انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نماز کو فاسد کرنے والی چیزیں نماز کے دوران اگر مندرجہ ذیل چیزوں میں سےکوئی چیز پیش آجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے ۔ (۱) جب نمازکے شرائط میں سے کوئی شرط فوت ہوجائے ۔ (۲) جب نماز کے ارکان میں سے کوئی رکن چھوٹ جائے۔حوالہ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِىِّ :أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى بِالنَّاسِ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ فَلَمْ يَقْرَأْ شَيْئًا حَتَّى سَلَّمَ ، فَلَمَّا فَرَغَ قِيلَ لَهُ :إِنَّكَ لَمْ تَقْرَأْ شَيْئًا . فَقَالَ :إِنِّى جَهَّزْتُ عِيرًا إِلَى الشَّامِ ، فَجَعَلْتُ أُنْزِلُهَا مَنْقَلَةً مَنْقَلَةً حَتَّى قَدِمَتِ الشَّامَ فَبِعْتُهَا وَأْقَتَابَهَا وَأَحْلاَسَهَا وَأَحْمَالَهَا. قَالَ :فَأَعَادَ عُمَرُ وَأَعَادُوا.(السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ قَالَ تَسْقُطُ الْقِرَاءَةُ عَمَّنْ نَسِىَ وَمَنْ قَالَ لاَ تَسْقُطُ ۴۱۵۱)عن الشعبي أن عمر صلى المغرب فلم يقرأ فأمر المؤذن فأعاد الأذان والإقامة ثم أعاد الصلاة(مصنف عبد الرزاق باب من نسي القراءة ۲۷۵۴) بند (۳) جب نماز کے دوران بات چیت کرے،خواہ بات چیت جان بوجھ کر ہو یا بھولے سے ہو یا غلطی سے ہو۔حوالہ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ قَالَ قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ(بخاري بَاب مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنْ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ ۱۱۲۵) بند (۴) جب لوگوں کی عام گفتگو کے مشابہ دعاکرے جیسے:اے اللہ میری شادی فلانہ عورت سے کردے، یا اے اللہ !مجھے سیب دے۔ حوالہ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶) بند (۵) جب کسی کو سلام کرےیا زبان سے سلام کا جواب دے ، یا مصافحہ کرے ، سلام کرنا جان بوجھ کرہو یا بھولے سے یا غلطی سے ہو ۔حوالہ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶) مذکورہ حدیث میں نماز کوصرف اور صرف تسبیح، تکبیر اور قرأتِ قرآن پرمشتمل ہونے کوبتلایا گیا اور مصافحہ سے سلام کا جواب دینا اس کے خلاف عمل ہے اور عمل کثیر بھی ہے اس لیے فقہاء کرام نے اس کومفسدِ صلاۃ بتلایا ہے۔ نَعَمْ لَوْ صَافَحَ بِنِيَّةِ السَّلَامِ قَالُوا تَفْسُدُ ، كَأَنَّهُ لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ(الدر المختار باب ما يفسد الصلاة، وما يكره فيها: ۶۶۴/۱) بند ہاں اگر سلام کا جواب اشارہ سے دے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔حوالہ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِشَارَةِ فِي الصَّلَاةِ۳۳۶)عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ فَكَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ زُهَيْرٌ بِيَدِهِ ثُمَّ كَلَّمْتُهُ فَقَالَ لِي هَكَذَا فَأَوْمَأَ زُهَيْرٌ أَيْضًا بِيَدِهِ نَحْوَ الْأَرْضِ وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ لَهُ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ زُهَيْرٌ وَأَبُو الزُّبَيْرِ جَالِسٌ مُسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةِ فَقَالَ بِيَدِهِ أَبُو الزُّبَيْرِ إِلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَقَالَ بِيَدِهِ إِلَى غَيْرِ الْكَعْبَةِ(مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۴۰) بند (۶)جب عمل کثیر ہو۔(عمل کثیر یہ ہے کہ دیکھنے والا یوں سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے) ۔حوالہ عَنْ مُعَيْقِيبٍ قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْحَ فِي الْمَسْجِدِ يَعْنِي الْحَصَى قَالَ إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَوَاحِدَةً (مسلم بَاب كَرَاهَةِ مَسْحِ الْحَصَى وَتَسْوِيَةِ التُّرَابِ فِي الصَّلَاةِ: ۸۴۹)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ: ۳۵۵)عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا (بخاري بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ فِي الصَّلَاةِ: ۴۸۶) عملِ قلیل اور عملِ کثیر کے سلسلہ میں احادیث میں کوئی تحدید نہیں آئی؛ البتہ مذكوره احاديث کے علاوه اور بھی اس طرح کی مختلف احادیث کی پیشِ نظر فقہائے کرام نے عملِ قلیل اور عملِ کثیر کی تعیین کی اور ضرورت وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے صحت وفسادِ نماز کا حکم لگایا؛ بہرحال جہاں عملِ کثیر ہوگا وہاں فساد نماز کا تحقق ہوگا۔ لِأَنَّ الْعَمَلَ الْكَثِيرَ يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الصَّلَاةِ (البحر الرائق راي الامام المتيمم ماء: ۳/۴) الْعَمَلُ الْكَثِيرُ هُوَ مَا لَا يَشُكُّ النَّاظِرُ إلَيْهِ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الصَّلَاةِ أَوْ مَا كَانَ بِحَرَكَاتٍ مُتَوَالِيَةٍ أَوْ مَا كَانَ يُعْمَلُ بِالْيَدَيْنِ أَوْ مَا يَسْتَكْثِرُهُ الْمُبْتَلَى بِهِ أَوْ مَا يَكُونُ مَقْصُودًا لِلْفَاعِلِ بِأَنْ أَفْرَدَ لَهُ مَجْلِسًا عَلَى حِدَةٍ(البحر الرائق الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ في الصلاة:۸۶/۴) بند (۷) جب اپنے سینے کو قبلہ سے پھیردے۔(لیکن اگر اسے نماز کے دوران حدث لاحق ہو جائے اور وہ وضو کرنے کیلئے نکلے اور اس کا سینہ قبلہ سے پھر جائے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی ۔حوالہ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ(البقرة:۱ ( عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصَابَهُ قَيْءٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ مَذْيٌ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ ثُمَّ لِيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ وَهُوَ فِي ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ (ابن ماجه بَاب مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلَاةِ ۱۲۱۱) بند (۸) جب کوئی چیز کھائے یا پیئے ، اگرچہ کھائی جانے اور پی جانے والی چیز تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔حوالہ عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :إذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ فِي الصَّلاَة اسْتَقْبَلَ الصَّلاَة.(مصنف ابن ابي شيبة الرجل يأكل وَيَشْرَبُ فِي الصَّلاَة:۴۷۶/ ۲) بند (۹)جب دانتوں میں اٹکی ہوئی چیز کھالے اور اس کی مقدار چنے کے برابر ہو۔حوالہ عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ :إذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ فِي الصَّلاَة اسْتَقْبَلَ الصَّلاَة. (مصنف ابن ابي شيبة الرجل يأكل وَيَشْرَبُ فِي الصَّلاَة:۴۷۶/۲) نفس اکل وشرب ہی (خواه اس كی مقدار كتنی ہی ہو) مفسدِ نماز ہے جیسا کہ مذکورہ اثر سے معلوم ہوا؛ لیکن کھانے کا ایسا دانہ جومنھ میں رہ جائے اور اس کی مقدار چنے کے دانہ سے کم ہو اس سے بچنا مشکل ہے؛ اگراس کوبھی مفسد نماز کہدیا جائے توحرج ہوگا؛ اس لیے اس کومعفوعنہ قرار دیا گیا اور چنے کی مقدار کے برابر یازیادہ ہو تو اس سے بچنا ممکن ہے اس لیے اس کومفسد نماز قرار دیا گیا۔ الحاجه تنزل منزلة الضرورة (الاشباه والنظائر: ۱۱۴/۱) وَلَوْ بَقِيَ بَيْنَ أَسْنَانِهِ شَيْءٌ فَابْتَلَعَهُ إنْ كَانَ دُونَ الْحِمَّصَةِ لَمْ يَضُرَّهُ ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ الْقَدْرَ فِي حُكْمِ التَّبَعِ لِرِيقِهِ لِقِلَّتِهِ وَلِأَنَّهُ لَا يُمْكِنُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ ؛ لِأَنَّهُ يَبْقَى بَيْنَ الْأَسْنَانِ عَادَةً فَلَوْ جُعِلَ مُفْسِدًا لَوَقَعَ النَّاسُ فِي الْحَرَجِ وَلِهَذَا لَا يَفْسُدُ الصَّوْمُ بِهِ ، وَإِنْ كَانَ قَدْرَ الْحِمَّصَةِ فَصَاعِدًا فَسَدَتْ صَلَاتُهُ (بدائع الصنائع فَصْلٌ بَيَانُ حُكْمِ الِاسْتِخْلَافِ: ۴۵۰/۲) بند (۱۰)جب بغیر ضرورت کے کھانسے (ہاں! اگر کسی عذر یا آواز درست کرنے کیلئے یا امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے کھنکارے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ: ۸۳۶) چونکہ نماز صرف تسبیح، تکبیر اور قرأۃ کے لیے ہے؛ اس لیے فقہائے کرام نے بے وجہ کھانسنے وغیرہ کومفسد نماز بتلایا ہے؛ البتہ ضرورۃ کھانسنے کی اجازت دی گئی؛ جیسا کہ حدیث شریف بھی ہے۔ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي۔(نسائی، التَّنَحْنُحُ فِي الصَّلَاةِ:۱۱۹۶) بند یا اپنے نماز میں ہونے کو بتلانے کے لیے کھانسے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي۔(نسائی، التَّنَحْنُحُ فِي الصَّلَاةِ:۱۱۹۶) بند (۱۱) جب آہ کرے یا اُف کرے یا کراہے، جب کہ یہ چیزیں اللہ کے ڈر سے نہ ہو، ہاں ! اگر رُونا اللہ کے ڈر سے یاجنت یاجہنم کے تذکرے سے ہو تو نماز فاسد نہ ہوگی، اس مسئلہ سے وہ مریض مستثنیٰ ہیں جوکراہنے اور آہ آہ کرنے میں اپنے اوپر کنڑول نہ کرسکتا ہو، اس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔حوالہ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ …قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۸۳۶)عَنِ الشَّعْبِيِّ ؛ فِي رَجُلٍ قَالَ :هَاهْ فِي الصَّلاَة ، قَالَ :يُعِيدُ.(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ هَاهْ فِي الصَّلاَة.۵۳۲/۲) وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ سَمِعْتُ نَشِيجَ عُمَرَ وَأَنَا فِي آخِرِ الصُّفُوفِ يَقْرَأُ﴿ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ ﴾ (بخاري بَاب إِذَا بَكَى الْإِمَامُ فِي الصَّلَاةِ ۱۳۹/۳) والبكاء بصوت يحصل به حروف، لوجع أو مصيبة في الحالات الأربع الأخيرة، إلا لمرض لا يملك نفسه عن أنين وتأوه؛ لأنه حينئذ كعطاس وسعال وجشاء وتثاؤب، وإن ظهرت حروف للضرورة(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْل ُالسَّابع:مُبْطِلاتُ الصَّلاة أو مُفْسِداتُها ۱۹۴/۲) بند (۱۲) جب نماز کے دوران نمازی کا ستر ایک رکن کی ادائیگی کی مدت کھلا رہے۔ حوالہ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف :۳۱) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ(ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ إِلَّا بِخِمَارٍ۳۴۴) مذکورہ نصوص کی وجہ سے نماز کے صحیح ہونے کی شرط سترعورت بھی ہے؛ لہٰذا اگرمصلی کی شرمگاہ نماز کے دوران ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر کھلی رہے توفقہائے کرام نے اس کی نماز کوفاسد بتلایا؛ اس لیے کہ ایک رکن کی مقدار کثیر میں داخل ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳) بند (۱۳)جب نماز کے دوران ایک رکن کی ادائیگی کے بقدرنمازی کے بدن يا اس کے كپڑے يا اس كی جگہ پر نجاست لگی رہے۔حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا (المائدة:۶) عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لِي يَا ابْنَ عُمَرَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ (مسلم بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ: ۳۲۹) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (المدثر:۴) عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ (بخاري بَاب غَسْلِ دَمِ الْمَحِيضِ ۲۹۶) وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرة:۱۲۵)عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ :رَآنِي مُجَاهِدٌ وَأَنَا أَنْضَحُ مَكَانًا مِنْ سَطْحٍ لَنَا نُصَلِّي فِيهِ ، فَقَالَ :لاَ تَنْضَحْ ، إنَّ النَّضْحَ لاَ يَزِيدُهُ إِلاَّ شَرًّا ، وَلَكِنِ اُنْظُرْ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي تُرِيدُهُ تَسْجُدُ فِيهِ فَانْفُخْهُ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي الْمَكَانِ الَّذِي لَيْسَ بِنَظِيفٍ ۵۳۴/۲) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ (ترمذي بَاب مَا ذُكِرَ فِي تَطْيِيبِ الْمَسَاجِدِ۵۴۲) مذکورہ نصوص سے معلوم ہوا کہ نماز میں مصلی کا بدن، کپڑے اور جگہ کا پاک رہنا صحتِ صلاۃ کے لیے شرط ہے؛ لہٰذا اگرایک رکن کی ادائیگی کے بقدر یہ شرط نہ پائی جائے تواسے کثیروقت قرار دیکر فقہاء کرام نے مفسد نماز بتلایا ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳) بند (۱۴)جب نماز کے دوران جنون لاحق ہوجائے ۔حوالہ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ وَهُوَ سَاجِدٌ حَتَّى غَطَّ أَوْ نَفَخَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قَدْ نِمْتَ قَالَ إِنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ: ۷۲)وَأَمَّا الْجُنُونُ فَلِأَنَّ الْمُبْتَلَى بِهِ يُحْدِثُ حَدَثًا، وَلَايَشْعُرُ بِهِ فَأُقِيمَ السَّبَبُ مَقَامَ الْمُسَبِّبِ، وَالسُّكْرُ الَّذِي يَسْتُرُ الْعَقْلَ فِي مَعْنَى الْجُنُونِ فِي عَدَمِ التَّمْيِيزِ وَقَدْ انْضَافَ إلَيْهِ اسْتِرْخَاءُ الْمَفَاصِلِ (بدائع الصنائع، فصل بیان ماینقض الوضوء:۱/۱۳۹)۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جنون وضو کوتوڑنے والی چیز ہے اور وضو نماز کے لیے ضروری ہے اور جب وضو باقی نہ رہا تونماز بھی باقی نہیں رہے گی اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مرض میں کتنی مدت لگے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نماز میں لمبا فصل نماز کی خصوصیت اور اس کے مقصود کے خلاف ہے؛ اس لیے اس مرض کومفسدِ نماز میں شامل کیا گیا۔ بند (۱۵) جب نمازی پر بیہوشی طاری ہو۔حوالہ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ قَالَتْ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ قَالَتْ فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَام لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ(بخاري بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ: ۶۴۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غشی کی حالت سے افاقہ کے بعد پانی کا طلب کرنا ناقضِ وضو ہونے پردلالت کرتا ہے، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِي رَجُلٍ غُشِيَ عَلَيْهِ وَهُوَ جَالِسٌ ، قَالَ :يَتَوَضَّأُ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي الرَّجُلِ يُغْشَى عَلَيْهِ فَيُعِيدُ لِذَلِكَ الْوُضُوءَ ۱۹۸/۱) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ بے ہوشی وضو کوتوڑنے والی چیز ہے اور وضو نماز کے لیے ضروری ہے اور جب وضو باقی نہ رہا تونماز بھی باقی نہیں رہے گی اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مرض میں کتنی مدت لگے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نماز میں لمبا فصل نماز کی خصوصیت اور اس کے مقصود کے خلاف ہے؛ اس لیے اس مرض کومفسدِ نماز میں شامل کیا گیا۔ بند (۱۶) جب عیدین کی نماز میں زوال کا وقت آجائے ۔حوالہ عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُمُومَتِي مِنْ الْأَنْصَارِ ، ﴿ أَنَّ الْهِلَالَ خَفِيَ عَلَى النَّاسِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحُوا صِيَامًا فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ ، أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ اللَّيْلَةَ الْمَاضِيَةَ . فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالْفِطْرِ ، فَأَفْطَرُوا تِلْكَ السَّاعَةَ ، وَخَرَجَ بِهِمْ مِنْ الْغَدِ ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلَاةَ الْعِيدِ (شرح معاني الاثار بَابُ الْإِمَامِ يَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعِيدِ هَلْ يُصَلِّيهَا مِنْ الْغَدِ أَمْ لَا: ۱۸۵/۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کی نماز کا وقت زوال سے پہلے پہلے تک ہے اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد چاند کی اطلاع ملنے پرعید کی نماز نہیں پڑھائی بلکہ دوسرے دن عید کی نماز پڑھائی ہے؛ چونکہ عید کی نماز کا وقت زوال تک ہی ہے؛ لہٰذا نمازِ عید کے دوران زوال کا وقت آجائے تووقت ختم ہوجانے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اس کا وقت طلوعِ شمس کے کچھ دیر بعد سے زوال تک ہی ہے، اس کے علاوہ میں عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ تفسد الصلاة عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله باثنتي عشرة مسألة وهي: رؤية المتيمم الماء، … وطلوع الشمس في صلاة الفجر، وزوال الشمس في صلاة العيدين، ودخول وقت العصر في الجمعة، (الفقه الاسلامي وادلته المسائل الاثنتا عشرة عند أبي حنيفة: ۲۰۸/۲) بند (۱۷) جب جمعہ کی نماز میں عصر کا وقت آجائے۔ حوالہ عن عبد الله قال : من أدرك الخطبة فالجمعة ركعتان ومن لم يدركها فليصل أربعا ومن لم يدرك الركعة فلا يعتمد بالسجدة حتى يدرك الركعة (المعجم الكبير عبد الله بن مسعود الهذلي يكنى أبا عبد الرحمن الخ: ۳۰۹/۹، ۹۵۴۸) جمعہ کی نماز ظہر کی نماز کا بدل ہے؛ جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوا، اس لیے اس کا وقت بھی ظہر ہی کا وقت ہے اور جمعہ کی قضا نہیں ہے؛ لہٰذا اگرجمعہ کے دوران ظہر کا وقت ختم ہوجائے توجمعہ کی نماز ادا نہ ہوگی اسی وجہ سے عصر کا وقت داخل ہوتے ہی جمعہ کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : وَقْتُ الْجُمُعَةِ ، وَقْتُ الظُّهْرِ(مصنف ابن ابي شيبة مَنْ كَانَ يَقُولُ : وَقْتُهَا زَوَالُ الشَّمْسِ ، وَقْتُ الظُّهْرِ: ۱۰۹/۲) ( وَدُخُولُ وَقْتِ الْعَصْرِ ) بِأَنْ بَقِيَ فِي قَعْدَتِهِ إلَى أَنْ صَارَ الظِّلُّ مِثْلَيْهِ ( فِي الْجُمُعَةِ ) بِخِلَافِ الظُّهْرِ فَإِنَّهَا لَا تَبْطُلُ . (ردالمحتار بَابُ الِاسْتِخْلَافِ : ۳۹۴/۴) بند (۱۸) جب نمازی تیمم کی حالت میں ہو، اسی وقتاور پانی مل جائے ، یا اس کے استعمال پر قدرت ہو جائے ۔ حوالہ عن أَبي ذَرٍّ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم - قَالَ « إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ حِجَجٍ فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّ بَشْرَتَهُ الْمَاءَ فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ ». (دارقطني باب فِى جَوَازِ التَّيَمُّمِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ سِنِينَ كَثِيرَةً: ۷۳۹) مذکورہ نص کی وجہ سے پانی ملتے ہی وضو کا بدل (تیمم) ختم ہوجاتا ہے اور سابقہ حدث کوادا شدہ نمازوں میں ضرورۃ تیمم چھپائے ہوئے رکھا تھا؛ لیکن جونماز ادا نہیں ہوئی وہاں ضرورت باقی نہیں رہی اس لیے نماز کے دوران پانی مل جائے یااس کے استعمال پرقادر ہوجائے تونماز فاسد ہوجائے گی؛ اور اس صورت میں بناء بھی نہیں كی جاسكتی اس لیے کہ اس کا تحقق نماز میں بہت کم ہوتا ہے؛ اسی وجہ سےاسے ان صورتوں میں شمار نہیں کیا گیا جس میں بناءكے سلسلہ میں نص اور اجماع ہے، بند (۱۹) جب نمازی کا اپنے فعل سے یا دوسروں کے فعل سے وضو ٹوٹ جائے ۔ ہاں ! اگر انجانے میں بغیر مصلی کے فعل کے خدشات لاحق ہو جائے تو نماز فاسد نہ ہوگی ، بلکہ وہ شخص وضو کر کے اس نماز کی بنا (بقیہ نمازپوری) کرے گا۔حوالہ اس لیے کہ بناء خلاف قیاس نص اور اجماع کی وجہ سے ثابت ہے تو جن صورتوں ميں ثابت ہے اسی تک محدود رکھا گیا ہے اور پہلی صورت کا تحقق بھی کم ہوتا ہے، برخلاف دوسری صورت کے۔ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا رَعَفَ انْصَرَفَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَجَعَ فَبَنَى وَلَمْ يَتَكَلَّمْ (موطا مالك بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّعَافِ: ۷۰) لِأَنَّ جَوَازَ الْبِنَاءِ ثَبَتَ مَعْدُولًا بِهِ عَنْ الْقِيَاسِ بِالنَّصِّ وَالْإِجْمَاعِ ، وَكُلُّ مَا كَانَ فِي مَعْنَى الْمَنْصُوصِ وَالْمُجْمَعِ عَلَيْهِ يَلْحَقُ بِهِ وَإِلَّا فَلَا (بدائع الصنائع ( فَصْلٌ شَرَائِطُ جَوَازِ الْبِنَاءِ: ۳۶۶/۲) بند (۲۰) جب اللہ اَکْبَرْمیں اللہ کے ہمزہ میں مَدکرے۔حوالہ عن أَبي هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ (بخاري بَاب التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنْ السُّجُودِ: ۷۴۷) اس لیے کہ نماز شروع کرنے اور تکبیراتِ انتقالیہ کے لیے تکبیر یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے لیے کہا گیا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بتایا گیا ہے اور مذکورہ صورت میں اس کے خلاف کرکے اللہ کی بڑائی کے سلسلے میں استفہام کیا جارہا ہے، اس لیے فقہاء کرام نے اسے مفسدِ صلاۃ قرار دیا ہے۔ بند (۲۱)جب قرآن سے ديکھ کر پڑھے، اس لیے کہ اسمیں عمل کثیر ہوتاہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔حوالہ لِأَنَّ الْعَمَلَ الْكَثِيرَ يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الصَّلَاةِ (البحر الرائق راي الامام المتيمم ماء: ۳/۴) بند (۲۲) جب نیند کی حالت میں کسی رکن کو ادا کرے اور نیند سے بیدار ہونے کے بعد اس رکن کو نہ لوٹائے ۔حوالہ وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ (بخاري بَاب الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَاالخ: ۳۱۵/۱۶)اس لیے کہ نیند میں ادا کیا ہوا رکن ایسا ہی ہے گويا کہ اس نے ادا ہی نہ کیا ہو، جیسا کہ مذكوره اثر سے معلوم ہوا اس لیے اسے مفسدِ صلاۃ بتلایا گیا ہے۔ وَقَدْرُ الْكَثِيرِ مَا يُؤَدَّى فِيهِ رُكْنٌ وَالْقَلِيلُ دُونَهُ (البحر الرائق بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ۶۹/۳) بند (۲۳) جب نمازی صاحب ترتیب ہو، اورنماز کے دوران اسے یاد آجائے کہ اس کے ذمہ ایک فوت شدہ نماز ہے جس کی اس نے اب تک قضا نہیں کی ہے ۔حوالہ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتْ الشَّمْسُ تَغْرُبُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ (بخاري بَاب مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ: ۵۶۱)عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ (بخاري بَاب الْأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً وَالْإِقَامَةِ الخ: ۵۹۵)عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِذَا نَسِىَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلاَّ وَهُوَ مَعَ الإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الإِمَامِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ فَلْيُصَلِّ الصَّلاَةَ الَّتِى نَسِىَ ثُمَّ لْيُعِدْ صَلاَتَهُ الَّتِى صَلَّى مَعَ الإِمَامِ ».(دارقطني باب الْحَثِّ لِجَارِ الْمَسْجِدِ عَلَى الصَّلاَةِ فِيهِ إِلاَّ مِنْ عُذْرٍ.: ۱۵۷۸) پہلی حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً فائتہ نماز ادا فرمائی پھروقتیہ اس کے علاوہ غزوۂ خندق والی احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے كہ ترتیب سے قضاء نمازیں ادا فرمائی ہیں؛ چونکہ فعلی حدیث سے وجوب ثابت نہیں ہوتا اس لیے دوسری حدیث قولی پیش کی گئی، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا تم دیکھتے ہو، ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفائتہ اور وقتیہ میں ترتیب کوبرقرار رکھ کر پڑھتا ہوا دیکھا ہے اس لیے اسی طرح پڑھنا ضروری ہوگا اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے صاف معلوم ہوا کہ اگرفائتہ سے پہلے وقتیہ پڑھلے توفائتہ کے بعد پھروقتیہ کولوٹانا ہوگا اور جس طرح وہ مقدم ہوکر واجب ہوئی ہے اسی طرح اسے مقدم رکھ کرادا کرنا ہوگا؛ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے بتلایا کہ اگرکسی کونماز كے دوران فائتہ یاد آجائے تواس کی نماز فاسد ہوجائے گی اب اولاً فائتہ پڑھنا ہوگا پھروقتیہ ادا کرنا ہوگا۔ بند (۲۴) جب امام کسی ایسے آدمی کو خلیفہ بنائے جو امامت کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔حوالہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللَّهُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ: ۱۹۱) اس لیے کہ امام سارے مقتدیوں کی نماز كا ضامن ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا اور جب وہ امامت کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے توپھرضامن کیسے ہوگا؛ اسی لیے فقہائے کرام نے اسے مفسدِ نماز قرار دیا۔ بند (۲۵)جب نمازی کو یہ گمان ہو جائے کہ اس کو حدث لاحق ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے وہ مسجد سے نکل جائے اور صفوں سے آگے بڑھ جائے یا مسجد کے علاوہ دوسری جگہ میں سُترہ سے آگے بڑھ جائے تو نماز فاسد ہوجائےگی۔ اس لئے کہ یہ سب عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔حوالہ لِأَنَّ الْعَمَلَ الْكَثِيرَ يَخْرُجُ بِهِ عَنْ الصَّلَاةِ (البحر الرائق راي الامام المتيمم ماء: ۳/۴) بند (۲۶) جب نماز کے دوران آواز سے ہنس پڑے۔حوالہ عَنْ أُسَامَةَ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ نُصَلِّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم - إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَوَقَعَ فِى حُفْرَةٍ فَضَحِكْنَا مِنْهُ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم - بِإِعَادَةِ الْوُضُوءِ كَامِلاً وَإِعَادَةِ الصَّلاَةِ مِنْ أَوَّلِهَا (دارقطني باب فِى مَا رُوِىَ فِيمَنْ نَامَ قَاعِدًا وَقَائِمًا وَمُضْطَجِعًا وَمَا يَلْزَمُ مِنَ الطَّهَارَةِ فِى ذَلِكَ: ۶۱۰) بند (۲۷) جب نماز کے دوران اس کا موزہ نکل جائے، خواہ و ہ عمل قلیل سے نکلے یا عمل کثیر سے۔حوالہ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِى مَرْيَمَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فِى الرَّجُلِ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ يَبْدُو لَهُ فَيَنْزِعُهُمَا قَالَ :يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ (السنن الكبري للبيهقي باب مَنْ خَلَعَ خُفَّيْهِ بَعْدَ مَا مَسَحَ عَلَيْهِمَا ۱۴۲۲) اس لیے کہ موزہ نکلنے کی وجہ سے اس کا مسح ختم ہوگیا اب اسے پیردھونے پڑینگے؛ جیسا کہ مذکورہ اثر سے معلوم ہوا؛ گویا اس کا وضو باقی نہ رہا، اسی لیے نماز فاسد ہوجائیگی اور اس پروہ بناء بھی نہیں کرسکتا؛ کیونکہ وه نادر الوقوع ہے اس لیے فقہائے کرام نے اسے ان صورتوں میں شامل نہیں کیا جن میں نص واجماع کی وجہ سے بناء کی اجازت دے دی گئی ہے۔ بند (۲۸) جب مقتدی ایک رکن کی ادائیگی میں اس طرح امام سے آگے نکل جائے کہ اس رکن کی ادائیگی میں امام کے ساتھ شریک نہ ہو، جیسے مقتدی امام سے پہلے رکوع کرے اور اپنے سر کو امام کے رکوع کرنے سے پہلے اٹھالے اورامام کے ساتھ اس رکوع کو نہ لوٹائے ۔ حوالہ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا (بخاري بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ: ۳۶۵) مذکورہ حدیث کی وجہ سے امام کی اتباع کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لیے ایک رکن کے بقدر بھی اگرمقتدی امام سے آگے نکل جائے تونماز فاسد ہوجائیگی۔ بند (۲۹) جب نماز کے دوران جنابت لاحق ہو جائے ، خواہ وہ جنابت عورت کو دیکھنے سے لاحق ہو یا اس کی خوبصورتی میں غور وفکر کرنے ، یا احتلام کی وجہ سے ۔حوالہ لِأَنَّ هَذِهِ الْعَوَارِضَ يَنْدُرُ وُقُوعُهَا فِي الصَّلَاةِ فَلَمْ تَكُنْ فِي مَعْنَى مَوْرِدِ النَّصِّ وَالْإِجْمَاعِ … لِأَنَّ هَذِهِ الْأَفْعَالَ مُنَافِيَةٌ لِلصَّلَاةِ فِي الْأَصْلِ لِمَا نَذْكُرُ فَلَا يَسْقُطُ اعْتِبَارُ الْمُنَافِي إلَّا لِضَرُورَةٍ وَلَا ضَرُورَةَ … لِأَنَّهُ عَمَلٌ كَثِيرٌ وَلَيْسَ مِنْ أَعْمَالِ الصَّلَاةِ)بدائع الصنائع فصل شَرَائِطُ جَوَازِ الْبِنَاءِ في الصلاة ۳۷۰/۲) بند