انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت قاسم بن الفضلؒ نام ونسب قاسم نام اورابوالمغیرۃ کنیت تھی(طبقات ابن سعد:۷/۴۰) پورانسب نامہ یہ ہے، قاسم بن الفضل بن معدان بن قریط (تہذیب التہذیب:۸/۳۲۹)قبیلہ ازد کی ایک شاخ بنو لحیی سے خاندانی تعلق رکھتے تھے،یہ خاندان بصرہ کے حدان نامی محلہ میں آباد ہوگیا تھا،اسی بناء پر قاسم بن الفضل ازدی،حدانی اوربصری تینوں نسبتوں سے مشہور ہیں۔ (اللباب فی الانساب:۱/۲۸۴) علم وفضل علمی اعتبار سے وہ اپنے عہد کے ممتاز امام شمار ہوتے تھے ،محمد بن سیرین اورقتادہ جیسے اکابر تابعین کے فیض صحبت و تربیت نے انہیں حدیث کا امام بنادیا تھا،حتی کہ عبدالرحمن بن مہدی بھی جو فنِ جرح وتعدیل میں نہایت جلیل المرتبت تھے بصد فخر وابتہاج ان سے اپنے تلمذ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث حدیث کی تحصیل انہوں نے بکثرت شیوخ سے کی تھی جن میں کبار تابعین اورممتاز اتباعِ تابعین دونوں طبقے شامل ہیں، چند مشہور اسمائے گرامی یہ ہیں، محمد بن سیرین ،قتادہ بن دعامہ ،ابی بصرہ،محمد بن زیاد الجعفی ،ثمامہ بن حزن،القشیر ی، سعد بن المسلب ،نضر بن شیبان،محمد بن علی بن الحسین ،یوسف بن سعد، لبطہ بن الفرزوق۔ (العبر فی خیر عن غیر:۱/۲۵۱) تلامذہ ان کے ابرِ فیض سے بہرہ یاب ہونے والوں میں امام وکیع، امام عبدالرحمن بن مہدی،یونس بن محمد،ابوداؤد الطیالسی،عبداللہ بن معاویہ الحمحی،شیبان بن فروخ،ابن ہشام المحرومی،نضربن شمیل،بہزبن اسد،عبداللہ بن المبارک،قبیصہ،موسیٰ بن اسمعیل ،مسلم بن ابراہیم ،ابو الولید الطیالسی کے نام خصوصیت سے لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۲۹) ثقاہت ان کی عدالت ثقاہت اورتثبت فی الحدیث پر اکثر علماء کا اتفاق ہے امامِ الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی اپنے مائہ فخر استاذ کے متعلق شہادت دیتے ہیں کہ :ھو من مشائخنا الثقات (العبر:۱/۲۵۱)انہی کا دوسرا قول ہے: کان من قدماء اشیا خنا ومع ذلک من ثبتھم وہ ہمارے متقدم شیوخ میں تھے اس کے ساتھ ہی ان میں سب سے زیادہ تثبت رکھتے تھے۔ ابن شاہین نے کتاب الثقات میں لکھا ہے: قاسم بن الفضل من ثقات الناس: قاسم بن الفضل ثقہ لوگوں میں ہیں۔ علاوہ ازیں یحییٰ بن سعید القطان ،امام احمد،ابن معین ،نسائی،ترمذی اورابن سعد سب نے بصراحت ان کی توثیق کی ہے۔ (خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال:۲۱۳،وطبقات ابن سعد :۶/۴۰) صرف عقیلی اورابن عمر نے ان کا ذکر ضعفاء کی فہرست میں کیا ہے لیکن علامہ ذہبی نے ان کی سخت تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے کوئی ایسی دلیل اپنے دعویٰ پر پیش نہیں کی جس سے فی الواقع قاسم کا ضعف ثابت ہوسکے۔ (میزان الاعتدال:۲/۲۴۲) وفات ۱۶۷ھ میں بمقام بصرہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ (العبر فی خبر من :۱/۲۵۱،تہذیب التہذیب:۸/۲۳۰)