انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۲)حضرت امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ) آپؒ محدث تھے اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے، علامہ ذہبیؒ آپ رحمہ اللہ کو شیخ الاسلام اور الحافظ لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپؒ اس قابل تھے کہ آپ رحمہ اللہ کوخلیفۂ وقت بنایا جائے (تذکرۃ الحفاظ) امام ابوزرعہؒ (۲۸۱ھ) فرماتے ہیں کہ امام اوزاعیؒ سے دین اور فقہ کا بڑا ذخیرہ منقول ہے، آپؒ اہلِ شام کے مرجع اور مفتی اعظم تھے، مدتوں اہلِ شام میں آپؒ کی پیروی جاری رہی، امام ابنِ مہدیؒ کا بیان ہے کہ حدیث کے مرکزی امام چار ہیں، جن میں امام اوزاعیؒ بھی شامل ہیں اور فرمایا کہ اہلِ شام میں اُن سے بڑا سنت کا کوئی عالم نہ تھا (تہذیب التہذیب:۶/۲۳۹) امام ابواسحاق فزاریؒ کا بیان ہے کہ اگرتمام امت کے لیئے خلیفہ انتخاب کرنے کا مجھے اختیار دیا جائے تومیں امام اوزاعیؒ کا انتخاب کرونگا، اہلِ شام کے ساتھ اہلِ اُندلس میں بھی ایک عرصہ تک آپؒ کی تقلید جاری رہی (تذکرہ:۱/۱۶۸) ائمہ اربعہؒ کی طرح آپؒ بھی اس وقت کے امام متبوع رہے، عبدالرحمن بن مہدیؒ اسی جہت سے کہا کرتے تھے کہ آپؒ امام فی السنۃ ہیں (البدایۃ والنہایۃ:۱۰/۱۱۵) امام فی الحدیث نہیں، اس سے مراد اُن کے محدث ہونے کا انکار نہ تھا، مطلب یہ تھا کہ آپؒ سنتِ قائمہ میں منسلک ہوئے اور امت کے ایک طبقہ میں آپؒ کی پیروی جاری ہوئی۔ حافظ ابنِ کثیرؒ آپؒ کوالامام الجلیل علامۃ الوقت اور فقیہ اہلِ الشام لکھتے ہیں، امام عبیداللہ بن عبدالکریمؒ نے فرمایا: کہ میں نے امام اوزاعیؒ سے بڑا عقلمند، پرہیزگار، عالم، فصیح، باوقار، حلیم اور خاموش طبع کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ (الاکمال:۶۲۸)