انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دولت سلجوقیہ کی ابتدا دولت سلجوقیہ کا حال خلفاءِ عباسیہ کے سلسلہ میں اس طرح بیان نہ ہوگا جیسا کہ دولت بنوبویہ کا حال اوپر ہوچکا، دولت سلجوقیہ کی تاریخ علیحدہ کسی باب میں لکھی جائے گی، اس وقت یہ بتادینا ضروری ہے کہ دولت سلجوقیہ کی ابتدا کس طرح ہوئی، اس کے بعد خلفاء بنوعباس میں کسی اور خاندان کی حکومت کی تاریخ بیان کرنے کی بھی ضرورت غالباً پیش نہ آئے گی، خاندان سامان اور خاندان سبکتگین غزنوی کوبھی ابھی نہیں چھیڑا گیا۔ ترکوں کی قوم سرحد چین سے خوارزم، شاش، فرغانہ، بخارا، سمرقند، ترمذ تک آباد تھی، مسلمانوں نے ان لوگوں کوشکستیں دے کران کے سرداروں کواپنا باج گزار بنالیا تھا؛ لیکن انہیں کی قو م کے بعض قبائل سرحد چین کے قریب پہاڑوں کے دشوار گزار دروں میں ایسے بھی باقی تھے، جوابھی تک مسلمانوں کی فرماں برداری سے آزاد اور چین وترکستان وغیرہ سے بالکل بے تعلق زندگی بسر کرتے تھے، ان لوگوں نے سنہ۴۰۰ھ کے قریب اپنے دروں سے نکل نکل کرماوراءالنہر کے ان علاقوں پرچھاپے مارنے شروع کیے جوسامانی خاندان کی بربادی کے بعد وہاں کے ترک سرداروں کے قبضہ میں ھتے، ان علاقوں میں اسلام پھیل چکا تھا، سب سے بڑا سردار ایلک خان اس طرف حکمران تھا، لوٹ مار کی چاٹ نے بار بار ان ترکوں کوجوابھی تک اسلام سے ناآشنا زندگی بسر کررہے تھے، ترکستان وماوراءالنہر پرحملہ آور کیا، سنہ۴۱۸ھ تک یہ ترک اپنے پہاڑی دروں سے نکل نکل کرآذربائیجان تک پہنچ گئے تھے اور ملک کی عام بدنظمی اور خلافتِ اسلامیہ کی کمزوری نے ان کودور دور تک پہنچنے اور آباد علاقوں کولوٹنے کا موقع دیا۔ سنہ۴۱۸ھ میں ان لٹیرے ترکوں کا ایک شریف ومعزز قبیلہ جوابھی تک اپنی جگہ سے نہ ہلا تھا، ترکستان کی طرف متوجہ ہوا اور بخارا سے بیس فرسنگ کے فاصلہ پرایک سبزہ زار میں سررہ گزرمقیم ہوا، اس قبیلے کے سردار کا نام سلجوق تھا، یہ لوگ اپنے پیش روترکوں کی نسبت مہذب اور شریف الطبع تھے، ان کے مویشی ان کے ہمراہ تھے، ان کی جمعیت کثیر تھی، ان کے جسم زیادہ مضبوط اور یہ لوگ شریف معزز ہونے کی وجہ سے زیادہ بہادربھی تھے، سلطان محمود غزنوی کے عامل نے طوس سے محمود غزنوی کواس نئے قبیلے کے آنے کی اطلاع دی اور لکھا کہ ان لوگوں کا بخارا کے متصل خیمہ زن ہونا خطرہ سے خالی نہیں ہے، سلطان محمود غزنوی نے اس طرف خود توجہ کی اور وہاں پہنچ کران ترکوں کے پاس پیام بھیجا کہ اپنا ایک نمائدہ ہمارے دربار میں بھیجو، وہاں سے ارسلان بن سلجوق یااسرائیل بن سلجوق دربار محمودی میں حاضر ہوا، محمد غزنوی نے اس کوبطورِ یرغمال اور بطورِ ضمانت امن وامان گرفتار کرکے ہندوستان کے قلعہ میں بھیج دیا، دوتین سال کے بعد محمود غزنوی فوت ہوگیا اور ترکوں کا یہ قبیلہ اپنے سامنے خراسان کے میدانوں کوسہل الحصول دیکھ کرخراسان میں پھیل گیا، جوقبائل ان سے پہلے آآکر خراسان میں مصروف وغارت گری تھے، وہ بھی سب آآکر ان میں شامل ہونے شروع ہوگئے، محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی نے ان کوروکا ٹوکا اور متعدد لڑائیاں ہوئیں؛ مگربالآخر انہوں نے غزنویوں کوخراسان سے بے دخل کرکے خراسان پرقبضہ کرلیا، محمود غزنوی کی اولاد دم بہ دم کمزور ہوتی گئی اور انہوں نے اس قبیلے یعنی سلجوقی سے صلح کرکے خراسان سے دست بردار ہوجانے کوغنیمت سمجھا، بویہ کی اولاد آپس کی خانہ جنگی میں مبتلا تھی؛ نیز اس میں سلجوقیوں کے مقابلہ کی قابلیت وہمت بھی نہ تھی؛ لہٰذا سلجوقیوں نے حیرت انگیز طور پرترقی کے مدارج طے کیے، بغداد میں چونکہ عباسی خلیفہ موجود تھا، اس لیے سلجوقیوں کے دلوں میں اس کا ادب بہت زیادہ تھا۔ سلجوقی قبیلہ اپنی ملک گیری کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے ہی نواح بخارا کے میدانوں میں اسلام کوقبول کرچکا تھا اور شیعوں کے اثر سے متاثر نہ ہوا تھا؛ کیونکہ ماوراءالنہر اور بخارا وغیرہ میں تمام مسلمان سنی مذہب رکھتے تھے اور یہی سلجوقیوں کا مذہب تھا، جولوگ بنوبویہ کے مظالم سے تنگ آچکے تھے؛ انھوں نے بھی سلجوقیوں کواپنے لیے فرشتہ رحمت سمجھا، سلجوقیوں کے سردار طغرل بیگ نے خراسان، آذربائیجان، جزیرہ وغیرہ کواوّل فتح کرکے اپنی طاقت کوبڑھایا، اس کے بعد جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ بغداد کی طرف متوجہ ہوا، اس طرح دیلمیوں کوبے دخل کرکے بغداد میں خود نائب السلطنت کا مرتبہ پایا اور ایک عرصہ دراز تک اس کے خاندان میں حکومت رہی اور اس کے جانشین الپ ارسلان سلجوقی نے دریائے سندھ تک ایک عظیم الشان سلطنت جوہرر طرح نہایت مضبوط وباہیبت تھی، قائم کی؛ بہرحال اب ہم کوخلیفہ قائم بامراللہ کے بقیہ حالات کی طرف ملتف ہونا چاہیے۔ سنہ۴۱۵ھ میں سلطان طغرل کے بھائی چغری بیگ داؤد والیٔ خراسان سے غزنوی سلطان سے صلح کی اور اسی سال ابوالفضل بیہقی نے جوسلطان مسعود غزنوی کا میرمنشی تھا، بہ عہد سلطان ابراہیم غزنوی تاریخ بیہقی تصنیف کی، چغری بیگ داؤد کے انتقال پرسلطان طغرل بیگ نے اپنی بھاوج، والدہ سلیمان سے نکاح کرلیا؛ اسی سال یعنی ذوالحجہ سنہ۴۵۱ھ میں سلطان طغرل بیگ نے بساسیری کوجب کہ وہ کوفہ میں پہنچ کرقتل وغارت میں مصروف تھا، حملہ کرکے گرفتار وقتل کیا اور اس کا سرکاٹ کربغداد بھیج دیا، جہاں وہ قصرِ خلافت کے دروازے پرلٹکایا گیا۔ محرم سنہ۴۵۲ھ میں سلطان طغرل بیگ نے بغداد کے انتظام سے فارغ ہوکر واسط کی طرف کوچ کیا، وہاں کے انتظام سے فارغ ہوکر ربیع الاوّل سنہ۴۵۲ھ میں بلادِ جہل وآدربائیجان کی طرف روانہ ہوا، ۱۵/ربیع الثانی سنہ۴۵۳ھ کوابوالفتح بن احمد اہواز سے بغداد میں آیا اور خلیفہ نے اس کوقلمدانِ وزارت عطا کیا، چند ہی روز بعد ابونصر بن جبیر بن مروان کوفخرالدولہ کا خطاب دے کرعہدہ وزارت دیا گیا اور ابوالفتح معزول ہوکر اہواز چلاگیا۔ سنہ۴۵۳ھ میں سلطان طغرل بیگ نے اپنی بیوی یعنی والدہ سلیمان کے فوت ہونے پرابوسعید قاضی رَے کی معرفت خلیفہ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ اپنی بیٹی سیدہ کا نکاح مجھ سے کردیجئے، خلیفہ نے انکار کیا، اس کے بعد طغرل بیگ نے اپنے وزیرعمیدالملک کندی کوبھیجا، عمید الملک نے جمادی الآخر سنہ۴۵۴ھ تک بغداد میں مقیم رہ کرخلیفہ کوآمادہ کرنے کی ہرطرح کی کوشش کی مگرناکام رہا اور طغرل بیگ کی خدمت میں واپس گیا، طغرل بیگ نے بغداد کے قاضی القضاۃ اور شیخ ابومنصور بن یوسف کے نام عتاب آمیز خطوط روانہ کیے، ان لوگوں نے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوکر خلیفہ کولڑکی کا نکاح کردینے کی ترغیب دی، خلیفہ نے یہ دیکھ کرکہ اب یہ معاملہ طول کھینچے گا؛ اسی کومناسب سمجھا کہ طغرل بیگ کے ساتھ لڑکی کی شادی کردی جائے، علاوہ ازیں خلیفہ کی بیوی ارسلان خاتون بھی جوطغرل بیگ کی بھتیجی تھی، خلیفہ کوآمادہ کررہی تھی؛ بہرحال خَیفہ قائم بامراللہ نے طغغغرل بیگ کی درخواست کومنظور کرلیا اور طغرل بیگ کے وزیرعمید الملک کوشہزادی سیدہ کے نکاح کا وکیل مقرر کیا اور اس کے پاس اطلاع بھیج دی؛ چنانچہ ماہِ شعبان سنہ۴۵۴ھ میں تبریز کے کیمپ میں خلیفہ کی بیٹی اور طغرل بیگ کا نکاح ہوگیا۔ اس نکاح کے بعد طغرل بیگ نے خلیفہ اور خلیفہ کی بیٹی کے لیے مال اور اسباب اور زروجواہر ہدیۃً بھیجے اور اپنی فوت شدہ بیوی کی تمام جاگیریں سیدہ بنت خلیفہ قائم بامراللہ کے نام منتقل کردیں، اس کے بعد محرم سنہ۴۵۵ھ میں سلطان طغرل بیگ آرمینیا سے بغداد کی جانب روانہ ہوا اور شہزادی کی رُخصتی عمل میں آئی، طغرل بیگ ماہِ ربیع الاوّل تک بغداد میں رہا، اس کے بعد بلادِ جبل کی طرف مع اپنی بیوی سیدہ خاتون کے روانہ ہوا، جس وقت رَے میں پہنچا، بیمار ہوگیا اور ۸/رمضان سنہ۴۵۵ھ کوفوت ہوگیا، طغرل بیگ کے کوئی اولاد نہ تھی، سلیمان بن داؤد، چغری بیگ طغرل کا بھتیجا تھا اور ربیب بھی تھا؛ اسی کوعمید الملک نے تخت نشین کیا؛ مگرلوگوں نے اس کی مخالفت کی اور خطبہ میں سلیمان کے بھائی الپ ارسلان بن داؤد چغری بیگ کا نام پڑھا، جوخراسان کا والی اور مرو میں مقیم تھا، الپ ارسلان نے یہ سن کرمرو سے رَے پرچڑھائی کی، عمیدالملک نے حاضر ہوکر اظہارِ اطاعت کے بعد بیعت کی؛ مگرالپ ارسلان، عمید الملک کی طرف سے اندیشہ مند ہی رہا، آخر اس نے سنہ۴۵۶ھ میں عمیدالملک کوقید کردیا اور اپنے وزیرنظام الملک طوسی کووزیراعظم بنایا، رَے میں داخل ہوکر الپ ارسلان نے سیدہ بنتِ خلیفہ کوبری احتیاط اور تکریم کے ساتھ بغداد کی جانب روانہ کیا، بغداد میں سلطان الپ ارسلان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ نظام الملک طوسی، سلطان الپ ارسلان کی طرف سے ۷/جمادی الاوّل سنہ۴۵۶ھ کوبغداد میں خلیفہ کی بیعت کے لیے حاضر ہوا، خلیفہ نے دربارِ عام منعقد کیا، نظام الملک کوکرسی پربٹھایا اور ضیاء الدولہ کا خطاب دیا اور سلطان الپ ارسلان کو الوالدالموید کا خطاب عطا ہوا، سنہ۴۶۰ھ میں خلیفہ نے فخرالدولہ بن جبیر کووزارت سے معزول کیا؛ مگرماہِ صفرسنہ۴۶۱ھ میں دوبارہ قلمدانِ وزارت عطا ہوا، سنہ۴۶۲ھ میں محمد بن ابی ہاشم والیٔ مکہ نے عبیدی مصری کا نام خطبہ سے نکال کرخلیفہ قائم بامراللہ اور سلطان الپ ارسلان کا نام خطبہ میں داخل کیا اور اذان سے حَیَّ عَلَی خَیْرُالْعَمَلْ کوخارج کیا اور اپنے بیٹے کوبہ طور وفد سلطان الپ ارسلان کی خدمت میں روانہ کیا، سلطان نے خوش ہوکر خلعت عطا کیا، تیس ہزار دینار بطورِ انعام دیے اور دس ہزار سالانہ تنخواہ مقرر کی۔ سنہ۴۶۳ھ میں حلب کے اندر بھی خلیفہ قائم بامراللہ اور سلطان الپ ارسلان کا خطبہ پڑھا گیا، سنہ۴۶۲ھ میں قیصر روم ارمانوس نے دولاکھ فوج سے صوبہ خلاط پرحملہ کیا، قیصر ارمانوس کے ہمراہ فرانس اور روس کے بادشاہ بھی تھے، سلطان الپ ارسلان نے صرف پندرہ ہزار فوج سے اس دولاکھ کے لشکر عظیم کوشکست دی، روس کے بادشاہ کوگرفتار کرکے اس کے کان اور ناک کاٹ لیے، ارمانوس کوگرفتار کرکے اور اطاعت وفرماں برداری کا اقرار لے کرچھوڑ دیا، رومیوں کوایسی عظیم الشان شکست دینے کے بعد سلطان الپ ارسلان نے سنہ۴۶۵ھ میں ماوراءالنہر کا قصد کیا، دریائے جیحون کا پل باندھا گیا، بیس دن میں سلطانی لشکر نے اس پل کے ذریعہ سے دریا کوعبور کیا، ایک قلعہ دار یوسف خوارزمی مجرمانہ حیثیت سے سلطان کے دربار میں پیش کیا گیا، سلطان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو، میں اس کوتیر کا نشانہ بناؤں گا؛ اتفاقاً تیر خطا ہوگیا، یوسف نے دوڑ کرسلطان کوخنجر مارا، سلطان زخمی ہوا، حاضرینِ دربار نے یوسف کومارڈالا؛ مگرسلطان اس زخم کے صدمہ سے ۱۰/ربیع الاوّل سنہ۴۶۵ھ کوفوت ہوگیا، اس کی لاش مرو میں لاکردفن کی گئی، اس کا بیٹا ملک شاہ باپ کی جگہ تخت نشین ہوا، خلیفہ قائم بامراللہ نے ملک شاہ کے پاس عہد نامہ اور لوائے سلطنت بھیج دیا۔ ۱۵/شعبان سنہ۴۶۷ھ کوخلیفہ قائم بامراللہ نے فصد کھلوائی، اس کے بعد سوگیا، اتفاقاً رگ نشتر زدہ سے پھرخون جاری ہوگیا اور اس قدر خون جسم سے خارج ہوگیا کہ اُمید زیست منقطع ہوگئی؛ اسی وقت اراکینِ سلطنت بولائے گئے اور خلیفہ قائم بامراللہ کے پوتے ابوالقاسم عبداللہ بن ذخیرۃ الدین محمد بن قائم بامراللہ کی ولی عہدی کی بیعت لی گئی، دوسرے دن خلیفہ کا انتقال ہوا، قائم بامراللہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ذخیرۃ الدین محمد تھا، وہ باپ کے سامنے ہی فوت ہوگیا تھا، اس کی وفات کے چھ ماہ بعد اس کا بیٹا ابوالقاسم عبداللہ پیدا ہوا تھا، ابوالقاسم نے تختِ خلافت پرجلوس کیا اور مقتدی بامراللہ کا لقب اختیار کیا، خلیفہ قائم بامراللہ نے ۴۵/سال خلافت کی۔ہ