انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۲۷۔سعید بن جبیرؒ نام ونسب سعید نام،ابوعبداللہ کنیت ،نبی والبہ بن حارث اسدی کے غلام تھے، اس نسبت سے وہ والبی کہلاتے تھے، ان کا شمار ان تابعین میں ہے،جو علم وعمل کے مجمع البحرین تھے۔ فضل وکمال سعید کا آغاز اگرچہ غلامی سے ہوا، لیکن آگے چل کر وہ اقلیم علم کے تاجدار بنے، حافظ ذہبی انہیں علمائے اعلام میں لکھتے ہیں (تذکرہ الحفاظ :۱/۶۵) امام نووی کا بیان ہے کہ سعید تابعین کے ائمہ کبار میں تھے،تفسیر،حدیث،فقہ،عبادت اورزہد وورع جملہ کمالات میں وہ کبار آئمہ اورسرکردہ تابعین میں تھے۔ (تہذیب الاسماء ،جلد اول،ق ۱،ص ۲۱۶) تعلیم سعید نے گو اس زمانہ میں ہوش سنبھالا،جب اکابر صحابہ کی بڑی تعداد اٹھ چکی تھی،پھر بھی باقیات صالحات میں عبداللہ بن عمرؓ،عبداللہ بن عباسؓ،عبداللہ بن زبیرؓ،ابوسعید خدریؓ،ابوہریرہؓ،عائشہ صدیقہؓ، اورانسؓ بن مالکؓ وغیرہ علمائے صحابہ موجود تھے،سعید بن جبیران کے فیضان علم سے پورے طور سے مستفید ہوئے (تہذیب التہذیب:۴/۱۱) خیر الامۃ عبداللہ بن عباس کے خرمن کمال سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ خوشہ چینی کی تھی۔ (ابن خلکان:۱/۲۰۴) عبداللہ بن عباسؓ کا حلقہ درس اتنا وسیع اورجامع تھا کہ اس میں قرآن ،تفسیر،حدیث،فقہ،فرائض،ادب وانشاء اورشعر وشاعری جملہ علوم وفنون کا دریا بہتا تھا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۳۸) سعید بن جبیر اس بحربے کراں سے زیادہ سیراب ہوئے،وہ نہایت پابندی سے اس حلقہ میں شریک ہوتے تھے ان کے تعلیم حاصل کرنے کا یہ طریقہ تھا کہ باہر کے سائلین جو سوالات کرتے تھے اورجو مسائل پوچھتے تھے اورابن عباس ان کے جو جوابات دیتے تھے،سعید خاموشی کے ساتھ ان کو سنا کرتے تھے اورکبھی کبھی خود بھی کچھ پوچھ لیتے تھے، ان سوالات میں حدیثیں بھی ہوتی تھیں اور فقہ کے مسائل بھی ہوتے تھے،لیکن انہیں قلمبند کرنے کے بارہ میں ابن عباسؓ کی ممانعت تھی، اس لیے کچھ دنوں تک ابن جبیر بغیر لکھے ہوئے زبانی یاد کرلیا کرتے تھے،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر لکھنے کی اجازت مل گئی تھی؛چنانچہ انہوں نے لکھنا شروع کردیا تھا،بعض بعض دن ا س کثرت سے مسائل پیش ہوئےتھے کہ لکھتے لکھتے ابن جبیر کی بیاض پر ہوجاتی تھی اور انہیں کپڑوں اور ہتھیاروں پر لکھنے کی نوبت آجاتی تھی کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا کہ کوئی سائل نہ آتا اس دن ایک حدیث بھی لکھنے کی نوبت نہ آتی تھی اور یوں ہی لوٹ آتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۱۷۹) عبداللہ بن عباسؓ کے بعد انہوں نے ابن عمرؓ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا ان سے استفادہ کا سلسلہ ابن جبیر کے قیام کوفہ تک جب کہ وہ خود صاحب افتا ہوگئے تھے قائم رہا ؛چنانچہ ان کا خود بیان ہے کہ جب کسی مسئلہ میں علمائے کوفہ میں اختلاف ہوتا تھا ،تو میں اسے لکھ لیتا تھا اورابن عمرؓ سے پوچھتا تھا۔ (ایضاً:۱۸۰) ان بزرگوں کے فیض نے انہیں قرآن،تفسیر،حدیث ،فقہ اورفرائض وغیرہ جملہ مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا۔ (تہذیب اسماء،ج ۱،ق۱،ص۲۱۶) قرأت قرآن کے نہایت اچھے قاری تھے،قرأت ترجیع کے ساتھ کرتے تھے،لیکن گاکر قرآن پڑھنا سخت ناپسند کرتے تھے (ابن سعد:۶/۱۸۱)تمام مشہور قرأتوں کے عالم تھے، معمول تھا کہ ایک شب کو عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت کے مطابق قرآن سناتے تھے،ایک شب کو زید بن ثابت کی قرأت کے مطابق،اسی طریقہ سے وہ ہر شب کو باری باری سے تمام مشہور قاریوں کی قرأت سناتے تھے۔ (ابن خلکان:۱/۴۰۵) تفسیر قرأت اورتفسیر دونوں فنون کی تعلیم انہوں نے اس فن کے امام حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے حاصل کی تھی (ایضاً:۲۰۴) آیات قرآنی کے شانِ نزول اوران کی تفسیر وتاویل پر پوری نظر تھی جب ان کے سامنے قرآن کی کوئی آیت پڑھی جاتی تھی تو وہ اس کا پورا مالہ وماعلیہ بتادیتے تھے، ابو یونس قزی کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سعید بن جبیر کے سامنے یہ آیت: الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ مگر نا تواں مردوں عورتوں اورلڑکوں میں سے۔ پڑھی توانہوں نے کہا،اس میں جن کا تذکرہ ہے وہ مکہ کے کچھ مظلوم تھے،میں نے کہا میں ایسے ہی لوگوں (یعنی حجاج کے ستم رسیدہ) کے پاس سے آرہا ہوں،سعید نے کہا بھتیجے ہم لوگوں نے اس کے خلاف بڑی کوشش کی لیکن کیا کیا جائے خدا کی مرضی یہی ہے۔ (ابن سعد:۱۸۳) اعمش روایت کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر ان ارضی واسعۃ کی تفسیر میں بیان کرتے تھے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ جب اس میں گناہ کیا جائے تو اس سے نکل جاؤ۔ (ایضاً) تفسیر کا درس ابن جبیر تفسیر کا درس بھی دیتے تھے،وقاء بن ایاس بیان کرتے ہیں کہ عرزہ تفسیر کی کتاب (غالباً کاپی اوربیاض) اوردوات لے کرابن جبیر کے پاس آتے جاتے تھے (ایضاً:۱۸۶) لیکن بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تفسیر کا قلمبند کرنا ناپسند کرتے تھے؛چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنے لیے آپ سے تفسیر قلمبند کرنے کی درخواست کی،آپ نے فرمایا تفسیر قلمبند کرنے کے مقابلہ میں مجھے یہ پسند ہے کہ میرا ایک پہلو مفلوج ہوجائے۔ (ابن خلکان:۱/۲۰۵) حدیث حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے،صحابہ میں انہوں نے ابن عباس،ابن عمر،ابن زبیرؓ،انس بن مالکؓ،ابوسعید خدری،ابو موسیٰ اشعری،ابوہریرہؓ، ابو مسعود بدریؓ،عائشہ صدیقہؓ اورعدی بن حاتم وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا (تہذیب التہذیب :۴/۱۱) حضرت عبداللہ بن عباس کے حلقہ درس سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے،ان کے علمی استعداد کی وجہ سے عبداللہ بن عباس ان پر بڑی شفقت کرتے تھے،اور امتحاناً ان سے حدیثیں سنتے تھے،مجاہد کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن عباسؓ نے ابن جبیر سے کہا کہ حدیثیں سناؤ ، انہوں نے عرض کیا آپ کی موجودگی میں حدیث سناؤں ،ابن عباسؓ نے کہا کہ یہ بھی خدا کی نعمت ہے کہ تم میرے سامنے حدیث بیان کرو،اگر صحیح بیان کروگے تو فبہا اوراگر کہیں غلطی ہوگی تو میں اس کی تصحیح کردونگا۔ (ابن سعد:۶/۱۷۹) بنی وداعہ کے موذن کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ ابن عباس کے پاس گیا وہ حریر کے گدے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے اورسعید ان کے پیروں کے پاس بیٹھے تھے، ابن عباس ان سے کہہ رہے تھے کہ تم نے مجھ سے بہت سی حدیثیں حفظ کی ہیں، دیکھوں ان کو کیسے روایت کرتے ہو۔ (ایضاً) ان کی اس توجہ نے ابن جبیر کو حفاظ حدیث کا امام اورسرگروہ بنادیا تھا،ان کی مرویات کا بڑا حصہ ابن عباسؓ کی احادیث پر مشتمل ہے،اس سے حدیث میں ان کی درجہ کا اندازہ ہوجاتا تھا۔ فقہ فقہاء کی جماعت میں بھی انہیں امتیازی درجہ حاصل تھا (تہذیب الاسماء،جلد۱،ق۱،ص۲۱۶) اس فن کی تعلیم بھی انہوں نے ابن عباس ہی سے حاصل کی تھی اوراس میں ان کو اتنا کمال حاصل تھا کہ مرکز فقہ کوفہ کے صاحب افتا تابعین میں ہوگئے تھے (ایضاً) کوفہ کے عہدہ قضاء پر بھی کچھ دنوں تک ممتاز رہے،پھر ابوہریرہ ابن موسیٰ اشعری قاضی کوفہ کے مشیر ہوگئے تھے (ابن خلکان :۱/۲۰۴) مرکز علم وافتاء مکہ میں جب آنا ہوتا تھا،تو یہاں بھی افتا کا سلسلہ جاری رہتا تھا(ابن سعد:۶/۱۸۴) حضرت عبداللہ بن عباس کو ان کے فتوؤں پر اتنا اعتماد تھا کہ اگر کوفہ کا کوئی آدمی آپ سے فتویٰ پوچھنے کے لیے آتا ،تو آپ اس سے فرماتے کیا سعید بن جبیر تمہارے یہاں نہیں ہیں (تہذیب الاسماء،ق اول،ص:۲۱۶) مسائل طلاق کے خصوصیت کے ساتھ بڑے عالم تھے، کان اعلم التابعین بالطلاق سعید بن جبیر (شذرات الذہب:۱/۱۰۸) فرائض ریاضی کے بڑے ماہر تھے اس لیے فرائض میں خاص ملکہ تھا،اکابر صحابہ فرائض کے سائلین کو ان کے پاس بھیجتے تھے،ایک مرتبہ ابن عمرؓ کے پاس فرائض کا ایک سائل آیا آپ نے اس سے کہا ابن جبیر کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ حساب جانتے ہیں، وہ تم کو وہی بتائیں گے جو فرض مقرر ہے (ابن سعد:۱۸۰)جب انہیں مدینہ جانے کا اتفاق ہوتا تھا، تو علمائے مدینہ ان سے فرائض سیکھتے تھے،امام زین العابدین کا بیان ہے کہ سعید بن جبیر جب ہمارے یہاں سے گزرتے تھے،توہم لوگ ان سے فرائض اوران باتوں کو پوچھتے تھے جن سے خدا ہم کو فائدہ پہنچاتا تھا۔ (ابن سعد:۶۱۸۰) جامعیت غرض سعید بن جبیر کی ذات جملہ علوم وفنون کی جامع تھی، جوکمالات دوسرے علماء میں فرداً فرداً تھے، وہ ان کی ذات میں تنہا مجتمع تھے،خصیف کا بیان ہے کہ مسائل طلاق کے سب سے بڑے عالم سعید بن مسیب تھے،حج کے عطاء تھے،حلال وحرام کے طاؤس تھے اور تفسیر کے مجاہد تھے اوران سب کی جامع سعید بن جبیر کی ذا ت تھی۔ (ابن خلکان :۱/۲۰۵) وہ علم کا ایسا سرچشمہ تھے جس کی اس عہد کے تمام علماء کو احتیاج تھی،میمون بن مہران کابیان ہے کہ سعید نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہ تھا جو ان کے علم کا محتاج نہ رہا ہو۔ (ابن سعد:۷/۱۸۶) اشاعت علم علم وفن کا یہ ذخیرہ انہوں نے اپنی ذات تک محدود نہ رکھا؛بلکہ جہاں تک ہوسکا اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا،آپ کے بعض کوتاہ نظر اصحاب آپ کو حدیث بیان کرنے پر ملامت کرتے تھے، آپ انہیں جواب دیتے ،مجھے تم سے اورتمہارے ساتھیوں سے حدیث بیان کرنا زیادہ پسند ہے،بہ نسبت اس کے کہ میں اسے اپنی قبر میں ساتھ لے جاؤں۔ (ابن سعد:۶/۱۸۶) تلامذہ آپ کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعضوں کے نام یہ ہیں، آپ کے صاحبزادگان عبدالملک اورعبداللہ،یعلی بن حکیم،یعلی بن مسلم،ابواسحق سبیعی،ابوالزبیر مکی،آدم بن سلیمان ، اشعث بن ابی الشعثاء ،ذربن عبداللہ مرہبی،سالم الافطس سلمہ بن کہیل،طلحہ بن مصرف اورعطاء بن سائب وغیرہ (تہذیب التہذیب:۴/۱۲) ناقدروں سے بخل لیکن یہ علمی فیاضی انہی لوگوں کے لیے تھی،جو اس کے مرتبہ شناس اورقدردان ہوتے تھے ورنہ نا اہلوں سے وہ اسے چھپاتے تھے،محمد بن حبیب کا بیان ہے کہ سعید بن جبیر کے اصفہان کے قیام کے زمانہ میں جب لوگ ان سے حدیثیں پوچھتے تو وہ نہ بتاتے،لیکن جب کوفہ آئے،توفیض جاری کردیا، لوگوں نے پوچھا ابو محمد کیا بات ہے ،اصفہان میں تو آپ حدیثیں نہیں بیان کرتے تھے اور کوفہ میں بیان کرتے ہیں، جواب دیا اپنی متاع وہاں پیش کرو جہاں اس کے قدر شناس ہوں۔ (ابن خلکان:۱/۲۰۴) مذہبی کمالات مذہبی کمالات میں بھی تابعین میں ابن جبیر کا درجہ نہایت بلند تھا وہ عبادت وریاضت اورزہد وورع کا مجسم پیکر تھے۔ سوزِ قلب وخشیت الہیٰ ابن جبیر کا دل اتنا پر سوز تھا اوران پر خشیت الہیٰ کا اتنا غلبہ تھا کہ ہر وقت ان کی آنکھیں اشکبار رہتی تھیں،پر دہ شب کی تاریکی میں جو ان کی عبادت اوررازونیاز کا خاص وقت تھا، زار زار روتے تھے،روتے روتے ان کی آنکھوں کی بینائی کم ہوگئی تھی اوران سے پانی بہنے لگا تھا۔ (ابن سعد:۶/۱۸۱)