انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۷۳۔مکحول الدمشقیؒ نام ونسب مکحول نام،ابوعبداللہ یا ابو ایوب کنیت ہے، ان کے نسب اور وطن کےبارہ میں روایت مختلف ہیں،ابن سعد کا بلی لکھتے ہیں (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۱۶۱)ابن حجر نے کئی روایتیں نقل کی ہیں ،بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عجمی النسل تھے اوران کے والد کا نام سہراب تھا، بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ مصری تھے اور بعض سے نتیجہ نکلتا تھا کہ ہذلی یعنی عرب تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۹۰) لیکن آخری دوروایتیں اس معنی میں قطعاً غلط ہیں کہ وہ نسلاً ہذلی یا مصری تھے نسلاً وہ بلاشک وشبہ عجمی تھے،ہذلی اورمصری اس لیے مشہور ہیں کہ وہ کچھ دنوں ایک ہذلی کی غلامی میں رہے تھے اور ایک عرصہ تک مصر میں قیام رہاتھا۔ اس باب میں امام نووی کا بیان زیادہ قرین قیاس اورصحیح ہے، انہوں نے ان کو عجمی النسل اورکابل الموطن لکھا ہے؛چنانچہ ان کی روایت کے مطابق ان کا نسب نامہ یہ ہے مکحول بن زید یا ابن ابی مسلم بن شاذل بن سند بن شروان بن یروک بن یغوث بن کسری کابلی دمشقی (تہذیب الاسماء:۱/۱۱۳) اس بیان سے مختلف روایتوں میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے کہ وہ نسلاً عجمی،وطناً کابلی اور اقامۃً دمشقی تھے۔ ان کی ابتدائی تاریخ یہ ہے کہ وہ شروع میں عمرو بن سعید بن العلاص کے غلام تھے ،پھر انہوں نے ان کو ایک ہذلی شخص کو دے دیا تھا، اس دوسری غلامی کی وجہ سے ان کی غلامی کے انتساب میں دوبیانات ہوگئے ہیں،ایک یہ کہ وہ عمروبن سعید کے غلام تھے،اوردوسرا یہ کہ ہذلی کے غلام تھے اور دونوں صحیح ہیں،ان کی غلامی کی ابتدا عمرو بن سعید سے ہوئی ،جیسا کہ خود ان کا بیان ہے کہ میں عمروبن سعید بن العاص کا غلام تھا،پھر انہوں نے مجھے ایک ہذلی کو دے دیا (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱۶۱) عقلی قیاس بھی یہی ہے؛کیونکہ عمرو کے والد سعید نے عہد عثمانی میں کابل کے بعض سرحدی علاقوں کو فتح کیا تھا (فتوح البلدان بلاذری:۳۴۲) قیاس یہی ہےکہ انہی معرکوں میں وہ سعید کے غلام تھے۔(تذکرہ الحفاظ:۱/۹۵)پھر وراثتاً ان کے لڑکے کو ملے ہوں گے۔ تحصیل علم کے لیے دنیائے اسلام کا سفر مسلمانوں کی غلام نوازی اوران کے فیضِ تربیت سے ان کے غلام غلامی کی پستی سے نکل کر کمال کے جن مدارج پر پہنچے،مکحول اس کی ایک روشن مثال تھے،ان کا آغاز غلامی سے ہوا، اور آخر میں وہ شام کی مسند علم پر فائز ہوئے،پھر غلامی سے آزادی کے بعد انہوں نے ساری دنیائے اسلام کے تمام علمی مرکزوں کا سفر کرکے تحصیلِ علم کی،ان کا بیان ہے کہ جب میں آزاد ہوا، اس وقت مصر کا سارا علم میں نےسمیٹ لیا اور اس وقت تک میں نے وہاں سے باہر قدم نہیں نکالا ،جب تک اپنے خیال کے مطابق وہاں کا سارا علم سن نہ لیا۔ مصر کے علمی مخزن کو کھنگالنے کے بعد مدینہ آئے،پھر یہاں سے عراق آگئے،ان دونوں مقاموں کے تمام علمی سرچشموں سے سیراب ہونے کے بعد شام کا سفر کیا اوریہاں کے علماء اربابِ کمال سے استفادہ کیا،غرض انہوں نے علم کی تلاش وجستجو میں دنیائے اسلام کا چپہ چپہ چھان مارا، وہ خود بیان کرتے تھے کہ میں نے علم کی تلاش میں تمام روئے زمین کا چکر لگایا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۵) فضل وکمال ان کے اس ذوق وشوق ،اس تلاش وجستجو اوراس مشقت نے انہیں علم کے اس ذروہ کمال تک پہنچا دیا تھا،جہاں ان کے کم معاصر پہنچ سکے تھے،امام زہری کہتے تھے کہ علماء صرف تین ہیں،ان تین میں ایک نام مکحول کا لیتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۵)ابن یونس کا بیان ہے کہ وہ فقیہ ورعالم تھے،ان کی توثیق پر سب کا اتفاق ہے،ابن عمار کہتے ہیں کہ وہ اہل شام کے امام تھے (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۵۱) انہیں حدیث اورفقہ دونوں میں درجہ امامت حاصل تھا۔ شیوخ انہوں نے ہر خرمن سے خوشہ چینی کی تھی،اس لیے ان کے شیوخ کی فہرست نہایت طویل ہے،کوئی ملک ان سے خالی نہیں تھا،ان میں صحابہ کی بھی خاصی تعداد تھی،صحابہ میں انہوں نے انس بن مالکؓ،ابوہندواریؓ،واثلہ بن اسفعؓ، ابوامامہؓ،عبدالرحمن بن غنمؓ، ابو جندل برسہیل وغیرہ سے براہ راست سماع کیا تھا (تہذیب الاسماء،ج۱،ق۲،ص ۱۱۳)اور ابی بن کعبؓ،ثابانؓ،عبادہ بن ثابت ،ابوہریرہؓ،ابوثعلبہ خشنیؓ، اورعائشہ صدیقہؓ سے مرسل روایات کی ہیں (تہذیب الاسماء،ج اول،ق ۲،ص ۱۱۳) ممتاز تابعین میں سعید بن مسیب،مسروق،جبیر بن نضیر،کریب،ابو مسلم،ابو ادریس خولانی، عروہ بن زبیر، عبداللہ بن محیریز،عینیہ بن ابی سفیان درادکاتب ،مغیرہ ،کثیر بن مرہ اورام الدرداء وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ (تہذیب الاسماء،ج ۱ق۲، ص۱۱۳) تلامذہ ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع تھا،ان میں سے بعض ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں امام زہری،حمید الطویل،محمد بن عجلان،محمدبن اسحٰق ،عبداللہ بن علاء،سالم بن عبداللہ،محاربی موسیٰ بن یسار،امام اوزاعی،سعید بن عبدالعزیز،علاء بن حارث،ثور بن یزید،ایوب بن موسیٰ،محمد بن راشد مکحولی،محمد بن ولید زبیدی،برد بن سنان ،عبداللہ بن عوف،یحییٰ بن سعید انصاری، اسامہ بن زید لیثی،نخیر بن سعد،صفوان بن عمرو اور اثابت بن ثوبان وغیرہ۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ص۱۱۴، ق۲) فقہ وفتاویٰ حفظ حدیث کے ساتھ وہ فقہ کے بھی امام ومجتہد تھے،ابوحاتم کہتے تھے کہ میں نے شام میں مکحول سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا،سعید بن عبدالعزیز انہیں امام زہری سے بڑا فقیہ مانتے تھے،انہیں افتاء میں خاص مہارت اور بصیرت حاصل تھی،سعید بن عبدالعزیز کا بیان ہے کہ ان کے زمانہ میں ان سے زیادہ افتاء میں بصیرت کسی کو حاصل نہ تھی۔ احتیاط لیکن وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،اگر اپنی رائے سے وہ کسی مسئلہ کا جواب دیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے،یہ میری رائے ہے،جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ (تہذیب :۱۰/۲۹۱) فقہ وفتاویٰ حفظ حدیث کے ساتھ وہ فقہ کے بھی امام ومجتہد تھے،ابو حاتم کہتے تھے کہ میں نے شام میں مکحول سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا،سعید بن عبدالعزیز انہیں امام زہری سے بڑا فقیہ مانتے تھے،انہیں افتاء میں خاص مہارت اوربصیرت حاصل تھی،سعید بن عبدالعزیز کا بیان ہے کہ ان کے زمانہ میں ان سے زیادہ افتاء میں بصیرت کسی کو حاصل نہ تھی۔ احتیاط لیکن وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،اگراپنی رائے سے وہ کسی مسئلہ کا جواب دیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے،یہ میری رائے ہے،جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ (تہذیب :۱۰/۲۹۱) تصانیف ان کے فقہی کمال کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ تالیف وتصنیف کا آغاز بھی نہ ہوا تھا،انہوں نے فقہ میں دو مستقل کتابیں تالیف کی تھیں۔(۱)کتاب السنن اور (۲)کتاب المسائل۔ (شذرات الذہب:۱/۱۴۶) انفاق فی سبیل اللہ علمی کمالات کے ساتھ وہ اخلاقی فضائل سے بھی آراستہ تھے،انفاق سبیل اللہ اورجہاد فی سبیل اللہ ان کا نمایاں وصف تھا،انہیں جو کچھ ملتا سب خدا کی راہ میں صرف کردیتے تھے،سعید بن عبدالعزیز کا بیان ہے کہ مکحول کا وظیفہ مقرر تھا،اس کو دشمنان خدا کے لیے جہاد میں صرف کرتے تھے (فہرست ابن ندیم :۳۱۸،طبع مصر) ایک مرتبہ ان کو دس ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم ملی اس کو بھی انہوں نے اسی راہ میں صرف کیا اورایک مجاہد کو ایک گھوڑے کی قیمت پچاس اشرفیاں دیتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۶) ایک شبہ کا ازالہ مکحول کے متعلق عام شہرت تھی کہ وہ قدری تھے اوراس کی تائید میں بعض روایات بھی ملتی ہیں،لیکن بہ روایات صحیحہ ان کا دامن اس عقیدہ فاسد سے پاک تھا،امام اوزاعی کا جو ان کے تلامذہ میں تھے بیان ہے کہ جہاں تک سنا گیا ہے،تابعین میں دو شخص حسن بصری اورمکحول کے خیالات قدری تھے، لیکن میں نے ان کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ شہرت غلط ہے (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۹۱) ان کے دوسرے تلمیذ سعید بن عبدالعزیز بھی اس عقیدہ سے ان کی برأت کی شہادت دیتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۶) وفات ابن سعد کی روایات کے مطابق ۱۱۲ھ ۱۱۳یا ۱۱۸ھ میں وفات پائی۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱۶۱)