انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام بیہقی کا مسلک اہلسنت میں تصلب سلطان طغرل بیگ سلجوقی کے دربار میں ایک ملحد ابونصر منصور بن محمدالکندری وزارت کے منصب پرآگیا تھا، اس نے معتزلہ کی حمایت میں بہت کوششیں کیں اور دومسئلوں کواپنا محور بنایا: ۱۔حضورﷺ کا جسدِاطہر قبر میں جماد محض ہے اور وفات کے بعد اب آپ رسول نہیں رہے، رسول کی وفات سے رسالت ختم ہوجاتی ہے۔ ۲۔وفات کے بعد روح وبدن کی کلی مفارقت ہے اور برزخ کے تمام معاملات روح پرگزرتے ہیں، جسدِ عنصری سے ا ن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا __________ یہاں تک جھوٹ بولا گیا کہ امام ابوالحسن اشعری بھی انہی عقائد پرتھے اور یہ کہ ہم بھی اہلسنت ہیں ان سے خارج نہیں ہیں۔ امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) اور امام ابوالقاسم قشیریؒ (۴۶۵ھ) نے بڑی قوت سے ان بدعتیوں کا مقابلہ کیا، علامہ قشیریؒ نے شکایۃ "اہل السنۃ بمانالہم من المحنۃ" لکھی اور امام بیہقیؒ نے رسالہ "حیات الانبیاء" لکھ کرمعتزلہ اور کرامیہ پر حجت تمام کی۔ حافظ ابن عساکر (۵۷۱ھ) نے "تبیین کذب المفتری فیما نسب الی الامام الشعری" لکھ کرکرامیہ اور معتزلہ کی تردید کی ہے اور انہیں کذاب اور مفتری قرار دیا ہے، علامہ تاج الدین سبکیؒ لکھتے ہیں: "فإن قيل فمن أين وقعت هذه المسألة إن لم يكن لها أصل قيل إن بعض الكرامية ملأ الله قبره نارا وظنى أن الله قد فعل ألزم بعض أصحابنا"۔ (طبقات الشافعیۃ الکبری:۲۸۲،۲۷۹۔ راجع لہ باب المختم من ردالمحتار، فتاویٰ شامی:۳/۳۳۶۔ روضۃ البہیہ فیما بین الاشاعرہ والماتریدیہ:۱۵) ترجمہ:اگرپوچھا جائے کہ یہ مسئلہ اگراس کی کوئی اصل نہ تھی کہاں سے آگیا تو کہا جائے گا کہ بعض کرامیہ نے اللہ ان کی قبر کوآگ سے بھرے اور اپنا گمان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کردیا ہے، ہمارے بعض بزرگوں کوالزام دیا کہ ان کے عقیدہ میں حضورﷺ اپنی قبر میں نبی اور رسول نہیں ہیں..... الخ۔ یہ مسئلہ کہ برزخ کے سارے معاملات صرف روح پر گزرتے ہیں بدن پر نہیں اور قبر میں روح کا اس بدن عنصری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا غلط ہے، پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس باب میں مذہب اہلسنت کیا ہے؛ پھرکرامیہ کے اس الحادکا جائزہ لیجئے، امام نوویؒ شارح مسلم (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: "ثُمَّ الْمُعَذَّب عِنْد أَهْل السُّنَّة الْجَسَد بِعَيْنِهِ أَوْبَعْضه بَعْد إِعَادَة الرُّوح إِلَيْهِ أَوْإِلَى جُزْء مِنْهُ، وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّد بْن جَرِير وَعَبْد اللَّه بْن كِرَام وَطَائِفَة فَقَالُوا: لَايُشْتَرَط إِعَادَة الرُّوح، قَالَ أَصْحَابنَا: هَذَا فَاسِد؛ لِأَنَّ الْأَلَم وَالْإِحْسَاس إِنَّمَايَكُون فِي الْحَيّ، قَالَ أَصْحَابنَا: وَلَايَمْنَع مِنْ ذَلِكَ كَوْن الْمَيِّت قَدْ تَفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُهُ كَمَانُشَاهِد فِي الْعَادَة أَوْأَكَلَتْهُ السِّبَاع أَوْحِيتَان الْبَحْر أَوْنَحْو ذَلِكَ، فَكَمَاأَنَّ اللَّه تَعَالَى يُعِيدهُ لِلْحَشْرِ وَهُوَسُبْحَانه وَتَعَالَى قَادِر عَلَى ذَلِكَ، فَكَذَا يُعِيد الْحَيَاة إِلَى جُزْء مِنْهُ، أَوْأَجْزَاء، وَإِنْ أَكَلَتْهُ السِّبَاع وَالْحِيتَان"۔ (صحیح مسلم مع شرح نووی:۳۸۶) ترجمہ:اہلسنت کا مذہب یہی ہے کہ عذاب اسی جسم کویااس کے کچھ حصے کوہوتا ہے اور یہ روح کے جسم کی طرف لوٹنے سے ہوتا ہے اس میں (کرامیہ فرقے کے بانی) عبداللہ بن کرام اور کچھ لوگوں نے خلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ عذابِ قبر کے لیے روح کا بدن کی طرف لوٹنا ضروری نہیں ہم اہلسنت کے نزدیک یہ مذہب فاسد ہے؛ کیونکہ الم اور احساس صرف زندہ کوہی ہوسکتا ہے، اہلسنت اکابر کہتے ہیں کہ میت کے اجزاء بدن کا متفرق ہونا جیسا کہ ہم عام طور پر دیکھتے ہیں یایہ کہ اسے درندے کھاگئے ہوں یادریا کی مچھلیاں، یہ اس میں رکاوٹ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ جس طرح اسے حشر کے دن اُٹھائے گا اور وہ اس پر قادر ہے اس طرح وہ اس پر بھی قادر ہے کہ (قبر میں) اس کی طرف یااس کے بعض حصہ بدن میں وہ حیات لوٹا دے۔ امام بیہقی محدثین کی نصرت میں بڑی جرأت سے نکلے اور ان ملاحدہ کے خلاف کتاب "حیات الانبیاء" تحریر فرمائی، اس میں محض حدیث کی روایت آپ کے پیشِ نظر نہ تھی نہ اس میں آپ کا موضوع راویوں کی جرح وتعدیل ہے، اس کتاب کا مقصد محض مذہب اہلسنت کی نشاندہی تھی اور وہ آپ نے کردی، جوروایات آپ نے اس کتاب میں جمع کی ہیں آپ نے ان کے عام طرق اور شواہد یہاں جمع نہیں کئے اور نہ یہ ان کا یہاں موضوع تھا، اس مسئلہ میں محدثین کس عقیدہ پررہے ان کے پیشِ نظر محض اس کا بیان ہے؛ سواس کتاب کواسی پسِ منظر میں پڑھنا چاہیے کہ یہ محض کرامیہ کے رد میں لکھا گیا تھا اور اس کا مقصد محض مذہب اہلسنت کا اظہار تھا؛ ورنہ ان روایات کے دوسرے طرق جواور کتابوں میں ملتے ہیں ان روایات کی پوری توثیق کرتے ہیں، امام بیہقی کا یہ رسالہ حیات الانبیاء روایات کی صحت وضعف کا مبحث نہیں، یہ مذہب اہل سنت اور کرامیہ کے ذہنی تصادم کا بیان ہے اور یہ بات اہلِ علم پرمخفی نہیں ہے۔ نوٹ: جس طرح جامع ترمذی امام ابن حزم کے مطالعہ سے نہ گزرسکی، اس طرح امام بیہقی، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ تک رسائی نہ پاسکے تھے۔ سنن کبریٰ بیہقی کے بعد "معرفۃ السنن والآثار" آپ کی اہم کتاب ہے، آپ کی کتابیں "شعب الایمان" اور "دلائل النبوت" بھی بارہا چھپ چکی ہیں "کتاب الاسرار" " کتاب الزہد" اور "دعوات الکبیر" ہماری نظر سے نہیں گزریں "کتاب الاسماء والصفات" اسماء الہٰیہ اور مسئلہ صفات میں ایسی بلند پایہ تالیف ہے کہ سابقین میں بھی اس کی نظیر نہیں ملتی، جس طرح امام بخاری نے "خلق افعال عباد" اور "الرد علی الجہیہ" عقائد کی اصلاح کے لیے لکھیں، امام مسلم نے کتاب الایمان لکھی، امام طحاویؒ نے "عقیدۃ الطحاوی" لکھی، امام بیہقیؒ نے بھی اپنے وقت میں عقائد اہلسنت کے گرد حفاظت کا پہرہ دیا اور محدثین اس باب میں کبھی غافل نہیں رہے۔ کتاب الاسماء والصفات میں آپ اگرکہیں صحیح بخاری، صحیخ مسلم یاپہلے محدثین کا حوالہ دیتے ہیں تواس سے ان کے الفاظ کی پابندی اور ان روایات کی پوری نقل آپ کے پیشِ نظر نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح امام ترمذی کسی روایت کونقل کرنے کے بعد "وفی الباب عن فلاں عن فلاں" کہہ دیں؛ حالانکہ روایات کے الفاظ اپنے اپنے ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بیہقی مسندین (اپنی سند سے روایت لانے والوں) میں سے ہیں، مخرجین (تخریج کرنے والوں) میں سے نہیں، صاحب مشکوٰۃ، صاحب بلوغ المرام، صاحب آثار السنن، صاحب مجمع الزوائد، صاحب اعلاء السنن یہ مخرجین میں سے ہیں، انہیں الفاظ کی کمی بیشی یاروایت بالمعنی کا حق نہیں پہنچتا __________ امام ترمذیؒ ہوں یاامام بیہقی ان کے اس قسم کے حوالوں سے جن میں الفاظ کی پابندی نہ ہو طلبہ کوشک میں نہ پڑنا چاہیے مسندین کا مقام اور ہے اور مخرجین کا اور __________ آج بھی کئی لوگ غلط حوالے دے دیتے ہیں اور پھرامام بیہقی سے اس کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔