انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** واقعات حضور اکرم ﷺاور دیگرمہاجرین کو مکہ سے ہجرت کر کے آئے ہوئے چھ سال ہو رہے تھے، مہاجرین کو مکہ کی یاد اکثر ستایا کرتی تھی، اکثر مہاجرین جان بچا کر نکل آئے تھے لیکن خاندان اور بال بچے وہیں رہ گئے تھے، ایک رات حضور اکرمﷺ کو ایک رویائے صادقہ میں حج کا اشارہ ہوا، آپﷺ نے دیکھا کہ آپﷺ بیت اللہ کا عمرہ فرمارہے ہیں اور خانہ کعبہ کی چابی آپﷺ کے دست مبارک میں ہے ، صحابہ ؓ نے بھی سر منڈوالئے اور قربانی کر رہے ہیں، جب آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ خواب سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے ااور خیال کیا کہ یہ سعادت اسی سال نصیب ہوگی ، اس لئے کہ انبیاء کرام کے خواب ہمیشہ سچ ہوتے ہیں ، اسی لئے سب نے تیاریاں شروع کر دیں؛ لیکن انہیں ایک خیال ستا رہا تھا کہ کیا قریش مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے ؟ نیابت عبداﷲؓ ابن اُم مکتوم : آنحضرت ﷺ نے بہ غرض ادائی عمرہ مکہ معظمہ کا ارادہ فرمایااور مدینہ میں حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم کو نائب مقرر فرمایا اور یکم ذیقعدہ ۶ ہجری م مارچ ۶۲۸ ء کو غسل کر کے لباس تبدیل فرمایا اور مکہ کے ارادہ سے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے اور قربانی کے لئے اونٹ ساتھ لئے جو تعداد میں (۷۰) تھے جن میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا جو آپﷺ کو جنگ بدر میں غنیمت میں ملاتھا، آپﷺ کے ہمراہ اُم المومنین اُم سلمہؓ بھی تھیں،یہ بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ آئے ، صرف تلوار جو عرب میں سفر کا ضروری آلہ سمجھی جاتی تھی پاس رکھ لی جائے اور وہ بھی نیام میں بند ہو، (۱۴۰۰) مہاجرین و انصار اس سفر میں ہمرکاب تھے ، مقام ذوالحلیفہ میں پہنچ کرنماز ظہر ادا فرمائی، عمرہ کا احرام باندھا اور قربانی کی ابتدائی رسمیں ادا کی گئیں ، احتیاط کے طور پر قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص بشر اور بسربن سفیان کوجس کے اسلام لانے کا حال قریش کو معلوم نہ تھا قریش کے ارادوں کی خبر لانے کے لئے روانہ فرمایایہ عمرہ کا مہینہ تھااس لئے احرام باندھ کرمکہ آنے والے کو روکنے کا کسی کو حق نہیں تھا ، جب مسلمان قافلہ عسفان پہنچے تو مخبر نے آ کر خبر دی کہ قریش نے تمام قبائل کو یکجا کر کے کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، دارالندوہ میں مشورہ کر کے اپنے حلیفوں سے مدد بھیجنے کے لئے کہدیا ہے چنانچہ احابیش کا سردارحلیس بن علقمہ بازبان اور ثقفی حلیف عروہ بن مسعود مکہ پہنچ گئے ہیں ، قریش اور ان کے حلیفوں کی تعداد آٹھ ہزارہے اورمکہ کی مغربی جانب " یلدح" کے مقام پر پڑاؤڈالا گیا، خالد بن ولید جو اب تک اسلام نہیں لائے تھے، دو سو سوار لے کر جن میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا مقدمتہ الجیش کے طور پر آگے بڑھے اور غمیم تک پہنچ گئے جو رابغ اور حجفہ کے درمیان ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قریش خالد کی سرکردگی میں مقام غمیم تک آگئے ہیں اس لئے کترا کر داہنی طرف سے چلو ، فوج اسلام جب غمیم کے قریب پہنچ گئی تو خالدبن ولید کو گھوڑوں کی گرد اڑتی نظر آئی، وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے گئے اور قریش کو خبر کی کہ مسلمان غمیم تک آگئے ہیں۔