انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جہنم سے پناہ کے متعلق اکابر کے ملفوظات حضرت ابو سلیمان دارانی کی حالت حضرت احمد بن ابو الحواری فرماتے ہیں میں حضرت ابو سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے انہیں عرض کیا آپ کیوں روتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا اگر اللہ تعالی نے مجھے گناہوں کی حالت میں طلب فرمایا تو میں اس سے معافی کی فریاد کروں گا،اگر مجھے میرے بخل کے ساتھ طلب فرمایا تو میں اس کی سخاوت کی فریاد کروں گا اور اگر مجھے جہنم میں ڈال دیا تو میں سب دوزخیوں کو بتلادوں گا کہ میں اللہ تعالی سے محبت کیا کرتا تھا۔ خدا تعالی سے نیک گمانی کا مطلب حضرت علی بن بکار سے اللہ تعالی کے متعلق نیک گمانی کا سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا(کہ خداتعالی کے ساتھ نیک گمان کا مطلب یہ ہے کہ)وہ تمہیں اورنافرمانوں(کافروں)کو ایک جگہ جمع نہیں فرمائیں گے . (کتاب حسن الظن باللہ لابن ابی الدنیا) میدان عرفات میں ایک دعا کرنے والا سلیمان بن الحکم سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے(حج کے دوران)میدان عرفات میں دعا کرتے ہوئے کہا(اے اللہ ہمیں جہنم کا عذاب نہ دینا اس کے بعد کہ آپ نے اپنی توحید ہمارے دلوں میں بسائی ہے پھر وہ رونے لگ گیا اور کہنے لگا میں نے آپ کے ساتھ دوستی اس لئے نہیں کی کہ آپ میرے ساتھ در گذر کا معاملہ نہ کریں وہ پھر رونے لگ گیا اورکہنے لگا اوراگر آپ ایسا کریں گے تو ہمارے اعمال بد کے ساتھ کیجئے، ہمیں اورظالم قوم (کافروں)کو ایک ساتھ ہرگز جمع نہ کرنا ہم نے آپ کی وجہ سے ان سے عداوت اختیار کی ہے۔ مشرک کے ساتھ موحد دوزخ میں نہیں رہے گا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ وہ آدمی جو آپ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اور جو شریک نہیں ٹھہراتا انہیں (دوزخ میں)ایک ساتھ جمع نہ فرمانا۔ دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان رکھنے والا دوزخ میں نہیں رہےگا ابو حفص صیر فی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے یہ آیت تلاوت کی: "وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ" (النحل:۳۸) (ترجمہ)اور قسمیں کھائیں (کفارنے) اللہ کی مضبوط قسمیں کہ جومرجاتا ہے اسے اللہ (دوبارہ)زندہ نہیں کرےگا۔ فرمایاکہ ہم بھی اللہ تعالی کی مضبوط قسم اٹھاتے ہیں کہ جو مرتا ہے اللہ اسے ضرور زندہ کریں گے کیا تو سمجھتا ہے کہ دونوں(قسم اٹھانے والوں)کو ایک جگہ جمع فرمادیں گے؟پھر حضرت ابو حفص خوب رونے لگ گئے۔ (ابن ابی الدنیا) اللہ تعالی ایمان کی دولت عطا فرما کر جہنم میں نہیں ڈالیں گے حضرت عون بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ایسے نہیں ہیں کہ ہمیں شر(گمراہی) سے بچالیں پھر دوبارہ اس (جہنم)میں ڈال دیں (جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ)تم لوگ (بالکل)دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے(یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنا قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے لئے صرف مرنے کی دیر تھی)سو اس(گڑھے)سے خداتعالی نے تمہاری جان بچائی (آل عمران:۱۰۳) (یعنی اسلام نصیب کیا)اور اللہ تعالی دو قسم اٹھانے والوں کو آگ میں جمع نہیں کریں گے(جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا اوراللہ کی قسمیں اٹھائیں ان (کفار)نے سخت قسمیں کہ جو مرجائے اسے اللہ تعالی زندہ نہیں کرے گا(النحل:۳۸)اورہم بھی اللہ کی قسم کھاتے ہیں مضبوط قسم کہ جو بھی مرے گا اللہ تعالی اسے ضرور زندہ کرےگا۔ ہارون رشید بادشاہ کی حالت حضرت ابن سماکؒ فرماتے ہیں جب مجھے ہارون رشید (بادشاہ)نے بلایا اور کہا کہ کچھ گفتگو کریں اوردعا فرمائیں تو جب میں نے دعا کی تو اس نے اس دعا پر بہت عجیب کیفیت طاری کی میں نے دعا میں کہا تھا۔ اللھم انک قلت: واقسموا باللہ جھد ایمانھم لایبعث اللہ من یموت ‘اللھم انا نقسم باللہ جھد ایماننا تسبعثن من یموت افتراک یارب تجمع بین اھل القسمین فی مکان واحد اے اللہ آپ کا ارشاد ہے کہ کفار نے اللہ کی مضبوط قسمیں کھائیں کہ جو مرجاتا ہے اسے اللہ زندہ نہیں کریں گے اے اللہ ہم بھی آپ کی مضبوط قسم کھاتے ہیں کہ جو مرے گا اسے آپ ضرور زندہ فرمائیں گے اے رب کیا آپ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں کہ دو(کفر اور ایمان کی مختلف )قسمیں کھانے والوں کو ایک ہی جگہ پر جمع فرمائیں گے؟ ہارون یہ دعا سنتا تھا اور روتا تھا۔ اکثر دوزخی کون ہوں گے اصل دوزخی تو وہ ہوں گے جن کے لئے دوزخ تیار کی گئی ہے یہی اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِينَ" (البقرہ:۲۴) جہنم کفار کے لئے تیار کی گئی ہے،جولوگ اصل جہنمی ہوں گے وہ نہ تو اس میں جئیں گے نہ مریں گے(؛بلکہ موت وحیات کی کشمکش میں ہوں گے) یہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان نافرمان مسلمانوں سے زیادہ ہوں گے جو دوزخ میں (جل کر گناہوں کی)صفائی اورپاکیزگی حاصل کرکے نکالے جائیں گے۔ (حدیث)اس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کو حضرت ابو سعید خدریؓ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے نقل کیا گیا ہے کہ آپﷺنے فرمایا: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا آدَمُ يَقُولُ لَبَّيْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْکَ فَيُنَادَى بِصَوْتٍ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُکَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ قَالَ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ أُرَاهُ قَالَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ فَحِينَئِذٍ تَضَعُ الْحَامِلُ حَمْلَهَا وَيَشِيبُ الْوَلِيدُ"وَتَرَى النَّاسَ سُکَارَى وَمَا هُمْ بِسُکَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ"فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى تَغَيَّرَتْ وُجُوهُهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ ثُمَّ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ کَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ أَوْ کَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جَنْبِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَکَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ. (بخاری،باب وتری الناس سکاری،حدیث نمبر:۴۳۷۲) (ترجمہ)روزقیامت اللہ عزوجل(حضرت آدم سے)ارشاد فرمائیں گے اے آدم توحضرت آدم عرض کریں گے "لبیک وسعدیک"(ھود:۱۷) (یعنی)جو شخص دوسرے فرقوں میں سے اس قرآن کا انکار کرے گا تو دوزخ اس کے وعدہ کی جگہ ہے اور وہ جو محکم کتاب دائمی شریعت اوردین حق کے ساتھ منسلک ہوئے تو ان میں سے بھی بہت سےدوزخی ہوں گے اور یہ منافق ہوں گے جو دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل ہوں گے،اوروہ لوگ جو کسی دین کے ساتھ ظاہری اورباطنی طور پر منسلک ہوئے ان میں سے بھی بہت سے شبہات کے فتنوں میں مبتلا ہوئے وہ بھی جہنم میں جائیں گے اور یہ اہل بدعت وضلالت ہیں۔ قرآن کریم میں بھی وارد ہوا ہے کہ اکثر لوگ دوزخی ہوں گے اور یہ لوگ وہ ہوں گے جو شیطان کے پیروکار (کافر)تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: "وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ" (سباء:۲۰) اور"لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ" (ص:۸۵) (ترجمہ)اور واقعی ابلیس نے اپنا گمان ان لوگوں کے بارے میں(یعنی بنی آدم کے بارے میں)صحیح پایا(یعنی اس کو جو گمان تھا کہ میں آدم کی اکثر اولاد کو گمراہ کردوں گا کیونکہ یہ مٹی سے اور میں آگ سے پیدا ہوا ہوں، درمنثور) اس کا یہ گمان صحیح نکلا)کہ یہ سب اسی راہ پر ہوئے مگر ایمان والے تو بالکل محفوظ رہے اور ضعیف الایمان کو گناہوں میں مبتلا ہوگئے مگر شرک و کفر سے وہ بھی محفوظ رہے) میں واللہ) تجھ (شیطان) سے اورجو ان (لوگوں میں(سے)تیرا ساتھ دے ان سب سے دوزخ بھردوں گا۔ دوزخ میں عورتیں زیادہ ہوں گی اوراس کی وجہ گناہگار مسلمانوں میں سے اکثر لوگ جو جہنم میں جائیں گے وہ عورتیں ہوں گی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت عباس فرماتے ہیں نبی کریم ﷺنے کسوف کے خطبہ میں فرمایا: أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ قِيلَ أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْکَ خَيْرًا قَطُّ (بخاری،باب کفران العشیر وکفر دون کفر،حدیث نمبر:۲۸) (ترجمہ)میں نے دوزخ کو دیکھا اوراس کے باسیوں میں اکثر عورتوں کو ان کے کفر کی وجہ سے دیکھا ہے سوال کیا گیا کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟فرمایا(ان کے کفر کا معنی یہ ہے کہ)وہ اپنے ساتھ رہن سہن کرنے والوں سے بہتر سلوک نہیں کرتیں اور(خاوند وغیرہ کے ساتھ) اچھے نباہ کی ناشکری کرتی ہیں اگر ان میں سے کسی کے ساتھ مدت دراز تک تو حسن سلوک کرتا رہے پھر وہ تجھ سے کوئی تکلیف پالے تو کہہ دیتی ہے کہ(تیرے پاس)میں نے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔ (بخاری،مسلم) (حدیث)حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ (بخاری ومسلم) (ترجمہ)اے عورتوں کی جماعت تم صدقہ ضرور کیا کرو میں نے تمہیں زیادہ تر دوزخیوں میں دیکھا ہے انہوں نے عرض کیا اے رسول اللہ کس وجہ سے؟فرمایا(اس لئے کہ)تم لعن طعن بہت کرتی ہو اپنے ساتھ رہن سہن کرنے والے (یعنی خاوندوں) کے حقوق بجا نہیں لاتی ہو، میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص عورتوں کو نہیں دیکھا جو تم میں کے مستقل مزاج آدمی کی عقل پر غالب آجاتی ہیں۔ (بخاری،مسلم) اکثر دولتمند اوراکثر عورتیں دوزخ میں (حدیث)حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَاءَ وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْأَغْنِيَاءَ وَالنِّسَاءَ (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص،حدیث نمبر:۶۳۲۲) (ترجمہ)میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر فقراء تھے اور جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر عورتیں اوردولتمند تھے۔ (مسند احمد) جنت میں عورتیں زیادہ ہوں گی ایک مرتبہ صحابہ کرام نے آپس میں بطور تفاخر یا بطور مذاکرہ فرمایا کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کیا آنحضرت ﷺنے درج ذیل ارشاد نہیں فرمایا؟: إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى أَضْوَإِ کَوْکَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ اثْنَتَانِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ وَمَا فِي الْجَنَّةِ أَعْزَبُ (مسلم،باب اول زمرۃ تدخل الجنۃ علی صورۃ،حدیث نمبر:۵۰۶۲) (ترجمہ)پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی ان کی شکل چودھیں رات کے چاند جیسی ہوگی اور جو اس کے بعد داخل ہوگی ان کی شکل آسمان میں سب سے زیادہ چمکنے والے ستارہ کی طرح ہوگی ان میں کے ہر ایک کے لئے دو دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں(کی ہڈیوں) کا گودا گوشت کے اندرسے نظرآئے گا اور جنت میں کوئی آدمی بیوی کے بغیر نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم) دونوں حدیثوں میں موافقت ان دونوں قسم کی احادیث میں جمع کی صورت یہ ہے کہ جنت میں عورتوں کی کمی اورجہنم میں زیادتی اس وقت ہوگی جب یہ گناہگار عورتیں ابھی جہنم میں اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہوں گی اور جب یہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں آجائیں گی اس وقت جنت میں عورتوں کی کثرت ہوگی اور جہنم میں قلت ہوگی یا یہ کہ جنت میں مطلقاً عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی جن میں جنت کی حوریں اوردنیا کی عورتیں شامل ہوں گی نہ یہ کہ صرف دنیا کی عورتیں جنت میں زیادہ ہوں گی اور جہنم میں دنیا کی عورتیں حقیقت میں زیادہ ہوں گی جیسا کہ حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں دو بیویوں کے بدلہ دو حوروں کے لفظ اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ (خرجہ احمد) اسی طرح کی ایک حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے بخاری شریف میں اورحضرت ابو سعیدخدری سے مسلم شریف میں بھی موجود ہے۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ دوزخیوں کے اکثر گناہ عورتوں میں ہیں (زوائد مسند احمد)شاید کہ اس روایت میں زنا اور اس کے متعلقات کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ دوگناہ ایسے ہیں جن کی مغفرت نہیں ہوگی ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کے نزدیک اس کا برا عمل خوبصورت بن جائے اوروہ اسے صحیح جاننے لگے یہ وہ گناہ ہے جس کی وجہ سے یہ امت ہلاک ہوجائے گی، حضرت ابن مسعودؓ کااشارہ اس حدیث میں گمراہ کن شبہات کی طرف ہے واللہ اعلم۔