انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عکاشہ بن محصن ؓ نام، نسب عکاشہ نام، ابو محصن کنیت، محصن بن حرثان کے نورنظر تھے، پوراسلسلہ نسب یہ ہے: عکاشہ بن محصن بن حرثان بن قیس بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ الاسدی۔ ایام جاہلیت میں بنی عبدشمس کے حلیف تھے۔ (اسد الغابہ :۴/۲) اسلام وہجرت مکہ میں قبل ہجرت بادۂ ایمان سے مخمور ہوئے، ساقیِ اسلامﷺ نے جب یثرب کا رخ کیا تو یہ بھی مدینہ پہنچے۔ ( اسد الغابہ:۴/۱۲) غزوات غزوۂ بدر میں غیر معمولی جانبازی وشجاعت کے ساتھ سرگرم کارزار تھے، ان کی تلوار ریزے ریزے ہوکر اُڑگئی تو آنحضرت ﷺ نے ان کو کھجور کی ایک چھڑی مرحمت فرمائی، جس نے خنجر خار شگاف بن کہ دشمن کا صفایا کردیا، وہ آخروقت تک اس سے لڑتے رہے یہاں تک کہ حق نے فتح پائی اورباطل مغلوب ہوا۔ (استیعاب تذکرۂ عکاشہ) اس معرکہ کے علاوہ احد، خندق اورتمام دوسری مشہور جنگوں میں جوش و پامردی کے ساتھ نبرد آزما تھے، ماہ ربیع الاول ۶ھ میں چالیس آدمیوں کی ایک جمعیت کے ساتھ بنواسد کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مدینہ کی راہ میں چشمہ غمر پر خیمہ لگائےہوئے تھے، حضرت عکاشہ نہایت تیزی کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے موقع پر جا پہنچے؛ لیکن وہ خائف ہوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے، اس لیے کوئی جنگ پیش نہ آئی، صرف دوسو اونٹ اوربھیڑ بکریاں گرفتار کرکے لے آئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :۶۱) شہادت ۱۲ھ میں خلیفہ اول ؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو طلیحہ کی بیخ کنی پر مامور فرمایا جس نے آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضرت عکاشہؓ اورحضرت ثابت بن اقرمؓ اس فوج کے آگے آگے طلیعہ کی خدمت انجام دے رہے تھے، اتفاقاً راہ میں غنیم کے سواروں سے مڈبھیڑ ہوگئی، جس میں خود طلیحہ اوراس کا بھائی سلمہ بن خویلد شامل تھا،طلیحہ نے حضرت عکاشہؓ پر حملہ کیا اورسلمہ حضرت ثابت بن اقرمؓ پر جاپڑا، وہ شہید ہوئے تو طلیحہ نے پکار کر کہا: "سلمہ!جلدی میری مدد کو آؤ، یہ مجھے قتل کیے ڈالتا ہے " وہ فارغ ہوچکا تھا، اس لیے یکا یک ٹوٹ پڑا اور دونوں نے اس شیر کو نرغہ میں لے کر شہید کردیا۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :۶۲) تجہیز وتکفین اسلامی فوج ظفر موج جب ان دونوں شہیدان ملت کے قریب پہنچی تو ایسے جواہر پاروں کے فقدان کا سب کو نہایت شدید قلق ہوا، حضرت عکاشہ ؓ کے جسم پر نہایت خوفناک زخم تھے اور تمام بدن چھلنی ہوگیا تھا، حضرت خالدؓ بن ولیدؓ امیر عسکر گھوڑے سے اتر پڑے اورتمام فوج کو روک کر اسی خون آلودہ پیراہن کے ساتھ زیر زمین دفن کیا۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :۶۲) فضل وکمال فضل و منقبت کے لحاظ سے اکابروسیادات صحابہؓ میں شمار تھا، صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: کان ممن سادات الصحابۃ وفضلا ئھم (اسدالغابہ :۴/۳) ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ستر ہزار آدمی بغیر حساب کتاب بخشدیئے جائیں گے ،انہوں نے معصومانہ سادگی کے ساتھ عرض کیا، یارسول اللہ !میں فرمایا تم بھی ان ہی میں ہو، اس پر ایک دوسرے شخص نے اپنی نسبت پوچھا تو ارشاد ہوا،"عکاشہؓ تم پر سبقت لے گیا، اس واقعہ کے بعد سے یہ جملہ ضرب المثل ہوگیا اورجب کوئی کسی پر سبقت لے جاتاتو کہتے "فلاں عکاشہؓ کی طرح سبقت لے گیا۔ ( بخاری)