انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ثابت بن دحداح نام ونسب ثابت نام،ابولدحداح کنیت،قبیلۂ بلی کے خاندانِ انیف یا عجلان سے تھے اور عمرو بن عوف کے حلیف تھے سلسلہ نسب یہ ہے،ثابت بن وحداح بن نعیم بن غنم بن آپاس اسلام ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے۔ غزوات غزوۂ احد میں نمایاں شرکت کی جنگ کی شدت سے جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے تو انہوں نے آگے بڑھ کر انصار کو آوازدی "ادھر !ادھر!ثابت بن دحداح میں ہوں !اگر محمدﷺ قتل ہوئے تو خدا موجود ہے،تم کو اپنے دین کے لئے لڑنا چاہیے،خدا فتح و نصرت عطا فرمائے گا، انصار کے چند جانباز اس دعوت حق کے خیر مقدم کے لئے بڑھے، قریش مکہ کی ایک زبردست جماعت جس میں خالد، عمرو بن عاص عکرمہ بن ابو جہل ضرار بن خطاب اور دیگر رؤ سائے قریش تھے،قریب کھڑی تھی انہوں نے گروہ انصار کے ان جانبازون کے ساتھ اس جماعت پر حملہ کیا، خالدؓ نے بڑھ کر نیزا مارا جس سے حضرت ابو دحداح ؓ زخمی ہوکر زمین پر گرپڑےلوگ اٹھا کر گھر لائے اور علاج شروع کیا اس وقت تو خون بند ہوگیا اور وہ اچھے ہوگئے لیکن غزوۂ حدیبیہ کے بعد یکایک زخم پھر پھٹ گیا اور اس کے صدمہ سے انہوں نے وفات پائی، یہ سنہ کا واقعہ ہے۔ وفات آنحضرتﷺ صحابہؓ کے ہمراہ جنازہ کی شرکت کے لئے تشریف لائےاور دفن کرنے کے بعد گھوڑا منگا کر سوار ہوئے،اس موقع پر آپ نے فرمایا جنت میں چھوہارے کی کتنی شاخیں ہیں جو ابن دحداحؓ کے واسطے لٹکائی گئی ہیں۔ (مسلم:۱/۲۵۶) اس کے بعد عاصم بن عدی کو طلب فرمایا اورپوچھا تم لوگوں سے ان کی کچھ قرابت تھی؟بولے نہیں ،ابولبابہ بن عبد المنذر ان کے بھانجے تھے،آنحضرتﷺ نے ترکہ ان کے حوالہ کیا۔ (اسد الغابہ:۵/۱۸۵) اہل وعیال کوئی اولاد نہ تھی،بیوی کا نام ام جداح تھا،مسند کی ایک حدیث میں ان کا ذکر ہے۔ اخلاق جوشِ ایمان کا یہ عالم تھا کہ جب آیت من ذالدی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضا عفہ لہ نازل ہوئی تو آنحضرتﷺ سے کہا خدا ہم سے قرض مانگتا ہے؟ فرمایا ہاں حضرت ابودحداحؓ نے اپنا مال صدقہ کردیا۔ (اسد الغابہ،صفحہ۱۸۵،واصابہ:۷/۵۸) ایک شخص اپنےباغ کی دیوار اٹھانا چاہتا تھا بیچ میں دوسرے کا درخت پڑتا تھا آنحضرتﷺ سے کہا کہ وہ درخت مجھ کو دلوادیجئے آپﷺ نے درخت والے کو بلا کر فہمائش کی اس نے انکار کیا تو فرمایا اس کے عوض جنت میں ایک درخت لو، وہ اس پر بھی راضی نہ ہوا، حضرت ابو دحداحؓ نے سنا تو اس کے پاس گئے اور کہا کہ مجھ سے دیوار لے لو اوراپنا درخت میرے ہاتھ فروخت کردو، اس نے منظور کیا توآنحضرتﷺ ﷺ کے پاس پہنچے اوراس واقعہ سے آگاہ کیا، آپ نہایت خوش ہوئے اورفرمایا ابو دحداحؓ کے لئے جنت میں کتنے درخت ہیں۔ حضرت ابو دحداحؓ آنحضرتﷺ کے پاس سے اُٹھ کر باغ میں آئے اوربیوی سے کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ،میں نے یہ باغ جنت کے ایک درخت کے معاوضہ میں بیچ ڈالا، شوہر کی طرح بیوی بھی نہایت سعادت مند تھیں، خوشی سے اس واقعہ کو سنا اور بولیں کہ یہ نہایت نفع کا سودا ہے۔ (اصابہ:۷/۵۸)