انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** لفظ حدیث کی قرآنی اصل اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پرقرآنی احکام کی تشکیل کے لیے جوراہیں کھولیں، حضور اکرمﷺ نے انہیں امت کے لیے بیان فرمادیا، قرآن کریم آپ کے اس بیان کولفظ حدیث سے پیش کرتا ہے: "وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔ (الضحٰی:۱۱) ترجمہ:سو آپ اپنے رب کی نعمت کو آگے بیان کریں۔ اس بیان کرنے کو قرآن کریم نے "حدّث "کے لفظ سے پیش کیا ہے، حدیث کی یہی قرآنی اصل ہے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:علامہ عثمانی کی فتح الملہم) قرآن کریم نے اس ہدایت ربانی اور نعمت یزدانی کے آگے پہنچانے کو "فَحَدِّثْ" کے لفظ سے بیان کیا ہے، جس کے معنی ہیں TRANSMIT IT TO OTHERS آپ اسے دوسروں سے بیان کریں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کو تلاوت اور تعلیمِ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بیان کرنے کا بھی حکم ہوا تھا، ارشاد ہوا کہ جو نعمت اللہ تعالی نے آپ پر کھولی ہے، اسے آپ آگے روایت فرمادیں،شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی یہاں لکھتے ہیں :شاید آپ کے ارشاد وغیرہ کو جو حدیث کہا جاتا ہے وہ اسی لفظ "فَحَدِّثْ" سے لیا گیا ہو۔ (فتح الملہم، مقدمہ الحدیث والخبر والاثر:۱/۵)