انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصالحت کی کوشش حضرت قعقاع بن عمروؓ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس لئے بصرہ کی طرف روانہ کیا کہ وہ وہاں جاکر حضرت ام المومنین اورحضرت طلحہؓ و زبیرؓ کا عندیہ کریں اورجہاں تک ممکن ہو ان حضرات کو صلح وآتشی کی طرف مائل کرکے بیعت اور تجدید بیعت پر آمادہ کریں، حضرت قعقاع بن عمروؓ بڑےزبان آور،عقلمند اور ذی اثر اورآنحضرت صلی اللہ کی صحبت سے فیض یافتہ تھے،انہوں نے بصرہ میں پہنچ کر مذکورۃ الصدر بزرگوں سے ملا قات کی،حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ آپ کو اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے اورآپ ؓ کی کیا خواہش ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرا مدعا صرف مسلمانوں کی اصلاح اوراُن کو قرآن پر عامل بنانا ہے، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ بھی وہیں موجود تھے،ان سے بھی یہی سوال کیا گیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے دیا تھا،یہ سن کر حضرت قعقاع بن عمروؓ نے کہا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح اورعمل بالقرآن ہے تو یہ مقصد تو اس طرح پورا نہ ہوگا، جس طرح آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان بزرگوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم یں قصاص کا حکم ہے،ہم خونِ عثمان کا قصاص لینا چاہتے ہیں، حضرت قعقاعؓ نے کہا کہ قصاص اس طرح کہا ں لیا جاتا ہے،اول امامت وخلافت کا قیام واستحکام ضروری ہے تاکہ امن وامان قائم ہو، اس کے بعد قاتلین عثمانؓ سے بہ آسانی قصاص لیاجاسکتا ہے،لیکن جب امن وامان اور کوئی نظام ملکی باقی نہ رہے تو ہر شخص کہاں مجاز ہے کہ وہ قصاص لے ،دیکھویہیں بصرہ میں آپ نے بہت سے آدمیوں کو قصاص عثمانؓ میں قتل کردیا؛ لیکن حرقوص بن زہیر آپ کے ہاتھ نہ آیا آپ نے اس کا تعاقب کیا تو چھ ہزار آدمی اُس کی حمایت میں آپ سے لڑنے کو آمادہ ہوگئے اورآ پ نے مصلحتاً اُس کا تعاقب چھوڑدیا،اسی طرح حضرت علیؓ اگر مصلحتاً فتنہ کے دبانے اور طاقت حاصل کرنے کے انتظار میں مجبورانہ طور پر فوراً قصاص نہ لے سکے تو آپ کو انتظار کرنا چاہئے تھا آپ کے لئے یہ کہاں جائز تھا کہ آپ خود کھڑے ہوجائیں اور اس فتنہ کو اور بڑھائیں،اس طرح تو فتنہ ترقی کرے گا،مسلمانوں میں خونریزی ہوگی اورقاتلین عثمانؓ قصاص سے بچے رہیں گے۔یہ باتیں کہہ کر آخر میں قعقاع بن عمروؓ نے نہایت دل سوزی کے ساتھ کہا کہ اے بزرگو! اس وقت سب سے بڑی اصلاح یہی ہے کہ آپس میں صلح کرلو تا کہ مسلمانوں کو امن و عافیت حاصل ہو، آپ حضرات مفاتیح خیر اورانجم ہدایت ہیں،آپ برائے خدا ہم لوگوں کو بلا میں نہ ڈالیں ورنہ یاد رہے کہ آپ بھی ابتلا میں مبتلا ہوجائیں گے اورامتِ مسلمہ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ حضرت قعقاع کی ان باتوں کا حضرت ام المومنینؓ اورحضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ کے دلوں پر بڑا اثر ہوا اورانہوں نے کہا کہ اگر حضرت علیؓ کے یہی خیالات ہیں جو آپ نے بیان کئے اور وہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر لڑائی اور مخالفت کی کوئی بات ہی باقی نہیں رہتی ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ اُن کو قاتلینِ عثمانؓ سے ہمدردی ہے اوراسی لئے قاتلینِ عثمانؓ اُن کے لشکر میں شریک اوراُن کے زیر حمایت سب اہم کاموں میں دخیل ہیں ،قعقاع بن عمروؓ نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے،ان حضرات نے فرمایا کہ پھر ہم کو بھی اُن سے کوئی مخالفت نہ ہوگی، اس گفتگو کے بعد حضرت قعقاعؓ بصرہ سے رخصت ہوکر امیر المومنین حضرت علیؓ کے لشکر کی طرف چلے،ان کے ساتھ ہی بصرہ کے با اثر لوگوں کا ایک وفد بھی ہولیا، یہ لوگ اس لئے گئے کہ حضرت علیؓ اوراہلِ کوفہ کے خیالات معلوم کرکے آئیں کہ وہ حقیقتاً مصالحت پر آمادہ ہیں یا نہیں کیونکہ انہوں نے یہ افواہیں سُنی تھیں کہ حضرت علیؓ کا یہ ارادہ ہے کہ بصرہ کو فتح کرکے جوانوں کو قتل کرادیں گےاوراُن کی عورتوں اوربچوں کو لونڈی غلام بنالیں گے یہ خبریں عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگوں نے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں شریک تھے بصرہ میں مشہور کرادی تھیں۔ جب حضرت قعقاع بن عمروؓ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے تمام کیفیت گوش گذار کی تو حضرت علیؓ بہت ہی خوش ہوئے، پھر اہل بصرہ کے وفد نے کوفہ والوں سے جو حضرت علیؓ کے لشکر میں شریک تھے مل کر ان کی رائے دریافت کی تو سب نے صلح وآشتی کو مناسب اوربہتر بتایا،پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان بصرہ والوں کو اپنی خدمت میں طلب کرکے ہر طرح اطمینان دلایا، یہ لوگ بھی خوش وخرم واپس آئے اورسب کو صلح ومصالحت کے یقینی ہونے کی خوش خبر سُنائی۔