انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اختتام سفر آٹھ روز کے سفر کے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۸ ربیع الاول ۱۴ نبوی کو دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچے،قبا مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے اوروہ مدینہ کا ایک محلہ ہی سمجھا جاتا تھا،وہاں قبیلہ کی عمرو بن عوف کے لوگ بکثرت آباد تھے اور روشنی اسلام سے منور ہوچکے تھے،مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینہ میں پہنچ چکی تھی،اس لئے انصارِ مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دُور سے تشریف لاتے ہوئے نظر آئیں گے،جب دھوپ خوب تیز اورناقابلِ برداشت ہوجاتی تو واپس اپنے گھروں میں آجاتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قبا کے نزدیک دوپہر کے وقت پہنچے،لہذا قبا والے مشتاقین اُسی وقت انتظار کرتے کرتے اپنے گھروں میں واپس گئے تھے۔ ایک یہودی جو روزانہ مسلمانوں کے جم غفیر کو اس طرح بستی سے باہر انتظار کرتے ہوئے دیکھتا اورجانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے آنے والے ہیں جن کا ان لوگوں کو انتظار ہے وہ اتفاقاً اس وقت اپنی گڑھی یا مکان کی چھت پر چڑھا ہوا تھا، اس نے دور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مختصر قافلہ کو آتے ہوئے دیکھ کر گمان کیا کہ یہی وہ قافلہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں؛چنانچہ اس نے زور سے آواز دی کہ یا معشر العرب یا بنی قیلہ ھذا جد کم قدجاء (اے گروہِ عرب،اے دوپہر کو آرام کرنے والو! تمہارا مطلوب یا تمہاری خوش نصیبی کا سامان تو یہ آپہنچا ہے) آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور تمام قبا میں جوش مسرت کا ایک شور مچ گیا،انصار نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے ایک باغ کی طرف سے آرہے ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ خیال فرما کر کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہچاننے میں شبہ نہ ہو کہ رسول اللہ کون سے ہیں،فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آکر اپنی چادر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سایہ کیا جس سے آقا اورخادم کی تمیز بآسانی ہونے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں داخل ہوئے،انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے کے وقت جوشِ مسرت میں یہ پڑھ رہی تھیں۔ طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا مادعاللہ داع ایھا المبعوث نبینا جئت بالامر المتاع ہم پر بدر نے ثنیات الوداع سے طلوع کیا،جب تک کوئی دعا کرنے والا ہے،ہم پر شکر کرنا واجب ہے،اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ اس کی اطاعت ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں دو شنبہ کے روز داخل ہوئے اورجمعہ تک یہیں مقیم رہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کلثومؓ بن ہدم کے مکان میں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ حبیبؓ بن اساف کے مکان میں فروکش ہوئے،سعد بن خثیمہؓ کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس فرماتے ،یعنی سعد بن خثیمہؓ کے مکان میں لوگ آ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد مجتمع رہتے تھے،قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چند ایام کے اندر ایک مسجد کی بنیاد رکھی اوریہ سب سے پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی،اس کے بعد ۱۲ ربیع الاول جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے روانہ ہوکر مدینہ میں داخل ہوئے،ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا ہی میں فروکش تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ سفر مکہ سے مدینہ تک پیدل طے کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک غار ثور میں رہے،حضرت علیؓ مکہ میں مقیم رہ کر امانتیں لوگوں کے سپرد کرتے رہے،عجیب اتفاق ہے کہ جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اُسی روز حضرت علیؓ بھی مکہ سے مدینہ کی طرف چلے،مگر حضرت علیؓ چونکہ تنہا روانہ ہوئے اس لئے آپ رات بھر تو راستہ چلتے اور دن کے وقت کہیں چھپ کر پڑرہتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معروف راستے سے بچ کر تشریف لائے اورآٹھ دن میں قبا پہنچے،حضرت علیؓ معروف راستہ پر آئے،مگر چونکہ پیدل تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین چاردن بعد قبا پہنچے۔