انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حیات طیبہ۶۱۷ء ابو طالب کی دعوت کفّار قریش دیکھ رہے تھے کہ ان کی مزاحمت کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جاتا ہے ،حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمرؓ جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں، نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی اور وہاں سے ان کے سفراء بے نیل و مرام واپس آئے ، قریش کا رویّہ دن بہ دن سخت سے سخت تر ہوتا جاتاتھا، معاندانہ سرگرمیاں اور سازشیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں، اس سے بنی ہاشم کے سردار کس طرح اپنی آنکھیں بند کر سکتے تھے ، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلّب کو جمع کیا، عصبیتِ قبیلہ کی بناء پر سب ایک ہو گئے بجز ابو لہب کے ، یہ دینی مسئلہ نہیں بلکہ قبیلہ کی حمایت کا سوال تھا،سرداران قریش نے ابو طالب کے پاس جاکر یہ دھمکی دی کے آپ اپنے بھتیجے کو ایسی باتوں سے روکیں یا ہم سے برسر پیکار ہوجائیں یہاں تک کہ ایک فریق فنا ہوجائے، اس کے بعد ابو طالب نے حضور ﷺ کو بلاکر کہا کہ اے بھتیجے آپ مجھ پر اور اپنی ذات پر رحم کھائیے اور ناقابل برداشت بوجھ مجھ پر نہ ڈالئے،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:" اے چچا جان واﷲ اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر مہتاب بھی رکھ دیں تو میں اپنی دعوت سے باز نہ آوں گا۔ جب ابو طالب نے یہ متحدہ محاذ دیکھا تو انھوں نے یہ طئے کیا کہ محمد(ﷺ) کی حفاظت و حمایت کی بات بنو ہاشم کے سامنے رکھیں اور ان کو بھی اس کی دعوت دیں اور محمد(ﷺ) کی حفاظت و حمایت کا عہد ان سے لیں، ابو طالب کی دعوت پر بجز دشمن اسلام ابو لہب کے بنو ہاشم کا ایک ایک فرد جمع ہوگیا اور جب بنو ہاشم کے سامنے ابو طالب نے قریش کی معاندانہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی شدت کی روداد کو رکھ کر محمد(ﷺ) کی حفاظت اور حمایت کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور اپنے عہد و عزیمت کا ان کے سامنے اظہا رکیا اور ان کو بھی اس کی دعوت دی تو سبھوں نے ابو طالب کی دعوت پر لبیک کہا اور عہد کیا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں گے، ابوطالب اپنے نوجوانوں کے اس فیصلہ سے بہت مسرور ہوئے اور انتہائی مسرت میں پر جوش الفاظ میں خاندانی مفاخرت اور ہاشمی شجاعت اور ہمیشہ ظلم کی مدافعت میں سینہ سپر رہنے کی روایات پر اشعار کہے اور قصائد لکھ کر بنو ہاشم کو ان کی عظمت کا احساس دلایا،یہ اشعار کعبہ میں بلند آواز میں پڑھے گئے، ابن اسحاق کے مطابق ابو طالب کو جب قریش کے حملہ کا خطرہ پیدا ہوا تو انھوں نے ایک قصیدہ لامیہ لکھا جو (۹۴) اشعار پر مشتمل ہے اور جس میں حرم کعبہ کے ساتھ پناہ مانگی ہے اور قوم کے روساء سے دوستی کا اظہا ر کیا ہے کہ وہ تاحیات رسول اﷲﷺ کی مدد اور نصرت سے دستبردار نہ ہونگے، علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ عظیم الشان قصیدہ نہایت فصیح و بلیغ ہے ، اس قصیدہ کا قائل وہی ہوسکتاہے جس کی طرف منسوب ہے،یہ قصیدہ سبعہ معلقہ سے الفاظ کے لحاظ سے ایک اعلیٰ شاہکار اور معانی کی حیثیت سے نہایت بلیغ و فصیح ہے ، ان اشعار کے ذریعہ ابوطالب نے ابو لہب کو غیرت دلائی، ابو طالب کی کوششوں سے بنی ہاشم ، بنی مطلّب اور بنی عبد مناف کی عصبیت جاگ اٹھی۔ ابو طالب نے اس قصیدہ کے ذریعہ جہاں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک جگہ جمع کیا وہاں حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کا اظہار بھی کیا ہے ، چنانچہ ایک شعر میں کہتے ہیں، بخدا ! ہم کبھی بھی محمدﷺ کو تمہارے سپرد نہ کریں گے خواہ ہمارے درمیان معرکہ گرم ہو جائے ، آپﷺ کی حفاظت کے لئے ہم کثرت سے آپﷺ کے گرد و پیش جمع ہو جائیں گے حتیٰ کہ اپنے بچوں اور بیویوں سے بھی غافل ہو جائیں گے،ایک اور شعر میں کہتے ہیں، میری عمر کی قسم ! مجھے احمد " صلی اللہ علیہ و سلم" اور اس کے بھائیوں سے بے پناہ محبت ہے جس طرح ایک محب خالص کی عادت ہوتی ہے۔ اس پُر زور قصیدہ نے قبائلی وقار کی خاطر منتشر قوتوں کو یکجا کر دیا بنی ہاشم ، بنی مطلب اور بنی عبد مناف تینوں گھرانے آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے متحد ہو گئے۔ ( مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ)