انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عبادات (ابوابُ الطہارۃ) پنجوقتہ نیا وضو کرنا ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا بڑی پاکی اوربڑے ثواب کا کام ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اول اول رسول اللہ ﷺ پر پنجوقتہ نماز کے ساتھ پنج وقتہ وضو بھی فرض کردیا تھا،بعد کو اگرچہ اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی؛لیکن بعض صحابہ عملاًاس کے پابند رہے،چنانچہ؛ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہرنماز نئے وضو کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب السواک،حدیث نمبر:۴۴) ہمیشہ با وضو رہنا بعض صحابہ ہمیشہ باوضو رہتے تھے،حضرت عدی بن حاتم کا قول ہے: ما أقيمت الصلاة منذ أسلمت إلا وأنا على وضوء۔ (اصابہ ،تذکرہ حضرت عدی بن حاتمؓ،۲/۲۴۲) جب سے میں اسلام لایا ہر نماز کے وقت باوضو رہتا تھا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ کل تم مجھے سے پہلے کیونکر جنت میں داخل ہوگئے؟ بولے :یا رسول اللہ! میرا معمول یہ ہے کہ جب اذان کہتاہوں تو دورکعت نماز لازمی طورپر پڑھ لیتا ہوں اورجس وقت وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی وقت فوراًوضو کرلیتا ہوں۔ (مستدرک حاکم،ذکر بلالؓ،حدیث نمبر:۵۲۴۶،شاملہ،موقع جامع الحدیث، صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه) پنج وقتہ مسواک کرنا رسول اللہ ﷺ کمال طہارت ونظافت کی وجہ سے پنجوقتہ مسواک کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ اگر اُمت پر شاق نہ ہوتا تو میں پنجوقتہ نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا بھی حکم دیتا؛ لیکن صحابہ کرام ؓ کے جوش عمل کے سامنے کون ساکام شاق تھا، حضرت زید بن ارقم ؓ نے اس شدت کے ساتھ اس کا التزام کیا کہ ہمیشہ قلم کی طرح کان پر مسواک رکھے رہتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارت، باب السواک،حدیث نمبر:۴۳) (ابواب الصلوٰۃ) نماز پنج گانہ صحابہ کرام جس مستعدی وسرگرمی کے ساتھ نماز پنج گانہ ادا فرماتے تھے،اس کے متعلق احادیث میں نہایت کثرت سے واقعات مذکور ہیں، بخاری میں ہے کہ جب جماعت کھڑی ہوتی تھی تو تمام صحابہؓ اس تیزی کے ساتھ دوڑتے تھے کہ شور ہوجاتا تھا۔ (پھر اللہ کے نبی نے اس طرح دوڑنے سے منع فرمادیاتھا) (بخاری، کتاب الاذان، بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ فَاتَتْنَا الصَّلَاةُ ،حدیث نمبر:۵۹۹) ۔ سخت سے سخت مصروفیت کی حالت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تھا تو تمام کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔ حضرت سفیان ثوریؒ سے روایت ہے: کانوا یتبا یعون ولا یدعون الصلوٰت المکتوبات فی الجماعۃ صحابہ بیع وشراکرتے تھے، نماز مفروضہ کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ، ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا تھا،تمام صحابہ دوکانیں بند کرکے مسجد میں چلے گئے ؛چنانچہ قرآن مجید کی یہ آیت: رجال لا تلھیھم تجارۃ ولابیع عن ذکراللہ صحابہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت کے کاروبار خدا کی یاد سے نہیں روکتے،ان لوگوں کی شان میں نازل ہوئی۔ (فتح الباری، بَاب التِّجَارَةِ فِي الْبَزِّ،۶/۳۶۳،شاملہ،موقع الاسلام) سخت سے سخت تکلیف میں بھی صحابہ کرام کی نمازقضا نہیں ہوسکتی تھی، جس دن حضرت عمرؓ کو زخم لگا اسی رات کی صبح کو لوگوں نے نماز فجر کیلئے جگایا تو بولے، ہاں جو شخص نماز چھوڑدے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں؛ چنانچہ اسی حالت میں کہ زخم سے متصل خون جاری تھا نماز پڑھی۔ (موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ، باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح أو رعاف ،حدیث نمبر:۷۴) اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے نماز قضا ہوجاتی تو صحابہ کرام کو سخت برہمی پیدا ہوتی،غزوۂ خندق میں حضرت عمرؓکی عصر قضا ہوگئی تو کفار کو برابھلا کہتے ہوئے آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! سورج غروب ہورہا ہے اور میں نے اب تک نماز عصر نہیں پڑھی۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ ، بَاب الصَّلَاةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الْحُصُونِ وَلِقَاءِ الْعَدُوِّ،حدیث نمبر:۸۹۳) نماز جمعہ صحابہ کرامؓ نمازجمعہ کو نہایت اہم سمجھتے تھے اوراس اہمیت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے تھے، اسلام کی تاریخ میں اسعد بن زرارہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مدینہ میں جمعہ کو قائم کیا تھا، اُن کے انتقال کے بعد جب جمعہ کی اذان ہوتی تھی تو حضرت کعب بن مالکؓ ان پر رحمت کی دعاکرتے تھے، ان کے بیٹےنے ایک روز اس کی وجہ پوچھی تو بولے کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہم کو جمعہ کے لئے جمع کیا اس وقت ہماری تعداد صرف چالیس تھی۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوۃ، بَاب الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى،حدیث نمبر:۹۰۳)۔ ایک صحابیہ تھیں جو اپنے کھیتوں میں چقندر بویا کرتی تھیں، جب جمعہ کا دن آتا تھا تو اس کو پکاتی تھیں اور جمعہ کے بعد تمام صحابہؓ کو کھلاتی تھیں۔ (بخاری کتاب الجمعہ باب فی قول اللہ عزوجل "فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض وابتغوامن فضل اللہ،حدیث نمبر:۸۸۶) تمام صحابہؓ غسل جمعہ کانہایت اہتمام کرتے تھے، حضرت ابوہریرہؓ کا قول ہے کہ غسل جنابت کی طرح غسل جمعہ بھی فرض ہے۔ (موطا امام محمد، باب الاغتسال یوم الجمعہ،حدیث نمبر:۶۰،شاملہ،الناشر:دارلقلم،دمشق) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بغیر غسل کیے ہوئےاوربغیر خوشبولگائے ہوئے کبھی شریک جمعہ نہیں ہوتے تھے۔ (موطا امام محمد،باب وقت الجمعہ ومایستحب من الطیب والد ہان للرجل،حدیث نمبر:۲۲۴) ایک بار حضرت عمرؓ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی حالت میں حضرت عثمانؓ آگئے بولے "بھلا یہ کون سا وقت ہے؟ فرمایا بازار سے پلٹا تو اذان سنی اورصرف وضو کرکے چلا آیا، فرمایا یہ بھی قابل اعتراض بات ہےکہ صرف وضو کیا؛ حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺغسل کا حکم دیتے تھے۔ (موطا امام محمد، باب الاغتسال یوم الجمعہ،حدیث نمبر:۶۲،شاملہ،الناشر:دارلقلم،دمشق) اگرچہ صحابہ کرامؓ عموماً پا بندی اوقات نماز کا لحاظ رکھتے تھے؛لیکن جمعہ کے دن خاص طور پر یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ مسجد کی مغربی دیوار پر ایک چادر تان دی جاتی تھی، اورجب دیوار کا سایہ اس کو پورے طورپر ڈھک لیتا تھا، تو حضرت عمرؓ فوراًنماز کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ (موطا امام محمد، باب وقت الجمعہ ومایستحب من الطیب والدہان،حدیث نمبر:۲۲۳) نوافل، اشراق اورصلوۃ ِکسوف صحابہ کرام جس شوق ومستعدی کے ساتھ نماز مفروضہ ادا فرماتے تھے، اسی طرح نوافل، اشراق، اورصلوٰۃ کسوف وغیرہ بھی پڑھتے تھے،بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے: لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ (بخاری ،بَاب الصَّلَاةِ إِلَى الْأُسْطُوَانَةِ،حدیث نمبر:۴۷۳) میں نے کبار صحابہ کو دیکھا کہ مغرب کے وقت مسجد کے ستونوں کی طرف نماز کے لیے دوڑتے تھے۔ اورشراح حدیث نے تصریح کی ہے کہ یہ نفل نماز ہوتی تھی جس کو مغرب کی نماز شروع ہونے سے پہلے صحابہ کرام ادا فرماتے تھے خود اس حدیث میں ہے: حتی یخر ج النبی ﷺ یعنی صحابہؓ نفل اس وقت تک پڑھتے تھے جب تک رسول اللہ ﷺ امامت کے لیے نکل نہ آئیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اورحضرت انس بن مالکؓ سفر میں ہوتے تھے تو سواری کے اوپر ہی بیٹھے بیٹھے نفل کی نمازیں پڑھ لیتے تھے اوراس کو رسول اللہ ﷺ کی سنت سمجھتے تھے ۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ، بَاب جَوَازِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي السَّفَرِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ،حدیث نمبر:۱۱۳۴،۱۱۳۸) نماز اشراق اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے بہت کم پڑھی ہے؛لیکن بہت سے صحابہ نے اس کا التزام کرلیاتھا، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اگرچہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ؛لیکن میں خود پڑھتی ہوں،کیونکہ آپ بہت سی چیزوں کو پسند فرماتے تھے لیکن اس پر اس لیے عمل نہیں کرتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے۔ (مسلم، باب استحباب صلوۃ الضحی،حدیث نمبر:۱۱۷۴) حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت ابوالدردا ؓ کو آپ نے نماز اشراق کی وصیت فرمائی تھی اس لیے یہ دونوں بزرگ اس کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (مسلم، باب استحباب صلوۃ الضحی،حدیث نمبر:۱۱۸۲،۱۱۸۳) چانداورسورج میں جب گہن لگتا تھا تو تمام صحابہ صلوٰۃ الکسوف ادا فرماتے تھے ایک بار مدینہ میں گہن لگا تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے دو رکعت نماز پڑھی ۔ (بخاری،باب خطبۃ الامام فی الکسوف،حدیث نمبر:۹۸۸) ایک بار اورگہن لگا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے صفہ زمزم میں لوگوں کو جمع کیا اورباجماعت نماز ادافرمائی۔ (بخاری، بَاب صَلَاةِ الْكُسُوفِ جَمَاعَةً وَصَلَّى ابْنُ عَبَّاسٍ لَهُمْ فِي صُفَّةِ زَمْزَمَ وَجَمَعَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ) تہجد ونماز شب رات جس میں ہم نیند کا لطف اٹھاتے ہیں، اس میں صحابہ کرامؓ عبادت الہی اورتہجد گزاری میں مصروف رہتے تھے،ایک صحابی نے رات کو نماز میں نہایت بلند آہنگی سے قرأت کی صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، خدا اس پر رحم کرے مجھے بہت سی آیتیں یاددلادیں جس کو میں بھول گیا تھا۔ (ابوداؤد، بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ،حدیث نمبر:۱۱۳۴) ایک بار آپ مسجد میں معتکف تھے، اورصحابہ کرامؓ بھی مصروف نماز تھے اوراس قدر بلند آہنگی کے ساتھ قرأت کرتے تھے کہ آپ نے پردہ اٹھا کر فرمایا تم میں ہر شخص خدا کے ساتھ سرگوشی کررہا ہے، اتنا نہ چلاؤ کہ ایک سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔ (ابوداؤد، بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ،حدیث نمبر:۱۱۳۵) حضرت ابوالدرداءؓ رات کے اکثر حصے میں نماز پڑھا کرتے تھے،چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ نے ان کی بی بی کی شکایت پر اس سے ان کو باصرار روکا۔ (بخاری کتاب الصوم، بَاب مَنْ أَقْسَمَ عَلَى أَخِيهِ لِيُفْطِرَ فِي التَّطَوُّعِ،حدیث نمبر:۱۸۳۲) صحابہ کرامؓ راتوں کو نہ صرف خود نمازیں پڑھتے تھے، بلکہ غیروں بالخصوص اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار کرکے شریک نماز کرتے تھے، ایک روز آپﷺ رات کو گھر سے نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ پست آواز کے ساتھ نماز میں قرأت کررہے ہیں، آگے بڑھے تو حضرت عمرؓ نہایت بلند آہنگی کے ساتھ نماز میں قرأت کرتے ہوئے نظر آئے، دونوں بزرگ آپﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ نماز میں تمہاری آواز پست تھی بولے کہ میں جس سے (خداسے) سرگوشی کررہا تھا، اس کے کان میں میری آواز پہنچ گئی، حضرت عمرؓ سے ارشاد ہوا کہ تمہاری آواز نہایت بلند تھی، بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں سونے والوں کو جگا تا اور شیطان کو دھتکار تا ہوں۔ (ابوداؤد، بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ،حدیث نمبر:۱۱۳۳) موطاامام مالک میں ہے کہ حضرت عمرؓ رات کو نماز پڑھتے تھے تو اخیر شب میں اپنے اہل وعیال کو بھی نماز کے لیے جگاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے تھے: "وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى" (طہ:۱۳۲) اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دواور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو،ہم تم سے رزق نہیں چاہتے،رزق تو ہم دیں گےاور بہتر انجام تقوی ہی کا ہے۔ (موطا مالک، باب ما جاء في صلاة الليل ،حدیث نمبر:۲۴۱ ) حضرت ابوہریرہؓ اوران کی بی بی اورخادم نے نماز کے لیے رات کے تین حصے کرلیے تھے اوران میں جب ایک نماز سے فارغ ہوچکتا تھا تو دوسرے کو نماز کے لیے جگادیتا تھا۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ، باب) یہ ذوق نماز صرف چند صحابہ کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ عموماً تمام صحابہ میں پایا جاتا تھا، حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ مغرب سے عشا تک نمازیں پڑھتے تھے،چنانچہ خدا وند تعالی خود فرماتا ہے: كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (الذاریات:۱۷) (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ ،باب وقت قیام النبی ﷺ من اللیل،حدیث نمبر:۱۱۲۷) یہ لوگ عبادت میں مشغول رہنے کے سبب سے راتوں کو بہت ہی کم سوتے تھے۔ اس میں صحابہ کرام ؓ کو سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی تھیں اول اول سورۂ مزمل کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو صحابہ کرام تراویح کی طرح راتوں کو نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ پاؤں پھول جاتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ ،باب نسخ قیام اللیل،حدیث نمبر:۱۱۱۰) قرآن مجید نے صحابہ کرامؓ کی فضیلت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: "تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ" (السجدۃ:۱۶) ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں وہ لوگ خوف ورجا سے خدا کو پکارتے ہیں اورجو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے صرف کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہجد اورنوافل میں شرکت رسول اللہ ﷺ رات کی نمازوں میں لمبی لمبی سورتیں مثلاً سورہ بقرہ، آل عمران ،مائدہ، اورانعام پڑھتے تھے، اورجس قدر وقت قیام میں صرف ہوتا تھا، اتنا ہی وقت رکوع وسجود میں بھی صرف فرماتے تھے اس لیے اس قدر طویل اورپرسکون نماز میں وہی شخص شریک ہوسکتا تھا جس کا دل شوق عبادت اورشوق اقتدائے رسول ﷺ سے لبریز ہو، صحابہ کرامؓ اسی قسم کا شوق عبادت اور شوق اقتدائے رسول رکھتے تھے، اس لیے آپ کے ساتھ شریک نماز ہوکر اس دولت سے بہرہ اندوز ہوتے تھے،چنانچہ حضرت عوف بن مالکؓ ایک بار آپ کے ساتھ تہجد میں شریک ہوئے آپ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ اوردوسری میں آل عمران پڑھی اوروہ ذوق عبادت میں کھڑے رہے۔ ایک بار حضرت حذیفہ ؓ کو بھی یہ شرف حاصل ہوا۔ (ابوداؤ، کتاب الصلوٰۃ ، بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ ،حدیث نمبر:۷۳۹)حضرت حذیفہ کے بارے میں انہ رأی آیا ہے آپ نماز شب میں بقرہ ،آل عمران اورنساء کی سورتیں پوری پوری پڑھتے،اگر کوئی خوف کی آیت آجاتی تو خدا سے دعا کرتے اور اس سے پناہ مانگتے اسی طرح اگر کوئی بشارت آمیز آیت آتی تو دعا کرتے اوراس کی خواہش فرماتے،حضرت عائشہؓ بھی آپ کے ساتھ اس نماز میں شریک رہتیں۔ (مسند ابن حنبل جلد ۶:۹۲) یہ شوق صرف چند صحابہؓ کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ عموما تمام صحابہ میں پایا جاتا تھا۔ ایک بار چند صحابہؓ نے آپ کو شب میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اورشریک ہوگئے صبح کو اور لوگوں سے ذکر کیا تو وہ بھی شریک ہوئے اور متصل دو تین شب برابر شریک ہوتے رہے، آپ نے یہ حالت دیکھی تو ایک شب گھر سے نہ نکلے ؛لیکن صحابہ کرامؓ نے مختلف طریقوں سے اپنے شوق کا اظہار کیا کھانسے ،کنکارے،چلائے، اوردروازے پر کنکریاں ماریں، آپ اندر سے غصہ میں نکلے اورفرمایا کہ تمہاری ان حرکتوں سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے۔ (بخاری ،کتاب الصلوٰۃ ،باب اذکان بین الامام وبین القوم حائط اوسترۃ،حدیث نمبر:۶۸۷) (ابوداؤد، باب فی فضل التطوع فی البیت،حدیث نمبر:۱۲۳۵) آپ ﷺ شب میں چٹائی کو گھیر کر حجرے کی صورت پیدا کرلیتے تھے اوراس میں نماز ادا فرماتے تھے صحابہ کرامؓ کو خبر ہوئی تو وہ بھی شریک نماز ہونے لگے، لیکن آپ نے ان کو اس سے روک دیا۔ (بخاری ،کتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ اللیل،حدیث نمبر:۶۸۹) یہ شوق اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کا دل بھی اس سے خالی نہ تھا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ عہدِ نبوت میں نہایت صغیر السن تھے لیکن اس شوق میں ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہؓ کے پاس سوئے ،آدھی رات ہوئی تو آپ ﷺ نے اٹھ کر پہلے آل عمران کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں، پھر وضو کرکے نماز شروع کی،حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی ان اعمال کی تقلید کی اورآپ کے پہلو میں کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ (بخاری،بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ،حدیث نمبر:۹۳۷) قیام رمضان صبح سے شام تک کی بھوک پیاس کے بعد ہم لوگ بمشکل تراویح پڑھنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، لیکن صحابہ کرامؓ اس کے بھوکے تھے ،اس لیے ان کو کبھی اس سے سیری نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے تراویح ادا فرمائی تو چند صحابہ ؓ شریک ہوئے دوسرے روز اس تعداد میں اوراضافہ ہوا، لیکن تیسرے روز اس مقصد سے جمع ہوئے تو آپ گھر سے نہ نکلے اورفرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ وہ تم پر کہیں فرض نہ ہوجائے۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ، باب فی قیام شہر رمضان،حدیث نمبر:۱۱۶۶) آپ نے ایک بار اخیر رمضان میں تراویح شروع کی اورپہلے دن ثلث شب تک پڑھی، دوسرے دن ناغہ فرمادیا، تیسرے دن آدھی رات تک پڑھی، لیکن ابوذر غفاریؓ کو اس سے تسکین نہیں ہوئی اورآپ کی خدمت میں گذارش کی کہ کاش آپ اس کو رات بھر ادا فرماتے ۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ، باب فی قیام شہر رمضان،حدیث نمبر:۱۱۶۷) حضرت انیس جہنیؓ صحرا میں رہتے تھے اس لیے متصل مسجد نبوی میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے؛ لیکن رسول اللہ ﷺ کے حکم سے رمضان کی تئیسویں(۲۳) شب کو صحرا سے آکر نماز عصر پڑھ کر مسجد میں داخل ہوتے صبح تک مصروف نماز رہتے اورنماز فجر ادا کرکے صحرا کو روانہ ہوجاتے۔ (ابوداؤد،باب فی لیلۃ القدر،حدیث نمبر:۱۱۷۲) صحابہ کرامؓ کو تراویح کے ادا کرنے میں سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، لیکن ان کے شوق میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی، حضرت عمرؓ نے جب تراویح کو باجماعت کردیا، تو امام ایک ایک رکعت میں سو سو آیتیں پڑھتا تھا، اس لیے صحابہ کرام کھڑے کھڑے اس قدر تھک جاتے تھے کہ لکڑی کے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی، اورسحر کے وقت فارغ ہوکر واپس آتے تھے۔ (موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ ،باب ماجاء فی قیام رمضان ،حدیث نمبر:۲۳۲) پابندی اوقات نماز نماز اکثر مسلمان پڑھتے ہیں؛لیکن ان میں کتنے ہیں جو اوقات نماز کی ٹھیک طورپر پابندی کرتے ہیں؛لیکن سخت سے سخت خطرہ اور مستعدی کی حالت میں بھی صحابہ کرامؓ کی نماز کا وقت فوت نہیں ہوسکتا تھا،ایک صحابی کو رسول اللہ ﷺ نے ایک پر خطر کام کے لیے ایک جگہ روانہ فرمایا جب وہ منزل مقصود کے قریب پہنچے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا، انہوں نے دل میں کہا کہ ایسا نہ ہوکہ کہیں نماز میں دیر ہوجائے ،اس لیے منزل مقصود کی طرف بڑھے اشاروں ہی میں نماز پڑھتے ہوئے بڑھے۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ الطالب،حدیث نمبر:۱۵۸) غزوۂ احزاب سے واپسی کے بعد آپ نے صحابہ کو بنو قریظہ کی طرف بھیجا اورحکم دیا کہ عصر کی نماز جاکر وہیں پڑھیں؛ لیکن راستے میں عصر کا وقت آگیا تو بہت سے صحابہؓ نے فورا نماز پڑھائی۔ (بخاری،بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً،حدیث نمبر:۸۹۴) ایک دن ظہر کے بعد کچھ لوگ حضرت انس بن مالکؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اٹھ کرعصرکی نماز پڑھنے لگے،تو ان لوگوں نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی، بولے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ منافقین کی نماز ہے، منافقین کی نماز ہے،منافقین کی نماز ہے کہ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اورجب سورج زرد ہونے لگتا ہے تو چاررکعت پڑھ لیتے اور خداکو اس میں بہت کم یاد کرتے ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب وقت صلوٰۃ العصر،حدیث نمبر:۳۵۰) حضرت عبداللہ بن عمرؓ مکہ میں حجاج کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے؛ لیکن جب اس نے تاخیر کرنا شروع کی، تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا چھوڑدیا اورمکہ سے نکل گئے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) پابندی جماعت صحابہ کرامؓ نماز باجماعت کونہ صرف ذریعہ ازدیاد ثواب خیال کرتے تھے؛ بلکہ اس کو اسلام ونفاق اورایمان وکفر کے درمیان حدِ فاصل سمجھتے تھے، حضرت معاذؓ اپنی قوم کے امام تھے، لیکن ان کا معمول یہ تھاکہ پہلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرلیتے تھے،پھر اپنی مسجد میں جاکر نماز پڑھا تے تھے؛لیکن ایک روز دیر میں واپس آئے اورنماز میں سورۂ بقرۃ کی تلاوت شروع کی، ایک کاروباری آدمی تھک کر جماعت سے علیحدہ ہوگیا اورالگ نماز پڑھ لی ،توایک صحابی نے فوراً کہا کہ تم منافق ہوگئے۔ (ابوداؤ،کتاب الصلوٰۃ،بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ لِلْأَمْرِ يَحْدُثُ،حدیث نمبر:۶۷۱) ایک صحابی کہتے ہیں کہ نماز باجماعت سے صرف مشہور منافق ہی الگ رہتا تھا، ورنہ بعض لوگوں کی حالت یہ تھی کہ دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں آکر شریک جماعت ہوتے تھے۔ (نسائی، کتاب الامامۃ والجماعۃ، باب المحافظہ علی الصلوٰۃ حیث ینادی بہن،حدیث نمبر:۸۴۰) اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے عام حکم دے دیا تھا کہ بارش اوراندھیری میں لوگ اپنے اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھ لیا کریں، لیکن صحابہ کرامؓ کو آپﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ ایک دن پانی برس رہا تھا اورسخت اندھیری چھائی ہوئی تھی کہ اس حالت میں چند صحابہؓ اس غرض سے نکلے کہ چل کے آپ ﷺکے ساتھ نماز ادا کریں۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب مایقول اذا اصبح،حدیث نمبر:) ایک صحابی کا گھر مدینہ کے انتہائی کنارے پرتھا، لیکن ہروقت کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے تھے،ایک صحابی کو ان کی حالت پر رحم آگیا اورکہنے لگے کہ کاش تم ایک گدھا خرید لیتے جو زمین کی تمازت ٹھوکر اورسانپ بچھو سے تم کو محفوظ رکھتا، بولے میں رسول اللہ ﷺ کے گھر کے قریب رہنا نہیں چاہتا،کیونکہ مجھ کو اپنے ہر نقش قدم کے ثواب کی توقع ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ ،باب الابعد فالابعد من المسجد اعظم اجرا،حدیث نمبر:۷۷۵) مدینہ میں قبیلہ بنو سلمہ کا محلہ مسجد سے بہت دور تھا؛لیکن وہ لوگ نماز باجماعت کو اس قدر ضروری سمجھتے تھے کہ اپنا محلہ چھوڑ کر مسجد نبوی ﷺ کے آس پاس آباد ہوجانا چاہا، لیکن چونکہ اس سے ایک محلہ ویران ہواجاتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کو ہر اس قدم کا ثواب ملے گا جو مسجد کی جانب اٹھے تھا۔ (ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ ،باب الابعد فالابعد من المسجد اعظم اجرا،حدیث نمبر:۷۷۶) جماعت کے انتظار میں صحابہ کرام سخت تکلیفیں برداشت کرتے تھے، لیکن اس کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آتا تھا، ایک رات رسول اللہ ﷺ کو کوئی کام پیش آگیا، اس لیے عشا کی نماز میں بہت تاخیر ہوگئی، یہاں تک کہ صحابہ کرام ؓ سوگئے ؛لیکن نماز کا روحانی خواب کیوں کربھلایا جاسکتا تھا،پھر جاگے پھر سوئے پھر اٹھے پھر نیند آگئی، آپ کاشانہ ٔنبوت سے برآمد ہوئے تو ارشاد فرمایا: کہ آج دنیا میں تمہارے سوا کوئی دوسرا نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب الوضوءمن النوم،حدیث نمبر:۱۷۱) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ عشا ءکا انتظار اتنی دیر تک کرتے تھے کہ نیند کے مارے ان کی گردنیں جُھک جُھک جاتی تھیں۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ ،باب الوضوءمن النوم،حدیث نمبر:۱۷۱) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک شب نماز عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کررہے تھے، ایک تہائی رات گذر گئی تو آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر امت پر شاق نہ گزرتا تو میں اسی وقت نماز عشا ادا کرتا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی وقت العشاء الآخرۃ،حدیث نمبر:۳۵۶) ایک دن نماز عشا کے وقت رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں اس قدر دیر ہوئی کہ بعض صحابہ نے خیال کیا کہ آپ نماز ادا کرچکے اوراب گھر سے نہ نکلیں گے ،آپ تشریف لائے اورلوگوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھو،تم کو تمام امتوں پر اسی کی وجہ سے فضیلت ہے تمہارے پہلے کسی امت نے اس نماز کو ادا نہیں کیا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی وقت العشاء الآخرۃ،حدیث نمبر:۳۵۷) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم نے نماز عشاء کے لیے آدھی رات تک آپ کا انتظار کیا، آپ گھر سے نکلے تو فرمایا کہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ، ہم لوگ بیٹھ گئے تو ارشاد ہوا کہ اورلوگ تو نماز پڑھ کر سو گئے؛لیکن تمہارے انتظار کی گھڑیاں بھی نماز میں داخل تھیں۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب فی وقت العشاء الآخرۃ،حدیث نمبر:۳۵۸) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اوران کے رفقائے سفر جب مدینہ آئے تو بقیع بطحان میں قیام کیا وہاں سے اگرچہ تمام لوگ نماز عشاء میں شریک نہیں ہوسکتے تھے تاہم باری باندھ لی تھی، اوراپنی اپنی باری پر لوگ آکر آپ کے ساتھ عشاء پڑھتے تھے۔ (بخاری ،کتاب مواقبت الصلوٰۃ ،باب فضل العشاء،حدیث نمبر:۵۳۴) نماز میں خشوع وخضوع صحابہ کرام ؓ کی نمازوں میں نہایت محویت، استغراق، خشوع، خضوع اورتضرع و زاری پائی جاتی تھی، حضرت ابوبکرؓ اس خشوع وخضوع کے ساتھ نماز اورقرآن پڑھتے کہ ان پر شدت سے گریہ طاری ہوجاتا اور کفار کی عورتوں اوربچوں پر اس کا اثر پڑتا، حضرت عمرؓ نماز میں اس شدت سے روتے کہ پچھلی صف کے لوگ رونے کی آواز سنتے۔ حضرت عبداللہ بن شدادؓ کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہتا تھا؛لیکن حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز سنتا تھا۔ (بخاری ، باب اذابکی الامام فی الصلوٰۃ) حضرت تمیم دارمیؓ ایک رات تہجد کے لئے کھڑے ہوئے تو صرف ایک آیت یعنی "أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ" (الجاثیہ:۲۱) کی قرأت میں صبح کردی،اسی کو بار بار پڑہتے تھے، رکوع کرتے تھے،سجدے میں جاتے تھے اورروتے تھے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت تمیم دارمی،۱/۱۳۵شاملہ) سخت سے سخت تکلیف کی حالت میں بھی صحابہ کرامؓ کی یہ محویت قائم رہتی تھی دو بہادر صحابی ایک پہاڑ کے درے میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر مامور تھے ان میں ایک بزرگ مصروف نماز ہوئے تو اسی حالت میں ایک انتقام کیش مشرک آیا اوران کے جسم میں تین تیر لگائے؛ لیکن انہوں نے نماز کو برابر قائم رکھا ان کے دوسرے رفیق سوگئے تھے ،بیدار ہوئے اوران کے خون آلود زخم دیکھے تو کہا، مجھے پہلے ہی کیوں نہیں جگایا؟ بولے کہ میں نماز میں ایک سورہ پڑھ رہا تھا، جس کو ناتمام چھوڑنا مجھ کو پسند نہ آیا۔ (ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب الوضو من الدم،حدیث نمبر:۱۷۰) محبوب سے محبوب چیز بھی اگر صحابہ کی حضوری نماز میں خلل انداز ہوتی تو وہ ان کی نگاہ میں مبغوض ہوجاتی ،ایک دن حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی اورچونکہ باغ بہت گھنا تھا اورکھجوروں کی شاخیں باہم ملی ہوئی تھیں پھنس گئی اورنکلنے کی راہیں ڈھونڈنے لگی، ان کو باغ کی شادابی اوراس کی اچھل کود کا یہ منظر بہت پسند آیا اوراس کو تھوڑی دیرتک دیکھتے رہے،پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یہ یاد نہ آیا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا، فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اورواقعہ بیان کرنے کے بعد کہا یا رسول اللہ ﷺ میں اس باغ کو صدقہ کرتا ہوں۔ (موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ باب النظر في الصلاة إلى ما يشغلك عنها،حدیث نمبر:۲۰۶) ایک اورصحابی اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے فصل کا زمانہ تھا دیکھا تو کھجوریں پھل سے لدی ہوئی ہیں اس قدر فریفتہ ہوئے کہ نماز کی رکعتیں یاد نہ رہیں،نماز سے فارغ ہوکر حضرت عثمانؓ کی خدمت میں آئے اورکہا کہ اس باغ کی وجہ سے میں فتنہ میں مبتلا ہوگیا اس کو اموالِ صدقہ میں داخل کرلیجئے ،چنانچہ انہوں نے اس کو ۵۰ہزار پر فروخت کیا اس مناسبت سے اس کا نام خمسین پڑگیا۔ (موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ باب النظر في الصلاة إلى ما يشغلك عنها،حدیث نمبر:۲۰۷) اسی خشوع وخضوع کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ نہایت سکون واطمینان کے ساتھ نماز ادا فرماتے تھے، حضرت انسؓ رکوع کے بعد قیام میں دونوں سجدوں کے درمیان اس قدر دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ کچھ بھول گئے ہیں۔ (بخاری ،کتاب الصلوٰۃ، ابواب صفۃالصلوٰۃ المکث بین السجدتین،حدیث نمبر:۷۷۸) حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ستون کھڑا ہے، ایک دن رکوع میں اس قدر جھکے رہے کہ ایک شخص نے بقرۃ، آل عمران، نساء اورمائدہ جیسی طویل سورتوں کی تلاوت کرڈالی؛ لیکن انہوں نے اس درمیان میں سر نہ اٹھایا۔ (اسد الغابہ، واصابہ، تذکرہ عبداللہ بن زبیرؓ) (ابواب الزکوٰۃ) زکوٰۃ مفروضہ صحابہ کرام اگرچہ سخت مفلس اورنادار تھے،تاہم خدا کی راہ میں وہ اپنا مال سینکڑوں طریقے سے صرف کرتے تھے، جہاد کے سامان اورنو مسلموں کی کفالت کے علاوہ صدقہ وخیرات سے کوئی دن خالی نہیں جاتا تھا،زکوٰۃ سب سے مقدم اورحاوی چیز تھی،یعنی غلہ پر الگ ،سامان تجارت پر الگ گھوڑوں پر الگ اونٹوں پر الگ، باغوں پر الگ غرض کوئی چیز ایسی نہ تھی جس میں خداکا حق نہ ہوتا ، تاہم وہ نہ اس سے گھبراتے تھے نہ تنگدل ہوتے تھے، بلکہ نہایت فیاضی کے ساتھ خدا کے اس حق کو ادا کرتے تھے۔ جب کھجوروں کی فصل تیار ہوتی تو تمام صحابہؓ زکوٰۃ کی کھجوریں لے لیکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورآپ کے گرد کھجوروں کی ڈھیر لگادیتے ۔ (بخاری ،کتاب الزکوٰۃ، باب اخذصدقہ التمر عندصرام النخل،حدیث نمبر:۱۳۹۰) حضرت عدی بن حاتمؓ اپنے قبیلہ طے کا صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو چونکہ اسلام میں یہ پہلا صدقہ تھا، اس لیے اس کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ اورصحابہؓ کے چہرے فرط مسرت سے چمک اٹھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل غفار واسلم وغیرہا،حدیث نمبر:۴۵۸۵) جو لوگ اپنے قبیلہ کی زکوٰۃ لے کر آتے ،رسول اللہ ﷺ ان کے لیے دعائے خیر فرماتے، حضرت ابواوفیؓ اپنی قوم کی زکوٰۃ لے کر آئے تو آپ ﷺ نے دعادی:اللھم صلی علی آل ابی اوفی خدا وندا آل ابی اوفی پر رحمت نازل فرما۔ (ابوداؤد ،کتاب الزکوٰۃ، باب المصدق لاہل الصدقہ،حدیث نمبر:۱۳۵۶) جو لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجے جاتے صحابہ کرامؓ ہمیشہ ان کو رضا مند رکھتے، ایک بار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چند بدؤں نےمحصلین زکوٰۃ کے ظلم کی شکایت کی توآپ نے فرمایا محصلین کو راضی رکھو، حضرت جریر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ جب سے میں نے یہ سنا میرے پاس سے محصل زکوٰۃ ہمیشہ خوش گیا۔ (مسلم ،کتاب الزکوٰۃ، بَاب إِرْضَاءِ السُّعَاةِ،حدیث نمبر:۱۶۵۱) زیورعورتوں کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں؛ لیکن صحابیات ؓ کو خدا کی مرضی ان سے بھی زیادہ عزیز تھی،ایک بار آپﷺ کی خدمت میں ایک صحابیہ اپنی لڑکی کے ساتھ حاضر ہوئیں جس کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے، آپ نے کنگن دیکھ کر فرمایا، کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو، بولیں، نہیں ،فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ خدا قیامت کے دن ان کے بدلے تمہارے ہاتھ میں آگ کے کنگن پہنائے؟ انہوں نے فورا کنگن آپ کے سامنے ڈال دیے کہ یہ خدا اورخدا کے رسول کے ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الکنز ماہووزکوٰۃ الحلی،حدیث نمبر:۱۳۳۶) صدقہ فطر اداکرنا صدقہ فطر واجب ہے اس لیے صحابہ کرامؓ ہر چھوٹے بڑے غلام آزاد کی طرف سے نہایت التزام کے ساتھ صدقہ فطر ادا فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے غلام نافع کے بچوں؛ بلکہ کافروغلاموں کی جانب سے بھی صدقہ فطر دیتے تھے۔ (بخاری،بَاب صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ ،حدیث نمبر:) رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا جائے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس شدت کے ساتھ اس حکم کی پابندی کرتے تھے کہ دو ایک دن بیشتر ہی صدقہ فطر دیتے تھے۔ (ابوداؤد ،کتاب الزکوٰۃ، باب متی تودی صدقۃ الفطر،حدیث نمبر:۱۳۷۲) ان ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ تمام صحابہ ایسا کرتے تھے۔ (بخاری، ابواب صدقۃ الفطر، باب صدقۃ الفطر علی الحروالملوک،حدیث نمبر:۱۴۱۵) عہد رسالت میں ایک صاع جو یا کھجور یا منقہ صدقہ فطر میں دیا جاتا تھا؛لیکن جب حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں گیہوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا تو انہوں نے ان چیزوں کے بجائے نصف صاع گیہوں کردیا۔ (ابودؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب کم یودی صدقۃ الفطر،حدیث نمبر:۱۳۷۵) حضرت امیر معاویہؓ کے حکم سے لوگوں نے دو مد شامی گہیوں کے دینے کا التزام کرلیا۔ (ابودؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب کم یودی صدقۃ الفطر،حدیث نمبر:۱۳۷۷) زکوٰۃ کی طرح صدقہ فطر وصول کرنے کے لیے بھی اشخاص مقرر ہوئے تھے،جو اس کو وصول کرکے ایک جگہ جمع کرتے تھے۔ (بخاری مع فتح الباری، باب صدقۃ الفطر علی الحروالمملوک،حدیث نمبر:۱۴۱۵) بخاری کتاب الوکالہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے جو یہ مروی ہے: وکلنی رسول اللہ ﷺ بحفظ زکوٰۃ رمضان رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃِ رمضان کا مجھ کو وکیل بنایا اس زکوٰۃِ رمضان سے صدقہ فطر ہی مراد ہے، جو ادا کرنے کے لیے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا اوراس کی حفاظت کے لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہؓ کو مقرر کیا تھا۔ (بخاری، کتاب الوکالۃ ،بَاب إِذَا وَكَّلَ رَجُلًا فَتَرَكَ الْوَكِيلُ شَيْئًا فَأَجَازَهُ الْمُوَكِّلُ فَهُوَ جَائِزٌ) صدقہ وخیرات اگرچہ صحابہ کرام ؓ سخت تنگدست تھے تاہم ان کو تھوڑا بہت جو کچھ ملتا تھا اس کو صدقہ و خیرات کردیتے تھے،حضرت ابومسعودؓ انصاری سے روایت ہے کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو صحابہؓ کرام بازاروں میں جاتے اورحمالی کرتے، محنت ومزدوری میں جو کچھ ملتا اس کو صدقہ کردیتے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوالنارو لوبشق تمرۃ،حدیث نمبر:۱۳۲۶۔۱۳۲۷) حضرت اسماءؓ نے ایک لونڈی فروخت کی اوراس کی قیمت گود میں لیے بیٹھی تھیں کہ ان کے شوہر حضرت زبیرؓ آئے اورقیمت دیکھ کر کہا مجھے دیدو، بولیں میں نے تو اس کو صدقہ کردیا۔ (مسلم، کتاب اداب باب جواز) حضرت حکیم بن حزام ؓزمانہ جاہلیت ہی میں نیک کاموں کے کرنے میں مشہور تھے ،اسلام لائے تو زمانہ جاہلیت میں جو جو نیک کام کیے تھے اسلام میں بھی اسی قسم کے نیک کام کیے ،دارالندوہ جو قریش کا ایک قابل فخر یادگارتھا ان ہی کے قبضہ میں تھا، انہوں نے اس کو حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ ایک لاکھ درہم پر فروخت کیا اور اس کی کل قیمت خیرات کردی۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حکیم بن حزامؓ،۱/۲۷۸،شاملہ) حضرت سلمان فارسی ؓ مدائن کے گورنر تھے اور پانچ ہزار وظیفہ پاتے تھے ؛لیکن جب بیت المال سے وظیفہ کی رقم ملتی تھی تو کل کی کل خیرات کردیتے تھے اورخود اپنے کسب سے روزی پیدا کرتے تھے۔ (استیعاب، حضرت سلمان فارسیؓ) حضرت زبیر بن عوامؓ کے ہزار غلام تھے وہ کمالاتے تھے تو کل رقم صدقہ کردیتے تھے گھر میں ایک جبہ بھی آنے نہیں پاتا تھا۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت زبیر بن عوامؓ) حضرت ابوذرغفاری سرےسے مال کا جمع کرنا ہی ناجائز سمجھتے تھے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ،حدیث نمبر:۱۳۱۸) بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو چیز صدقہ میں دیدے اس کو دوبارہ نہ خریدے اس لیے حضرت ابن عمرؓ اگرچہ صدقہ کا مال دے کر پھر خریدتے تو اس کو اپنی ملک میں نہ رکھتے بلکہ صدقہ کردیتے ۔ (بخاری،بَاب هَلْ يَشْتَرِي الرَّجُلُ صَدَقَتَهُ،حدیث نمبر:۱۳۹۴) رسول اللہ ﷺ کی ترغیب و تحریض سے صحابہ کرامؓ اوربھی زیادہ صدقہ وخیرات کی طرف مائل ہوجاتے تھے، ایک بار آپ نے خطبہ عید میں صدقہ کی ترغیب دی، عورتوں کا مجمع تھا، حضرت بلال ؓ دامن پھیلائے ہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور ہاتھ کی انگوٹھیاں پھینکتی جاتی تھیں۔ (ابوداؤد،کتاب الصلوٰۃ ،باب الخطبہ فی یوم العید،حدیث نمبر:۹۶۴) ایک بار قبیلہ مضر کے بہت سے فاقہ زدہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کی حالت دیکھی تو چہرے کا رنگ بدل گیا اورنماز کے بعد ایک خطبہ دیا جس میں ان پر صدقہ کرنے کی ترغیب دی ،ایک صحابی کے پاس درہم و دینار کی ایک تھیلی اس قدر وزنی تھی کہ اس کو بمشکل اٹھاسکتے تھے، لیکن انہوں نے اس کو آپ کے سامنے ڈال دیا اس کے بعد اور تمام صحابہؓ نے کپڑے اورغلہ کا ڈھیر لگادیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ ،باب التحریض علی الصدقۃ،حدیث نمبر:۲۵۰۷) ایک بار آپ نے دیکھا کہ انصار نے اپنے باغوں کے گرد چار دیواریاں قائم کردی ہیں، حالانکہ پہلے ایسا نہیں کرتے تھے،فرمایا کہ نمازجمعہ کے بعد چلے نہ جانا میں کچھ کہوں گا، جب نماز ہوچکی تو تمام انصار منبر کے گرد جمع ہوگئے، آپ نے فرمایا کہ تم پہلے قوم کا تاوان دیتے تھے، یتیموں کی پرورش کرتے تھے اور دوسری نیکیاں کرتے تھے؛ لیکن جب اسلام آیا تو مال کی اس قدر حفاظت کرتے ہو؟ انسان جو کچھ کھالیتا ہے،اس کا ثواب ملتا ہے،اورچڑیاں جو کچھ کھا لیتی ہیں اس کا ثواب ملتا ہے، انصار پر اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ پلٹے تو سب نے اپنے اپنے باغ کی دیواروں میں ایک یا دو دو شگاف کردئے۔ کہ ان کا فائدہ سب کو پہنچے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ خالد بن صخر،۱/۳۰۶) ایک بار مسجد نبویؓ میں ایک سائل آیا، آپ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ اپنے اپنے کپڑے زمین پر ڈال دیں سب نے اپنے اپنے کپڑے ڈال دیے اور ان میں سے آپ نے سائل کو دو کپڑے دے دیے،پھر آپ نے صدقہ کی ترغیب دی، اب خود سائل نے دوکپڑوں میں سے ایک کپڑا پھینک دیا۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ،حدیث نمبر:۱۴۲۶) ایک بار آپ نے فرمایا کہ آج تم میں کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ مسجد میں آئے جہاں ان کو ایک سائل ملا ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمانؓ کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا ان سے لے کر سائل کو دے دیا۔ ( ابوداؤد ، بَاب الْمَسْأَلَةِ فِي الْمَسَاجِدِ،حدیث نمبر:۱۴۲۲) صحابہ کرام جو ہر قسم کی چھوٹی بڑی چیز خالصۃ لوجہ اللہ صدقہ میں دیتے اس کو دیکھ کر منافقین طعنہ دیتے،بدگمانی کرتے؛ لیکن ان پر اس کا کچھ اثر نہ پڑتا، ایک بار حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آٹھ ہزار صدقہ میں دیے تو منافقین نے کہا کہ یہ ریاکار آدمی ہیں؛لیکن ایک صحابی نے ڈول کھینچنے کی اجرت میں ایک صاع پایا اوراس کو صدقہ میں دیا تو منافقین نے کہا خدا اس حقیر خیرات سے بے نیاز ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (توبہ:۷۹)۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب التقوا لنارولو بشق تمرۃ ،حدیث نمبر:۱۳۲۶مع فتح الباری جلد ۳:۲۳۴) یہ (منافق)ہی تو ہیں کہ مسلمانوں میں جو لوگ پامقدور ہیں اورخوش دلی سے خیرات کرتے ہیں ان پر(ریاکاری)کا عیب لگاتے ہیں اورجولوگ اپنی محنت (کی کمائی) کے سوا(زیادہ)کا مقدورنہیں رکھتے اوراس پر بھی جو میسر آجاتا ہے خدا کی راہ میں دینے کو موجود ہوجاتے ہیں ان پر(ناحق کی شیخی کا) عیب لگاتے ہیں،غرض ان (سب)پر ہنستے ہیں جو اللہ ان منافقوں پر ہنستا ہے اوران کے لیے عذاب درد ناک تیار ہے۔ مردوں کی جانب سے صدقہ صحابہ کرامؓ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے مردوں کی جانب سے بھی صدقہ کرتے تھے اوران کو اس کا ثواب پہنچاتے تھے، حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ نے انتقال کیا تو انہوں نے ان کی جانب سے بطور صدقہ جاریہ کے ایک کنواں کھدوایا۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوۃ ،باب فی فضل سقی الماء،حدیث نمبر:۱۴۳۱) ایک صحابی کی والدہ نے انتقال کیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ میری ماں دفعۃً مرگئی اور کوئی وصیت نہیں کی؛لیکن اگر اس کو بات چیت کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتی اب اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کروں تو اس کو ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب وصول ثواب الصدقہ عن المیت الیہ،حدیث نمبر:۱۶۷۲) اعزہ واقارب پر صدقہ کرنا عام خیال ہے کہ صدقہ وخیرات صرف فقراء ومساکین کے ساتھ مخصوص ہیں؛لیکن درحقیقت اعزہ واقارب کی اعانت کرنا سب سے بڑا صدقہ ہے اور سب سے پہلے اسلام نے اس دقیق نکتہ کو بتایا اورصحابہ کرام نے اس پر عمل کیا۔ حضرت ابو طلحہؓ نے اپنا کنواں بیر حاءخدا کی راہ میں وقف کرنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اپنے اعزہ واقارب پر تقسیم کردیا، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو صدقہ و خیرات کی ترغیب دی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بی بی حضرت زینبؓ نے ان سے کہا کہ تم نادار آدمی ہو، رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اگر آپ اجازت دیں تو میں جو صدقہ کرنا چاہتی ہوں تمہیں پر کروں؛ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تمہیں جاؤ وہ آئیں تو آستانِ مبارک پر اسی غرض سے ایک دوسری بی بی بھی موجود تھیں،دونوں بی بیوں نے حضرت بلالؓ کے ذریعہ سے دریافت کرایا کہ دو عورتیں اپنے شوہر وں اورچند یتیموں پر جوان کی کفالت میں ہیں صدقہ کرنا چاہتی ہیں کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ان کو دہرا ثواب ملے گا، ایک قرابت کا دوسرا صدقہ کا، ایک بار حضرت ام سلمہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ میں ابو سلمہ ؓ کے لڑکوں کے مصارف برداشت کرتی ہوں کیا مجھ کو اس کا ثواب ملے گا، میں ان کو چھوڑ نہیں سکتی کیونکہ وہ میرے لڑکے ہیں،فرمایا ہاں تم کو ثواب ملے گا۔ (مسلم، کتاب الزکوۃ، باب النفقہ علی الاقربین والزوج والاولادو الوالدین ولو کانوامشرکین،حدیث نمبر:۱۶۶۴۔۱۶۶۷) ایک صحابیہ نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقۃً دی تھی،ماں کا انتقال ہوگیا،تو رسول اللہ ﷺ سے اس کی نسبت دریافت کیا،فرمایا:صدقہ کا ثواب تمہیں مل چکا اور وہ لونڈی تمہاری وراثت میں داخل ہوگئی ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الزکوۃ، بَاب مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ثُمَّ وَرِثَهَا،حدیث نمبر:۱۴۱۲ ) صدقہ دینے پر اصرار صرف یہی نہیں کہ صحابہ کرامؓ صدقہ دیتے تھے؛ بلکہ صدقہ دینے پر اصرار کرتے تھے، ایک بار ایک صحابی انڈے کے برابر سونا لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ یا رسول اللہ میں نے اس کو ایک کان میں پایا ہے ،قبول فرمالیجئے یہ صدقہ ہے ،اس کے سوا میرے پاس کچھ نہیں، آپ نے اعراض فرمایا، پھر داہنے جانب سے لے آئے اوریہی درخواست کی ،آپ ﷺ نے منہ پھیر لیا، پھر بائیں جانب سے آئے، آپ نے پھر روگردانی کی،پھر پیچھے سے آئے، اب کی بار آپ نے اس کو لے کر ان کی طرف اس زور سے پھینکا کہ اگر ان پر پڑا ہوتا تو چوٹ آتی اورفرمایا کہ تم لوگ اپنا تمام سرمایہ صدقہ میں دے دیتے ہو پھر بھیک مانگنے لگتے ہو،بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد بھی انسان کے پاس کچھ مال رہ جائے۔ (ابوداؤد، باب الرجل یخرج من مالہ،حدیث نمبر:۱۴۲۵) آپ ﷺنے ایک بار صدقہ دینے کا حکم دیا،تو ایک صیابی نے کہا:میرےپاس ایک دینار ہے فرمایا:اس کو اپنے اوپر صدقہ کرو"بولے" ایک دینار اوربھی ہے،فرمایا اپنے لڑکے پر صدقہ کرو بولے ایک اوربھی ہےفرمایا اپنی بی بی پر صدقہ کرو، بولے ایک اوربھی ہے فرمایا اپنے خادم پر صدقہ کرو بولے، ایک اوربھی ہے فرمایا اب تمہیں سمجھو۔ (ابوداؤد، باب فی صلۃ الرحم،حدیث نمبر:۱۴۴۱) صدقہ دینے میں مسابقت اسلام نے اگرچہ قماربازی کو حرام کردیا تاہم صحابہ کرام بازی لگانے سے باز نہیں آتے تھے، لیکن اس بازی میں جو شخص کامیاب ہوجاتا تھا،اس کے ہاتھ ناجائز مال نہیں آتا تھا؛ بلکہ اللہ اوراللہ کے رسول آتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا حسنِ اتفاق سے اس وقت حضرت عمرؓ کے پاس مال تھا انہوں نےدل میں کہا آج ابوبکرؓ سے بازی لے جاؤں گا، نصف مال لے کرحاضر خدمت ہوئے ،آپ نے فرمایا کچھ اہل و عیال کے لیے بھی رکھا ہے بولے اسی قدر ،اسی اثنا میں حضرت ابوبکرؓ اپنا کل سرمایہ لے کر حاضر ہوئے آپ نے فرمایا اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑا، بولے اللہ اوراللہ کا رسول اب حضرت عمرؓ نے کہا میں تم سے کبھی بازی نہ لے جاسکوں گا۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرخصۃ فی ذلک،حدیث نمبر:۱۴۲۹) اخفائے صدقہ صدقہ خیرات اگرچہ ہر حال میں نیکی کا کام ہے؛لیکن چھپا کر صدقہ دینا اوربھی افضل ہے اس لیے قرآن مجید میں آیا ہے: "إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ" (البقرۃ:۲۷۱) اگر علانیہ صدقہ دو تویہ بھی بہتر ہے ؛لیکن اگر چھپا کر دو تویہ اوربھی اچھا ہے۔ اس لیے بعض صحابی مخفی طورپر صدقہ دینا زیادہ پسند کرتے تھے، چنانچہ جب یہ آیت "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (آل عمران:۹۲) تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک اپنے محبوب ترین مال کو خیرات نہ کرو۔ یا یہ آیت "مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا" (البقرۃ:۲۴۵) وہ کون ہے جو خدا کو اچھا قرض دے۔ نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہؓ انصاری نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ اگر ممکن ہوتا تو میں اپنے فلاں باغ کوصدقہ میں دیتا،اوراس کو بالکل مخفی رکھتا اس کا اعلان نہ کرتا۔ (مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۲۳۱۹شاملہ) اپنے بہترین مال کا انفاق ہم ہیں کہ صدقہ وخیرات اورزکوٰۃ میں ادنی درجہ کی چیز بھی نہیں دے سکتے ؛لیکن صحابہ کرامؓ ان میں ہمیشہ اپنا بہترین مال صرف کرتے تھے جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (آل عمران:۹۲) تم لوگ جب تک اپنا بہترین مال نہ خیرات کرو نیکی کو نہیں پاسکتے توحضرت ابو طلحہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اورکہا "یا رسول اللہ ﷺ خدا کہتا ہے کہ جب تک تم لوگ اپنا بہترین مال خیرات نہ کروگے، نیکی کو نہ پاؤ گے میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے جس کو میں خدا کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور خدا سے اس کے ثواب کی امید کرتا ہوں۔ (بخاری ،کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الاقارب،حدیث نمبر:۱۳۶۸) حضرت عبداللہ بن عمر ؓکا معمول تھا کہ ان کو اپنی چیز جو پسند آتی اس کو خدا کی راہ میں دے دیتے ،ایک بار سفر حج میں تھے اونٹنی کی چال پسند آئی تو اس سے اتر گئے اوراپنے غلام نافع سے کہا کہ اس کو قربانی کے جانوروں میں داخل کرلو۔ (طبقات ابن سعد، اسدالغابہ ،تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے مصدقین زکوٰۃ کو حکم دیا تھا کہ زکوٰۃ میں مال کا بہترین حصہ نہ لیں؛ لیکن صحابہ کرام ؓ بخوشی اپنے مال کا بہترین حصہ دیتے تھے، ایک صحابی نے ایک محصل زکوٰۃ کو اپنی بہترین اونٹنی دی؛لیکن اس نے لینے سے انکار کیا،تو کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ میرا بہترین اونٹ لیں، پھر اس سے کم درجہ کی اونٹنی دی؛لیکن اس نے اب بھی انکار کیا بالآخر اس سے بھی کم درجہ کی اونٹنی لینے پر راضی ہوا۔ ایک دن ایک صحابی پہاڑ کے درے میں بکریاں چرارہے تھے دومصدقِ زکوٰۃ آئے اورکہا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے تمہاری بکریوں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے،بولے مجھ کو کیا دینا پڑے گا؟ انہوں نے کہا ایک بکری، انہوں نے ایک نہایت فربہ گابھن بکری دی تو بولے کہ ہم اس کو نہیں لے سکتے، آپ ﷺنے ہم کو اس سے منع فرمایا ہے۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا وہ ایک صحابی کے پاس آئے اورانہوں نے اپنے تمام اونٹ حاضر کردیے، وہ سب کا جائزہ لے کر بولے کہ تم کو صرف ایک بچہ دینا ہوگا، بولے نہ تو وہ سواری کے قابل ہے نہ دودھ دیتا ہے، یہ جوان فربہ اونٹنی حاضر ہے، بولے جب تک مجھ کو حکم نہ دیا جائے میں اس کو قبول نہیں کرسکتا، رسول اللہ ﷺ تم سے قریب ہی ہیں اگر تم چاہو تو خود آپ کی خدمت میں اس اونٹنی کو پیش کرسکتے ہو، اگر آپ نے قبول فرمالیا تو میں بھی قبول کرلوں گا، وہ اونٹنی لے کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی کہ یا نبی اللہ میرے پاس صدقہ وصول کرنے کے لیے آپ کا محصل آیا اورآج سے پہلے رسول اللہ ﷺ یا رسول اللہ کا کوئی محصل میرے پاس صدقہ وصول کرنے کے لیے نہیں آیا تھا میں نے اپنے تمام اونٹ اس کے سامنے حاضر کردیئے تو اس نے کہا کہ تم پر صرف ایک بچہ فرض ہے ؛لیکن وہ نہ تو دودھ دیتا تھا نہ سواری کے قابل تھا، اس لیے میں نے اس کو جوان اورفربہ اونٹنی دی؛لیکن اس سے انکار کردیا اب میں اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں آپ نے ارشاد فرمایا ، فرض تو تم پر وہی ہے اس سے زیادہ دو تو صدقہ ہوگا اورہم اس کو قبول کرلیں گے، انہوں نے کہا تو یہ حاضر ہے آپ نے اس کے قبول کرنے کی اجازت دی اوران کے مال میں برکت کی دعا فرمائی۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمہ،حدیث نمبر:۱۳۵۰) (ابواب الصیام) صوم رمضان رمضان کے روزے فرض ہوئے تو ابتدا میں عشا کے بعد کھانا پینا حرام ہو جاتا تھا، اس پابندی کی وجہ سے اگرچہ بعض اوقات صحابہ ؓ کو سخت زحمتیں برداشت کرنی پڑیں، لیکن با ایں ہمہ انہوں نے روزہ رکھنے میں کبھی سہل انکاری سے کام نہیں لیا، ایک دن رمضان کے مہینے میں حضرت صرمہ بن قیس انصاریؓ نے بی بی سے کھانا مانگا، سو اتفاق سے گھر میں کچھ نہ تھا، وہ باہر گئیں کہ کھانے پینے کی کوئی چیز تلاش کرکے لائیں؛لیکن اس اثناء میں ان کی آنکھ لگ گئی اور کھانا نہ کھا سکے، صبح کو پھر روزہ رکھے ہوئے کام دھندے کے لیے نکل گئے دو دن کا متصل فاقہ اس پر کام کی محنت دوپہر ہوئی تو بھوک کی شدت سے بیہوش ہوگئے۔ (ابوداؤد، کتاب الصیام ،باب مبدا فرض الصیام،حدیث نمبر:۱۹۷۰ ) اگر کسی غلطی سے صحابہ کرام ؓ کا روزہ ٹوٹ جاتا تو ان پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا، ایک صحابی نے رمضان میں دن کو اپنی بی بی سے مباشرت کرلی،بعد کو اس قدر بد حواس ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بال نوچتے ہوئے ،سینہ کوبی کرتے ہوئے آئے اورکہا کہ میں ہلاک ہوگیا۔ (موطا مالک ،کتاب الصیام ،باب من افطر فی رمضان،حدیث نمبر:۵۸۳) سفر میں روزہ رکھنا حالتِ سفر میں اگرچہ روزہ رکھنا فرض نہیں ہے،تاہم صحابہ کرامؓ اس حالت میں بھی سخت سے سخت تکلیف برداشت کرتے، لیکن افطار کرنا پسند نہ کرتے، ایک صحابی ؓ نے سفر میں روزہ رکھا تو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے لوگوں نے ان کے سر پر چادر تان دی،رسول اللہ ﷺ نے ان کے گرد لوگوں کا ہجوم دیکھا تو فرمایا، سفر میں روزہ رکھنا نیکی کا کام نہیں۔ (ابوداؤد، کتاب الصیام ،باب اختیار الفطر،حدیث نمبر:۲۰۵۵) رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے،دھوپ اس قدر تیز تھی کہ لوگ اس کی شدت سے سروں پر ہاتھ رکھتے تھے؛لیکن اس حال میں بھی حضرت عبداللہ بن رواحہ روزے سے تھے۔ (بخاری، کتاب الصوم ، بَاب إِذَا صَامَ أَيَّامًا مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ سَافَرَ،حدیث نمبر:۱۸۰۹) ایک بار صحابہ کرام ؓ ایک نہایت گرم دن میں سفر کررہے تھے ان میں جو لوگ روزے سے تھے منزل پر پہنچ کر ضعف سے گرپڑے اوربے روزہ داروں نے خیمے وغیرہ کھڑے کئے۔ (مسلم، بَاب أَجْرِ الْمُفْطِرِ فِي السَّفَرِ إِذَا تَوَلَّى الْعَمَلَ،حدیث نمبر:۱۸۸۶) رسول اللہ ﷺ نے مکہ کا سفر کیا تو تمام صحابہ روزہ سے تھے منزل پر پہنچ کرفرمایا کہ تم لوگ دشمن کے قریب پہنچ گئے اورافطار تمہارے لیے ازدیاد قوت کا سبب ہوگا، اس پر بھی بہت سے صحابہؓ نے روزہ افطار نہیں کیا،دوسری منزل آئی تو آپ ﷺ نے اور بھی تاکید کے ساتھ افطار کی ترغیب دی اب تمام صحابہ ؓ نے روزہ توڑدیا۔ (مسلم، بَاب أَجْرِ الْمُفْطِرِ فِي السَّفَرِ إِذَا تَوَلَّى الْعَمَلَ،حدیث نمبر:۱۸۸۸) صوم عاشوراء رمضان کے روزوں کے علاوہ صحابہؓ کرام اوربھی مختلف قسم کے روزے رکھتے تھے، اول اول عاشورا کا روزہ فرض تھا اس لئے عاشورے کی صبح کو رسول اللہ ﷺ منادی کرا دیتے کہ جن لوگوں نے روزہ رکھا ہے وہ اپنے روزے پورے کرلیں اورجو لوگ کھاپی چکے ہیں وہ بقیہ دن کا روزہ رکھیں اس اعلان کے بعد صحابہ کرام ؓ نے اس شدت کے ساتھ اس کی پابندی کی کہ نہ صرف خود روزے رکھتے بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے اورجب وہ کھانے کے لیے روتے تو بہلانے کے لیے ان کو رنگین اون کی گڑیاں دے دیتے۔ (مسلم، بَاب مَنْ أَكَلَ فِي عَاشُورَاءَ فَلْيَكُفَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ،حدیث نمبر:۱۹۱۹) فرضیتِ صومِ رمضان کے بعدا گرچہ یہ روزہ فرض نہیں رہا تاہم بعض صحابہ ؓ نے اس کو قائم رکھا ایک بار حضرت معاویہ ؓ نے مدینہ میں خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ اس دن کا روزہ اگرچہ فرض نہیں ہے تاہم میں روزے سے ہوں جس کا جی چاہے روزہ رکھے جس کا جی چاہے افطار کرے۔ (مسلم، باب صوم یوم عاشورا،حدیث نمبر:۱۹۰۹) صوم داؤدی حضرت عبداللہ بن عمرؓ وصائم الدہر رہا کرتے تھے،رسول اللہ ﷺ نے ان کو منع فرمایا اورکہا کہ ہر مہینہ میں صرف تین دن رکھا کرو، لیکن ان کے شوق کو اس سے کیا تسکین ہوسکتی تھی؟ بولے مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے ارشاد ہوا تو صوم داؤدی کا التزام کرلو، یعنی ایک دن کا ناغہ دے کر دوسرے دن کا روزہ رکھو۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثہ ایام من کل شہر،حدیث نمبر:) صوم وصال رسول اللہ ﷺ متصل کئی کئی دن کے روزے رکھتے تھے، آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ نے بھی متصل روزے رکھنے شروع کیے؛لیکن آپ نے صحابہ کو روک دیا، اورفرمایا، میری حالت تم سے مختلف ہے، مجھ کو خدا کھلاتا پلاتا ہے۔ (مسلم،باب النہی عن الوصال فی الصوم،حدیث نمبر:۱۸۴۴) تاہم بعض صحابہ صوم وصال کے پابند تھے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ متصل ایک ایک ہفتہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ ابن زبیر) دو شنبہ اورپنج شنبہ کے روزے رسول اللہ ﷺ ان دونوں دنوں کے روزے رکھتے تھے اورفرماتے تھے کہ ان دونوں دنوں میں اللہ تعالی کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں بعض صحابہ ؓ نے بھی اس کا التزام کرلیا تھا، چنانچہ ایک دن حضرت اسامہؓ وادی قریٰ کو گئے اوران دونوں کے روزے رکھے، غلام نے کہا آپ تو بوڑھے ہیں، ان میں کیوں روزہ رکھتے ہیں؟ بولے رسول اللہ ﷺ ان دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الصوم ،باب فی صوم الاثنین والخمیس،حدیث نمبر:۲۰۸۰) ایام بیض کے روزے رسول اللہ ﷺ ایام بیض ہر مہینے کی تیرھویں،چودھویں اورپندرھویں کے روزے رکھتے تھے اورفرماتے تھے کہ یہ روزے صوم دہر کے مثل ہیں صحابہ کرام ؓ کو بھی یہی حکم تھا۔ (ابوداؤد، باب فی صوم الثلاث من کل شہر،حدیث نمبر:۲۰۹۳) صائم الدہر رہنا ایک صحابی ایک سال آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر واپس چلے گئے دوسرے سال پھر حاضر خدمت ہوئے تو صورت اس قدر بدل گئی تھی کہ آپ نے ان کو نہیں پہچانا، اس بنا پر انہوں نے خود اپنا تعارف کرایا اورکہا کہ میں وہی شخص ہوں جو پہلے سال آیا تھا، فرمایا تمہارا کیا حال ہوگیا؟ تمہاری صورت تو اچھی خاصی تھی بولے جب سے آپ سے جدا ہوا ہوں رات کے سوا دن کو کبھی کھانا نہیں کھایا، لیکن آپ ﷺ نے ان کو اس سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد کتاب الصیام باب فی صوم اشہر الحرم،حدیث نمبر:۲۰۷۳) باایں ہمہ بہت سے صحابہ ہمیشہ ہمیشہ روزے سے رہتے تھے، حضرت ابوامامہ ؓ نے متعدد غزوات میں رسول اللہ ﷺ سے بار بار دعائے شہادت کی درخواست کی ؛لیکن آپ نے سلامتی کی دعا فرمائی، اخیر میں عرض کی کہ "اچھا یہ نہ سہی تو کسی ایسے عمل کی ہدایت فرمائیے کہ خدا مجھے اس سے نفع دے، آپ نے روزے کا حکم دیا اورانہوں نے متصل روزے رکھنے کا التزام کرلیا،خادم اور بی بی نے بھی اس عمل صالح میں شرکت کی اورروزہ ان کے گھر کی امتیازی علامت ہوگئی اگر کسی دن ان کے گھر میں دھواں اٹھتا یا آگ جلائی جاتی تو لوگ سمجھتے کہ آج ان کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہے۔(مسند جلد ۵:۲۵۵) ورنہ اس گھر میں دن کا کھانا کیونکر پک سکتا تھا۔ حضرت زید بن سہلؓ عہد رسالت میں غزوات کی شرکت کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو اس کی تلافی کرنا شروع کی اور ۴۰ برس تک متصل روزے رکھے اورعید کے سوا کہ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے کبھی بے روزہ نہ رہے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت زید بن سہلؓ۱/۴۰۱شاملہ) حضرت حمزہ بن عمروؓ الاسلمی بھی ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ (مسلم کتاب الصوم بَاب التَّخْيِيرِ فِي الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِي السَّفَرِ،حدیث نمبر:۱۸۹۰) نفل کے روزے رکھنا حضرت ابوالدرداء کو نفل کے روزے کا اس قدر شوق تھا کہ اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ آج گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے تو کہتے کہ میں آج روزے سے ہوں ،حضرت ابو طلحہؓ حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت حذیفہؓ اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بھی یہی حال تھا۔ (بخاری ،کتاب الصوم ،باب اذانوی بالنہار صوما) بعض صحابیہ نفل کے روزے رکھتی تھیں، جس سے ان کے شوہر کو تکلیف ہوتی تھی انہوں نے روکا تو ان کو سخت ناگوار ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جاکر شکایت کی؛ لیکن آپ نے حکم دیا کہ کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفل کا روزہ نہیں رکھ سکتی۔ (ابوداؤد، کتاب الصیام ،باب المراۃ تصوم بغیر اذن زوجہا،حدیث نمبر:۲۱۰۳) مردوں کی جانب سے روزہ رکھنا صحابہ کرام ؓ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے مردوں کی جانب سے بھی روزے رکھتے تھے، ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہاکہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر پورے مہینے کے روزے فرض تھے، کیا میں ان کو پورا کردوں آپ نے فرمایا: ہاں۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب من مات وعلیہ صوم،حدیث نمبر:۱۸۱۷) بچوں سے روزہ رکھوانا صحابہ کرام ؓ نہ صرف خود روزہ رکھتے تھے بلکہ اپنے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے تھے اوپر گذر چکا ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے صوم عاشوراء کے لیے منادی کروائی تو صحابہ کرامؓ نے خود روزہ رکھا اوربچوں سے بھی روزے رکھوائے، ایک بار حضرت عمرؓ نے رمضان میں ایک بد مست کو یہ کہہ کر سزادی کہ ہمارے بچے روزے رکھتے ہیں اور تمہارا یہ حال ہےافسوس۔ (بخاری،بَاب صَوْمِ الصِّبْيَانِ وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِنَشْوَانٍ فِي رَمَضَانَ وَيْلَكَ وَصِبْيَانُنَا صِيَامٌ فَضَرَبَهُ) اعتکاف ایک بار رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا ،تو تمام صحابہؓ بھی آپ کے ساتھ معتکف ہوئے۔ (مسلم، کتاب الصوم ،باب فضل لیلۃ القدر،حدیث نمبر:۱۹۹۴) ازواج مطہرات کو اعتکاف کا اس قدر شوق تھا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کے لیے خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا، حضرت عائشہؓ نے دیکھا تو اپنا خیمہ الگ نصب کروایا، ان کی دیکھا دیکھی تمام ازواج مطہراتؓ نے خیمے نصب کرائے،آپ نے دیکھا تو اپنے ساتھ ازواجِ مطہرات کے خیمے بھی گروادیے( کہ اس سے آپ کے سکون وجمعیت خاطر میں فرق آتا تھا)۔ (مسلم،بَاب مَتَى يَدْخُلُ مَنْ أَرَادَ الِاعْتِكَافَ فِي مُعْتَكَفِهِ،حدیث نمبر:۲۰۰۷) حضرت عمرؓ نے زمانہ جاہلیت میں اعتکاف کی نذر مانی تھی، اسلام لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے اس کے پورا کرنے کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت دی تو انہوں نے اس نذرکو پورا کیا۔ (نسائی،جزء،۲،حدیث نمبر:۳۳۵۰) (ابواب الحج) حج فرائض اسلام میں اگرچہ حج تمام عمر میں صرف ایک بار فرض ہے ؛لیکن بعض صحابہ تقریبا ہر سال فریضہ حج ادا فرماتے تھے،ایک بار حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی تو فرمایا بہترین جہاد حج مبرور ہے، اس کے بعد سے وہ کبھی حج کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ (بخاری ،کتاب الحج، باب حج النساء،حدیث نمبر:۱۷۲۸) حضرت عمرؓ نے ایک خطبہ میں فرمایاجب تم جہاد سے فارغ ہو تو حج کے لیے کجاوے کسو کیونکہ حج بھی ایک جہاد ہے۔ (بخاری مع فتح الباری ،کتاب الحج، باب الحج علی الرحل،حدیث نمبر) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سخت سے سخت خطرے کی حالت میں بھی حج کو قضاء نہیں فرماتے تھے حجاج اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے درمیان جنگ شروع ہوئی اورخود مکہ محاصرہ میں آگیا تو انہوں نے اس حالت میں سفر حج کرنا چاہا، صاحبزادے نے روکا تو بولے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کا نمونہ موجود ہے، آپ حج کے لیے چلے تو کفار نے روک دیا، اگر مجھے بھی روکا جائے گا تو میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ (بخاری ،کتاب الحج، باب طواف القارن،حدیث نمبر:۱۵۳۱) صحابہ کرامؓ جس ذوق وشوق سے حج کرتے تھے اس کا مؤثر منظر حجۃ الوداع میں دنیا کو نظر آیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اعلان ِحج کیا تو مدینہ میں بکثرت صحابہ جمع ہوئے، حضرت اسماء بنت عمیس ؓ اگرچہ حاملہ تھیں اوراسی سفر میں بمقام ذوالحلیفہ ان کو وضع حمل بھی ہوگیا تاہم وہ بھی شریک سفر ہوئی ،آپ مقام بیدا میں پہنچے تو صحابہ کا اس قدر اژدحام ہوا کہ دائیں بائیں آگے پیچھے آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔ (مسلم ،کتاب الحج، باب حجۃ النبی ﷺ ،حدیث نمبر:۲۱۳۷) تمام خلفاء اپنے زمانہ خلافت میں بالالتزام حج کرتے تھے اورخود امیرالحجاج ہوتے تھے ،حضرت عثمان ؓ کی مدت خلافت دس برس ہے اوراس مدت میں انہوں نے متصل دس سال حج کیے اخیر سال جب لوگوں نے ان کا محاصرہ کرلیا تو خود نہ جاسکے ؛لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو امیر الحاج بنا کر بھیجا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عثمان ؓ) اسلام نے اگرچہ رہبانیت کو باطل کردیا تھا تاہم بعض صحابہ ؓ فریضہ حج کے ادا کرنے میں طرح طرح کا التزام مالا یلزم کرتے تھے ایک صحابیہ نے خانہ کعبہ تک پا پیادہ جانے کی نذر مانی اوررسول اللہ ﷺ سے دریافت کروایا، توآپ ﷺ نے کہا پا پیادہ بھی چلیں اور سوار بھی ہولیں، آپ ﷺ نے ایک بوڑھے صحابی ؓ کو دیکھا کہ اپنے دوبیٹوں کے سہارے پاپیادہ چل رہے ہیں، فرمایا کیا معاملہ ہے؟ معلوم ہوا کہ پا پیادہ حج کرنے کی منت مانی ہے، آپ ﷺ نے سوار ہونے کا حکم دیا اورفرمایا کہ خدا اس کی جان کو عذاب میں ڈالنے سے بے نیاز ہے۔ (بخاری، کتاب الحج، بَاب مَنْ نَذَرَ الْمَشْيَ إِلَى الْكَعْبَةِ،حدیث نمبر:۱۷۳۲،۱۷۳۳) اگر کسی معذوری سے حج کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوجاتا تھا تو صحابہ کرام کو سخت صدمہ ہوتا تھا،حجۃ الوداع میں حضرت عائشہؓ کو ضرورت نسوانی سے معذدری ہوگئی رسول اللہ ﷺ کا گذر ہواتو دیکھا کہ رو رہی ہیں، فرمایا کیاماجرا ہے؟ بولیں کہ کاش میں اس سال حج نہ کرتی فرمایا، سبحان اللہ، یہ تو فطری چیز ہے، تمام مناسک ادا کرو، صرف خانۂ کعبہ کا طواف نہ کرو۔ (ابوداؤد، کتاب المناسک ،باب فی افراد الحج،حدیث نمبر:۱۵۱۵) باپ ماں کی طرف سے حج کرنا صحابہ کرامؓ نہ صرف خود بلکہ اپنے ماں باپ کی جانب سے بھی حج ادا کرتے تھے،حجۃ الوداع کے زمانہ میں ایک صحابیہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورکہا کہ میرے باپ پر حج فرض ہوگیا ہے؛ لیکن وہ بڑھاپے کی وجہ سے سواری پربیٹھ نہیں سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج ادا کردوں؟آپ نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔ (بخاری، کتاب الحج، باب وجوب الحج وفضلہ،۱۴۱۷) ایک صحابیہ کی ماں کا انتقال ہوچکا تھا، وہ آپ کی خدمت میں آئیں اور کہا کہ میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا ،کیا میں ان کی جانب سے اس فرض کو ادا کردوں؟ آپ ﷺ نے ان کو بھی اجازت دے دی ۔ (مسلم، کتاب الصوم، باب قضاء الصیام عن المیت،۱۹۳۹) عمرہ بعض صحابہ عمرہ کو فرض سمجھتے تھے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا خیال تھا کہ حج کی طرح عمرہ بھی ہرشخص پر فرض ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس کی فرضیت پر یہ استدلال کرتے تھے کہ قرآن مجید میں حج اورعمرہ دونوں کا حکم ایک ساتھ آیا ہے:"وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ" (البقرۃ:۱۹۶) (بخاری،بَاب وُجُوبِ الْعُمْرَةِ وَفَضْلِهَا وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ وَعُمْرَةٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِنَّهَا لَقَرِينَتُهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ﴿ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ﴾ ) خدا کے لیے حج اورعمرہ کو پورا کرو۔ بہرحال عمرہ فرض ہویانہ ہو؛لیکن صحابہ کرامؓ اس کو نہایت پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اورجب وہ فوت ہوجاتا تھا،تو ان کو سخت قلق ہوتا تھا، حجۃ الوداع کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ رورہی ہیں، وجہ پوچھی تو بولیں کہ میں ضرورت نسوانی سے معذور ہوں لوگ دودوفرض(حج اورعمرہ) کا ثواب لے کر جاتے ہیں اور میں صرف ایک کا، فرمایا کوئی حرج نہیں خدا تم کو عمرہ کا ثواب بھی عطا فرمائے گا، چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کو ساتھ کردیا، اورمقام تنعیم میں جاکر انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور آدھی رات کو فارغ ہوکر آئیں۔ (بخاری، ابواب العمرۃ ) (مسلم،بَاب بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ،حدیث نمبر:۲۱۱۵) قربانی کرنا صحابہ کرامؓ نہایت پابندی اورنہایت شوق کے ساتھ قربانی کرتے تھے، ایک بار حضرت ابوکباش ؓ تجارت کی غرض سے کچھ بکریوں کے بچے لائے ؛لیکن کسی نے نہیں پوچھا وہ حضرت ابو ہریرہؓ سے ملے اوراس کے جواز وعدم جواز کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے: ونعمت الاضحیۃ الجذع بکری کا بچہ قربانی کے لیے کس قدر موزوں ہے یہ سننا تھا کہ صحابہ نے ہاتھوں ہاتھ گلے کو خریدلیا۔ ( ترمذی ،کتاب الاضاحی ،باب فی الجذع من بضان فی الاضاحی،حدیث نمبر:۱۴۱۹) ایک بار حضرت اسود بن ہلالؓ مدینہ میں بہت سے اونٹ لے کر آئے مسجد میں گئے تو دیکھا کہ حضرت عمرؓ تقریر کررہے ہیں اور لوگوں کو حج کرنے اورہدی لے جانے کی ترغیب دے رہے ہیں وہ مسجد سے نکلے تو ہر شخص نے ایک ایک اونٹ خرید لیا اوروہ مالا مال ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ اسود بن ہلالؓ) (ابواب الجہاد) شوق ِجہاد اسلام کے فرائض واعمال میں جہاد سب سے زیادہ سخت ہے ؛لیکن صحابہ کرام کو جہاد کا اس قدر شوق تھا کہ حضرت زبیرؓ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے حضرت عثمانؓ کے عہد تک برابر جہاد ہی میں مشغول رہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب برکۃ الغازی فی مالہ حیا وفیاً،حدیث نمبر:۲۸۹۷) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے شرکت جہاد کے لیے عام منادی کرائی ایک صحابی نہایت بوڑھے تھے اورخدمت کے لیے ان کے پاس کوئی خادم بھی نہ تھا، تاہم اس قدر شوق جہاد رکھتے تھے، کہ شریک جہاد ہوئے اورخدمت کے لیے تین دینار کی اجرت پر ایک شخص کو ساتھ لیتے گئے۔ (ابوداؤد،کتاب الجہاد، بَاب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو بِأَجْرِ الْخِدْمَةِ،حدیث نمبر:۲۱۶۵) بی بی اورجائداد سب کو عزیز ہوتے ہیں، لیکن شوقِ جہاد میں بعض صحابہؓ نے ان کو بھی الگ کردیا تھا، حضرت سعد بن ہشامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی اور مدینہ آیا کہ وہاں کی جائداد کو بیچ کر ہتھیار خریدوں اورجہاد کروں؛ لیکن چند صحابہ ملے اورانہوں نے کہا کہ ہم میں بھی چھ شخصوں نے یہی ارادہ کیا تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے منع فرمادیا۔ (ابوداؤد ،کتاب الصلوٰۃ، باب فی صلوٰۃ اللیل،حدیث نمبر:۱۱۴۴) شوق شہادت عہد نبوت میں شہادت ایک ابدی زندگی خیال کی جاتی تھی، اس لیے ہر شخص اس آب حیات کا پیاسا رہتا تھا، حضرت ام ورقہ بنتؓ نوفل ایک صحابیہ ؓ تھیں، جب بدر کا معرکہ پیش آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ مجھ کو شریک جہاد ہونے کی اجازت عطا فرمائیے، میں مریضوں کی تیمارداری کروں گی،شاید مجھے وہ درجۂ شہادت حاصل ہوجائے؛ لیکن آپ نے فرمایا گھر ہی میں رہو، خدا تمہیں شہادت دے گا، یہ معجزانہ پیشن گوئی کیونکر غلط ہوسکتی تھی؟ انہوں نے ایک لونڈی اورایک غلام مدبر ،(مدبران غلاموں کو کہتے ہیں جن سے آقا یہ کہہ دے کہ اس کی موت کے بعد آزاد ہوجائیں گے) کیے تھے جنہوں نے ان کو شہید کردیا کہ جلد آزاد ہوجائیں۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب امامۃ النساء،۵۰۰) رسول اللہ ﷺ پر ایک بدوایمان لایا اورآپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے پرا ٓمادگی ظاہر کی؛ لیکن آپ ﷺ نے اس کو بعض صحابہؓ کے سپرد کردیا،جن کے اونٹ وہ چرایا کرتا تھا؛ لیکن جب ایک غزوہ میں مال غنیمت ہاتھ آیا، اور آپ ﷺ نے اس کا بھی حصہ لگایا تو اس نے کہا میں اس لیے ایمان نہیں لایا، میں اس لیے حلقہ اسلام میں داخل ہوا ہوں کہ میرے حلق میں تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوں، تھوڑی دیر کے بعد معرکہ کا رزار گرم ہوا تو وہ ٹھیک حلق پر تیر کھا کر شہید ہوا، صحابہ کرام ؓ لاش کو آپ کے سامنے لائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ، اس نے خدا کی تصدیق کی تو خدانے بھی اس کی تصدیق کی ،یہ کہہ کر خود اپنا جبہ کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ (نسائی، کتاب الجنائز، باب الصلوۃ علی الشہداء،۱۹۲۷) غزوۂ اُحد میں ایک صحابی نے آپ سے پوچھا، اگر میں شہید ہوجاؤں تو میرا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ ارشاد ہوا کہ "جنت میں" کھجوریں ہاتھ میں تھیں، ان کو پھینکا اورلڑکر شہید ہوئے۔ غزوۂ بدر میں جب مشرکین مکہ قریب آگئے تو آپ نے صحابہ کرامؓ کی طرف خطاب کرکے فرمایا، اٹھو اوروہ جنت لو جس کا عرض آسمان اورزمین کے برابر ہے، حضرت عمیر بن الحمام انصاریؓ نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ ،آسمان و زمین کے برابر ارشاد ہوا، ہاں بولے واہ واہ ،فرمایا ،واہ واہ کیوں کہتے ہو؟ بولے ،صرف اس امید میں کہ شاید میں بھی اس میں داخل ہوسکوں، ارشاد ہوا کہ ،تم داخل ہوگے، اس سوال وجواب کے بعد انہوں نے جھولی سے کھجوریں نکالیں اورکھانے لگے،پھر شوق شہادت نے جوش مارا اوربولے کہ اتنا وقفہ بھی جس میں یہ کھجوریں کھاسکوں میرے لیے بہت ہے، یہ کہہ کر کھجوروں کو پھینکا میدان میں گئے لڑے اورشہید ہوئے۔ حضرت انسؓ کے چچا غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے اس لیے ہمیشہ یہ کانٹا ان کے دل میں کھٹکاکرتاتھا،غزوۂ احد پیش آیا تو اس میں اس جانبازی کے ساتھ لڑکر شہید ہوئے کہ ان کی بہن کا بیان ہے کہ تیر، نیزے اورتلوار کے اسی زخم سے زیادہ جسم پر تھے میں نے صرف انگلیوں سے ان کو پہچانا۔ ایک بار ایک صحابی نے معرکہ جنگ میں یہ روایت کی کہ جنت کے دروازے تلوار کے سایہ کے نیچے ہیں، ایک صحابی اُٹھے اورکہا تم نے اس کو رسول اللہ ﷺسے سنا ہے بولے ہاں ،وہ وہاں سے اُٹھ کر اپنے رفقا کے پاس آئے اورسلام کرکے ان سے رخصت ہوئے تلوار کا میان توڑ کر پھینک دیا اوردشمن کی صف میں گھس کر لڑے اورشہید ہوئے۔ (مسلم ،کتاب الامارۃ، باب ثبوۃ للشہید،حدیث نمبر:۳۵۱۸،۳۵۲۰،۳۵۲۳،۳۵۲۱) حضرت عبداللہ بن ثابتؓ کو طاعون ہوا، رسول اللہ ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے تو آثارِ موت طاری ہوچکے تھے،عورتیں رونے پیٹنے لگیں، ان کی صاحبزادی روتی تھیں اورکہتی تھیں کہ، مجھے توقع یہ تھی کہ آپ شہید ہوں گے آپ نے جہاد کا سامان مکمل بھی کرلیا تھا،آپ نے فرمایا ان کو نیت کا ثواب مل چکا ۔ (ابوداؤد ،کتاب الجنائز، باب فضل من مات فی الطاعون،حدیث نمبر:۲۷۰۴) حضرت عمروبن الجموحؓ ایک بوڑھے اورلنگڑے صحابی تھے،غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے لنگڑا پن کی وجہ سے ان کو مدینہ ہی میں چھوڑدیا تھا، لیکن غزوۂ اُحد میں انہوں نے بیٹوں سے کہا کہ، مجھے میدان جہاد میں جانے دو، سب نے کہا آپ کو تو رسول اللہ ﷺ نے معاف کردیا ہے، بولے ، افسوس تم نے مجھے بدر میں جنت سے محروم رکھا اوراب احد میں بھی محروم رکھنا چاہتے ہو؟ یہ کہہ کر روانہ ہوئے جب لڑائی کا وقت آیا تو بولے: یا رسول اللہ! اگر میں شہید ہوجاؤں تو اسی طرح لنگڑاتا ہوا جنت میں پہنچ جاؤں گا، ارشاد ہوا"ہاں"یہ سن کر آگے بڑھے، لڑے اورشہید ہوئے۔ (اسد الغابۃ، سليم مولى عمرو بن الجموح،۱/۴۷۵شاملہ) خلوص فی الجہاد صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب میں خلوص سب سے زیادہ نمایاں چیز ہے، حضرت ولید بن ولیدؓغزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے اورفدیہ دے کر رہائی پائی،فدیہ اداکرنے کے بعد مکہ کو روانہ ہوئے اورذوالحلیفہ تک پہنچ کر واپس گئے اوراسلام لائے ،ا س پر ان کے بھائی خالد نے کہا کہ اگر اسلام ہی لانا تھا تو فدیہ دینے سے پہلے ہی اسلام لاتے کہ فدیہ سے بچ جاتے، بولے میں اس لیے فدیہ دینے کے بعد اسلام لایا کہ قریش یہ نہ کہیں کہ فدیہ سے بچنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ ولید بن ولیدؓ۴/۱۳۲شاملہ) جہاد میں اس خلوص کا اظہار اوربھی شدت سے ہوتا تھا، حضر عمروبن اقیشؓ غزوہ ٔاحد کے زمانہ تک کافر تھے احد کا معرکہ پیش آیا تو اللہ تعالی نے ان کو بھی ہدایت دی اورگھر میں آکر کہا کہ میرے چچا زاد بھائی کہاں ہیں؟ فلاں کہاں ہیں؟ فلاں کہا ہیں؟ لوگوں نے احد کا نام لیا تو زرہ پہن کر گھوڑے پر سوار ہوئے اوراحد کا راستہ لیا صحابہ کرام نے دیکھا تو کہا کہ ہم سے الگ رہو، بولے کہ میں تو ایمان لاچکا یہ کہہ کر کفار پر حملہ شروع کردیا اورزخمی ہوکر گھر واپس آئے، حضرت سعد بن معاذ ؓ نے ان کی بہن سےپوچھا بھیجا کہ جہاد کی شرکت حمیت قومی کے لیے تھی یا خدا کی راہ میں بولے صرف خدا اوررسول اللہ کی حمایت کے لیے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی من یسلم ویقتل مکانہ فی سبیل اللہ تعالی،حدیث نمبر:۲۱۷۵) جب رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کی شرکت کے لیے منادی کرائی تو حضرت واثلہ بن اسقع ؓ تمام مدینہ میں پکارتے پھرے کہ کون اس شخص کو سواری دیتا ہے جو اپنی غنیمت کا حصہ اس کے صلے میں دینے کے لیے تیار ہے؟ ایک بڈھے انصاری نے جواب دیا کہ میں دیتا ہوں، وہ راضی ہوگئے اوران کے ساتھ چل کھڑے ہوئے، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو ان کے حصہ میں چند نوجوان اونٹنیاں آئیں، اورانہوں نے اونٹنیوں کو لاکر انصاری بزرگ کے سامنے کھڑا کردیا ،بولے ذرا ادھر ادھر پھراکے تو دکھاؤ، انہوں نے ان کو آگے بڑھایا پھرپیچھے ہٹایا ،دیکھ بھال کے بولے، نہایت عمدہ ہیں، انہوں نے کہا، شرط کے موافق تو یہ آپ ہی کی ہیں، بولے اپنی اونٹنیاں لیجاؤ، ہمارا مقصود تمہارا یہ حصہ نہ تھا؛ بلکہ اور کچھ تھا ۔(یعنی ثواب جہاد میں شرکت) (ابوداؤد، بَاب فِي الرَّجُلِ يَكْرِي دَابَّتَهُ عَلَى النِّصْفِ أَوْ السَّهْمِ،حدیث نمبر:۲۳۰۱) عمل بالقرآن آج ہر مسلمان قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے عقائد، احکام، اخلاق، معاش اور معاد کے متعلق تمام آیتیں اس کی نگاہ سے گذرتی ہیں؛لیکن چونکہ دل سے اثر پذیری کا مادہ مفقود ہوچکا ہے، اس لیے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی؛ لیکن صحابہ کرامؓ کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی ان پر قرآن مجید کی ایک ایک آیت کا اثر پڑتا تھا اوراس شدت کے ساتھ پڑتا تھا کہ اُس کے خوف سے ہمیشہ کا نپتے رہتے تھے۔ ایک سفر میں حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بار بار ایک سوال کیا ،جواب نہ ملا تو آگے نکل گئے اوردل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہوجائے تھوڑی دیر کے بعد دربارِ نبوت سےپکار ہوئی اوروہ گھبراگئے کہ آیت نازل ہوگئی،حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے یہ آیت سنائی: "إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا" (الفتح:۱) (بخاری ،کتاب المغازی ،غزوۃ الحدیبیہ،حدیث نمبر:۳۸۵۹) ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دی۔ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو تمام صحابہ سخت اضطراب میں مبتلا تھے، حضرت عمرؓ کو آپ کے وصال کا یقین ہی نہیں آتا تھا؛ لیکن جب حضرت ابوبکر ؓ نے خطبہ دیا اوراس میں یہ آیت پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران:۱۴۴) محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف پیغمبر ہیں اوران کے پیشتر بہت پیغمبر گذرچکے ہیں۔ تو صحابہ ؓ پر یہ اثر ہواکہ گویایہ آیت اس سے پیشتر نازل ہی نہیں ہوئی تمام صحابہ ؓ نے اس کو از برکرلیا اورسب کے سب اس کو پڑھنے لگے،حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ جب میں نے ابوبکرؓ سے اس آیت کو سناتو زمین میرے پاؤں کے نیچے سے نکل گئی اورمیں زمین پر گر پڑا۔ (بخاری ،باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ،حدیث نمبر:۴۰۹۷) حضرت سعدؓ غزوہ بدر میں ایک تلوار لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آج دشمن کے خون سے خدانے میرے کلیجہ کو ٹھنڈا کیا ہے، اس لیے یہ تلوار مجھے عطا فرمایے، ارشاد ہوا کہ یہ نہ تمہاری ہے نہ میری وہ دل میں یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ تو اس کو دی جائے گی جس نے مجھ جیسا مردانہ کام نہیں کیا ہے، تھوڑی دیر کے بعد آپ کا قاصد آیا وہ گھبرائے کہ میری اس گفتگو پر کہیں کوئی آیت تونہیں نازل ہوئی ،آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے یہ آیت سنائی۔ "يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ" (الانفال:۱) لوگ تم سے مال غنیمت کا حکم دریافت کرتے ہیں کہ دو مالِ غنیمت تو خدا اوررسول ﷺ کا ہے۔ اور فرمایا کہ خدانے یہ تلوار مجھ کو دی ہے مگر میں تم کو دیتا ہوں۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی النفل،حدیث نمبر:۲۳۶۱) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ عہد نبوت میں ہم لوگ اس خوف کے مارے عورتوں سے ہنسی خوشی کی باتیں نہیں کرتے تھے کہ مبادا اس بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہو جائے؛ لیکن آپ کے وصال کے بعد یہ مہر خموشی ٹوٹ گئی۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ دفنہ ﷺ ،حدیث نمبر:۱۶۲۲وبخاری ،کتاب النکاح، بَاب الْوَصَاةِ بِالنِّسَاءِ،حدیث نمبر:۴۷۸۸) ایک دن رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے،حضرت ابو ذر غفاریؓ آگئے تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا "هم الأخسرون" یعنی وہ لوگ گھاٹے میں ہیں وہ گھبراگئے کہ میرے بارے میں کوئی آیت تو نازل نہیں ہوئی۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب التغلیظ فی حبس الزکوٰۃ،حدیث نمبر:۲۳۹۷) ایک بار آپ نے نماز صبح کے بعد فرمایا کہ فلاں قبیلے کا کوئی شخص موجود ہے؟ کسی نے جواب نہیں دیا دوسری بار اسی فقرہ کا اعادہ کیا تو ایک شخص اٹھا آپ نے فرمایا کہ پہلی بارکیوں نہیں اُٹھے؟ بولا مجھے خوف پیدا ہوا کہ اس قبیلے کے متعلق کوئی آیت تو نہیں نازل ہوئی۔ (اسد الغابہ، تذکرہ وہب والد عثمان بن وھب،۳/۱۱۲) بالخصوص جن آیتوں میں کسی فعل پر عذاب کی دھکمی دی جاتی تھی،صحابہ کرامؓ ان سے اوربھی خوف زدہ ہوتے تھے،چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی : "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ" (التوبۃ:۳۴) جو لوگ چاندی اورسونا جمع کرتے ہیں۔ تو تمام صحابہ پر گویا ایک مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا،حضرت عمرؓ نے صحابہ کی بدحواسی کا یہ عالم دیکھ کر کہا میں تمہاری مشکل کو حل کرتا ہوں چنانچہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آپ کے اصحاب پر یہ آیت نہایت گراں گذری ہے، آپﷺنے فرمایا ،خدا نے زکوٰۃ صرف اس لیے فرض کی ہے کہ تمہارے بقیہ مال کو اس کے ذریعہ سے پاک کرے اورمیراث اس لیے مقرر کی ہے کہ بعد کی نسل کے ہاتھ آئے، اس پر حضرت عمرؓ نے نعرہ مارا۔ (ابوداؤد،کتاب الزکوٰۃ، باب فی حقوق المال ،حدیث نمبر:۱۴۱۷) عہد رسالت میں حضرت مالکؓ بن ثعبلہ ایک دولتمند صحابی تھے،ایک دن رسول اللہ ﷺ اس آیت کی تلاوت فرمارہے تھے: "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ" جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں، ان پر یہ عذاب ہوگا۔ اتفاق سے حضرت مالک ؓ کا گذر ہوا تو آیت سن کر ان پر غشی طاری ہوگئی ،ہوش میں آئے تو خدمتِ مبارک میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یا رسول اللہ میرے باپ ماں آپ پر قربان کیا یہ آیت ان لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں؟ ارشاد ہوا ہاں بولے شام ہونے تک مالکؓ کے پاس ایک درہم اور ایک دینار نہ ہوگا، چنانچہ شام تک انہوں نے اپنی کل دولت خیرات کردی۔ (اسد الغابہ، تذکرہ مالک بن ثعلبہؓ،حدیث نمبر:۲/۴۵۶) ایک بار حضرت عائشہؓ نے آپ ﷺسے فرمایا کہ قرآن مجید کی یہ آیت نہایت سخت ہے۔ "مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ" (نساء:۱۲۳) جو شخص ذرا بھی برائی کریگا اسکو اسکا بدلا دیا جائے گا۔ ارشاد ہوا کہ عائشہ تم کو یہ خبر نہیں کہ مسلمان کے پاؤں میں اگر ایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو وہ اس کے اعمال بد کا بدلہ ہوتا ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الجنائز، باب امراض المکفرۃ للذنوب،حدیث نمبر:۲۶۸۹) جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: "وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّه" (بقرہ:۲۸۴) اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرویا چھپاؤ خدا تم سے ان کا حساب لے گا۔ تو تمام صحابہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور گھٹنوں کے بل بیٹھ کرعرض کیا کہ یا رسول اللہ نماز،روز، جہاد اورصدقہ کی توہم طاقت رکھتے ہیں؛ لیکن اس آیت کے متحمل نہیں ہوسکتے؛ چنانچہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا" (بقرۃ:۲۸۶) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، بَاب بَيَانِ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَمْ يُكَلِّفْ إِلَّا مَا يُطَاقُ، ہم نے روایت کی پوری آیتوں کو نقل نہیں کیا ہے،حدیث نمبر:۱۷۹) خدا ہر شخص کو بقدر استطاعت تکلیف دیتا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ "الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ" (الانعام:۸۲) جولوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا،ان ہی کے لیے امن ہے اوروہی ہدایت یافتہ ہیں۔ تو تمام صحابہ پریشان ہوگئے اورعرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم میں کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا، فرمایا،ظلم سے شرک مراد ہے۔ (ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، تفسیر سورہ انعام،حدیث نمبر:۲۹۹۳) اس اثرپذیر ی کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ احکام قرآنیہ پر عمل کرنے کے لیے شدت کے ساتھ تیار ہوجاتے تھے،جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (آل عمران:۹۲) تم لوگ جب تک اپنی محبوب ترین چیزوں کو نہ صرف کروگے نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے۔ تو حضرت ابوطلحہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ خدا ہمارا مال مانگتا ہے آپ گواہ رہیے کہ اریحا میں میری جو زمین ہے میں اس کے نام پر وقف کرتا ہوں، لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کو اپنے رشتہ داروں پر تقسیم کردو۔ (ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی صلۃ الرحم،حدیث نمبر:۱۴۳۹) حضرت ابوحذیفہ ؓ بن عتبہ نے حضرت سالم ؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اورزمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق ان کو حقیقی بیٹوں کے حقوق حاصل ہوگئے تھے، لیکن جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی "ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ" تو ان کی بی بی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ ہم سالم کو اپنا لڑکا سمجھتے تھے اور وہ ہمارے ساتھ گھر میں رہتے تھے اوران سے کوئی پردہ نہ تھا لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اب آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ ان کو دودھ پلادو، چنانچہ دودھ پلانے سے وہ ان کے رضاعی بیٹے کے مثل ہوگئے۔ (ابوداؤد،کتاب النکاح،باب فی من حرم بہ،حدیث نمبر:۱۷۶۴) سحر ی کے متعلق جب یہ آیت نازل ہوئی: " حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَد" (البقرۃ:۱۸۷) یہاں تک کہ رات کی کالی دھاری سے صبح کی سفید دھاری تم کو صاف دکھائی دینے لگے۔ تو حضرت عدی بن حاتمؓ ایک سیاہ اور سفید دھاگا سرہانے رکھ کر سوئے اوردیکھا کہ دونوں ممتاز ہوتے ہیں یا نہیں؟ کچھ پتہ نہ چلا، تو رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا، آپ نے فرمایا، عجیب سادہ لوح ہو، اس سے رات دن یعنی رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی مراد ہے۔ (ابوداؤد ،کتاب الصیام،باب وقت السحور،حدیث نمبر:۲۰۰۲) جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: "لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ" (نساء:۲۹) اپنے مال باہم ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تم میں رضا مندی کے ساتھ تجارت ہو۔ تو یہ حالت ہوگئی کہ دولت مند لوگ اپنے اعزہ کو شریک طعام کرنا چاہتے تھے،مگر وہ لوگ انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ "غربا ہم سے زیادہ مستحق ہیں" چنانچہ سورہ ٔنور کی ایک دوسری آیت نے اس کو منسوخ کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الاطعمہ، باب فسخ الضیف یا کل من مال غیرہ،حدیث نمبر:۳۲۶۱) زمانۂ جاہلیت میں عرب کی عورتیں دوپٹہ اوڑھتی تھیں تو سینہ اور سروغیرہ کھلا رہتا تھا؛ لیکن خداوند تعالی نے اس کے مخالف مسلمان عورتوں کو یہ ہدایت کی۔ (تفسیر ابن کثیر سورہ نور) "وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ" (نور:۳۱) عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں کو سینے پر ڈالے رہیں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں نے اپنے تہ بندوں اور چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سروں کو اس طرح چھپا لیا کہ حضرت عائشہؓ کے قول کے مطابق یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہوئے ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ تعالی یدنین علیہن من جلابیہن وفی قولہ تعالی ولیضربن بجزہن علی جوبہن،۳۵۷۷،۳۵۷۸) رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ ناپ تول میں سخت خیانت کرتے تھے، اس پر سورہ "وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ" نازل ہوئی اوراب لوگ دیانت سے کام لینے لگے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب البیوع ،باب التوقی فی الکیل والوزن،حدیث نمبر:۲۲۱۴) اصحاب صفہ کی معاش کا زیادہ تر دارومدارصحابہ کی فیاضی پر تھا؛ چنانچہ انصار حسب مقدور کھجور کے خوشے لاکر مسجد میں لٹکادیتے تھے، یہ لوگ آتے تھے تو چھڑی سے ان کو ہلاتے تھے، جو کھجوریں ٹپک پڑتی تھیں ان کو کھالیتے تھے؛لیکن ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو سڑے گلے روکھے پھیکے خوشے لاکر لٹکا دیتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ" (البقرہ:۲۶۷) مسلمانو! اپنی بہترین کمائی اوربہترین پیداوار سے صدقہ دو، برے مال کو خیرات نہ کرو ؛حالانکہ وہی چیز کوئی تم کو دے تو تم اس کو کبھی نہ لو مگر چشم پوشی کے ساتھ۔ اور اس کے بعد اس حالت میں انقلاب پیدا ہوگیا اورتمام لوگ بہترین کھجوریں لانے لگے۔ (ترمذی ،ابواب تفسیر القرآن، تفسیر سورۂ بقرۃ،حدیث نمبر:۲۹۱۳) جب یہ آیت نازل ہوئی: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ" (الحجرات:۲) مسلمانو!پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔ حضرت عمرؓ آپ کے سامنے اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ ان کی بات سننے میں نہیں آتی تھی۔ (ترمذی ،ابواب القرآن، تفسیر سورہ حجرات،حدیث نمبر:۳۱۸۹ وبخاری ،کتاب التفسیر،حدیث نمبر:۶۷۵۸) حضرت ثابت بن قیسؓ پر اس آیت کا اوربھی زیادہ سخت اثر ہوا جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ بالکل خانہ نشین ہوگئے ایک روز آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ سے فرمایا کہ وہ کہیں بیمار تو نہیں ہیں؟ بولے میں ان کا پڑوسی ہوں، مجھے کوئی شکایت معلوم نہیں ہوئی، واپس آکر ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو بولے کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے اور تم لوگوں کو معلوم ہے کہ میں آپ کے سامنے نہایت بلند آہنگی سے گفتگو کرتا تھا، پس میں دوزخی ہوگیا، آپ کو خبر ہوئی تو فرمایا نہیں وہ جنتی ہیں۔ (مسلم ،کتاب الایمان ،باب مخافۃ المومن ان یحبط عملہ،حدیث نمبر:۱۷۰ وبخاری کتاب التفسیر،حدیث نمبر:۴۴۶۸) حضرت مسطح ؓ حضرت ابوبکرؓ کے رشتہ دار تھے، اس لیے وہ ان کی کفالت کرتے تھے؛ لیکن جب انہوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو انہوں نے ان کی کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ" (النور:۲۲) تم میں دولتمند لوگ قرابتداروں،مسکینوں اورمجاہدوں کو دینے سے دریغ نہ کریں اور عفودرگذرکریں ،کیا تم لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ خدا تمہاری مغفرت کرے اورخدا مغفرت کرنے والا اوررحم کرنے والا ہے۔ اوراب حضرت ابوبکرؓ پھر ان کے مصارف کے کفیل ہوگئے اورکہا ہاں مجھے یہی پسند ہے کہ خدا میری مغفرت کرے۔ (بخاری، کتاب الشہادات ،باب تعدیل النساء بعضہن بعضا،حدیث نمبر:۲۴۶۷) اسلام کے فرائض واعمال میں جہاد سب سے زیادہ خطرناک ہے ؛لیکن صحابہ کرام کو قرآن مجید ہی کے اثر نے جہاد پر آمادہ کیا تھا اوراسی اثر کی بدولت وہ سخت سے سخت جنگی خطرات میں ثابت قدم رہتے تھے۔ ایک بار قسطنطنیہ میں رومیوں سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا رومی بالکل قسطنطنیہ کی دیوار کے متصل صف زن تھے، ایک مسلمان نے جرأت کرکے حملہ شروع کیا تو لوگ پکارے ہاں ہاں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہو؟ حضرت ابو ایوب ؓ انصاری جو ساتھ تھے بولے یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اسلام نے قوت حاصل کرلی تو ہم لوگ اپنی معاش کے کام دھندے میں مصروف ہوگئے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ "وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (البقرۃ:۱۹۵) اورخدا کی راہ میں خرچ کرو اوراپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس لیے اصلی ہلاکت یہ ہے کہ ہم معاش کے کاروبار میں مصروف ہوجائیں اورجہاد کو چھوڑدیں راوی کا بیان ہے کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمیشہ مصروف جہاد رہے، یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں شہید ہوکر مدفون ہوگئے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی قولہ تعالی ولا تلقوابایدیکم الی التہلکہ،حدیث نمبر:۲۱۵۱) ایک بار جب رومیوں نے مسلمانوں کے مقابل میں ایک لشکر گراں جمع کیا اورحضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے حضرت عمرؓ کو اس خطرہ کی اطلاع کی تو انہوں نے ان کو لکھا کہ مسلمان بندے پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو اس کے بعد خدا اس کو دور کردیتا ہے، ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی ،خداوند تعالی اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" (آل عمران:۲۰۰) مسلمانو !مصیبتوں پر صبر کرو اورصبر میں کفار کا مقابلہ کرو اوراستقلال کے ساتھ جہاد کرو اورخدا سے ڈرو یقین ہے کہ تم کامیاب ہو۔ (موطا مالک، کتاب الجہاد، باب الترغیب فی الجہاد،حدیث نمبر:۸۵۴) جنگ یمامہ میں جب حضرت سالمؓ کو علم عطا کیا جانے لگا تو دوسروں نے کہا کہ ہم کو آپ کے ثابت قدم رہنے کا یقین نہیں اس لیے جھنڈا دوسرے کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں، بولے تو میں اس حالت میں قرآن مجید کا بدترین حامل ہوں گا، چنانچہ انہوں نے علم کو داہنے ہاتھ میں لیا؛ لیکن جب وہ کٹ گیا تو بائیں ہاتھ میں لیا، وہ بھی کٹ گیا تو علم کو آغوش میں لے لیا اوریہ آیت پڑھنے لگے: "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ" (عمران:۱۴۴) محمد ﷺ صرف ایک پیغمبر ہیں۔ "وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ" (آل عمران:۱۴۶) (اسد الغابہ، تذکرہ سالم مولی ابی حذیفہ ،۱/۴۱۰شاملہ) (اسد الغابہ میں پوری آیتیں نقل نہیں کی ہیں بیچ کی آیتیں چھوڑدی ہیں اورہم نے اسی کا اتباع کیاہے) اوربہت سے پیغمبر گذرے ہیں جن کے ساتھ ہوکر بہت سے علماء نے جہاد کیا۔ ترغیب ِجہاد کے متعلق جب کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو جولوگ کسی معذوری سے اس میں شریک نہیں ہوسکتے تھے ان کو اس پر سخت افسوس ہوتا تھا ایک بار حضرت زید بن ثابت آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ پر آثار وحی طاری ہوئے، افاقہ ہوا تو آپ نے ان کو اس آیت کولکھ لینے کا حکم دیا: "لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" (النساء:۹۵) خداکی راہ میں جہاد کرنے والے اورگھر میں بیٹھے رہنے والے مسلمان برابر نہیں ہوسکتے۔ حضرت ابن ام مکتومؓ آنکھوں سے معذور تھے، اس لیے شریک جہاد نہیں ہوسکتے تھے، جب انہوں نے مجاہدین کی فضیلت سنی تو بولے کہ یا رسول اللہ جو لوگ جہاد کی قدرت نہیں رکھتے ،ان کا کیا مآل ہوگا؟ اب آپ پر دوبارہ آثار وحی طاری ہوئے، افاقہ ہوا تو دوبارہ وحی آسمانی نے غیرا ولی الضرر(بجز معذور لوگوں کے) کا اضافہ کرکے معذورلوگوں کو مستثنی کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرخصہ فی القعود من العذر،حدیث نمبر:۲۱۴۶) ایک طرف تو قرآن مجید کا یہ اثر تھا کہ جس طرف چاہتا تھاصحابہ کرام کو جھونک دیتا تھا اوردوسری طرف جس چیز سے چاہتا تھاروک بھی دیتا تھا ایک بار عیینہ بن حصین اپنے بھتیجے حربن قیس کے ساتھ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ ہم کو خوب عطیہ نہیں دیتے ،ہمارے درمیان انصاف نہیں کرتے، اس پر حضرت عمرؓ سخت برہم ہوئے ان کو سزا دینی چاہی؛ لیکن حضرت حربن قیسؓ نے کہا یا امیرالمومنین خدا نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا تھا۔ "خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" (الاعراف:۱۹۹) درگذرکاشیوہ اختیار کرلے اورنیکی کاحکم دے جاہلوں سے کنارہ کش رہ اوریہ بھی ایک جاہل ہے،یہ آیت سن کر حضرت عمرؓ فوراً رک گئے کیونکہ وہ عموماً کان وقافا عند کتاب اللہ خدا کی کتاب کے سامنے اسی طرح رک جاتے تھے۔ (بخاری ،کتاب التفسیر، باب قولہ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُربِالْعُرْفِ،حدیث نمبر:۴۲۷۶) اتباعِ سنت قرآن مجید کے بعد صحابہ کرام کا محورِ عمل صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات تھی، اس لیے وہ تمام اعمال میں آپ کی سنت کا اتباع کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جب غسل جنابت فرماتے تو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات بار پانی ڈالتے ،پھر شرمگاہ کو دھوتے، اوران تمام مراتب کے بعد وضو کرکے تمام جسم پر پانی ڈال کر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح غسل فرماتے تھے۔ (ابوداؤد ،کتاب الطہارۃ، باب فی الغسل من الجنابۃ،حدیث نمبر:۲۱۴) عہد نبوت میں معمول تھا کہ لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں ،یاپنیر یا جو یا کھجوریا منقے دیتے تھے، لیکن اخیر زمانہ میں حضرت امیر معاویہ ؓ شام سے حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے آئے تو ایک خطبہ میں فرمایا کہ میرے خیال میں دومد شامی گیہوں کھجورکے ایک صاع کے برابر ہے اس کے بعد تمام لوگوں نے اس طریقہ کو عملا اختیار کرلیا؛لیکن حضرت ابو سعید خدریؓ نے عہد نبوت کی سنت کو بدلنا پسند نہیں کیا اوربرابر ایک صاع صدقہ فطر نکالتے رہے۔ (ابوداؤد،کتاب الزکوٰۃ، باب کم یودی فی صدقۃ الفطر،حدیث نمبر:۱۳۷۷) حالت سفر میں اگرچہ آپ نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے تاہم آپ نے زیادہ تر افطار کی ترغیب دی ہے اس لیے اکثر صحابہ شدت سے اس پر عمل کرتے تھے، ایک بار حضرت ابو بصرہ غفاری رمضان میں مصر سےکشتی میں سوار ہوئے، ابھی مصر کے درودیوار آنکھ سے اوجھل بھی نہ ہوئے تھے کہ کھانا طلب کیا، دسترخوان سامنے آیا تو بعض ہمراہیوں نے کہا کہ آپ مصر کے درودیوار کو بھی نہیں دیکھتے، بولے تم سنت نبوی سے اعراض کرتے ہو۔ (مسند احمد،حدیث ابی بصرہ الغفاری،حدیث نمبر:۲۵۹۷۳) رسول اللہ ﷺ کی سنت کے اتباع میں تمام صحابہ ؓ سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ خاص طورپر ممتاز تھے ،رسول اللہ ﷺ جب سفر حج سے واپس آئے تو مسجد کے دروازہ پر ناقہ کو بٹھا کر پہلے دورکعت نماز ادا فرمائی، پھر گھر کے اندر تشریف لے گئے، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی یہی معمول کرلیا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الصلوٰۃ عند القدوم من السفر،حدیث نمبر:۲۴۰۱) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کعبہ کے صرف دونوں یمانی رکنوں کو چھوتے تھے، سبتی جوتے پہنتے تھے، زرد رنگ کاخضاب لگاتے تھے (ابوداؤد،کتاب اللباس، فی باب الصبوغ) اور لوگ سپاند دیکھنے کے ساتھ ہی احرام باندھ لیتے تھے لیکن وہ یوم الترویہ کو احرام باندھتے تھے ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ صرف آپ ہی کیوں ایسا کرتے ہیں؟ آپ کے اوراصحاب نہیں کرتے ، بولے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے، اس لیے میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں، (ایضا کتاب المناسک باب وقت الاحرام) حجۃ الوداع میں آپ نماز عشاء کے بعد تھوڑی دیر تک مقام بطحا میں سوکر مکہ میں داخل ہوئے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ابھی ہمیشہ اس مقام پر کسی قدر سوتے تھے، پھر مکہ میں داخل ہوتے تھے، (ایضا کتاب المناسک باب التحصیب)اسی طرح آپ اس سفر میں جہاں جہاں اتر ے تھے یا نماز پڑھی تھی وہ بھی وہاں ضرور اتر تے اورنماز پڑھتے تھے۔ ایک بار وہ سفر میں تھے، دیکھا کہ کچھ لوگ نفل پڑھ رہے ہیں، رفیق سفر سے بولے کہ اگر مجھے نفل پڑھنا ہوتا تو میں نماز ہی نہ پوری پڑھتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا ہے، آپ نے دو رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھی، حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ سفر کیا ہے انہوں نے بھی دورکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھی، حضرت عمرؓ کے ساتھ سفر کیا ہے، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھی، اورخداوند تعالی فرماتا ہے۔ "لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ الله أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک میں تقلید کے لیے بہترین مثال ہے (ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ،باب التطوع فی السفر،حدیث نمبر:۱۰۳۴) ایک بار حضرت سعید بن یسارؓ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ سفر میں تھے، ایک موقع پر اونٹ سے اتر کر پیچھے ٹھہر گئے فرمایا تم پیچھے کیوں رہ گئے؟ بولے، وتر پڑھتاتھا، فرمایا کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں اسوۂ حسنہ نہیں ہے؟ آپ اونٹ ہی پر وتر ادا فرماتے تھے۔ ( ابن ماجہ ،کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی الوتر علی الراحلۃ،حدیث نمبر:۱۱۹۰) وہ صدقہ فطر اسی پیمانہ کے مطابق ادا فرماتے تھے جس کو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا تھا۔ (بخاری ،کتاب الایمان والنذر،باب صاع المدینہ ومدالنبی ﷺ وبرکتہ،حدیث نمبر:۶۲۱۹) سنن عادیہ واتفاقیہ کا اتباع اگرچہ ضروری نہیں ؛لیکن بعض صحابہ اس کا اتباع بھی کرتے تھے، حضرت ابوالدردا ؓ جب کوئی بات کہتے تھے تو مسکرادیتے تھے، ام الدردا نے کہا کہ اس عادت کو ترک کردیجئے، ورنہ لوگ آپ کو احمق بنائیں گے ، بولے میں نے رسول اللہ کو دیکھا ہے کہ جب کوئی بات کہتے سنتے تو مسکرادیتے تھے۔ (مسند ابن حنبل جلد ۵ :۱۹۸) ایک بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ سوار ہونے لگے تو رکاب میں بسم اللہ کہہ کر پاؤں رکھا پشت پر پہنچے تو الْحَمْدُ لِلَّهِ کہا، پھر یہ آیت پڑھی "سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ" پھر تین بار"اَلْحَمْدُ لِلہ" اورتین بار "اللَّهُ أَكْبَرُ" کہا اس کے بعد یہ دعا پڑھی"سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ" پھر ہنس پڑے لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی، بولے، ایک بار رسول اللہ ﷺ ان ہی پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اوراخر میں ہنس پڑے، میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے توخدا اس سے خوش ہوتا ہے۔ (ابوداؤد ،کتاب الجہاد، باب مایقول الرجل اذا رکب،حدیث نمبر:۲۲۳۵) ایک صحابی آپ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ کی قمیص کا تکمہ کھلا ہواہے ، آپ کی تقلید میں انہوں نے بھی عمربھر قمیص کا تکمہ کھلا رکھا اوراس میں سردی اورگرمی کی کچھ پرواہ نہ کی۔ (مسند ابن حنبل جلد ۵:۳۵)