انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فقہی اختلاف اسلام کا نظامِ قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہے، جواسلامی شریعت کے مرکزی مصادر ومآخذ ہیں، فقہ وقانون کی دنیا میں اسلامی نظامِ قانون، عدل وانصاف، توازن واعتدال، غلووتشدد سے اجتناب اور جامعیت وافادیت جیسی امتیازی صفات کے لیے شہرت رکھتا ہے، اس کی وسعت وگہرائی، سہولت پسندی حیرت انگریز بے ساختگی اور لچک اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے، جس کا دائرہ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد وعبادات سے لےکرمعاملات وسیاست وغیرہ امور تک محیط ہے؛ بلکہ علومِ نبویﷺ کے امین وکاتب رسول سیدنا حضرت علیؓ کے مطابق وہ "طریقہ زندگی کا رہنما ہے" یہ اس کی جامعیت وسعت ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کایہ عہدجدید اور مستقبل کاکوئی بھی ترقی یافتہ اور عصری تمدن اپنے مسائل ومعاملات کے لیے اس کا دامن تنگ نہیں پاسکتا __________ اس کی ترتیب وتدوین اور تالیف وتنظیم ان پاک نفوس اور نابغۂ روزگار علماء ومحدثین کے ہاتھوں انجام پائی جن کے ورع وتقویٰ اور خلوص وللہیت پرکوئی شبہ وکلام نہیں اور جن کی ذہانت وذکاوت، دانائی وبینائی، فقہی بصیرت، فہم وفراست، دقیق وباریک بیں نگاہ اور وسیع وعمیق نظر کی دنیا کے پاس اب کوئی مثال نہیں، جن کے اخاذ ذہن اور نقادفکر نے کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں اپنے حکیمانہ اجتہاد، فقیہانہ فہم وتدبر، مسائل کے استنباط میں روایت ودرایت پرگہری نظر اور بڑی عرق ریزی، دیدہ وری اور ژرف نگاہی کے بعد فقہی اصول ومبادی کا تعین کیا، اس طرح فقہ اسلامی کوپھلنے اور پھیلنے کا موقع میسر آیا اور تنوع ووسعت کی مزید راہیں نکل آئیں۔ فقہ اسلامی کی ان خصوصیات کی ایک اہم اور بنیادی وجہ فقہی مسائل میں مختلف مکاتب فقہ کا اختلاف ہے اور یہ یقیناً امت کے لیے رحمت ہے "اختلاف امتی رحمۃ" فقہی احکام میں علماء کا اختلاف دراصل عہد صحابہ کے اجتہادی اور مسلکی اختلاف ہی کا طبعی نتیجہ ہے، جس کی مزید تفصیل ذیل کے سطور میں آئے گی، عہد رسالت میں احکام ومسائل کے لیے لوگ براہِ راست صاحب شریعت سے رجوع کرتے تھے، عام طور پروحی کے ذریعہ سوالات کے جوابات آجاتے اور کبھی آپﷺ اپنے اجتہاد سے جوخود وحی کا درجہ رکھتا ہے، مسائل حل کرتے اور عہد نبوت میں بعض مرتبہ حود صحابہؓ کا اجتہاد بھی ثابت ہے (عہد نبوت میں خود پیغمبر اسلامﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے اجتہاد کے ثبوت میں علماء کے درمیان اختلاف ہے؛ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ دونوں کا اجتہاد ثابت ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، قاموس الفقہ:۱/۱۷۹، مادہ اجتہاد)اگرچہ کہ اجتہاد کی ضرورت اس زمانہ بہت کم پیش آتی تھی اور عملی زندگی میں صحابہؓ حضوراکرمﷺ کی ایک ایک حرکت وعمل پرنظررکھتے تھے؛ کیونکہ اسوہ اور نمونہ آپﷺ کی ذات ہی تھی اور ہرصحابی اپنے اپنے فہم کے مطابق آپﷺ کے ارشادات، فتاویٰ ومسائل کو سمجھتے اور محفوظ رکھتے اور علامات وقرائن سے ہرعمل کی قیمت وحیثیت (اباحت، استحباب، وجوب وغیرہ) متعین کرتے۔ لیکن جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوچکی اور خلافتِ راشدہ کا قیام عمل میں آیا اسلامی مملکت کا دائرہ وسیع ترہوتا گیا اور جدید تہذیب وثقافت اور تمدن نے نت نئے مسائل پیدا کردئے توشورائی اجتہاد سے بہت سے اہم مسائل حل کئے گئے اور خصوصاً حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عہد میں توفقہی اختلاف کا دائرہ بہت محدود تھا، نئے پیش آمدہ مسائل میں دونوں عام صحابہؓ سے رجوع کرتے تھے۔ (اثرالاختلاف فی القواعد الاصولیہ:۳۶) میراث جدہ کے مسئلہ میں حضرت ابوبکرؓ کا استفتاء اور حضرت مغیرہؓ بن شعبہ اور حضرت محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اس کی ایک مثال ہے۔ (الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:۱۹) اسلامی فتوحات کا سلسلہ جب تیزی سے بڑھنے لگا اور صحابہؓ تبلیغِ اسلام کی غرض سے مختلف خطوں اور علاقوں میں پھیل گئے توہرصحابی اپنے علاقہ کے مقتدی اور امام ہوگئے، وہ حضوراکرمﷺ کے ارشادات وفرامین اور آپﷺ کے عمل کی روشنی میں مسائل حل کرتے؛ اگرکسی مسئلہ میں کوئی نص شرعی یاعہدِنبوت کا کوئی نمونہ اپنے یہاں نہ پاتے توکتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کرتے؛ چونکہ یہ ممکن نہیں کہ بیک وقت تمام صحابہ حضورﷺ کے ساتھ ہروقت اور ہرلمحہ موجود رہے ہوں اور آپﷺ کی ۲۳/سالہ نبوی زندگی کا مستقل مشاہدہ کررہے ہوں؛ اس لیے تمام صحابہ اپنی مرویات میں مختلف تھے اور ہرصحابی حضورﷺ سے اخذ کردہ اپنے آثار واحادیث کے مطابق عمل کرتے تھے اور ان ہی کے مطابق فیصلے دیتے تھے __________ اس طرح جن جن علاقوں میں جوصحابہ پھیل گئے، وہاں ان کی رائیں کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے اجتہاد پرمبنی ہوتی تھیں زیادہ مشہور اور مقبولِ عام ہوئیں اور لازمی طور پر ان صحابہ کی فقہی آراء واجتہادات کی گہری چھاپ، تلامذہ کے ذریعہ ان علاقوں پر پڑگئی اور قائم رہی، حضرت عبداللہ بن عباسؓ چونکہ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور امام شافعیؒ (۹۳۔ ۲۰۴ھ) کی فقہ پراس کا بہت زیادہ اثر ہے اور کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقہ کے علمبردار ابراہیم نخعیؒ تھے (وکان ابراہیم لسان فقہاء اھل الکوفۃ) اس لیے سیدنا امام ابوحنیفہؒ (۸۰۔۱۵۰ھ) کی فقہ پرابن مسعودؓ کےمسلک اور ان کے فتاویٰ کا اثر نمایاں ہے، اس لحاظ سے مختلف علاقوں میں مختلف فقہی مذاہب ظہور پذیر ہوئے؛ پھران سب میں ہمارے ائمہ اربعہ کے مذاہب کودوام وبقاء حاصل ہوا۔ واضح رہے کہ فقہاء کے درمیان اختلاف صرف ان مسائل میں ہے جن میں روایات دونوں جانب ہوں، جیسے تکبیرات تشریق وعیدین کے مسئلہ میں اور اختلاف بھی محض ترجیح اور فضیلت میں ہوتا ہے، اس کا مقصد نہ آپسی اختلاف ونزاع ہے، نہ کسی متوازی مذہب ومسلک کی تاسیس ائمہ فقہ کے ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فقہ وقانون میں بحث ونظرکے نئے گوشے ابھرکرسامنے آئے اور اس میں ایسی وسعت اور لچک پیدا ہوئی کہ زمان ومکان کی تبدیلی، زندگی کی گردش اور تہذیب وتمدن کی کروٹ سے بالکل بے پروا ہوکر وہ زمانہ کے ہرجدید تقاضے کی تکمیل کرسکتا ہے اور یہی صلاحیت کسی زندہ مذہب کے زندہ قانون وفقہ کی دلیل ہے اگریہ اختلاف ائمہ اور اس سے پیدا ہونے والے فقہی نظائر کا ذخیرہ نہ ہوتا تویہ بھی جمود وتعطل اور عسرت وتنگی کا شکار ہوجاتا؛ اسی لیے حضرت عمربن عبدالعزیز نے نہایت پراعتماد لہجے میں فرمایا تھا: "مااحب ان اصحاب رسول اللہﷺ لم یختلفوا، لأنہ لوکان قولاً واحدا، کان الناس فی ضیق، وانہم ائمۃ یقتدی بہم، خلوخذرجل بقول أحدھم کان فی سعۃ"۔ ترجمہ:میں یہ قطعاً نہیں چاہتا کہ اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہی نہ ہو، اس لیے کہ اگر(کسی مسئلہ میں) اگرایک ہی قول ہوتولوگ تنگی میں پڑجائیں گے، وہ سب ائمہ اور مقتدی ہیں؛ اگرآدمی ان میں سے کسی ایک کے قول کوبھی اختیار کرے توسہولت وگنجائش نکل آئے۔ اور رسول اللہﷺکے ارشاد"اختلاف امتی رحمۃ" کا مفہوم بھی یہی ہے کہ احکامِ شرعیہ میں اختلاف اور پھران میں اجتہاد واستنباط کیا جائے؛ تاکہ بعد میں آنے والی نسل اس گنجائش سے فائدہ اٹھاسکے، کہا جاتا ہے کہ خلیفہ منصور نے ایک مرتبہ حج کے موقعہ پرامام مالکؒ سے کہا کہ: "میں چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام شہروں میں آپ کی کتاب کا ایک نسخہ روانہ کروں اور تمام لوگوں کوحکم دوں کہ اس پرعمل کریں"۔ اس پر امام مالکؒ نے فرمایا کہ: "امیرالمؤمنین! خدا را ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ تمام لوگوں تک آثار وروایات پہونچ چکی ہیں اور ہرقوم اپنی مرویات کے مطابق عمل پیرا ہے، لوگوں کواسی حال پرچھوڑ دیجئے"۔ (دراسات فی الاختلافات الفقہیہ:۹۲) ہارون رشید کے بارے میں بھی یہ قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے امام مالکؒ سے مشورہ کیا کہ "مؤطا" کوکعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کواس پرعمل کرنے کا حکم دیا جائے، امام مالکؒ نے کہا: "لاتفعل فان اصحاب رسول اللہ اختلفوا فی الفروع، وتفرقوا فی البلد ان وکل سنۃ مصنت، قال:وفقک اللہ یاابا عبداللہ"۔ (حکاہ السیوطی۔ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:۲۳) ترجمہ:ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ مختلف فروع مسائل میں اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں بھی پھیل گئی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فقہائے امت کے درمیان مسائل فقہ میں اختلاف بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہے، یہ اختلاف محمود بھی ہے اور مطلوب بھی اور بہت سی دینی مصلحتیں اس سے وابستہ ہیں، اس لیے اس سے انکار کی گنجائش ہے نہ اس سے مفر۔ اب ہم مسائل فقہ میں اختلاف کے چند بنیادی اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں، یوں تواحکام ومسائل میں اختلاف کے بہت سے اسباب ہیں؛ لیکن ان میں سب سے بنیادی سبب دو ہیں: (۱)نصوصِ شرعیہ میں احتمال کا امکان۔ (۲)عقل وفہم اور ذوق کا اختلاف۔ عربی زبان کویہ امتیاز ہے کہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ایک سے زائد معانی پردلالت کرتے ہیں اور چونکہ قرآن وحدیث کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ہے "بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ" (الشعراء:۱۹۵) اس لیے اس کی بہت سی نصوص میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہے، دوسرے خالقِ کائنات نے انسانوں کی عقل وفہم میں ایک دوسرے کے درمیان فرق اور تفاوت رکھا ہے، ظاہر ہے یہ دوبنیادی اسباب وہ ہیں جن سے آراء واحکام میں اختلاف وتبدیلی یقینی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" (البقرۃ:۲۲۸) اور ایک آیت ہے "لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" (البقرۃ:۲۲۶) ان میں "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" اور "أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ" پرغور کیا جائے "ثَلَاثَةَ" اور "أَرْبَعَةِ" نص قطعی ہے اور معنی اور عدد بھی متعین، اس کے مقابلہ میں لفظ "قُرُوءٍ" لغوی اعتبار سے ایک سے زائد معنی پراس کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے احتمال ہے؛ جب کہ "أَشْهُرٍ" کے معنی قطعی اور متعین ہیں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں اوّل الذکر (ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) کے فہم میں اختلاف ہوگا اور مؤخرالذکر کے فہم میں اتفاق ۔ یاد رہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ اہلِ کوفہ نے "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" سے حیض مراد لیا ہے اور حضرت عائشہؓ، ابن عمرؓ اور زید بن ثابتؓ وغیرہ اہلِ حجاز نے "طہر" مراد لیا۔ کبھی کسی نص کے ثبوت وعدم ثبوت میں اختلاف بھی فقہی آراء میں تبدیلی کا سبب ہوتا ہے، یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نص کسی امام ومحدث تک پہونچتی ہے اور کسی کے یہاں نہیں، کسی کے یہاں پایہ ثبوت اور درجہ استخراجِ مسائل وغیرہ سے متعلق ہرمحدث کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں توممکن ہے کہ ایک محدث اپنے اصول کے لحاظ سے کسی راوی کی توثیق کردے اور دوسرا اپنے اصول کے اعتبار سے نقد وتحقیق کے بعد اسی راوی کی تضعیف کردے؛ اسی طرح اصولِ حدیث کی بعض اصطلاحات میں محدثین کے درمیان اختلاف بھی نص کے ثبوت وعدم ثبوت پراثرانداز ہوسکتا ہے؛ اسی لیے نصوصِ شرعیہ کی تحقیق ونقد میں حددرجہ احتیاط کی جاتی ہے کہ مجتہدین کا مرجع اوّل یہی ہے اور احکامِ شرعیہ کے استنباط میں انہی کواوّلین ترجیح حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ، عبدالوارث بن سعید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ میں میری ملاقات امام ابوحنیفہؒ سے ہوئی میں نے پوچھا: آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جوایک چیز فروخت کرتا ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی لگاتا ہے؟ امام صاحبؒ نے کہا: بیع بھی باطل اور شرط بھی باطل؛ پھرمیں نے ابنِ ابی لیلی سے دریافت کیا توانہوں نے کہا: بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شبرمۃ سے یہی سوال کیا توانہوں نے کہا: بیع بھی جائز اور شرط بھی جائز؛ اس پرمیں اپنے دل میں کہنے لگا، یا اللہ! عراق کے تین فقہاء ایک مسئلہ پربھی متفق نہیں؟؟ پھرمیں نے امام ابوحنیفہؒ سے ملاقات کی اور ابنِ ابی لیلی اور ابنِ شیرمۃ کے فتویٰ سے آگاہ کیا توامام صاحبؒ نے کہا: "حدثنی عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال: نہیٰ رسول اللہﷺ عن بیع وشرط"۔ پھرمیں ابنِ ابی لیلیٰ کے یہاں آیا اور ان سے دونوں کے فتوےٰ بیان کیا توانہوں نے کہا: خدا جانے ان لوگوں نے تم سے کیا کہا؟ لیکن میرے پاس ہشام بن عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث آئی ہے: "امرنی رسول اللہ أن اشتری لجریرۃ فاعتقہا فاشترط اھلھا بالولاء لانفسہم فقال رسول اللہ: مَاكَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ"۔ اس لیے بیع جائز اور شرط باطل؛ پھرمیں نے ابنِ شیرمۃ سے دونوں کے فیصلے بیان کئے، توانہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنائی کہ: "بعث النبیﷺ بعیرا وشرط لی حملانہ الی المدینۃ"۔ اس لیے بیع جائز اور شرط بھی جائز۔ (ضحی الاسلام، احمد امین:۲/۱۶۷) کبھی نص شرعی کے فہم اور اس کی تفسیر وتوضیح میں اختلاف فقہی اختلاف کا باعث ہوتا ہے؛ اس طرح کہ مجتہد نص کی نوعیت واضح طور پر سمجھ نہ پائے، یانص میں کوئی متحمل لفظ ہو یااس قدر مجمل ہوکہ مراد واضح نہ ہوتی ہو، کبھی مجتہدین کے فہم وفراست میں فرق وتفاوت سے بھی مسائل میں اختلاف ممکن ہے اور اس کی واضح مثال وہ حدیث ہے، جسے صحیحین نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے، غزوۂ بنوقریظہ کے موقع پرآپﷺ نے تمام مسلمانوں کوبنوقریظہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کاحکم فرمایا: "لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ" چنانچہ جب سفرشروع ہوا توعصر کی نماز کا وقت راستہ میں شروع ہوگیا، اب یہاں نص کے فہم میں اختلاف ہوا، بعض نے کہا کہ چاہے وقت شروع ہوجائے ہم بنوقریظہ ہی میں نماز پڑھیں گے اور بعض نے کہا کہ حضوراکرمﷺ کے ارشاد کا یہ مفہوم نہیں اور انہوں نے نماز ادا کرلی، جب حضورﷺ تشریف لائے اور واقعہ سے آگا کیا گیا تو آپﷺ نے دونوں کی تصویب فرمادی۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب مَرْجِعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ،حدیث نمبر:۳۸۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) اسی طرح رسول اللہﷺ نے چونکہ صرف ایک حج فرمایا، اس موقع پرتمام صحابہؓ مناسکِ حج کا بغور مشاہدہ کررہے تھے، آثار وقرائن کے تحت کسی نے کسی عمل کووجوب پرمحمول کیا، کسی نے استحباب پر؛ اسی طرح روایات کا اختلاف اور ہرصحابی کے فہم وادراک میں اختلاف نے مختلف ومتضاد روایات کا ایک ذخیرہ جمع کردیا؛ چنانچہ ہماری فقہ کی کتابوں میں فقہاء وعلماء کے درمیان اس باب میں جوعلمی وفقہی اختلاف ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں؛ اسی طرح مختلف متعارض نصوص کے درمیان جمع وتطبیق اور طرق ترجیح میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا سبب ہے __________ استنجاء میں استقبالِ قبلہ اور استدبار کی بحث مشہور اور اس کا اختلاف معروف ہے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ استقبال واستدبار دونوں جائز ہے، ایک جماعت مطلقاً جواز کی قائل ہے اور بعض نے فرق کیا ہے کہ صحرا وجنگل میں ناجائز اور آبادی میں جائز، یہ اختلاف بھی دراصل روایات کے اختلاف پرمبنی ہے، علامہ ابن رشد قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں تین مذاہب ہوئے، بعض نے جمع وتطبیق کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث کوجنگل وصحراء اور ابن عمرؓ کی روایت کوسترہ پرمحمول کیا، امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے، بعض نے ترجیح کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کوراجح قرار دیا، حضرت عمرؓ، حضرت ابوایوبؓ، امام ابوحنیفہؒ اور دیگر علماء احناف نے یہی مسلک اختیار کیا، بعض نے تعارض کی بناپراصل کی طرف رجوع کیا اور مطلق جواز کا فتویٰ دیا، یہ مسلک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عروہ بن زبیرؓ، داؤدظاہری اور ربیعۃ الرائےکا ہے۔ (بدایۃ المجتہد:۱/۸۷) اصولی قواعد اور بعض مصادر استنباط میں اختلاف بھی فقہی اختلاف کا ذریعہ بنتا ہے اور ہم یہ ذکرکرچکے ہیں کہ ہرامام ومحدث کے یہاں احادیث کے قبول ورد میں مختلف اصول ہیں اور ہرایک کا اپنا نقطۂ نظر اور طریقہ کار ہے؛ نیز اجتہادی اصول اور بعض مصادرِ استنباط کی حجیت میں بھی علماء کے درمیان اختلاف ہے، جیسے امام مالکؒ کے یہاں تعامل اہلِ مدینہ حجت اور دلیلِ شرعی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اجتہادی اصول وقواعد اور استخراج کے مصادر میں اختلاف کی یہ کڑی فقہ اسلامی میں اختلاف کی اہم ترین وجہ ہے اور اختلافِ فقہا پر اس کے گہرے اثرات ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ نے اپنے اصول "حجیت تعامل اہلِ مدینہ" کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ صلوٰۃ عیدین میں گیارہ تکبیرات ہیں، چھ پہلی رکعت میں (تکبیرِتحریمہ کے سوا) اور پانچ دوسری رکعت میں اس سلسلہ میں احناف کی رائے الگ ہے۔ (بدایۃ المجتہد:۱/۲۱۷) اصولی قواعد اور مصادر استنباط میں اختلاف کی بھی بہت سی نظیریں ہیں، جن کے تذکرہ کی یہاں گنجائش نہیں، تعارض دلائل میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب ہے __________ ہمارے فقہاء ومحدثین کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلہ"وضوء بمس الذکر" ہے، شوافع وحنابلہ وغیرہ کے یہاں حضرت بسرہ بنتِ صفوان کی روایت اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں مس ذکر ناقضِ وضو ہے، جب کہ احناف حضرت طلق بن علی کی روایت اور حضرت علیؓ اور ابنِ مسعودؓ وغیرہ کے مسلک کی روشنی میں اسے ناقضِ وضو نہیں سمجھتے اور دونوں فریق کے یہاں دلائل اور کبار صحابہؓ کی آراء موجود ہیں؛ لیکن فقہاء کے درمیان اختلاف ونزاع کی بنیاد محض دلائل کا تعارض واختلاف ہے۔ (اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۱۰۲، ڈاکٹرمصطفی سعید الخن) یہ اور ان کے علاوہ اور بھی اسباب ووجوہ ہوسکتے ہیں، مثلاً :اختلافِ قرأت، یعنی قرآن مجید کی تلاوت میں رسول اللہﷺسے مختلف قرأتیں تواتراً ثابت ہیں، ان قرأت کے اختلاف سے بھی احکام ومسائل کے استنباط میں اختلاف ہوسکتا ہے اور قرأت کے اسی معمولی اختلاف کا فقہی احکام پراثر یہ ہوا کہ وضو میں غسل رجلین کے مسئلہ میں جمہور فقہاء کے مقابلہ میں ایک طبقہ نے مسح رجلین کوکافی قرار دیا۔ (اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۴۱) اسی طرح اختلافِ ضبط، اختلافِ سہو ونسیان وغیرہ اسباب بھی اختلاف کا باعث ہوتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے "الانصاف" شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) جوکتب فقہ کے ذخیرہ میں تلاش وجستجو سے حاصل ہوسکتے ہیں اور اُمت کے علماء نے عرق ریزی وجانفشانی ودیدہ وری کے ساتھ اس موضوع پرقلم اٹھایا ہے، جن میں علامہ ابن تیمیہ "رفع الملام عن ائمۃ الأعلام" اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ "" خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اوردیگرعلماء متقدمین ومتأخرین کی بھی تشفی بخش کتابیں اس موضوع پر ہیں، ہم نے بطور "مشتے نمونہ ازخروارے" __________ اِن چند اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، واللہ ولی التوفیق۔