انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۱)قرآنی ہدایت میں قرآن کریم نے ہدایت فرمائی کہ مسلمانوں کو ہر وہ بات قبول کرنی چاہیے،جوحضوراکرمﷺ سے ملے اورہراس بات سے مجتنب رہنا چاہیے جس سے حضور اکرمﷺ نے روکا ہو۔ارشاد ہوتا ہے: "مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔ (الحشر:۷) ترجمہ: جو کچھ تمہیں یہ رسول دیں اسے لے لو اور جس بات سے بھی وہ تمہیں روکیں رک جاؤ۔ " لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ"۔ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہ میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ یہ اس کے لیے جو اللہ سے ملنے اورآخرت کا یقین رکھتا ہو۔ ان آیات کی روشنی میں صحابہ کرامؓ کو پوری فکر رہی کہ حضور اکرمﷺ کا کوئی امر آپ کی کوئی نہی اور آپ کا کوئی اسوہ ان سے اوجھل نہ رہنے پائے قرآن پاک کی اس ہدایت سے حفاظت حدیث کی عملی فکر پیدا ہوئی اوراس کے ساتھ ایک اور ہدایت اتری جس نے امت کے لیے تحقیق و تبیین کی را ہیں کھول دیں،ارشاد ہوا: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا"۔ (الحجرات:۶) ترجمہ: اے ایمان والو!اگر تمہارے پاس کوئی غلط کار شخص کوئی خبر لے کر آئے تو اسے اچھی طرح معلوم کرلیا کرو۔ اس میں بتایا گیا کہ ہر کس و ناکس کی روایت قابل قبول نہیں، فاسق کوئی بات کرے تو اسے مزید تحقیق کے بغیر بلا تبیین قبول نہ کرلیا کرو، اسے بلا تحقیق ہر گز نہ لینا چاہیے؛ یہاں یہ بھی نہیں فرمایا کہ اسے رد کردیا کرو، کسی راوی کے کمزور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کلیۃ رد ہی کردیا جائے؛ بلکہ دوسرے ذرائع اورقرائن سے اس کی مزید تحقیق لازم ہوگی اور بسا اوقات ایسا بھی ہوگا کہ ان دوسرے شواہد سے اس کمزورراوی کی روایت بھی قابل قبول ٹھہرے، ہاں اسے بلا تحقیق قبول کرلینا ہرگز درست نہیں، یہ اگر چہ ایک دوسرے واقعہ میں نازل ہوئی تھی؛ لیکن الفاظ کا عموم اسے ایک اصول ہدایت کے طور پر پیش کرتا ہے اور حق یہ ہے کہ یہی قرآنی ہدایات آگے حفاظت حدیث کا عملی سبب بنیں۔