انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام مالک بن انس ولادت سنہ۹۳ھ وفات سنہ۱۷۹ھ آپ اُمت میں امام دارالہجرت کے لقب سے مشہور ہیں، دراز قامت، فربہ جسم، زردی مائل سفید رنگ، کشادہ چشم، بلند ناک اور خوبصورت تھے، آپ کی پیشانی کی طرف سرپربال کم تھے، ریش مبارک دراز اور گھنی تھی، مونچھ منڈانے کومثلہ فرماتے تھے، صرف لب کا بالا حصہ ترشوالیتے تھے اور دونوں طرف کے بال چھوڑتے تھے، اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید فرماتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں متفکر ہوتے تواپنی مونچھوں پرہاتھ پھیرا کرتے تھے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی مونچھوں کے دوطرفہ بال دراز تھے، آپ خوش پوشاک تھے، آپ کا نسب غیمان بن خثیل پرپہنچتا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کوبصیغہ تصغیر خائ معجمہ کے ساتھ ضبط کیا ہے اور دارِقطنی نے جیم کے ساتھ، خیثل ، عمروبن الحارث کے فرزند تھے اور حارث کا لقب ذواصبح تھا؛ اسی لحاظ سے آپ کواصبحی کہتے ہیں۔ آپ تبع تابعین کے طبقہ میں تھے، آپ کے شیوخ اور تلامذہ کا کیا پوچھنا نووی تہذیب الاسماء میں لکھتے ہیں کہ امام کے شیوخ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سوتابعین اور چھ سوتبع تابعین تھے، سفیان رحمہ اللہ فرماتے تھے، رجال کی چھان بین کرنے والا مالک رحمہ اللہ سے بڑھ کرکوئی شخص نہیں ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ مالک رحمہ اللہ کوجب حدیث کے کسی ٹکڑے میں شک پڑجاتا تھا توپوری کی پوری حدیث ترک کردیتے تھے، وہب بن خالد کہتے ہیں کہ مشرق ومغرب کے درمیان احادیثِ نبویہ کے بارے میں قابل اطمینان شخص مالک سے بڑھ کرنہیں ہے، ترمذی صحیح اسناد کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ دور دور کا سفر کریں گے؛ لیکن عالم مدینہ سے بڑھ کرعالم انھیں کہیں میسر نہ آئے گا۔ سفیان بن عیینہ کے نزدیک اس حدیث کا مصداق امام مالک رحمہ اللہ تھے، خلف بن عمر کہتے ہیں: میں امام مالک رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ مدینہ کے قاری ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کوایک پرچہ دیا، امام نے اسے پڑھا اور اپنی جانماز کے نیچے رکھ لیا جب وہ کھڑے ہوئے تومیں بھی ان کے ساتھ ہی چلنے لگا، فرمایا بیٹھ جاؤ اور وہ پرچہ مجھے دیا، کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں یہ خواب لکھا ہوا تھا کہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہیں اور آپ سے کچھ مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے اس منبر کے نیچے ایک بہت بڑا خزانہ دفن کیا ہے اور مالک رحمہ اللہ سے کہدیا ہے وہ تمھیں تقسیم کردیں گے، اس لیے مالک رحمہ اللہ کے پاس جاؤ، لوگ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے بتاؤ مالک رحمہ اللہ تقسیم کریں گے یانہیں کسی نے جواب دیا جس بات کا مالک کوحکم دیا گیا ہے وہ ضرور اسے پورا کریں گے، اس خواب سے مالک رحمہ اللہ پرگریہ طاری ہوگیا اور اتنا روئے کہ میں تواُنھیں روتا ہی چھوڑ آیا۔ عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ ہم مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص آیا اور بولا میں چھ ماہ کی مسافت سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہوں، فرمایا کہو کیا ہے؟ اس نے بیان کیا، آپ نے فرمایا مجھے اچھی طرح معلوم نہیں، وہ حیران ہوکر بولا اچھا تواپنے شہروالوں سے کیا کہوں، فرمایا کہدینا کہ مالکؒ نے اپنی لاعلمی کا اقرار کیا ہے، آپ کی ہمشیرہ سے پوچھا گیا، مالک رحمہ اللہ گھر میں کیا کرتے ہیں، فرمایا تلاوتِ قرآن آپ کی محفل ایسی بارعب تھی کہ بادشاہوں اور سلاطین کوتاب سخن نہ تھی ایک خاموشی کا عالم رہا کرتا تھا۔ (تہذیب الأسما) محدثین کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور یہ ہے کہ جس کے راوی مالک نافع سے اور نافع ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے، امام زہری رحمہ اللہ جوآپ کے شیوخ میں شامل تھے وہ بھی آپ سے مستفید تھے، لیث ابنِ مبارک، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ جیسے مشاہیر آپ کے زمرۂ تلامذہ میں داخل تھے، امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے؛ اگرمالک رحمہ اللہ وسفیان رحمہ اللہ نہ ہوتے توحجاز کا علم ختم ہوجاتا، آپ کے حفظ کا یہ عالم تھا کہ جوبات ایک مرتبہ سن لیتے پھرکبھی نہ بھولتے، حدیث روایت کرنے کے لیے جب بیٹھتے توپہلے وضو کرتے اچھی پوشاک پہنتے خوشبو لگاتے ریشِ مبارک میں کنگھی کرتے، لوگوں نے اس تحمل کا سبب پوچھا توفرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی توقیر کرتا ہوں۔ عبداللہ بن المبارک روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مالک رحمہ اللہ نے درسِ حدیث شروع کیا تواثناءِ درس میں آپ کا رنگ بار بار متغیر ہوجاتا تھا؛ مگرآپ نے نہ درسِ حدیث بند کیا نہ آپ سے حدیث کی روایت کرنے میں کسی قسم کی لغزش واقع ہوئی، فارغ ہونے کے بعد میں نے مزاجِ مبارک دریافت کیا توفرمایا کہ اثناءِ درس میں تقریباً دس بار بچھونے ڈنک مارا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے یہ صبر اپنی شجاعت واستقامت جتنے کے لیے نہیں کیا؛ بلکہ صرف حدیثِ پیغمبر کی تعظیم کے لیے کیا ہے۔ (بستان المحدثین) یافعی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے عشق تھا؛ حتی کہ آپ اپنے ضعف وپیری کے باوجود مدینہ میں سوارنہ ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ جس شہر میں آپ کا جسدِ مبارک مدفون ہو اس میں، میں ہرگز سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ایک مرتبہ ہارون رشید مدینہ طیبہ آیا اس کویہ معلوم ہوچکا تھا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کتاب مؤطا تالیف فرمائی ہے اور آپ لوگوں کواُس کی تعلیم بھی دیتے ہیں، ہارون رشید نے اپنے وزیرجعفر برمکی کوآپ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ سلام عرض کریں اور یہ عرض کریں کہ آپ مؤطا لاکر مجھے سنادیں، برمکی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امیرالمؤمنین کا سلام پہنچا کراس کی درخواست پیش کی، امام نے جواب دیا میرا اُن سے سلام کہنا اور کہدینا کہ علم خود کسی کے پاس نہیں آیا کرتا، لوگ اس کے پاس آیا کرتے ہیں، جعفر واپس آیا اور امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان عرض کردیا، اتنے میں امام عالی مقام بھی خود تشریف لے آئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے، ہارون رشید نے کہا: میں نے آپ کے پاس ایک پیغام بھیجا تھا آپ نے میرا حکم نہیں مانا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ وہ روایت سنائی جس میں زید فرماتے ہیں کہ نزولِ وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زانوئے مبارک میرے زانو پرتھا صرف کلمہ غیراولیٰ المضرر نازل ہوا تھا کہ اس کے وزن سے میرا زانو چور چور ہوجانے کے قریب ہوگیا تھا، اس کے بعد فرمایا کہ جس قرآن کا ایک حرف حضرت جبرئیل علیہ السلام پچاس ہزار سال کی مسافت سے لے کر آئے ہوں (حضرت استاد مرحوم فرماتے تھے کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی مسافت کا پچاس ہزار سال کی مدت ہونا ائمہ کے درمیان بھی مشہور تھا) کیا میرے لیے زیبا نہیں کہ میں بھی اس کی عزت واحترام کروں، اللہ تعالیٰ نے آپ کوعزت وبادشاہت سے نوازا ہے؛ اگرسب سے پہلے آپ ہی اس علم کی مٹی خراب کریں گے توخطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں آپ کی عزت برباد نہ کردے، یہ سن کروہ مؤطا سننے کے لیے آپ کے ساتھ ہوگیا، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے ساتھ اس کومسند پربٹھالیا، جب مؤطا پڑھنے کا ارادہ کیا تواس نے کہا: آپ ہی مجھے پڑھ کرسنائیے، امام نے فرمایا: عرصہ ہوا میں خود پڑھ کرسنانا چھوڑچکا ہوں اس نے کہا اچھا تواور لوگوں کوباہرہی نکال دیجئے تاکہ میں خود آپ کوسنادوں، امام نے فرمایا علم کی خاصیت یہ ہے کہ اگرخاص لوگوں کی رعایت سے عام لوگوں کواس سے محروم کردیا جاتا ہے توپھرخواش کوبھی اس سے نفع نہیں ہوتا، اس کے بعد آپ نے معن بن عیسیٰ کوحکم دیا کہ وہ قرأت شروع کردیں، جب انھوں نے قرأت شروع کی توامام نے ہارون رشید سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اس شہر میں اہلِ علم کا دستور یہ ہے کہ وہ علم کے لیے تواضع کرنا پسند کرتے ہیں، ہارون یہ سن کرمسندسے اُترآیا اور سامنے آبیٹھا اور مؤطا سننے لگا۔ ایک مرتبہ جعفر بن سلیمان سے کسی نے شکایت کردی کہ امام صاحب آپ کی خلافت کے مخالف ہیں، اس نے آپ کے سترکوڑے لگانے کا حکم دیدیا، اس کے بعد آپ کی عزت اور بڑھتی گئی گویا یہ کوڑے، آپ کا زیور بن گئے، منصور جب مدینہ آیا تواس نے انتقام لینے کا ارادہ کیا، امام مالک رحمہ اللہ نے قسم کھا کرفرمایا میں تواس کا ایک ایک کوڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کی خاطر معاف کرچکا ہوں، مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ سزا آپ کواس جرم میں دی گئی تھی کہ آپ نے کوئی فتویٰ ان کی غرض کے موافق نہیں دیا تھا۔ (شذرات الذہب) ذہبی کا بیان ہے پانچ باتیں جیسی امام مالک رحمہ اللہ کے حق میں جمع ہوگئی ہیں، میرے علم میں کسی اور شخص میں جمع نہیں ہوئیں: (۱)اتنی دراز عمراور ایسی عالی مسند (۲)ایسی عمدہ فہم اور اتنا وسیع علم (۳)آپ کے حجت اور صحیح الروایۃ ہونے پرائمہ کا اتفاق (۴)آپ کی عدالت، اتباعِ سنت اور دینداری پرمحدثین کا اتفاق (۵)فقہ اور فتویٰ میں آپ کی مسلمہ مہارت۔ (تذکرۃ الحفاظ) ائمہ اربعہ میں صرف ایک آپ ہیں جن کی تصنیف فنِ حدیث کے متعلق امت کے ہاتھ میں موجود ہے، بقیہ جوتصانیف دوسرے ائمہ کی طرف منسوب ہیں وہ ان کے شاگردوں کی جمع کردہ ہیں؛ حتی کہ مسند امام احمد بھی گواس کی تسوید خود امام موصوف نے کی ہے؛ مگراس کی موجودہ ترتیب خود امام کی نہیں ہے۔ (بستان المحدثین) ہارون رشید کے نام بیس صفحات پرآپ کا جوخط ہے قابل دید ہے، افسوس ہے کہ یہاں اس کا خلاصہ بھی درج نہیں کیا جاسکتا اور جوخود ہی خلاصہ ہو اُس کا خلاصہ اور کیا کیا جاسکتا ہے، مطرف بن عبداللہ منجملہ آپ کے نصیحت آمیز کلمات کے نقل کرتے ہیں کہ بیکار اور غلط باتوں کے پاس پھٹکنا بربادی ہے، غلط بات زبان پرلانا سچائی سے دوری کی بنیاد ہے؛ اگرانسان کا دین ومروت بگڑنے لگے تودنیا بہت بھی جمع ہوجائے؛ پھربھی کس کام کی ہے، ابن وہب کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ علم آئندہ اور گھٹے گا بڑھے گا نہیں اور ہمیشہ انبیاء علیہ السلام اور کتب سماویہ کے نزول کے بعد گھٹا ہی کرتا ہے، سلف میں علم ہدایت کے علوم ہی کا نام تھا، اس لحاظ سے اس مقولہ کے صدق میں کیا تردد ہے۔ (تذکرہ) قعبنی نقل کرتے ہیں کہ میں مرض الوفات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا سلام کرکے بیٹھ گیا دیکھا توامام رورہے تھے، میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کیسے نہ روؤں اور مجھ سے زیادہ رونے کا اور کون مستحق ہوسکتا ہے؟ میری آرزو ہے کہ جومسئلہ بھی میں نے اپنی رائے سے بتایا ہے ہرمسئلہ کے بدلہ میرے ایک کوڑا مارا جائے، کاش میں نے اپنی رائے سے ایک مسئلہ بھی نہ بتایا ہوتا، مجھے گنجائش تھی کہ اس کے جوجوابات مجھ سے پہلے دیئے جاچکے تھے اُن ہی پرسکوت کرلیتا، ماہِ ربیع الاوّل میں آپ کا انتقال ہوا اور جس تمنا میں عمرگذاری تھی آخروہ پوری ہوئی یعنی دیارِ حبیب کی خاک پاک نے ہمیشہ کے لیے آپ کواپنی آغوش میں لے لیا، آپ سرزمینِ مدینہ ہی میں آسودۂ خواب ہیں۔ فقہ مالکی امام مالک رحمہ اللہ کی فقہ میں اہلِ مدینہ کے تعامل کوخاص اہمیت حاصل ہے، اُن کے نزدیک مدینہ مہبطِ وحی ہے، اس کا تعامل حجت ہونا چاہیے، حافظ ابوعمردراوردی سے نقل کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ جب یہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر کا عمل اسی مسئلہ پردیکھا ہے تواُس سے اُن کی مراد ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن اور ابن ہرمز ہوتے ہیں۔ (جامع بیان العلم:۲/۱۴۹) فقہ مالکی کا زیادہ چرچا اہلِ مغرب اور اندلس میں ہے، ابنِ خلدون اس کی وجہ یہ لکھتا ہے کہ اہلِ مغرب اور اندلس کا سفراکثر حجاز ہی کی جانب ہوا کرتا تھا اس زمانہ میں مدینہ طیبہ علم کا گہوارہ بن رہا تھا؛ یہیں سے نکل کرعلم عراق پہنچا ہے، ان کے راستہ میں عراق نہ پڑتا تھا اس لیے ان کے علم کا ماخذ صرف علماءِ مدینہ تھے، علماءِ مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا رتبہ معلوم ہے اس لیے مغرب اور اندلس کے اصحاب کا علم امام مالک رحمہ اللہ علیہ اور اُن کے بعد اُن کے تلامذہ میں منحصر ہوگیا تھا، ان ہی کے وہ مقلد تھے اور جن کا علم انھیں نہیں پہنچا ان کے وہ مقلد بھی نہیں تھے۔