انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سریہ عبداللہ بن اُنیس(محرم ۴ہجری) حضوراکرم ﷺکو اطلاع ملی کہ بنو لحیان کا سردار سفیان بن خالد ہذلی مسلمانوں سے لڑنے کے لئے ایک بڑا لشکر جمع کر رہا ہے ، یہ شخص نہ صرف گستاخ تھا بلکہ حادثۂ رجیع کا بھی ذمہ دار تھااور ہذل کی بستی میں رہتا تھا جو مکہ سے ایک شب کی مسافت پر واقع ہے، آنحضرتﷺنے حضرت عبداللہؓ بن اُنیس انصاری کو طلب فرماکر حکم دیا کہ وہ جا کر اس فتنہ کو ختم کریں، حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا کہ میں اس شخص کی شناخت کس طرح کروں گا، حضور ﷺ نے فرمایا:اس شخص کی شکل دیکھ کر تمہیں ڈر لگے گا اور شیطانی وسوسہ دل میں آئے گا،غرض کہ حضرت عبداللہؓ حضورﷺ کی دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوئے اور دوسروں پر یہ ظاہر کیا کہ آپ بنی خزاعہ کے آدمی ہیں، بطنِ عرفہ ( عرفات) میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص جماعت کے ساتھ ہے، اسے دیکھ کر دل میں ہیبت بیٹھ گئی اور یقین ہو گیا کہ یہی وہ آدمی ہے، انھوں نے اس سے پوچھا ، میں نے سناہے کہ تم محمد ( ﷺ) سے جنگ کرنے کے لئے لشکر جمع کر رہے ہو، اس نے کہا کہ ہاں ، انھوں نے کہا کہ میں بنو خزاعہ سے تعلق رکھتا ہوں اور تمہارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں، اس طرح انھوں نے اس کی قربت حاصل کر لی اور رات کوموقع پاکر اُسے قتل کر دیا اور سر لے کر ایک غار میں چھپ گئے، مکڑی نے اس غار کے منہ پر جالا تان دیا، جب سفیان کے لوگ اس کو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو غار کے منہ پر جالا دیکھ کر واپس ہو گئے، حضرت عبداللہؓ چھپتے چھپاتے اٹھارہ دن کے بعد مدینہ پہنچے اور حضور ﷺ کے سامنے سفیان کا سر ڈال دیا جبکہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، حضور ﷺ نے آپ کو اپنا عصا عطا کیااور فرمایا کہ اس کو پکڑ کر جنت میں چلنا،وہاں عصا پکڑ کر چلنے والا شاذ و نادر ہی ہوگا، حضرت عبداللہؓ انصاری نے اسے سنبھال کر رکھا اورمرتے وقت وصیت کی کہ اس عصا کو اُن کے کفن میں رکھا جائے۔ (زادلمعاد)