بھی اس فہرست میں اسد کا نام رکھا ہے جنہوں نے امام مالک سےموطا پڑھی تھی۔ دوسرے پیرا گراف میں راوی کا جوبیان درج ہے اس میں یہ واقعہ صحیح نہیں کہ امام محمد نے انہیں مذہب حنفی کا علمبردار بناکر افریقہ بھیجا، اگر ایسا ہوتا تو وہ مصر میں ٹھہر کر عبدالرحمن بن قاسم سے"الاسدیہ"مرتب نہ کرتے۔ اسی قسم کی روایتوں کی بنیاد پر یہ شہرت بھی دی گئی کہ اسد نے اس واقعہ کے بعد مالکی مذہب ترک کرکے حنفی مذہب قبول کرلیا، لیکن جہاں تک روایات اور قیاسات سے انہیں دیکھا جاسکتا ہے، اس کی تائید نہیں ہوتی،اسد کے فقہی مذہب کے متعلق سب سے متوازن وبہتر رائے جعفر القیصری کی ہے وہ لکھتا ہے: کان اسد امام العراقیین بالقیروان کافۃ مشھورا بالفضل والدین ودینہ مذھبہ السنۃ اسد قیروان میں احناف کے امام تھے،علم وفضل اوردینداری میں شہرت تامہ رکھتے تھے اوران کا دین و مذہب سنت تھا۔ اس بیان کے آخری فقرہ "دینہ ومذھبہ السنۃ"سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی وسعتِ نظر اوراجتہاد کے ساتھ سنت پر عمل کرتے تھے اورجہاں تک افتاء کا تعلق ہے وہ فقہ حنفی کے مطابق دیتے تھے،تاہم اہل علم نے انہیں ہر دور میں مالکی مذہب کا پیروسمجھا ؛چنانچہ مالکی مذہب کے فقہاء کے حالات میں طبقات کی جو کتابیں مختلف زمانوں میں لکھی گئیں، ان میں "مالکی فقیہ" کی حیثیت سے اسد کا نام موجود ہے،برخلاف اس کے فقہائے احناف کے طبقات کی کتابوں "الجواھرالمضئیہ"وغیرہ میں اسد کا نام نہیں ملتا۔ منصبِ قضا پر تقرر کمال تفقہ وافتاء کے باعث عہدۂ قضا پر بھی مامور ہوئے جس زمانہ میں وہ افریقہ آئے،عبداللہ بن غانم قیروان کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)تھے وہ اسد کے قدر دان اوران کے علم و فضل کے معترف تھے،جب تک زندہ رہے مسائل و معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہے۔ (معالم الایمان:۲/۱۱) ان کی وفات کے بعد ۱۹۱ھ میں ایک دوسرے اہل علم ابو محرز اس عہدہ پر سر فراز کئے گئے ،پھر افریقہ کے شیوخ وعلماء نے اسد کو ممتاز عہدہ پر مامور کرانا چاہا؛چنانچہ علی بن حمید نے والی افریقہ کے شیوخ و علماء نے اسد کو ممتاز عہدہ پر مامور کرانا چاہا؛چنانچہ علی بن حمید نے والی افریقہ زیادۃ اللہ کے سامنے اسد کی علمی مرتبت فضل وکمال اورشہرت کا تذکرہ کرکے اس خواہش کا اظہار بھی کیا،لیکن ابو محرز کو دولتِ غلبیہ کے بانی ابراہیم بن اغلب نے اس عہدہ پر نامزد کیا،اس لئے زیادۃ اللہ نے انہیں معزول کرنا مناسب نہ سمجھا اوراس کی یہ دوسری شکل اختیار کی کہ اسد کو ۲۰۳ھ میں اس عہدہ میں مساوی حیثیت سے ابو محرز کا شریک بنادیا،یہ اسلامی حکومت میں پہلی مثال تھی کہ ایک ہی عہدہ پر ایک ہی حیثیت اوراختیار کے ساتھ دو شخص مامور کئے جائیں۔ اسد کا یہ تقرر قدرۃابو محرز کوناگوار گذرا،علاوہ ازیں ان دونوں میں کسی قدر علمی چشمک موجود تھی، اب یہ معاصرانہ چشمک پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی اورباہمی مسابقت کے جذبات پیدا ہوگئے اورکبھی کبھی مناظرہ مجادلہ تک نوبت پہنچ جاتی،ان دونوں کی چشمکوں کے ایک سے زیادہ واقعات صاحب معالم وغیرہ نے تفصیل سے لکھے ہیں اوران دونوں کے علم وفضل کا موازنہ کیا ہے،مصنف معالم کی رائے ہے: اسد ابو محرز سے علم وفضل میں زیادہ تھے اورانہیں فقہ پر بھی زیادہ عبور حاصل کیا تھا اورابو محرز اگرچہ اسد سے علم و فقہ میں کم پایہ تھے مگر بعض اوقات (مسائل کے جواب میں )حق ان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بعد ۲۰۹ھ میں منصور طبندی نے زیادۃ اللہ کے خلاف خروج کیا اوردارالسلطنت قیروان پر قابض ہوگیا،منصور کے مستولی ہونے کے بعد قاضی ابو محرز اورقاضی اسد دونوں اس کے پاس پہنچے، اس کی مجلس میں سلطنت کے اعیان اورفوج کے ممتاز قائدین موجود تھے، منصور نے ان دونوں کے عہدۂ قضا کی مناسبت سے ان کے سامنے زیادۃ اللہ کے مظالم بیان کیے اور دونوں کی رائے طلب کی ابو محرز نے موقع ومحل سے خائف ہوکر اس کے بیان کی تائید کردی ، لیکن قاضی اسد نے صاف گوئی سے کام لیا اور نہ صرف یہ کہ منصور کے بیان کی تردید کردی ؛بلکہ اسے ظالم ٹھہرایا یہ سن کر ایک فوجی افسر تلوار سونت کر اسد کے سر پر کھڑا ہوگیا، مگر معاملہ فوراً رفع دفع ہوگیا،اس کے بعد یہ دونوں لوٹ آئے اورخائف رہے کہ پھر کوئی ناگوار صورت پیش نہ آئے۔ زیادۃ اللہ نے ۲۱۱ھ میں منصور پر غلبہ حاصل کرلیا اورقیروان پر قابض ہوگیا ،منصور کے روبرو اسد اورمحرز کی جو گفتگو ہوئی تھی،وہ امیر زیادۃ اللہ کے کانوں تک پہنچ چکی تھی،اسی بنا پر زیادۃ اللہ نے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ابو محزر کو عہدۂ قضا سے معزول کردیااور قاضی اسد اپنے عہدہ پر فائز رہے اور اب وہ افریقہ کے تنہا قاضی القضاۃ تھے۔ افریقہ کے اعیان وعلماء قاضی اسد کے عہدۂ قضا کا احترام اورلحاظ اس کے شایان شان کرتے تھے ایک مرتبہ قاضی اسد نے یہاں کے چند معزز اہل علم سحنون بن سعید، عون بن یوسف اورابن رشید کو اپنی مجلس میں طلب کیا اور کسی مسئلہ میں ان کی رائے دریافت کی،سحنون کے ساتھیوں نے سحنون سے وجہ پوچھی تو انہو ں نے کہا: مجھے خوف ہوا کہ ہم ان کی خدمت میں اس حال میں پہنچے تھے کہ باہم دوست تھے اوران کے پاس سے نکلتے تو ایک دوسرے کے دشمن ہوتے۔ قاضی اسد کے زیر قیادت صقلیہ کی فتح والی افریقہ زیادۃ اللہ بن ابراہیم نے جب ۲۱۲ھ میں صقلیہ پر حملہ کرنے اوراسے دارالاسلام بنانے کا ارادہ کیا تو اس نے افریقہ کے اعیان علماء فقہا اوراہل رائے کی ایک مجلسِ مشاورت منعقد کی، جس میں قاضی اسد بہت پیش پیش رہے اوردرحقیقت انہی کی رائے اور مشورہ سے صقلیہ پر حملہ کا پلان قطعی طور پر طے پایا تھا۔ اسی باعث جب امیر زیادۃ اللہ نے صقلیہ پر حملہ آور فوج تیار کرلی تو اس کی سپہ سالاری کے لئے اس کی نظر انتخاب قاضی اسد پرپڑی، انہیں جب امیر کے اس فیصلہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسندِ قضأوافتاء کو چھوڑ کر امارت عسکری کے اس جدید منصب کو قبول کرنے میں کسی قدر پس وپیش کیا اور امیر زیادۃ اللہ سے عرض کیا کہ :مجھے منصبِ قضا جیسے دینی منصب سے الگ کرکے فوج کی امارت سپرد کی جاتی ہے؟زیادۃ اللہ نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا:تم عہدۂ قضا پر بھی فائز رہو اورلشکر کی امارت بھی تمہارے سپرد کی جاتی ہے جو اپنے اعزاز اوررتبہ میں عہدۂ قضا سے زیادہ بلند ہے،میں تمہارے لئے قضاء کا انتساب بھی باقی رکھتا ہوں اورتمہیں "قاضی امیر"سے خطاب کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدۂ امارتِ فوج اورمنصب قضا دونوں کی سندیں لکھ کر امیر نے ان کے حوالہ کیں،قاضی اسد کے سوانح نگاروں نے نہایت والہانہ انداز میں لکھا ہے: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ افریقہ میں اس سے پیشتر ان دو جلیل القدر عہدوں پر کوئی شخص بیک وقت فائز نہیں ہوا تھا۔ (معالم الایمان :۲/۱۴،وریاض النفوس:۱۸۲) قاضی اسد کی سپہ سالاری کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ افریقہ کے معزز اہل علم ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرنے کے لئے کارواں درکارواں فوج میں بھرتی ہونے لگے،یہاں تک کہ مؤرخین کا بیان ہے کہ اسد کی شخصیت کی کشش افریقہ کے عزلت گزیں صوفیہ کو بھی ان کے حجروں سے باہر نکال لائی۔ بہر حال قاضی اسد کی سرگردگی میں یوم شنبہ ۱۵ ربیع الاول ۲۱۲ھ کو دس ہزار منتخب سرفروشوں کا لشکر صقلیہ کو دارالاسلام بنانے کے لئے قیروان سے روانہ ہوا،یہ جنگی بیڑا سات سو جہازوں پر مشتمل تھا، جن میں سات سو سوار اوردس ہزار پیادہ فوج تھی، یہ بیڑا ۱۸ ربیع الاول ۲۱۲ھ،۸۲۷ء کو صقلیہ کے ساحلی شہر مازر میں لنگر انداز ہوگیا (ابن اثیر:۶/۲۳۶)اور اس شہر کو بلا کسی زحمت ومزاحمت کے قبضہ میں کرلیا اورپھر سپہ سالار قاضی اسد نے یہیں مورچہ بندی کرکے دشمن کا انتظار شروع کردیا،لیکن تین روز کے شدید انتظار کے باوجود بھی دشمن کی فوجیں نظر نہیں آئیں ؛چنانچہ قاضی صاحب نے مازر کے قلعہ پر فتح و نصرت کا جھنڈا لہرانے کے بعد پیشقدمی کی اورمقامِ مرج پہنچ کر مجاہدین خیمہ زن ہوگئے۔ حکومت صقلیہ نے اپنی حربی تیاریوں کے علاوہ حکومتِ قسطنطنیہ اوردنیس سے بھی امداد طلب کی تھی ؛چنانچہ ان تینوں حکومتوں کا مشترکہ عظیم الشان لشکر اسلامی فوج سے مقابلہ کے لئے مرج پہنچا اوراس طرح ایک طرف دس ہزر بے وطن سپاہی صف آراء تھے اوردوسری طرف ڈیڑھ لاکھ زرہ بکتر رومیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔(نہایۃ الادب:۴۴۹) قاضی اسد لوائے جنگ اپنے ہاتھ میں سنبھالے ہوئے تھے،مجاہدین اسلام دم بھر کر لرزہ براندام ہوکر رہ گئے،قاضی صاحب نے جونہی اس کیفیت کو محسوس کیا نہایت جوش وخروش کے ساتھ سامنے آئے اور بلند آواز سے سورۃ یسین تلاوت فرمائی پھر مجاہدین کو خطاب کیا: مورخین لکھتے ہیں کہ قاضی اسد کا خطاب ایسا بر محل اور ولولہ انگیز تھا کہ اسلامی فوج کی ہمت وشجاعت پھر عود کر آئی اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ان میں کا ہر فرد اپنی تشنہ تلواروں کی پیاس بجھانے کے لئے بے قرار ہے (معالم الایمان:۲/۱۵) اسی خطاب میں اسد نے کہا: مجاہدو: یہ ساحل کے وہی عجم ہیں جو روپوش ہوکے یہاں جمع ہوگئےہیں یہ تو تمہارے بھاگے ہوئے غلام ہیں، ان سے کہیں خائف نہ ہوجانا۔ اسد اپنے مذکورہ بالا الفاظ کو گنگناتے ہوئے آگے بڑھے اور رجز خوانی کرتے ہوئے رومیوں پر ٹوٹ پڑے،مجاہدین نے بھی تلواریں سنبھالیں اورفوج کے اس جنگ میں گُھس گئے اور گھمسان کی لڑائی ہونے لگی ،رومیوں نے سارا زور اسد پر صرف کیا اورانہی پر پے درپے حملے کرتے گئے جس کا وہ بھی پامردی سے جواب دیتے رہے اور گو زخموں سے شکستہ حال ہوگئے مگر لوائے جنگ ہاتھ سے نہ چھوٹا، یہاں تک کہ جس ہاتھ میں جھنڈا تھا وہ خون سے تر ہوگیا مگر اسد نے اسے سرنگوں نہ ہونے دیا۔ آخر رومیوں کے پائے ثبات میں لغزش آئی،ٹڈی دل فوج درہم برہم ہونے لگی اور وہ خیمہ وخرگا چھوڑ کر بھاگنے لگے، خلاصہ یہ کہ صقلیہ کا یہ پہلا معرکہ مسلمانوں کے ہاتھ رہا ،اس پہلی معرکہ آرائی میں سب سے نمایاں کارنامہ خود امیر لشکر قاضی اسد کا تھا، زیادۃ اللہ نے اس کے فتح و ظفر کا مژدہ خلیفہ وقت ماموں کو بھیجا اوراس کی شہرت تمام عالمِ اسلامی میں پھیل گئی۔ وفات قاضی اسد نے سرزمین صقلیہ میں اسلامی حکومت کا جھنڈا لہرانے کے بعد مزید پیش قدمی کی اورسرقوسہ کا محاصرہ کرلیا اور ایک طویل ترین مدت تک یہ محاصرہ جاری رہا یہاں تک کہ محاصرین اورمحصورین دونوں اپنے بعض خاص حالات کی وجہ سے سخت پریشان اورعاجز آگئے تھے،اس محاصرہ کے دوران فریقین کے درمیان ہلکی پھلکی چھڑپوں کا سلسلہ برابر جاری رہا، تیروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ (ابن اثیر:۶/۲۳۷، وابن خلدوق:۴/۱۹۹) محاصرہ کی یہی حالت قائم تھی کہ اسلامی لشکر پر ایک نئی افتاد آپڑی،لڑائیوں کا جو سلسلہ قائم تھا، اسی میں اتفاق سے امیر لشکر اسد بھی زخمی ہوگئے، زخم اتنا کاری تھا کہ وہ اس سے جانبر نہ ہوسکے اور انہی زخموں کو تاب نہ لاکر حالتِ محاصرہ ہی میں بماہ ربیع الآخر ۲۱۳ھ ۸۲۸ء علم وفضل اور شجاعت وشہامت کا یہ آفتاب غروب ہوگیا،فاتح صقلیہ اسی زمین کا پیوند بنا جسے وہ اپنے فتویٰ اور فتحمندی سے دار الاسلام قرار دے چکا تھا۔ قاضی اسد کی وفات سے افریقہ میں گھر گھر صفِ ماتم بجھ گئی،خود زیادۃ اللہ کو اس کا نہایت غم ہوا،ان کے مرقد پر ایک مسجد تعمیر کی گئی نیز قیروان میں بھی ان کی یاد گار کے طور پر ایک مسجد بنائی گئی جس پر "اسد بن فرات" کندہ ہے۔ (ریاض النفوس دراماری:۱۸۱ ومعالم :۲/۱۷) نوٹ:اسد بن فرات کے مذکورہ بالا سوانح وکمالات بعض ضروری ترمیمات اورحوالوں کے اضافہ کے ساتھ تاریخ صقلیہ مولفہ مولانا ریاست علی ندوی مرحوم سے ماخوذ ہیں۔