انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطان بایزید خان یلدرم بایزید خان یلدرم نے تخت نشین ہوکر اوراپنے باپ کی لاش کو بروصہ میں دفن کرکے ایشیائے کوچک میں چند روز تک قیام کیا اورترکمانوں کے فسادات اورسرکشیوں کا علاج کرتارہا،یہ وہ زمانہ تھا کہ چنگیزی مغلوں کے ضعف وانحطاط کے بعد ایشیا میں ایک اورفاتح پیدا ہوچکا تھا جس نام تیمور تھا اورجس کے حالات آئندہ کیس موقع مپر مفصل بیان ہونے والے ہیں، ۷۹۳ھ یعنی اپنی تخت نشینی کے دوسرے سال بایزید یلدرم نے سنا کہ یورپ میں ترکوں کے خلاف پھر کوشش شروع ہو رہی ہے اورسرویا وبوسینیا کے علاقوں میں سامانِ بغاوت پیدا ہوچکا ہے؛چنانچہ بایزید خاں یلدرم برق وباد کی طرح یورپ میں آیا اور بوسینیا سے لے کر دریائے ڈینوب تک کا تمام علاقہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرکے دریائے فرات سے دریائے ڈینوب تک اپنی مملکت کو پھیلادیا،والیشیا،سرویا اوربوسینیا وغیرہ سب سلطان بایزید خاں کے باج گذار صوبے تھے،ادھر ایشیا یعنی ایران میں مغولانِ چنگیزی کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے بعد جو چھوٹی چھوٹی ریاستیں پیدا ہوکر آپس میں مصروفِ پیکار تھیں انہوں نے تیمور کے لئے فتوحات کا میدان صاف کر رکھا تھا،بایزید خاں یلدرم کی اس شوکت وعظمت اورقوت وطاقت کو دیکھ کر قسطنطنیہ کے قیصر نے بایزید خان کو خط لکھا کہ قسطنطنیہ اورصوبہ مقدونیہ نیز یونانی مجمع الجزائر کے چھوٹے چھوٹے چند جزیرے میرے پاس باقی رہ گئے ہیں، ان بچے کچے ٹکڑوں کو آپ میرے پاس رہنے دیجئے اورمجھ کو اپنا ہوا خواہ اور مخلف تصور فرما کر میرے ساتھ پیمانِ صلح کو استوار رکھئے،بایزید خان یلدرم نے اپنی مہربانی سے قیصر کی اس درخواست کو منظور کرکے اس کو اس کے مقبوضات میں آزاد چھوڑدیا اوروسطِ یورپ میں آگے بڑھنے اوراپنی فتوحات بڑھانے کی طرف متوجہ ہوا، بایزید کو اس طرح مطمئن کرکے قیصر قسطنطنیہ نے اپنی سازشی تدابیر کا جال بایزید خان یلدرم کے مخالف پھیلان شروع کیا، اس نے اپنے ایلیچی خفیہ طور پر ایران وخراسان اور فارس و شام و عراق وغیرہ میں بھیجنےشروع کئے اورایشیا کے مسلمان سلاطین سے مراسم اتھاد بڑھائے ہمارے اس موجودہ زمانے میں تو اس قسم کی کاروائیاں فوراً ہی طشت ازبام ہوجاتی ہیں لیکن اس زمانے میں بایزید خاں یلدرم کے بے خبر رہنے پر ہم کو کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے ، ادھر قیصر قسطنطنیہ اپنی ان ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا، ادھر ارمینیا و کُردستان وآذر بائیجان کے مسلمان فرماں روا خود بھی اس زمانے کی آب و ہوا کے اثر سے ایشائے کوچک کے مغربی حصے کو دھمکی دے رہے تھے،آخر یہ تمام اسباب مل ملا کر باعث اس کا ہوئے کہ تر کمانوں نے ایشیائے کوچک یعنی بایزید خاں یلدرم کے ایشیائی علاقہ میں پیش قدمی شروع کردی،بایزید خان یلدرم اگرچاہتا تو ایران و خراسان وغیرہ کی طرف متوجہ ہوکر ایشیائے کوچک میں فتوحات عظیم حاصل کرلیتا لیکن چونکہ عثمان خان اور اس کی اولاد میں دین داری بدرجۂ اتم موجود تھی،اس لئے وہ مسلمانوں سے لڑنے اور مسلمانوں کے مقبوضہ ممالک کو اپنے قبضہ میں لانے کو اچھا نہیں جانتے تھے، شروع ہی سے سلطنتِ عثمانیہ کی حکمتِ عملی یہ رہی تھی کہ عیسائیوں کے خلاف جہاد کرکے جہاں تک ممکن ہو،عیسائی ممالک کو فتح کیا جائے اور اسلامی تہذیب اوراسلامی مذہب کی اشاعت سے یورپ کو جواب تک مسلمانوں کے لئے باعثِ تکلیف بنارہا تھا، شائستہ بنایا جائے؛چنانچہ بایزید خاں یلدرم بھی اپنے بزرگوں کی اس حکمتِ عملی پر کار بند تھا اور مسلمانوں سے لڑنے کا اس کو کوئی شوق نہ تھا، اب ایشائے کوچک میں جب کہ ترکمانوں نے حملہ کرکے بروصہ وانگورہ کے درمیان بایزید کی مقام ایشیائی فوج کو شکست دیکر فتنہ عظیم برپا کردیا تو بایزید خان مجبورا یورپ کے عیسائیوں کو چھوڑ کر ۷۹۵ ھ میں ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اوریہاں آتے ہی دشمنوں کو شکست دے دے کر گرفتار اورقتل کیا،یہ فتنہ چونکہ ایشیائے کوچک کے جنوبی و مغربی علاقے کی طرف سے پیدا ہوا تھا، لہذا بایزید نے اس طرف کی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے بخوبی امن وامان قائم کیا اور اسی سال مصر کے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ بن محمد ابراہیم کے پاس تحف وہدایا بھیج کر اس سے سلطان کا خطاب حاصل کیا، اس سے پہلے کے عثمانی فرماں رواؤن کو بھی اگرچہ مورخین نے سلطان ہی کے لقب سے یاد کیا ہے مگر درحقیقت وہ امیر کہلاتے تھے مثلا ً امیر عثمان خاں،امیر ارخان،امیر مراد خان وغیرہ،بایزید خاں نے ۷۹۵ء میں خلفائے عباسیہ کی مذہبی عظمت کو مدّ نظر رکھ کر جو تمام عالمِ اسلام میں مسلم تھی، عباسی خلیفہ سے خطاب حاصل کرنا ضروری سمجھا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ عباسی خلیفہ مصر کے مملوک فرماں روا کی حفاظت و نگرانی میں اپنے دن بسر کر رہا ہے،غرض یہ کہ بایزید خاں یلدرم کو سلاطین عثمانیہ کا پلا سلطان کہا جاسکتا ہے،یورپی مورخین کا خیال ہے کہ سلطان بایزید خاں یلدرم باوجود بہادر اورسپاہی منش انسان ہونے کے عثمانیوں میں سب سے پہلا فرماں روا ہے جو یورپ کی بد اعمالیوں اوربرے مشیروں کی صحتب سے متاثر ہوکر شراب نوشی کے جرم کا مرتکب ہوا، اگر یہ بیان درست ہو تو ہم کو متعجب نہیں ہونا چاہئے ؛کیونکہ بایزید خان یلدرم کے آخری کارنامہ یعنی جنگ انگورہ کی ناعاقبت اندیشی کو دیکھنے سے اس کی شراب نوشی کا کچھ کچھ ثبوت بہم پہنچ جاتا ہے، یورپی مورخین سلطان بایزید خان کو عیاشی اوربد چلنی کا مجرم بھی بتاتے ہیں، ہم کو اس پر بھی حیرت زدہ ہونا چاہئے کیونکہ شراب خوری اورعیاشی میں چولی دامن کا ساتھ ہے، تاہم اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ایک فاتح سلطان کی حیثیت سے وہ بے نظیر شخص تھا اوراپنی شمشیر خاراشگاف کی بدولت اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے سامنے ترسان ولرزان اورسرنگون رکھا تھا، بایزید خاں یلدرم کی شراب خوری اورعیاشی کی حکایت اگر صھیح ہے تو یہ بھی عیسائی سلاطین کی حکمت عملیوں اورخفیہ تبدبیروں کا نتیجہ تھا کیونکہ سلاطین عثمانیہ کے محلوں میں عیسائی سلاطین نے شروع ہی سے اپنی شہزادیاں داخل کرنے کا سلسلہ جاری کردیا تھا، بایزید خاں یلدرم کے محل میں بھی شراب کی طرف متوجہ کرنے والی عیسائی شہزادیاں موجود تھیں،اس کے پیش روسلاطین اپنی مذہبی عصبیت اورایمانی قوت کے سبب حبائل الشیاطین اورعیسائی خبیثات کے فریب و کیدے آزاد رہے،مگر بایزید خان جو میدان جنگ میں طاقتور سے طاقتور دشمن کو خاطر میں نہ لاتا تھا، اپنے محلوں کے نرم ونازک حریفوں سے مغلوب ہوگیا۔ بایزید خاں یلدرم ۷۹۵ھ سے ۷۹۹ء تک اپنی پرانی دارلاسلطنت ایڈریا نوپل اوریورپی میدان جنگ سے غیر حاضر یعنی ایشیاء کوچک میں مقیم رہا، ۷۹۹ھ میں اس نے سنا کہ یورپ کی تمام طاقتیں ہنگری کے بادشاہ سجنڈ کی تحریک وکوشش سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف متحد ہوکر جنگ کی تیاریاں مکمل کرچکی ہیں اور فوجوں کی نقل وحرکت شروع ہوگئی ہے، اس مرتبہ علاوہ اورتمام عیسائی اور شاہوں اور قوموں کے فرانس وانگلستان بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس اتحاد میں شامل تھے،یعنی اٹلی ،فرانس و انگلستان ،آسٹریا،ہنگری،پولینڈ،جرمنی وایشیا بوسینیا وغیرہ سب مکمل طور پر تیار ہوکر اس کئی سال کی مہلت میں با اطمینان میدان میں نکل سکے،قسطنطنیہ کا قیصر محض اس لیے کہ وہ ہمہ اوقات سلطان بایزید خاں یلدرم کی ٹھوکروں میں تھا،علانیہ شرکت نہ کرسکا مگر خفیہ طور پر اورمعنوی حیثیت سے وہی اس جنگی تیاری کا باعث اورمحرک اوّل تھا؛کیونکہ ترکوں کی سلطنت کا سب سے زیادہ بدخواہ اور دشمن وہی ہوسکتا تھا،حالانکہ سلطان بایزید خاں یلدرم اس کی طرف سے بالکل مطمئن اورصاف تھا عیسائیوں کی اس جنگی تیاری کا حال سن کر بایزید خاں یلدرم برق اورآندھی کی طرح یورپ پہنچا،اس نے یہاں پہنچ کر دیکھا کہ روما کے پوپ یونیفس نہم نے یورپ کے ملکوں میں اپنا فتویٰ شائع کیا ہے کہ جو عیسائی ہنگری کے ملک میں پہنچ کر مسلمان کے خلاف لڑائی میں شریک ہوگا،وہ گناہوں سے بالکل پاک ہوجائے گا، اس سے پہلے فرانس وانگلستان میں لڑائی چھڑی ہوئی تھی مگر پوپ اوردوسرے بااثر عیسائیوں نے ،دونوں ملکوں کے سلاطین کو سمجھا یا اور اس بات پر آمادہ کرلیا کہ بایزید خاں یلدرم کا قصہ پاک کرلینے تک یہ لڑائی روکی جائے؛چنانچہ کاؤنٹ دی نیورس ڈیوآف برگنڈی کے ماتحت علاقہ برگنڈی کے بہادروں کی ایک زبردست فوج ہنگری کے بادشاہ سجنڈ کی اعانت کے لئے ہنگری کی جانب روانہ کی گئی،فرانس کے بہادروں کی ایک زبردست فوج شہنشاہ فرانس کے تین چچیرے بھائیوں جیمس فلپ اور ہنری کے ماتحت مرتب ہوکر ہنگری کی جانب روانہ ہوئی،اس فوج میں شہزادہ کاؤںت آف یوبھی شامل تھا، فرانس کے بہت سے نواب اورفخر ملک و قوم بہادر سپہ سالار اورفرانس کا امیر البحر بھی اپنی اپنی جمیعتیں لے کر الگ روانہ ہوئے جرمن کے ٹیوٹا نک شہزادے اوربڑے بڑے کاؤنٹ اپنی اپنی زبردست فوجیں لے کر ہنگری میں پہنچے،بو میریا کے بہادروں کی زبردست فوجیں ایکٹر پیلتن اورکاؤنٹ آف منپل گریڈ کے ماتحت روانہ ہوئیں،آسٹریا کے سواروں کی ایک فوج کا افسر ہر مین اور دوسری زبردست فوج کا افسر کاؤنٹ دی سلی تھا،اسی طرح اٹلی اور دور دراز کے جزیروں سے بھی آزمودہ کار اوربہادر عیسائیوں کی فوجیں ہنگری کی جانب روانہ ہوئیں،سینٹ جان یروشلم کے ماتحت بھی عیسائیوں کی ایک زبردست فوج آئی،اس طرح جب ہنگری میں عیسائیوں کی افواج قاہرہ کا جماؤ ہوگیا،تو سجمنڈ شاہ ہنگری نے اپنی زبردست فوج کو بھی ہر طرف سے جمع کیا اوروالیشیا کے عیسائی بادشاہ کو جو سلطان بایزید خاں یلدرم کی اطاعت قبول کرچکا تھا،لکھا کہ اب تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ بایزید یلدرم کی اطاعت ترک کرکے مع اپنی پوری طاقت کے ہمارے شریک ہوجاؤ، اس نے بڑی خوشی سے اس پیغام کا خیر مقدم کیا اورجب عیسائی افواج کا یہ سیلاب ا س کے ملک میں داخل ہوکر گذرنے لگا تو وہ بھی مع اپنی پوری طاقت کے اس عیسائی سیلابِ عظیم میں شامل ہوگیا،مگر سرویا کے بادشاہ نے احتیاط سے کام لیا جو پہلے بادشاہ کے مقام کسودا میں گرفتار و مقتول ہونے کے بعد تخت نشین ہوکر بایزید یلدرم کا باج گذار مطیع بنا تھا، اس نے اس عیسائی شکر کی شرکت اختیار نہیں کی،عیسائیوں کی عظیم الشان فوج کی یہ خصوصیت قابلِ تذکرہ ہے کہ اس مرتبہ جس قدر عیسائی فوج مختلف ملکوں کی جمع ہوئیں تھیں،وہ سب کی سب ہی نہایت بہادر، تجربہ کار بارہا کے جنگ آزمودہ سپاہیوں اورسپہ سالار پر مشتمل تھیں، اس لشکر کے تمام سپاہی اور تمام سردار عیسائی دنیا کے بہترین اورمنتخب جنگ جو تھے، اس لشکر کے سپہ سالاروں کا قول تھا کہ اگر آسمان بھی ہمارے اوپر ٹوٹ پڑا تو ہم اپنے نیزوں کی نوک پر طرف بڑھ،سجمنڈ شاہِ ہنگری نے جو سپہ سالارا عظم تھا، عثمانی سلطنت کی حدود پر پہنچ کر حملہ آوری کا حکم دیا اوربہت جلد ایک کے بعد دوسرا شہر فتح کرنا شروع کردیا،ہر ایک قصبہ یا شہر جسے عیسائی فتح کرتے تھے،خاک سیاہ بنادیا جاتا تھا،وہاں کے مسلمان باشندوں اورمحافظ سپاہیوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کیا جاتا تھا اورامن کی درخواستیا اطاعت کے اقرار پر بھی کسی کی جان بخشی نہیں ہوتی تھی، اس قتلِ عام میں مردوِ عورتوں،بوڑھوں اوربچوں میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا،عیسائی لشکر ایک عام تباہی اورہلاکت وبربادی بن کر عثمانیہ سلطنت کے علاقے کو بے چراغ اورخاک سیاہ بناتا ہوا جب بڑھنے لگا تو بایزید یلدرم کے پاس ایشیائے کوچک میں خبر پہنچی اور وہ وہاں سے بڑی عجلت کے ساتھ ایڈریانوپل پہنچا،سجمنڈ کو اس بات کا یقین تھا کہ میں دردانیال کے اس پار پہنچ کر ایشائے کوچک کو فتح کرتا ہوا شام کے ملک میں پہنچ سکوں گا،ادھر قیصر قسطنطنیہ بھی اپنے دل میں خوش ہورہا تھا کہ جو عظیم الشان کام کسودا کے میدانِ جنگ میں پورا نہیں ہوسکا تھا وہ اب بحسن و خوبی انجام کو پہنچ جائے گا اورہمیشہ کے لئے عثمانیوں کے خطرہ سے نجات میسر ہوجائے گی،بہت زیادہ ممکن تھا کہ سلطان بایزید خاں یلدرم کے ایڈیا نوپل پہنچنے کے وقت دوسری طرف سے سجمنڈ بھی اس عظیم الشان لشکر کے ساتھ ایڈریا نوپل پہنچ جاتا اوربایزید خاں کو اپنے حواس بجا کرنے سے پہلے ہی سخت پریشانی اورمصیبت کا سامنا ہوتا لیکن عیسائی لشکر قتل وغارت کرتا ہوا جب شہر نکوپولس کے سامن پہنچا تو وہاں کے صوبہ دار بوغلن بیگ نے بڑی ہمت و ضواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا اورخوب مضبوطی کے ساتھ محصور ہوگیا عیسائی لشکر نے نکوپولس کا محاصرہ کرلیا اورچند روز سستا نے اورآرام کرنے کا موقع غنیمت سمجھا اس طرح شہر نکو پولس کے محاصرہ نے سلطان بایزید خان کو موقع دیا کہ اس نے ایڈسیانوپل میں پہنچ کر اوراس عجلت میں اپنی مناسب تیاری کے بعد نکو پولس کی طرف کوچ کردیا، عیسائیوں کو یہاں بھی توقع تھی کہ سلطان بایزید خان ایشیائے کوچک میں بیٹھا ہوا ہے اوران کو یقین تھا کہ وہ ہماری کثرت وطاقت کا حال سن کر ساحل یورپ پر اترنے کی جرأت کرنہ سکے گا، آخر ۲۴ دسمبر ۱۳۹۶ ء مطابق ۷۹۹ھ کہ کاؤنٹ دی نیورس ڈیوک آف برگنڈی اپنے خیمے میں کھانا کھارہا تھا،اس کے پاس بعض جاسوسوں نے یہ خبر پہنچائی کہ ترکوں کا لشکر قریب پہنچ چکا ہے،اس خبر کو سنتے ہی ڈیوک مذکور اوردوسرے فرانسیسی سردار فوراً کھڑے ہوگئے اورخوشی خوشی سجمنڈ کے پاس پہنچ کر کہنے لگے کہ ترکوں کے مقابلے میں ہم لوگ عیسائی لشکر کا ہراول قرار دیئے جائیں تاکہ سب سے پہلے ہم کو بایزید کے لشکر پر تلوار چلانے کا فخر حاصل ہو،سجمنڈ جوترکوں کے طریق جنگ سے واقف اورزیادہ تجربہ کار تھا، اس نے کہا کہ سب سے پہلے ترکوں کے بے قاعدہ اورنیم مسلح فوج کے دستے آگے بڑھیں گے،آپ لوگ جو عیسائی لشکر کے لئے مایہ ناز ہیں اُس لشکر کے مقابلہ پر تیار رہیں جو سلطان بایزید خان کے جاں نثار اورسب سے زیادہ بہادر سپاہیوں پر مشتمل ہے اور جوابتدائی مقابلہ کے بعد زبردست حملہ کرے گا، ڈیوک آف برگنڈی یہ سن کر خاموش ہوگیا، مگر فرانس کے سرداروں یعنی لارڈوہی کوکرسی اورامیر البحر اورمارشل بوسی وغیرہ نے اصرار کیا کہ ہم ہرگز اس بات کو گوارہ نہیں کرسکتے کہ فرانس والوں سے پہلے ہنگری والے جنگ میں پیش قدمی کریں یہ پر غرور اورپرجوش الفاظ سن کر نوجوانوں نے خوشی کا ایک نعرہ بلند کیا اوراس جوش وغرور میں ان ترکی قیدیوں کو جواب تک قتل نہیں کئے گئے تھے ،فوراً قتل کردیا،لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہم پر بہت جلد کیسی مصیبت وارد ہونے والی ہے۔ سلطان بایزید یلدرم نے عیسائی لشکر کے قریب پہنچ کر ایسے موقع پر قیام کیا کہ عیسائی لشکر اورسلطانی لشکر کے درمیان زمین کا ایک بلند پشتہ حائل تھا جس کی وجہ سے عیسائی لشکر سلطانی لشکر کو نہیں دیکھ سکتا تھا،سلطان نے اپنی چالیس ہزار منتخب اور مسلح افواج کو میدان میں جما کر باقی بے قاعدہ فوج کے دستوں کو مختلف ٹولیوں میں آگے بڑھادیا، ادھر سے فرانسیسی سواروں نے بطور ہر اول پیش قدمی کی اورسجمنڈ باقی فوج لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھا، فرانسیسی فوج نے ترکی کے بے قاعدہ دستوں کو کچل ڈالا اور نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ کر اس مرتفع ٹیلہ کی بلندی پر پہنچ گئے،جہاں سلطان بایزید خاں اپنی مسلح فوج کی خود سپہ سالاری کررہا تھا، بے قاعدہ ترکی دستوں نے جو فرانسیسیوں کے حملہ سے اپنی ایک تعداد کو قتل کراکر منتشر ہوگئے تھے، اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور فوراً مجتمع ہوکر اوراپنی صفوں کو درست کرکے ان حملہ آور سرانسیسیوں کے عقب میں پہنچ کر حملہ کیا، اس طرح عیسائی ہر اول ،یعنی فرانسیسی فوج جو سجمنڈ کے بڑے لشکر سے بہت دور آگے نکل آئی تھی،اسلامی لشکر کے بیچ میں گھر گئی اوربہت زیادہ مقتول واسیہ ہوئی،بہت ہی تھوڑے آدمی کسی نہ کسی طرح بچ کر نکل بھاگے، اورانہوں نے عیسائی لشکر کلاں کو فرانسیسی لشکر کی اس مکمل تباہی کا حال سنایا جس سے عیسائیوں پر مسلمانوں کی ہیبت طاری ہونے لگی اس کے بعد سلطان بایزید خاں نے عیسائیوں کے فوجی سمندر پر جو میدان جنگ میں حدّ نگاہ تک ایک نیستان کی شکل میں پھیلا ہوا تھا حملہ کیا، مسلمانوں کا یہ حملہ جس جوش وخروش کے ساتھ ہوا ہے اس کا شایدان تجربہ کار اورمنتخب جنگ جو عیسائیوں کو پہلے سے اندازہ نہ تھا،بجا طور پر کہاجاسکتا ہے کہ بایزید یلدرم کا لشکر ایک آہنی گرز تھا جس نے میلوں تک پھیلی ہوئی رتیے کی دیواروں کو اپنی پیہم ضربوں سے ریزہ ریزہ کرکے خاک میں ملادیا، بویریا آسٹریا اورہنگری کی فوجوں نے جم کر اورڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وہ سب کھیرے اورککڑی کی طرح مسلمانوں کی خون آشام تلواروں سے کٹ کر خاک وخوں میں مل گئے،اسی طرح جس نے قیام و قرار کو اختیار کیا طمعہ تیغ ہو ا یا تو بچ کر نکل گیا یا فتح مندوں کے تعاقب سے اسیر ہوکر اپنے وجود پر افسوس کرنے لگا، غرض بہت ہی جلد لڑائی کا فیصلہ ہوگیا اورسلطان بایزید خان نے نکوپولس کے میدان میں عیسائیوں کے ایک ایسے زبردست اورہر ایک اعتبار سے مکمل ومضبوط لشکر کو شکستِ فاش دی کہ اس سے پہلے کسی میدان میں عیسائیوں کی ایسی زبردست طاقت جمع نہیں ہوسکی تھی،سجمنڈ شاہ ہنگری اپنی جان بچا کر لے گیا،لیکن فرانس وآسٹریا واٹلی و ہنگری وغیرہ کے بڑے بڑے شہزادے ،نواب اور سپہ سالار قید ہوئے اوربعض میدان میں مارے گئے،ڈیوک آف برگنڈی بھی انہیں قیدیوں میں تھا اوروہ تمام عیسائی سردار جن کے نام اوپر آچکے ہیں، سب کے سب قیدیوں میں شامل تھے، نکوپولس کے اس معرکہ عظیم میں ڈیڑہ لاکھ کے قریب عیسائی مقتول ہوئے،فتح کے بعد سلطان نے میدانِ جنگ کے ہر حصہ کا خود جاکر معائنہ کیا جو لاشوں سے پٹا پڑا تھا؛چونکہ سلطان کو جا بجا اپنی فوج کے شہدا بھی نظر آئے اس لیے سلطان نے نہایت افسوس کے ساتھ کہا کہ یہ فتح ہم کو بہت مہنگی پڑی ہے،مجھ کو اپنے ان بہادروں کے خون کا بدلہ ہنگری سے لینا ہے،یہ کہہ کر سلطان نے حکم دیا کہ قیدیوں کو ہمارے سامنے پیش کیا جائے،ان قیدیوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا،جن لوگوں کو معمولی سپاہی سمجھا گیا وہ تو غلام بناکر فوج میں تقسیم کردیئے گئے،اورکچھ جلادوں کے ذریعہ تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے، ایک حصہ جو سرداروں پر مشتمل تھا الگ کیا گیا، ان لوگوں کی مشکیں کسواکر اوررسیوں میں باندھ کر بڑے بڑے شہروں میں تشہیر کے لیے بھیج دیا گیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عیسائیوں پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی ہے،ایک حصہ جو صرف شہزادوں اورفرماں رواؤں کی تعداد پچیس تھی، انہیں میں ڈیوک آف برگنڈی بھی شامل تھا، ان سب کو سلطان نے اپنے ہمراہ لیا اوریورپ سے روانہ ہوکر اپنے ایشیائی دارالسلطنت بروصہ میں آیا،یہاں آکر اس نے ان پچیس شہزادوں اورفرماں رواؤں کو اپنے سامنے بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے ناحق میرے ملک پر حملہ کرنے کی تکلیف گوار کی میں خود ہنگری،آسٹریا،فرانس ،جرمنی اوراٹلی کو فتح کرنے کا مصمم عزم رکھتا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ میں اٹلی کے شہر روما میں پہنچ کر سینٹ پیٹرکی قربان گاہ میں اپنے گھوڑے کو دانہ کھلاؤں، اس لیے تم لوگوں سے اب تمہارے ملکوں ہی میں ملاقات ہوگی اورمیں بہت ہی زیادہ خوش ہوں گا جب کہ تم لوگ پہلے سے زیادہ فوج اورزیادہ تیاری کرکے ساتھ میرے مقابلہ پر میدان میں آؤ گے،مجھ کو اگر تمہاری طرف سے ذرا بھی اندیشہ یاخوف ہوتا تو میں اس وقت تم کو یہ اقرار لے کر رہا کرتا کہ آئندہ کبھی میرے مقابلے میں آنے کا ارادہ سنہ کرو گے لیکن میں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تم اپنے اپنے ملکوں میں پہنچتے ہی فوج کی فراہمی اورلڑائی کی تیاری میں مصروف ہوجاؤ اورمیرے مقابلے کے لئے پورے طور پر مستعد رہو،یہ کہہ کر سلطان بایزیدخان نے ان تمام شہزادوں اورسرداروں کو رہا کردیا۔ اس کے بعد وہ اپنی فوج لے کر یورپ پہنچا اوراپنے اس ارادے کی تکمیل میں مصروف ہوا جس کا اوپر ذکر آچکا ہے،سب سے پہلے اس نے یونان کا رخ کیا کیونکہ یونان کے عیسائی مجاہدین خود مختارانہ طور پر ماقیصر قسطنطنیہ کے ایما سے نکو پولس کی لڑائی میں عیسائی لشکر میں شامل تھے،تھرموپلی کے درے میں سے فاتحانہ گذرتا ہوا اتھنز کی دیواروں کے نیچے پہنچا اور ۸۰۰ ھ میں اتھنز کو فتح کرکے تیس ہزار یونانیوں کو ایشیائے کوچک میں آباد ہونے کے لئے روانہ کیا،جب کہ سلطان خود فوج لے کر تھسلی کو فتح کرتا ہوا،اتھنز کی طرف گیا تو اس نے سپہ سالاروں کو آسٹریا اورہنگری کی طرف فوجیں دے کر روانہ کردیا تھا،جنہوں نے ان ملکوں کے اکثر حصوّں کو فتح کرلیا تھا، اب سلطان بایزید خان کو قیصر قسطنطنیہ کی ریشہ دوانیوں اورنیش زینوں کا بخوبی علم ہوچکا تھا، لہذا اسنے اتھنز کی فتح کے بعد قسطنطنیہ کے فتح کرلینے اوراس عیسائی سلطنت کے مٹادینے کا ارادہ کیا لیکن قیصر نے اس مرتبہ بھی اپنی ہوشیاری سے کام لیا اور سلطان تاجروں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے گی، ان شرائط پر سلطان بایزید خان یلدرم رضا مند ہوگیا اوراس نے قسطنطنیہ چھوڑدیا، ورنہ جو کام سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ کے ہاتھو انجام پذیر ہوا وہ ۸۰۰ ھ میں بایزید یلدرم کے ہاتھوں سے پورا ہوچکاتھا، یہ وہ زمانہ تھا کہ تیمور حُراسان وایران میں اپنی حکومت کی بنیاد مضبوط کرکے اورترکمانوں کی گوشمالی سے فارغ ہوکر اوراپنے مقبوضات کو سلطان بایزید کے مقبوضات کی سرحد تک پہنچا کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا، قیصر قسطنطنیہ جو یورپ میں اپنی ریشہ دوانیوں اورعیسائیوں کی زور آزمائیوں کے نتائج جنگ کسودا اورجنگ نکو پولس میں دیکھ چکا تھا،اب اپنی اس مجبوری اور ذلت کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر آمادہ کوشش ہوا۔ سلطان بایزید خاں یلدرم جب یونان اوراتھنز کو فتح کرچکا اورقیصر کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا تو اُس نے فوراً ایک قاصد تیمور کی خدمت میں روانہ کیا اوراُس کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ میری سلطنت بہت پُرانی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قسطنطنیہ کے اندر ہماری سلطنت موجود تھی،اس کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی خلفاء سے بار بار ہماری صلح ہوئی اورکسی نے قطنطنیہ کے لینے کا قصد نہیں فرمایا لیکن اب عثمانی سلطنتنے اکثر ہمارے مقبوضات چھین لئے ہیں اور ہمارے دار السلطنت قسطنطنیہ پر اُس کا دانت ہے،ایسی حالت مین سخت مجبور ہوکر ہم آپ سے امداد کے خواہاں ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کے سوا ہم اور کسی سے خواہانِ امداد ہو بھی نہیں سکتے، آپ کو اگر بایزید خاں یلدرم کے مسلمان اورہمارے عیسائی ہونے کا خیال ہو تو آپ کو واضح رہے کہ بایزید خان کو اس طرف یورپ میں مسلسل فتوحات حاصل ہورہی ہیں اوراس کی طاقت بڑی تیزی سے ترقی پذیر ہے،وہ بہت جلد اس طرف سے مطمئن اورفارغ ہوکر آپ کے مقبوضہ ممالک پر حملہ آور ہوگا اور اُس وقت آپ کو اُس کے زیر کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا،بایزید خاں نے سلطان احمد جلائر اورقرایوسف ترکمان کو جو آپ کے مفرور باغی ہیں اپنے یہاں عزت کے ساتھ مہمان رکھ چھوڑا ہے اور یہ دونوں باغی اُس کو آپ کے خلاف جنگ کرنے اور مشورہ دینے میں برابر مصروف ہیں،یہ بات بھی آپ کے لئے کچھ کم بے عزت کی نہیں کہ آپ کے باغی سلطان بایزید خاں کے پاس اس طرح عزت واکرام کے ساتھ رہیں اوراُن کو واپس طلب نہ کرسکیں، پس مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایشیائے کوچک پر حملہ کریں کیونکہ اس ملک کو قدرتی طور پر آپ کے قبضے میں رہنا چاہئے اوربایزید خاں یلدرم کے فتنے سے ہم کو بچائیں،ہم سے جو کچھ ممکن ہوگا آپ کی امداد کریں گے،قیصر کایہ خط اگرچہ اپنی نفسانی اغراض پر مشتمل تھا اورتیمور ایسا بیوقوف نہ تھا کہ اپس کی خود غرضانہ باتوں میں آجاتا،لیکن اس خط میں باغیوں کی پناہ دہی کا تذکرہ کچھ ایسے الفاظ میں کیا گیا تھا جن کا تیمور کے دل پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا، قیصر قسطنطنیہ کا یہ خط تیمور کے پاس اُس وقت پہنچا جب کہ وہ دریائے گنگ کے کنارے پہنچ کر ہردوار میں مقیم اورہندوستان کے مشرقی صوبوں کی طرف بڑھنے کا قصد کررہا تھا،قیصر قسطنطنیہ کے اس خط کو پڑھ کر اُس نے کوئی تسلی بخش جواب قاصد کو نہیں دیا؛بلکہ فوراً ہی اُس کو رُخصت کردیا، مگر اس خط کے مضمون نے اندر ہی اندر اُس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ اُس کا دل ہندوستان سے اُچاٹ ہوگیا اوروہ ہندوستان کے اس نو مفتوحہ ملک کو کسی معقول انتظام کے ویسے ہی چھوڑ کر ہردوار سے جلد جلد منزلیں طے کرتا ہوا پنجاب سے سمر قند کی جانب روانہ ہوا۔ ہندوستان کے ایک لاکھ قیدی جو اُس کے ہمراہ تھے اور سفر میں گراں باری کا باعث تھے اُس نے راستے میں قتل کرادئیے،سمر قند پہنچ کر اُس نے خوب تیاری کی اوراس بات پر آمادہ ہوگیا کہ عثمانی سلطان سے اول دو دو ہاتھ کرکے اس بات کا فیصلہ کرلیا جائے کہ ہم دونوں میں سے کسی کو دنیا کا فاتح بننا چاہئے،اس عرصہ میں تیمور کے پاس برابر یلدرم کی فتوحات کے حالات پہنچتے رہے، اوروہ اپنے اس رقیب سے لرنے پر مستعد ہوتا گیا ،اُدھر بایزید یلدرم قسطنطنیہ کے عیسائی قیصر کو اپنا باج گذار بنا کر اورہنگرو آسٹریا کی فتوحات کو تکمیل تک پہنچا کر اپنے اس ارادے کی تکمیل پر آمادہ ہوا کہ شہر روما کو فتح کرکے سینٹ پیٹر کے مشہور گرجا میں اپنے گھوڑے کو دانہ کھلائے لیکن اُس کو یہ خبر پہنچ گئی کہ قیصر قسطنطنیہ نے اُس کے خلاف تیمور کے پاس سفارت بھیجی ہے اور وہ سلطان بایزید خان کی خراج گذاری کو اپنے لئے موجب ذلت سمجھ کر ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف ہے،سلطان بایزید خان یلدرم کو تیمور سے تویہ توقع ہرگز نہ تھی کہ وہ قیصر کا حمایتی بن کر مجھ سے لڑنے آئے گا اورنہ اُس کو تیمور کا کچھ خوف تھا،لیکن اُس نے ضروری سمجھا کہ قیصرکا قصہ اوّل پاک کردیا جائے،اس کے بعد اٹلی پر حملہ کیا جائے؛چنانچہ اُس نے قیصر سے جواب طلب کیا اورکوئی معقول جواب نہ پاکر قسطنطنیہ کے محاصرہ کی تیاری شروع کردی۔ اُدھر تیمور نے سمر قند سے روانہ ہوکر اورایشیائے کوچک کے مغربی سرحد پر پہنچ کر آذر بائیجان اورارمینیا میں قتل عام کے ذریعہ خون کے دریا بہائے اوراس علاقے پر اپنی ہیبت کے سکے بٹھائے، آذر بائیجان وارمینیا کو فتح کرنے کے بعد تیمور کو سلطان بایزید یلدرم سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا بخوبی موقع مل گیا تھا کیونکہ اب اُس کے سامنے عثمانیہ سلطنت کی حدود تھیں اور درمیان میں کوئی علاقہ حائل نہ تھا، آذربائیجان کا ملک جو بفراسٹیٹ یعنی حدِّ فاصل علاقہ کی حیثیت رکھتا تھا تیمور نے فتح کرلیا تھا، آذر بائیجان کے فرماں رواؤں کا طرزِ عمل ان دونوں اسلامی شہنشاہوں کو ایک دوسرے سے جنگ آزما کر انے کا موجب ہورہا تھا، یہ سرحدی حکام جب کبھی عثمانیہ سلطنت سے ناراض ہوتے تو تیمور سے امداد طلب کرتے اورجب تیمور سے ناراض ہوتے تو عثمانی سلطان سے مدد طلب کرتے،اسی سلسلہ میں میں قرایوسف ترکمان فرماں روائے آذربائیجان تیمور سے خائف وترساں اور آوارہ ہوکر سلطان بایزید یلدرم کے پاس چلا گیا تھا اوراس بات کا خواہاں تھا کہ عثمانی سلطان تیمور کے مقابلے میں اُس کی مدد کرکے اُس کے ملک میں اُس کے تخت نشین کرادے تیمور نے جب آذر بائیجان کو فتح کرلیا تو بایزید یلدرم نے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ اپنے بیٹے طغرل نامی کو اپنے سرحدی شہر سیوا س میں بھیج دیا کہ اگر تیمور اس طرح کو بڑھے تو اس کو روکے ،تیمور نے عثمانی سلطان سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں عجلت وشتاب زدگی سے کام نہیں لیا ؛بلکہ بڑی احتیاط کے ساتھ تیاریوں میں مصروف رہا اُس نے اپنے تمام مقبوضات میں گشتی احکام روانہ کرکے تجربہ کار سپاہی اورانتخابی فوجیں طلب کیں،اُدھر جاسوسوں کی ایک بڑی تعداد فقیروں ،درویشوں ،صوفیوں،واعظموں ،تاجروں،سیاحوں کی شکل میں سلطنت عثمانیہ میں داخل کردی اورایک بڑی تعداد تجربہ کار جاسوسوں کی خاص سلطان بایزید خان کے لشکر میں بھیجی کہ وہ جاکر ان مغلوں کو جو ایشیائے کوچک میں بود وباش رکھنے کے سبب بایزید کے لشکر میں شامل اوراُس کے ایشیائی لشکر کا جز واعظم تھے بہکائیں اور سمجھائیں کہ مغلوں کا قومی فرماں روا اورسردار تیمور ہے تیمور کے مقابلے میں بایزید یلدرم ترکی سلطان کاساتھ دینا قومی غداری اوربڑی بے عزتی کی بات ہے؛چنانچہ تیمور کی یہ خفیہ حملہ آوری بڑی کارگر ثابت ہوئی،بایزید یلدرم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلطان سے بددل اوربغاوت پر آمادہ رہنے لگا،تیمور کے ان جاسوسوں نے سلطان کےلشکر میں یہ خیال بھی پھیلادیا کہ سلطان فوج کو بڑی بڑی تنخواہیں اورمالِ غنیمت میں زیادہ حصہ دینے میں بخل سے کام لیتا ہے حالانکہ تیمور کے سپاہی بہت آسودہ حال اور فارغ البال رہتے ہیں۔ اس انتظام سے فارغ ہوکر تیمور نے مناسب سمجھا کہ شام و مصر کا ملک اوّل فتح کرلوں اُس کو معلوم تھا کہ مصر کا چرکسی بادشاہ فرج بن برقوق بایزید خان یلدرم کا دوست ہے،جب ملکِ شام پر حملہ کیا جائے گا تو وہ دمشق کے بچانے کو ضرور ملکِ شام میں آجائے گا اورچونکہ وہ تنہا کمزور ہے اُس کا شکست دینا نہایت آسان کام ہے کم از کم دمشق اورشام پر قبضہ ہوجانے سے بایزید خاں یلدرم کو مصریوں اور شامیوں کی جانب سے کوئی امداد نہ پہنچ سکے گی؛چنانچہ اُس نے اُدھر تو بایزید خاں یلدرم کو خط لکھا کہ ہمارا باغی قرایوسف ترکمان تمہارے پاس ہے اُس کو ہمارے پاس بھیج دو، ورنہ ہم تمہارے ملک پر چڑھائی کریں گے اورادھر اپنی فوج لے کر ۸۰۳ھ میں حلب کے راستے ملک شام پر حملہ آور ہوا، تیمور کا خیال صحیح ثابت ہوا اور تیمور ابھی حلب ہی میں پہنچا تھا کہ شاہِ مصر فوراً دمشق میں آموجود ہوا،دمشق پر لڑائی ہوئی اورمصر کے چرکسی فرماں روا کو شکست کھا کر مصر کی طرف بھاگنا پڑا،مصری فوج تیموری لشکر سے بہت مرعوب ہوگئی اورتیمور نے شام کے شہروں میں قتل عام کراکراورجابجا کلہ مینار بناکر لوگوں کو خوف زدہ بنادیا اس طرح اپنا مقصد پورا کرکے تیمور بغداد کی طرف متوجہ ہوا اور بغداد کو بھی بزدورشمشیر فتح کرلیامیہیں اُس کے پاس سلطان بایزید خاں یلدرم کے پاس سے خط کا جواب ملا جس میں تیمور کی درخواست کو نہایت حقارت کے ساتھ روکا گیا تھا۔ تیمور پہلے سے جانتا تھا کہ بایزید بلدرم کیا جواب دے گا اوراسی لئے وہ ہر ایک ممکن تدبیر میں پہلے ہی سے مصروف تھا، اس جواب کو پاکر اُس نے بغداد میں بھی زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا ؛بلکہ اس تعداد سے سیدھا آذر بائیجان کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے اپنے دوسرے ملکوں سے وقتاً فوقتاً امداد یں طلب کی تھیں،یہاں پہنچ کر اُ س نے بغداد میں بھی زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا؛بلکہ اس تعداد سے سیدھا آذر بائیجان کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے اپنے دوسرے ملکوں سے وقتاً فوقتاً امداد دیں طلب کی تھیں، یہاں پہنچ کر اُس نے نہایت دور اندیشی اور ہوشیاری کے ساتھ رسد رسانی اورخبر رسانی، جاسوسی وغیرہ کے محکموں کو ترتیب دیا اورتمام ضروری مقامات پر پہلے سے سامانِ جنگ اوررسد رسانی کے لئے اہل کار اورزبردست عملہ مقرر ومامور کردیا،یہ وہ زمانہ تھا کہ یزید خاں یلدرم نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرلیا تھا اور قسطنطنیہ کی فتح سے بہت ہی جلد فارغ ہونے والا تھا، اُس نے شام کی فتح اورفج بن برقوق شاہ مصر کی شکست کا حال سُن کر قرایوسف ترکمان کو ایک فوج دے کر روانہ کیا کہ بلا تامل شام میں پہنچ کر تیموری عاملوں کو قتل واسیر کرکے ملک شام پر قبضہ کرے اور خود تیمور کے مقابلہ کو روانہ ہوا، قسطنطنیہ کی فتح کو اس نے دوسرے وقت کے لئےملتوی کردیا، بہت زیادہ ممکن تھا کہ ملکِ شام کے چھین لینے پر اکتفا کرکے بایزید یلدرم خاموش ہوجاتا اورتیمور سے جنگ کرنا یعنی خود اُس پر حملہ آور ہونا ضروری نہ جانتا،کیونکہ وہ مسلمان بادشاہوں سے لڑنے کا شوق نہ رکھتا تھا اُس پر حملہ آور ہونا ضروری نہ جانتا ؛کیونکہ وہ مسلمان بادشاہوں سے لڑنے کا شوق نہ رکھتا تھا اُس کو تو ابھی یورپ کے رہے ہوئے ملکوں کے فتح کرنے کا خیال تھا اوروہ عیسائیوں ہی کو اپنی شمشیر خار اشگاف کے جوہر دکھانا چاہتا تھا جن کو جنگ نکو پولس میں سکت ہزیمت دے کر مرعوب بناچکا تھا اورہنگری وآسٹریا کی فتح کے بعد قسطنطنیہ ورومافتح کرکے گرجا میں اپنا گھوڑا باندھنے کا مصمم ارادہ کرچکا تھا، مگر تیمور کئی سال سے نہایت سرگرمی کے ساتھ بایزید سے لڑنے اوراُس کو شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھا،دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ بایزید یلدرم عیسائی طاقت کو دُنیا سے نابود کرنے پر تلا ہوا تھا اورتیمور بایزید کو نابود کرنے اور عیسائیوں کو بچانے پر آمادہ تھا۔ تیمور نے اپنے تمام سامان کو مکمل کرلینے کے بعد بایزید کے سرحد شہر سیواس پر حملہ کردیا جہاں یزید کا بیٹا بطور قلعہ دار موجود تھا،بایزید کے بیٹے ارطغرل نے بڑی بہادری اور پامردی کے ساتھ قلعہ بند ہوکر مدافعت کی،تیمور نے سب سے پہلے اسی قلعے پر اپنی قلعہ گیری کے سامانوں کو آزمایا،اُس نے قلعہ کا محاصرہ کرکے باہر سے قلعہ کی بنیادیں کُھداوانی شروع کیں، تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر عمیق گڑھے کھود کر اوربنیاد کے نیچے سے مٹی نکال کر لکڑی کے مضبوط شہتیر بنیاد کے نیچے کھڑے کردیئیے پھر ان گڑھوں اور شہتیروں پر معلق کردیا گیا، پھر ان تمام شہتیروں میں آگ لگادی گئی، شہتیروں کے جلنے سے قلعہ کی تمام دیوار یک لخت زمین میں دھنس گئی، اس طرح یکا یک اپنے آپ کو بے پناہ دیکھ کر محصورین نے ہتھیار ڈال دیئے اور سب کے سب جن کی تعداد چار ہزار تھی گرفتار ہوگئے،جس طرح سیواس کے قلعہ کو زمین میں غرق کرنے کا طریقہ تیمور نے عجیب وغیرب اختیار کیا تھا اسی طرح اُس نے ان ترک قیدیوں کے ساتھ سفاکی وبے دردی کا سلوک بھی بہت ہی عجیب و غریب کیا،یعنی اُس نے بجائے اُس کے کہ اُن کو جان کی امان دیتا سب کی مشکیں کسوائیں اور اُن کے سروں کو اُن کے گھٹنوں کے درمیان لے جاکر رسیوں سے جکڑ کر گٹھری کی طرح بندوھادیا، پھر گہری گہری خندقیں کُھدواکر اُن میں سب کو ڈال دیا، اُن خندقوں یابوں کہئے کہ قبروں پر تختے رکھا کر اوپر سے مٹی ڈال دی گئی، زندہ درگور کرنے کے جب اس ظالامانہ فعل کا تصور کیا جاتا ہے تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بایزید یلدرم نے جب اپنے بیٹے اورچار ہزار ہم قوم ترکوں کے اس طرح ہلاک ہونے کا حال سُنا تو وہ اپنے ہوش میں نہ رہا،غالباً تیمور کا بھی یہی منشاء تھا کہ بایزید آپے سے باہر ہوکر عقل و خرد سے بیگانہ ہوجائے اور فوراً مقابلہ پر آجائے،بایزید یلدرم سے اس کے بعد جوبداحتیاطی اورناعاقبت اندیشی ظہور میں آئی اُس کو غصہ و غضب کا نتیجہ سمجھ لیجئے یا اُس الزام کا نتیجہ قرار دیجئے جو شراب خوری کے متعلق اُس پر لگایا گیا ہے،بہرحال اس کے بعد جنگی حزم و احتیاط کے معاملہ میں تیمور ہر ایک اعتبار سے پورا اوربایزید ناقص ثابت ہوتا ہے،حالانکہ اس سے پہلے تک بایزید یلدرم سے جنگی معاملات میں کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی تھی اوروہ اپنے آپ کو بڑا قابل اورلائق تعریف ثابت کرچکا تھا،بایزید تیمور کی طاقت سے واقف تھا اوروہ جانتا تھا کہ اس ۶۹ سال کی عمر کے بوڑھے دشمن کی ساری عمر لڑائیوں میں صرف ہوئی ہے اُس کے پاس یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ تیمور کی رکاب میں پانچ لاکھ سے اوپر انتخابی فوج موجود ہے،بایزید اس عجلت میں جس قدر فوج جمع کرسکتا تھا اُس نے جمع کی اوررسیواس کی طرف جہاں اُس کا بیٹا زندہ درگور کیا گیا تھا اوراُس کا دشمن اپنی فوج لئے ہوئے پڑا تھا بڑھا، اُس کی فوج میں اُس کی عیسائی بیوی کا بھائی شاہ سرویا اور بقول دیگر فرانسیسی بیوی کا بھائی ایک فرانسین سردار بھی موجود تھا جو بیس ہزار سواروں کا افسر تھا،بایزید کو سرعت رفتار کے ساتھ آتا ہوا سُن کر تیمور نے ایک نہایت ہی موثر سپاہیانہ چال چلی جواُس نے پہلے ہی سے سوچ رکھی تھی اوراُس کے متعلق ہر قسم کا انتظام پہلے سے کرلیا تھا،بایزید نے سیواس کی طرف اپنی فوج کے بعض حصے پہلے روانہ کردیئے تھے اور ہر قسم کا ضروری سامان بھی ساتھ لے لیا تھا،تیمور اُس وقت تک کہ بایزید کا لشکر سیواس کے قریب پہنچا وہیں مقیم رہا،جب اُس کو معلوم ہوا کہ بایزید جو پیچھے آرہا ہے اپنا راستہ نہ بدل سکے گا تو وہ سیواس کو چھوڑ کر اوروہاں سے کترا کر جنوب کی طرف حل دیا اورمغرب کی جانب مڑکر سیدھا شہر انگورہ کی طرف گیا اورجاکر شہر انگورہ کا محاصرہ کرلیا،یزید یلدرم جب سیواس کے قریب پہنچا وہیں مقیم رہا، جب اُس کو معلوم ہوا کہ بایزید جو پیچھے آرہا ہے اپنا راستہ نہ بدل سکے گا تو وہ سیواس کو چھوڑ کر اور وہاں سے کترا کر جنوب کی طرف حیل دیا اور مغرب کی جانب مڑکر سیدھا شہرانگورہ کی طرف گیا اور جاکر شہر انگورہ کا محاصرہ کرلیا،یزید یلدرم جب سیواس پہنچا تو اپنے بیٹے کے مقتل کو دیکھ کر غم و غصہ سے بیتاب ہوگیا،لیکن اُس نے تیمور اوراُس کی فوج کو وہاں نہ پایا؛بلکہ اُس کو معلوم ہوا کہ تیمور اپنی فوج لے کر سیواس سے دو سو پچاس میل مغرب کی جانب اندرون ملک،یعنی شہر انگورہ میں جاپہنچا ہے،شہراانگورہ کی تباہی کا تصور بایزید یلدرم کے لئے سیواس کی تباہی سے بھی زیادہ رنجم دہ تھا اور تیمور کے اس طرح ایشیائے کوچک کے قلب میں پہنچ جانے کو وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا، اب اُس کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ خشم اندیشہ سوز کا مغلوب نہ ہوتا اورقرایوسف ترکمان اورشامی ومصری سرداروں کو تیز رفتار قاصدوں کے ذریعہ اطلاع دے کر تیمور کی طرف بڑھنے کی طرف دعوت دیتا اورخود تیمور کو اپنے ملک میں ہر طرف سے گھیر کر بند کرنے اوراُس کے ذرائع رسد رسانی کو منقطع ومسدود کرنے کی تدبیریں عمل میں لاتا اورتیمور اگر مغرب کی جانب بڑھتا اورشہروں کو برباد کرتا تو یہ کام اُس کو کرنے دیتا کیونکہ اس کے چاروں طرف وہ علاقے تھے جہاں عثمانی جاگیردار اورسلطنت عثمانیہ کے فدائی ترک بکثرت آباد تھے اور چاروں طرف سے بڑی زبردست فوجیں مجتمع ہوکر تیمور کے لشکر کو اپنی حملہ آوریوں کا مرکز بناسکتی تھیں،اس طرح تیمور کو جال میں پھنسا کر گرفتار کرلینا بایزید کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا، مگر تیمور بایزید کے مزاج سے یقیناً خوب واقف تھا اوروہ جانتا تھا کہ میرا حریف اس قدر مآل اندیشی کو ہرگز کام میں نہ لاسکے گا؛چنانچہ ایسا ہی ہوا اوربایزید جو بڑی آسانی سے چار لاکھ فوج سیواس کے میدان میں جمع کرنے کا اہتمام کرچکا تھا اورتیمور سے کسی طرح مغلوب ہونے والا نہ تھا، جوشِ غضب میں بلاتامل دو منزلہ اورسہ منزلہ یلغار کرتا ہوا سیواس سے انگورہ کی طرف چلا اس تیز رفتاری اورمسلسل سفر میں صرف ایک لاکھ بیس ہزار فوج اُس کے ہمراہ رہ سکی، یہی شتاب زدگی بایزید یلدرم کی سب سے پہلی اورسب سے بڑی غلطی تھی،بایزید یلدرجب اپنی اس تھکی ماندی ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو لے کر انگورہ کے متصل پہنچا ہے تو تیمور اپنی پانچ لاکھ سے زیادہ فوج کو جو خوب تازہ دم اور ہر طرح مقابلہ کے لئے تیار تھی لئے ہوئے بہترین مقام پر خیمہ زن تھا،تیمور نے اپنی فوج کے لئے شہر انگورہ کے شمال ومغرب میں بہتر سے بہتر موقع انتخاب کرلیا تھا اورجہاں جہاں خندق یاد مدمے کی ضرورت تھی تیار کراچکا تھا،بایزید یلدرم نے تیموری لشکر گاہ کے شمال کی جانب اوریہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں تیمور کی اس عظیم الشان فوج کو خاطر میں مطلق نہیں لاتا قریب کے ایک مرتفع پہاڑی علاقے میں لے جاکر اوّل شکار میں مصروف ہوا اورجنگل کا سپاہیوں سے محاصرہ کراکر چنگیزی طریقہ سے دائرہ کو چھوٹا کرنا اورجنگلی جانوروں کو ایک مرکز کی طرف لانا شروع کرایا،جہاں سلطان اوراُس کے سردار جانوروں کے شکار کرنے میں مصروف تھے،اس شکار میں تھکی ماندی فوج کو پانی نہ ملنے کی سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی اورجو وقت سپاہیوں کو آرام کرنے اورسستانے کے لئے ملنا چاہئے تھا وہ اس محنت اورتشنگی کے عالم میں بسر ہوا جس میں پانچ ہزار سپاہی پیاس کے مارے مرگئے اورفوج کے دل سے سلطان کی محبت کم ہوگئی،اب جو شکار سے اپنے کیمپ کی طرف واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ کیمپ پر دشمن نے قبضہ کرلیا ہے،اس کے جس پانی کے چشمہ پر عثمانی لشکر کا گذر ممکن تھا اُس چشمہ کو اوپر سے بند لگا کر اوردوسری طرف سے اُس کا رخ پھیر کر تیمور کی دور اندیشی اورتجربہ کاری نے پہلے ہی خشک کرادیا تھا،بایزید یلدرم اگرچہ خود بھی لڑائی میں دیر اور تامل کرنے والا نہ تھا مگر غالباً وہ اپنے کیمپ میں پہنچ کر اور کم از کم فوج کو پانی پینے کی مہلت دینے کے بعد ہی صفوفِ جنگ تیار کرتا مگر اب وہ تیمور کی ہوشیاری اورچالاکی کے سبب مجبور ہوگیا کہ اپنی فوج کو اسی خراب خستہ حالت میں لئے ہوئے بلا تامل دشمن پر حملہ آور ہو۔