انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۱۔سلیمان بن یسار نام ونسب سلیمان نام، ابو تراب کنیت،ام المومنین حضرت میمونہؓ کی غلامی کا شرف رکھتے تھے،پھر انہوں نے ان کو مکاتب بنادیا تھا، اس غلامی نے سلیمان کو علم و عمل کی دولت سے مالا مال کردیا تھا۔ حرم نبوی میں آمد ورفت حضرت میمونہؓ کی غلامی کے توسل سے سلیمان حضرت عائشہؓ وغیرہ کی خدمت میں آتے جاتے تھے،اوروہ ان کی غلامی کے زمانہ تک ان سے پردہ نہ کرتی تھیں خود سلیمان کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر بار یابی کی اجازت چاہی، آپ نے آواز پہچان کر فرمایا، تم نے آزادی کے متعلق جو طے کیا تھا،اسے پورا کیا، میں نے عرض کیا، ہاں لیکن ابھی تھوڑا سا باقی ہے، فرمایا تو اندر چلے آؤ، تم اس وقت تک غلام ہو جب تک تمہارے ذمہ کچھ بھی باقی ہے۔ (ابن سعد:۵/۱۳۰) فضل وکمال سلیمان اولاً خود ذاتی صلاحیت واستعداد کےلحاظ سے نہایت ذہین اور سمجھدار تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۹) پھر انہیں امیر المومنین کی غلامی کے تعلق سے مدینہ میں رہنے والے صحابہ کرام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا، اس لیے وہ مدینہ میں رہنے والے صحابہ کرام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا، اس لیے وہ مدینہ کے ممتاز ترین علماء میں ہوگئے (تہذیب الاسماء،جاول،قاول،ص۲۳۸) امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت اورعلمی کمال پر سب کا اتفاق ہے۔ (ایضاً:۳۵) قرآن اُن کو قرآن مجید،حدیث نبوی،فقہ جملہ علوم میں درک تھا،قرآن کے ممتاز قاریوں میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۲۲۹) حدیث جس گھر کے وہ خادم تھے،وہ حدیث نبوی کا سرچشمہ تھا، اس لیے قدرۃ احادیث نبوی کا معتدبہ ذخیرہ اُن کے حصہ میں آیا تھا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ عالی مرتبہ،رفیع المنزلت فقیہ،اورکثیر الحدیث تھے۔ (ابن سعد :۵/۱۳۰) انہوں نے حدیث میں ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اورمیمونہؓ کے خرمن کمال سے زیادہ خوشہ چینی کی تھی،اُن کے علاوہ اکابر صحابہ میں زید بن ثابتؓ،عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ فضل ابن عباسؓ،ابوہریرہؓ،ابو سعید خدریؓ،مقداد بن اسود،عبداللہ بن حذافہ سہمی اورعام محدثین میں جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری،عبداللہ بن حارث بن نوفل، عبدالرحمن بن جابر، عراک بن مالک، مالک بن عامر اصبحی وغیرہ سے فیضیاب ہوئے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۲۲۸) تلامذہ حدیث میں ان کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعض کے نام یہ ہیں، عمرو بن دينار وعبد الله بن دينار وعبد الله بن الفضل الهاشمي وأبو الزناد وبكير بن الاشج وجعفر بن عبدالله بن الحكم وسالم أبو النضر وصالح بن كيسان وعمرو بن ميمون ومحمد بن أبي حرملة والزهري ومكحول ونافع مولى ابن عمر ويحيى ابن سعيد الانصاري ويعلى بن حكيم ويونس بن سيف وجماعة. (ایضاً) فقہ مگر ان کا خاص اورامتیازی فن فقہ تھا، اس میں وہ امامت اوراجتہاد کا درجہ رکھتے تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ علم اورائمہ اجتہاد میں تھے، (تذکرہ الحفاظ:۱/۷۹) وہ مدینہ کے ان سات مشہور فقہاء میں تھے، جو اس عہد کے امام فقہ مانے جاتے تھے (تہذیب الاسماء تذکرہ الحفاظ حوالۂ مذکور) مسائل طلاق کے خصوصیت کے ساتھ بڑے عالم تھے،قتادہ کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ مدینہ گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہاں طلاق کے مسائل کا سب سے بڑا عالم کون ہے،لوگوں نے سلیمان بن یسار کا نام بتایا۔ (ابن خلکان:۱/۲۱۳) بعض علماء فقہ میں انہیں ان آئمہ پر جن کی علمی عظمت مسلم تھی ،ترجیح دیتے تھے؛چنانچہ محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حسن انہیں سعید بن مسیب سے زیادہ فہیم سمجھتے تھے،خود ابن مسیب ان کے اتنے معترف تھے کہ جب ان کے پاس کوئی مستفتی آتا تھا تو اسے سلیمان کے پاس بھیج دیتے تھے(ابن خلکان:۱/۲۱۳)اور فرماتے تھے موجودہ لوگوں میں سب سے بڑے عالم وہی ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۹) زہد وورع زہد وعبادت کے اعتبار سے بھی ممتاز شخصیت رکھتے تھے،ابوزرعہ کا بیان ہے کہ سلیمان بن یسار مدنی فاضل اورعبادت گزار تھے (شذرات الذہب :۱/۱۲۴)عجلی ان کے فضائلِ علمی کے ساتھ ان کی عبادت وریاضت کی بھی شہادت دیتے ہیں۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص۲۳۵) عفت بڑے عفیف وپاک دامن تھے،اگرچہ تابعین کی مقدس جماعت کے لیے عفت و پاک دامنی کوئی بڑا وصف نہیں ہے،لیکن ترغیبات اورآزمائش وامتحان کے موقع پر پورا اترنا ہر شخص کے لیے کمال ہے، سلیمان نہایت حسین و جمیل شخص تھے، ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ کے گھر کے اندر آکر دام ڈالنا چاہا، آپ گھر سے نکل کر بھاگ گئے ۔ (تہذیب التہذیب:۴/۲۳۰) وفات: آپ کے زمانہ وفات کے بارہ میں کئی روایتیں ہیں،ان سب میں زیادہ معتبر یہ ہے کہ ۱۰۷ میں وفات پائی،وفات کے وقت ۷۳ سال کی عمر تھی۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۸۰)