انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فقہ ظاہری اور اس کے مؤسسین کتاب وسنت کے الفاظ میں ظاہری مفہوم ہی اصل ہیں، فقہاء اصولین نے الفاظ کے تحت یہ صراحت کی ہے کہ لفظ کواس کے حقیقی معنی سے الگ کرکے استعمال کرنا خلافِ اصل ہے؛ البتہ قرائن کی بنیاد پرلفظ کے ظاہری مفہوم سے انحراف کیا جاسکتا ہے؛ لفظ کا معنی کبھی لغت، کبھی شریعت اور کبھی عرف سے معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ حقیقت کی تعریف یہ کی جاتی ہے: "اللفظ المستعمل فيما وضع له، فيشمل هذا الوضع اللغوي، والشرعي، والعرفي، والاصطلاحي"۔ امام شافعیؒ نے اس بات پربہت زور دیا ہے کہ لفظ کے حقیقی اور ظاہری معنی ہی کا اعتبار کیا جائے اس پرلعان کے ایک واقعہ سے بھی استدلال کیا ہے، جس میں قرائن زنا کی تصدیق کرتے تھے؛ لیکن آپ نے عورت کے ظاہری انکار اور لعان کی وجہ سے صرف بچہ کے نسب کی نفی فرمائی زنا کی سزا جاری نہیں کی۔ (الرسالہ:۱۵۵) عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ظاہریت چنانچہ ہم دیکھتے ہیں، صحابہ کرامؓ میں سے بعض کے نزدیک حدیث کے اخذورد کا معیار ظاہری مفہوم ومعانی ہی قرار پایا ہے اور جمہور صحابہؓ کے اجماع، حدیث کے نسخ اور میزانِ عقل پردرست نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے مسلک اور رائے پرآخری وقت تک ثابت قدم رہے، مثلاً: حضرت ابوہریرہؓ جنہوں نے آگ میں پکی ہوئی چیزوں سے وضو ٹوٹنے والی حدیث روایت کی ہے، ان کا عمل اور فتویٰ اسی پرتھا، عام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کواس سے اختلاف تھا اور وہ اسے منسوخ سمجھتے تھے؛ کیونکہ آپ کا آخری عمل اس کے خلاف تھا۔ (عن جابر) تاہم حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے مسلک اور فتویٰ میں کوئی تبدیلی کرنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنی رائے پرشدت سے جمے رہے، جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ اگرکوئی گرم پانی سے وضوء کرے تووضوء ہوگا یانہیں؟ انہوں نے انتہائی دکھ سے جواب دیا: بھتیجے! میں حضوراکرمﷺ کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم میزانِ عقل پرپرکھنے کی کوشش کررہے ہو۔ (شرح معانی الآثار:۱/۶۸) ظاہر ہے کہ ان کوحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال اور اندازِفکر پسند نہیں آیا، اس لیے کہ وہ ظاہری مفہوم ومعانی سے احتراز کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے، صحابہؓ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا شمار بھی ان حضرات میں ہوتا ہے جوالفاظ کے ظاہری مفہوم کا اعتبار کرتے تھے؛ چنانچہ احادیث کی بڑی تعداد پرانھوں نے ظاہری مفاہیم ہی پرعمل کیا ہے اور فتوے دئے ہیں، حضوراکرمﷺ کی ایک حدیث میں ہے کہ میت پراس کے خاندان کے لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ (موسوعۃ ابن عمربردایت موطاء امام مالکؒ:۶۸۱) اس حدیث کی روشنی میں وہ میت کے لوگوں کے اس پررونے کی وجہ سے میت پرعذاب کے قائل تھے۔ (موسوعۃ ابن عمربردایت موطاء امام مالکؒ:۶۸۱) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے اختلاف تھا اور وہ اس حدیث سے اس کے ظاہری معنی مراد لینے کے بجائے توجیہ کرتی تھیں، عورتوں کومسجد میں ادائیگی نماز کے لیے جانا ابتداءِ اسلام میں ایک عام سی بات تھی، اس سلسلے میں حضوراکرمﷺ کی حدیث موجود ہے کہ آپ نے خواتین کومسجد جانے سے روکنے کومنع فرمایا تھا۔ (نیل الاوطار) ان روایات کی وجہ سے ابن عمرؓ کا فتویٰ تھا کہ عورتوں کوروکا کرتے، حضرت عمرؓ ان سے متفق نہ تھے؛ چنانچہ اپنے بیٹے سے اس لیے نالاں تھے کہ انہوں نے اپنی ازواج کومسجد جانے سے روک رکھا تھا۔ (موسوعہ فقہ ابن عمر) حقیقت یہ ہے کہ احادیث کا ظاہری مفہوم تووہی ہے جوابن عمرؓکا مسلک ہے؛ لیکن دوسری روایات سے عورتوں کے مسجد میں جانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے، ان روایات سے خود حضرت عمرفاروقؓ جیسے فقیہ بھی واقف تھے؛ لیکن حالات کی تبدیلی، اخلاقی پستی اور تزئین وآرائش کے بڑھتے ہوئے رحجان سے جب فتنہ کا خدشہ ہونے لگا توخود حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ کومسجد جانے سے روکا (ملاحظہ ہو، نیل الاوطار:۲/۱۳۱) حالات کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت ابنِ عمرؓ اپنی رائے تبدیل کرتے؛ لیکن آخر عمرتک ظاہر حدیث پرہی انہوں نے عمل کیا، حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے کثرتِ دولت اور ادخار کی اس شدت سے مخالفت کی کہ بعض ناخوشگوار واقعات سے ان کودوچار ہونا پڑا۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کا زہد اور قناعت الی اللہ کی کیفیت سے اسلامی تاریخ کا کون قاری ناواقف ہوگا؛ لیکن دولت کے ساتھ اگرشرعی واجبات ادا کئے جائیں تواس میں کوئی قباحت نہیں؛ چنانچہ آپﷺ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت طلحہؓ جیسے اصحاب ثروت کے لیے برکت کی دعا بھی فرمائی ہے اور ان حضرات کی دولت سے اسلام کوبڑے نازک مواقع پرفائدہ پہونچا ہے۔ ظاہریت اور ائمہ مجتہدین کتاب وسنت اجماع اور قیاس بطور ادلۂ شرع کے تمام مجتہدین کے نزدیک معتبر اور حجت ہے؛ لیکن طریقِ اجتہاد اور استنباط میں امتیازی خصوصیات بھی ہرایک کی جداگانہ ہیں، اس کے باوجود بھی ہرایک کے یہاں ظاہری مفہوم کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اس طرح ظاہریت کا رنگ __________ کہا جاسکتا ہے کہ __________ کچھ نہ کچھ چاروں مکاتب فقہ میں موجود ہے۔ نواقضِ وضوء کے سلسلہ میں احناف نے اپنے عام اصول سے انحراف کرتے ہوئے خلافِ قیاس نماز میں قہقہ کی صورت میں ابوالعالیہ کی ایک مرسل روایت کی بنیاد پروضوٹوٹ جانے کا حکم لگایا ہے۔ (ہدایہ:۱/۱۲) اصولی طور پرقہقہ کونقاضِ وضو نہیں ہونا چاہئے؛ اسی لیے جمہور نے اس مسئلہ میں احناف سے اختلاف کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھا جائے، ہدایۃ المجتہد:۱/۴۰، ابن رشد) حضرت امام شافعیؒ کے یہاں بھی ظاہری الفاظ پرکثرت سے عمل کیا گیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَاحَلَبَهَا إِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَرَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ"۔ (ترمذی،كِتَاب الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْمُصَرَّاةِ،حدیث نمبر:۱۱۷۲،شاملہ، موقع لإسلام) جس نے ایسے جانور کوخریدلیا کہ جس کے مالک نے جانور کے دودھ کودوہنے میں ناغہ کرکے دودھ تھن میں جمع کردیا ہوتاکہ خریدار تھنوں میں زیادہ دودھ دیکھ کرخرید کرلے تواس کواختیار ہے کہ چاہے توجانور رکھ لے یاواپس کردے؛ لیکن واپسی کی صورت میں ایک صاع کھجور بھی واپس کرے؛ چنانچہ امام شافعیؒ خریدار پرواپسی کی صورت میں ظاہر حدیث پرعمل کرتے ہوئے ایک صاع کھجور کا واپس کرنا واجب قرار دیتے ہیں جب کہ احناف اور مالکیہ نے دیگراحادیث درایت اور قیاس کی بناء پرکھجور کی واپسی کوزیادہ سے زیادہ اخلاقی حکم قرار دیا ہے؛ اس لیے کہ حدیث کے سند کے اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود قیاس اس کے خلاف ہے کہ خریدار اپنے قبضہ میں نکالے ہوئے دودھ کی قیمت یامعاوضہ ادا کرے، جب کہ ان ایام میں چارہ وغیرہ کا نظم بھی اسی کے ذمہ تھا؛ اگروہ جانور ہلاک ہوجاتا تواسی کی چیز ضائع ہوتی اور اصول ہے کہ جونقصان کا ضامن ہوگا وہی اس کے نفع کا بھی حقدار ہوگا، الخراج بالضمان۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ کتے کا جھوٹا دھویا جائے گا؛ گواس کی تعداد میں اختلاف ہے، یہ بات بھی متفقہ ہے کہ کتے کے ذریعہ شکار، نگرانی وغیرہ امور کی اجازت شریعت میں ہے؛ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ خود کتا پاک ہے یاناپاک، امام مالکؒ کا مسلک یہ ہے کہ کتا پاک ہے اور دلیل اس کے ذریعہ شکار کا جائز ہونا ہے، جس کوکتے کالعاب ضرور لگے گا؛ البتہ تعبدی طور پر اس کا جھوٹا سات مرتبہ دھونا ضروری ہوگا، جمہور محدثین وفقہاء کا اس بات پراتفاق ہے کہ اونٹ کے گوشت کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جب کہ امام احمد بن حنبلؒ اونٹ کا گوشت کھانے کوناقضِ وضو سمجھتے ہیں اور استدلال حضرت جابر بن عمرؓ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جس میں حضوراکرمﷺ نے اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم فرمایا تھا۔ (نیل الاوطار:۱/۲۰۰، بیروت) عام محدثین اور فقہاء کی نظر میں یہ حدیث بھی منسوخ ہے؛ کیونکہ آگ میں پکی ہوئی چیزوں سے وضو ٹوٹنے والی روایت باتفاق صحابہؓ ومحدثین منسوخ ہے؛ اس طرح فقہ کے ان چاروں دبستانوں میں کسی نہ کسی درجہ میں ظاہریت موجود ہے۔ ظاہری مکتبِ فکر کے دواہم نمائندے امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ (۲۰۰ھ): پورا نام ابوسلیمان داؤد بن خلف ہے، بغداد کے رہنے والے ہیں اور اصفہانی نسبت ہے، ان کوظاہری مکتبِ فکر کا بانی ومؤسس کہنا زیادہ مناسب ہے، اس لیے کہ ان سے پہلے اس فکر کوباقاعدہ کسی نے اختیار نہیں کیا، جزوی مسائل میں بعض صحابہ اور مجتہدین کے تفردات کے علاوہ اس کی نظیرنہیں ملتی۔ بغداد میں پیدا ہوئے اور مروجہ علوم مقامی علماء سے حاصل کیا، ابتداء میں جن علماء سے کسب فیض کیا وہ شوافع تھے؛ چنانچہ امام شافعی کے فضائل ومناقب میں ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔ (ابنِ حزم:۲۶۳) بعد میں دوسرے مراکز علم نیشاپور وغیرہ کے اسفار کئے اور محدثین وفقہاء سے اسلامی علوم حاصل کئے، علم کی زیادتی کے ساتھ فکر میں جولانی پیدا ہوئی اور شافعی فقہ سے دست کش اور اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں مشغول ہوگئے اور اپنے نظریہ میں اتنا غلو کیا کہ جمہورِامت سے معاندانہ طریقِ کار اختیار کرلیا، ان کے معاصرین میں سے ایک کی رائے ہے کہ ان کی عقل ان کے علم سے زیادہ تھی (ابن حزم:۲۶۳) ذاتی طور پر داؤد ظاہری کی زندگی انتہائی سادہ اور ظاہری نمود وریا سے پاک تھی، زہدوتقویٰ اور خشیتِ الی اللہ کی کیفیت ان پرہمیشہ غالب رہتی تھی، علمی تبحر کے ساتھ ساتھ فنِ حدیث میں بھی ثقہ سمجھے جاتے تھے؛ لیکن مشہور محدثین نے ان سے حدیث کی روایت نہیں کی ہے، اس کی وجہ غالباً ان کا اپنے افکار میں انتہائی غلوکرنا، خاص کرقیاس کا انکار اور قرآن کومخلوق کہنا معلوم ہوتا ہے۔ (ابنِ حزم:۲۶۶) ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ موجودہ قرآن مخلوق ہے اور جولوحِ محفوظ میں ہے غیرمخلوق ہے، جس کوسوائے فرشتوں کے کوئی نہیں چھوتا شریعت کے مآخذ مآخذ فقہ ان کے نزدیک تین ہیں: (۱)کتاب (۲)سنت (۳)اجماع اور ہرایک کے لیے طرزِ استنباط الگ الگ ہے، مثلاً: کتاب وسنت میں اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ کے لیے اصل کتاب اللہ ہے؛ اگروہاں موجود نہ ہوتوسنتِ رسولﷺ ہے؛ لیکن کوئی بھی روایت یاآیت ایسی نہیں جس میں اس حکم کی علت مقرر کی جائے اور اس کوحکم کا مدار بنایا جائے؛ اس لیے قیاس کا علی الاطلاق انکار کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ قرآن وحدیث میں کوئی لفظ مجاز پرمحمول نہیں ہے۔ (الفقہ والمتفقہ:۱/۶۵، خطیب بغدادیؒ) اجماع کا مفہوم انتہائی محدود ہے اور ابنِ حزم کے نزدیک اجماع کے مفہوم سے قریب تربلکہ یکساں ہے اس لیے ابن حزم کے حالات میں اس کی تفصیل آئے گی، ان کا یہ تین بنیادی نظریہ ہے، جس کی وجہ سے ہمیشہ معاصر علماء ومجتہدین سے ان کی چشمک رہی اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور حقیقت تویہ ہے کہ ظاہریت کی اس فکر کواگرقبولیتِ عامہ حاصل ہوجائے توبعید نہیں کہ پھرخوارج جیسی کوئی جماعت ظہور پذیر ہو، داؤد ظاہری کی وفات کے بعدان کے افکار کواندلس میں قبولیت حاصل ہوئی، جن حضرات نے ترویج واشاعت کا فریضہ انجام دیا ان میں اہم لوگ بقی بن مخلد (۲۰۰/۲۷۶)، ابن وضاح (متوفی:۳۸۶ھ)، قاسم بن اصبغ (۳۴۰ھ)، منذر بن سعید البلوطی (متوفی:۳۵۵ھ) ہیں، ان حضرات کے افکار ونظریات اور تفردات پراس مقالہ میں گفتگو مشکل ہے، تفصیل کے لیے خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ابنِ حزم (۳۸۴/۴۵۶) ظاہری مکتب فکر کی ترویج وترقی اور باقاعدہ اس کوایک فکرونظریہ کا مقام جس شخصیت کے ذریعہ حاصل ہوا وہ ابن حزم کی ذات ہے، نام علی بن احمد بن سعید بن حزم ہے ابومحمد کنیت ہے، ان کے جدامجد"خلف" سب سے پہلے اندلس میں اقامت گزیں ہوئے، یہ اصلاً فارس النسل ہیں؛ وہاں انہوں نے اپنی لیاقت، ذہانت وفطانت سے حکومت میں اعلیٰ مناصب حاصل کئے، ابن حزم کی ولادت اس دور کے مدینۃ العلم قرطبہ میں ہوئی؛ انہوں نے دولت واقتدار اور خدم وحشم کے درمیان آنکھیں کھولیں، ان کے والد حکومت کی وزارت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اس لیے انتہائی ناز ونعم میں پرورش ہوئی، ابتدائی علم بقول ان کے گھر کی عورتوں سے حاصل کیا؛ پھربلوغ کے بعد فقہاء ومحدثین سے کسبِ فیض کی جانب متوجہ ہوئے؛ چونکہ اندلس میں فقہ مالکی کازور تھا اس لیے فقہ مالکی کی کتابیں پڑھیں اور مالکی مسلک کی پیروی کرتے رہے، کچھ دنوں بعد فقہ شافعی کواختیار کیا اور فقہ مالکی کی طرح فقہ شافعی پربھی زیادہ دنوں قائم نہ رہ سکےاور ظاہری نقطۂ نظر کواپنے فکروعمل کا میدان بنایا، ان کا خیال ہے کہ دومکاتب فقہ کوحکومت کے تعاون کی وجہ سے پھیلنے پھولنے کا موقع ملا، ایک فقہ حنفی جوحضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی بدولت پھیل سکا، جودولتِ عباسیہ میں قاضی القضاۃ کے عہدۂ جلیلہ پرفائز تھے، دوسرے فقہ مالکی جسے اندلس کی حکومت کا مذہب ہونے کی وجہ سے قبولِ عام حاصل ہوا۔ ابن حزم ذاتی طور پرخوش حال اور معاش کے مسئلہ سے بے فکر تھے، لوگوں نے لکھا ہے کہ ابنِ حزم جیسا جامع علم رکھنے والاعالم دنیا نے بہت کم دیکھا ہے، بیک وقت محدث، فقیہ، مفسر، ادیب، شاعر، طبیب، نقاداورمناظر تھے، مخالفین پرسخت تنقید کرنے میں ان کی شدت غضب کودیکھ کرکہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کے لیے شمشیرِبرہنہ تھے، کسی نے کہا ہے کہ حجاج بن یوسف کی تلوار اور ابن حزم کی زبان دونوں سگی بہنیں ہیں۔ (ابن حزم) اس تشدد کے باوجود مخالف کے علم وفضل کا اعتراف بھی کرتے تھے؛ چنانچہ ابوالولید حاجی مالکی سے ان کا مناظرہ ہوا کرتا تھا اور وہ ان کے نظریات کے سخت مخالف تھے؛ لیکن ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "لولمیکن لاصحاب المذھب المالکی، بعدالوھاب الاالولیدلکفاہم"۔ (المحلی:۱/۹) ابن حزم کے افکار ونظریات کوسمجھنے کے لیے ان کےاصولِ استنباط سے واقفیت ضروری ہے؛ اس لیے ان کے اصول سے ابتدا۱ کی جاتی ہے۔ فقہ ظاہری پرایک نظر مصادر شرع ابن حزم کے یہاں چار ہیں: (۱)کتاب (۲)سنت (۳)اجماع (۴)دلیل۔ خبرِواحد سے قرآن کا نسخ مصدر تشریع میں کتاب وسنت کوایک دوسرے پرکوئی ترجیح حاصل نہیں ہے، دونوں مقام ومرتبہ میں مساوی درجہ کے ہیں۔ (ابنِ حزم:۳۱۵) دلیل قرآن کی آیت: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" (النساء:۵۹) ہے، جب اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسولﷺ کی اطاعت کا حکم ہے توپھرتفریق اور فوقیت کیسے ہوسکتی ہے؛ نیزیہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی ہربات وحی کے مطابق ہے "وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىإِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَى" (النجم:۳،۴) لازمی طور پرخبرِمتواتر اور خبرِاحاد بھی یکساں حیثیت کے حامل ہوں گے اور قرآنِ پاک کا نسخ سنت سے اور سنت کا نسخ قرآن سے ہوگا، اس لیے کہ دونوں وحی ہیں، اسی اصول سے ابن حزم کا مسلک واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح حدیث بھی قطعی ہے؛ لہٰذا قرآن کے عام کی تخصیص خبرِواحد سے جائز ہوگی، اس مسئلہ میں شوافع بھی ان کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، فرق یہ ہے کہ عام اور خبرِواحد دونوں ہی ان کے نزدیک ظنی ہیں اور ابنِ حزم کے یہاں قرآن کی طرح حدیث بھی علم یقین کا فائدہ دیتی ہے۔ کتاب وسنت کے اوامر ونواہی ابنِ حزمؒ کا اصول یہ ہے کہ اوامرونواہی اگرتخصیص سے خالی ہوں تواس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی فی الفور تعمیر واجب ہوتخصیص کی صورت میں استحباب یااباحت مراد لی جاسکتی ہے، مثلاً: حدیث نکاح کی بابت فرمایا گیا ہے کہ جونوجوان نکاح کی گنجائش رکھتے ہوں وہ نکاح کرلیں، ابنِ حزم کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص زنا میں ملوث ہونے کا خطرہ نہ بھی محسوس کرے اور اداءِ نفقہ پرقادر ہوتونکاح کرنا فرض ہے۔ مذکورہ مسائل اس اصول اور نقطۂ نظر کے اردگرد پھرتے نظر آتے ہیں کہ نصوص میں اصل اس کا ظاہری مفہوم ومعانی ہی ہے، علامہ ابنِ حزم نے اپنی کتاب "الاحکام فی اصولِ الاحکام" میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے "حمل الاوامر والاخبار علی ظواھرھا" اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جولوگ "لفظ" کواس کے اصل معنی سے الگ کرکے استعمال کرتے ہیں، وہ غلط روش پر ہیں؛ انہوں نے خوارج کی ظاہریت کے الزام کاجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خوارج نے بعض آیت یاروایت کوظاہری مفہوم کا لباس پہنایا، اس لیے گمراہ ہوگئے؛ اگروہ تمام الفاظ میں یہی اصول کارفرمارکھتے توگمراہ نہ ہوتے، جن فقہاء نے علل اور دوسرے اصول کی بنیاد پرظاہری مفاہیم سے عدول کیا ان کے بارے میں ان کی رائے ازحدسخت ہے، وہ ان کے نزدیک اللہ کی اس وعید میں داخل ہیں کہ: "فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"۔ (البقرۃ:۱۸۱) ترجمہ:پھرجوشحص اِس وصیت کوسننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تواس کا گناہ ان لوگوں پرہوگا جواس میں تبدیلی کریں گے، یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔ (توضیح القرآن، مفتی محمدتقی عثمانی۔ ابنِ حزم:۳۵۱،۳۵۲) نیز فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسولﷺ نے قرآن پاک کی کسی آیت میں تاویل نہیں کی تودوسرے کوکیا حق پہونچتا ہے کہ وہ تاویل کریں، دلیل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضورِاکرمﷺ قرآن کی کسی آیت میں تاویل نہیں فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام اس کی خبردیتے، جب صاحب وحی بغیر وحی کے اس اقدام کواختیار نہیں فرماتے تھے توکسی اور کے لیے یہ بات کیسے جائز ہوسکتی ہے؛ لہٰذا جس نے بھی اس کے خلاف کیا اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی صراحتاً مخالفت کی اور یہ بھی حرام ہے کہ انسان علم کے بغیر بات کرے۔ (ابنِ حزم:۳۵۱،۳۵۲) خبرِواحد کا اعتبار اعتقادات میں محدثین کے نزدیک بنیادی طور پرحدیث کی دوقسم ہے، متواتر اور آحاد، متواتر وہ روایت ہے، جسے ایک جماعت نے دوسری جماعت سے نقل کیا ہو اور ہردور میں اس کی یہ کیفیت برقرار رہی ہو، اس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، جمہور فقہاء ومحدثین کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن کا ثبوت تواتر سے ہے، دوسری قسم خبرِآحاد ہے، جس کے راوی پورے سلسلۂ سند میں ایک، دو رہے ہوں اور حدتواتر تک نہ پہونچتے ہوں، اس خبر سے جمہور علماء کے نزدیک علمِ ظنی غیریقینی حاصل ہوتا ہے؛ البتہ اصطلاحات کافرق پایا جاتا ہے، جیسا کہ گذرا، ابنِ حزم خبرِواحد کوکبھی متواتر کا حکم دیتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ خبرِواحد سے علم یقینی اور بدیہی حاصل ہوتا ہے، دلیل یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے سربراہانِ مملکت کے پاس قاصدروانہ فرمائے توایک جماعت کا آپؐ نے انتخاب نہیں فرمایا؛ بلکہ ہرایک کے پاس صرف ایک صحابی رضی اللہ عنہ کوروانہ فرمایا؛ اگرایک فرد کی خبریقینی اور قابل اعتبار نہیں تھی توپھرآپ ایک جماعت کوبھیجتے؛ لہٰذا ایک عادل اور ثقہ کی روایت قابل قبول ہوگی اور علمِ یقینی کا فائدہ دیگی اور جس طرح خبرِواحد سے عمل واجب ہے، اعتقاد بھی واجب ہوگا۔ (ابن حزم:۳۰۶) اجماع اجماع کا مفہوم ابنِ حزم اور اہلِ ظاہر کے نزدیک یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں منصوص احکام پرصحابہؓ نے اجماع کیا ہو وہی اجماع معتبر اور قابلِ عمل ہے، صحابہؓ کے بعد کا اجماع غیرمعتبر ہے؛ بلکہ اجماع کا وقوع ہی نہیں ہوتا، صحابہؓ نے حضوراکرمﷺ کوپانچ اوقات میں نماز پڑھتے دیکھا، ان کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ (کتاب الدرۃ فیما یجب اعتقادہ:۱۷۵) جمہور کے نزدیک اجماع کا مفہوم یہ ہے کہ کسی غیرمنصوص مسئلہ میں کسی دور کے علماء امت کا کسی ایک صورت پراتفاق ہوجائے؛ پس ظاہریہ نے جس اجماع کوحجت تسلیم کیا ہے، اس کا مقصد سوائے اس کے کیا ہوگا کہ مسنون اعمال مزید موکد ہوں۔ قیاس کی نفی قیاس اصطلاحِ فقہاء میں غیرمنصوص مسئلہ میں علت کے اشتراک واتحاد کی وجہ سے منصوص کا حکم بیان کرنا ظاہری مکتبِ فکر اورخاص کر ابنِ حزم اس بات کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں کہ قیاس کوبطورِ ادلۂ شرع کے قبول کیا جائے، فرماتے ہیں: "وَلاَيَحِلُّ الْقَوْلُ بِالْقِيَاسِ فِي الدِّينِ، وَلاَبِالرَّأْيِ لإِنَّ أَمْرَ اللَّهِ تَعَالَى عِنْدَ التَّنَازُعِ بِالرَّدِّ إلَى كِتَابِهِ وَإِلَى رَسُولِهِﷺ "۔ (المحلی:۱/۱۰۰) لہٰذا جس نے بھی اس کی مخالفت کی، یعنی قیاس کوبطورِ دلیل کے اختیار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کی، ابنِ حزم نے قائلین قیاس پرسخت تنقید کی ہے، کہ دین مکمل ہوچکا ہے، اس لیے کتاب وسنت کے علاوہ مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں؛ انہوں نے قیاس کے خلاف عقلی دلیل بھی پیش کی ہے اور اپنے خیال کے مطابق اجماع صحابہ سے بھی استدلال کیا ہے (کتاب الدرۃ:۴۱۸) اصحاب ظواہر کا قیاس سے انکار ایک فطری بات ہے، ان کے نزدیک نصوص کے احکام کسی علت پرمبنی نہیں ہیں؛ پس جب نصوص معلول نہ ہوں توقیاس کے لیے گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ تقلید تقلید کے لغوی معنی گلے میں کسی چیز کا ڈالنا ہے، اصطلاح میں: "هُوَالْعَمَلُ بِقَوْلِ الْغَيْرِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ" (ارشادالفحول:۲۶۵) فقہاء ومحدثین کی ایک بڑی جماعت اس کے جواز کی قائل ہے؛ بلکہ عام آدمی پرواجب ہے جزوی اختلاف کے ساتھ ائمہ کے نزدیک جائز ہے حرام نہیں ہے، ظاہریہ کامسلک ہے کہ تقلید مطلقاً حرام ہے اور کسی بھی درجہ میں جائز نہیں؛ ہرانسان پراپنی وسعت کے مطابق اجتہاد واجب ہے؛ البتہ عامی کے لیے اس کی گنجائش ہے کہ وہ اہلِ علم علماء سے تحقیق کرے؛ اگروہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم بتائیں توعمل کرے اور اگراپنے قیاس ورائے یادوسرے کے قیاس ورائے سے حکم بتائے توعمل کرنا جائز نہیں۔ (المحلی:۱/۸۵) صحابی، تابعی، محدث، فقیہ، زندہ یامتوفی کسی کی بھی تقلید جائز نہی ں اور اس پر انہیں آیات سے استدلال کیا ہے جوعموماً آج بھی تقلید کے منکرین پیش کرتے ہیں۔ اشیاء میں اصل اباحت ابن حزم کے اس اصل کا مفہوم جمہور کے نزدیک استصحاب کے مفہوم سے قریب ترہے، فرق یہ ہے کہ فقہاء نے اسے دلیلِ عقلی کے طور پرتسلیم کیا ہے اور ظاہریہ نے اسے منصوص سمجھا ہے، اس اصل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی امرکے سلسلسہ میں اگرفرضیت کی دلیل قائم ہوتوفرض اگرحرمت کی دلیل پائی جائے توحرام اور یہ دونوں مفقود ہوں تواباحت کا حکم ہوگا، اس پرابنِ حزم نے "وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ" (البقرۃ:۳۶) سے استدلال کیا ہےکہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کودنیا میں نازل فرمایا اور اشیاء کی حرمت بتلاکر "وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ" سے حلت کے عموم کوواضح فرمادیا، اس لیے اشیاء میں بذریعہ نص اصلاً اباحت ثابت ہے؛ لہٰذا جب تک کوئی نص اس کے مخالف نہ ہو اس کی اباحت علیٰ حالہ باقی رہے گی۔ دلیل ظاہری مکتب فقہ میں مصادر شرع میں چوتھی اصل "دلیل" ہے، اجماع اور نصوص سے جومفہوم پیدا ہوتا ہے اسے "دلیل" کہا جاتا ہے۔ دلیل کی مثال ظاہریہ، یہ دیتے ہیں کہ ایک نص جس نے دومقدمات قائم کئے اور نتیجہ نہیں پیش کیا؛ یہی نتیجہ ظاہریہ کے نزدیک دلیل ہے، ابوزہرہ نے لکھا ہے کہ ابنِ حزم نے اس کی سات قسمیں کی ہیں، بغرِضِ اختصار صرف ایک مثال لکھی جاتی ہے: حدیث میں آیا ہے: "كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ"۔ (مسلم، كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،بَاب بَيَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ،حدیث نمبر:۳۷۳۵،شاملہ، موقع الإسلام) نتیجہ ظاہر ہے کہ "كُلُّ مُسْكِرٍ" اس کوظاہری دلیل کہتے ہیں؛ بعض اہلِ علم نے ظاہریہ پریہ نقد کیا ہے کہ دلیل کوبحیثیت مصدر تشریع اختیار کرنا حقیقت میں قیاس ہی کوتسلیم کرنا ہے، ابنِ حزم اس تقلید پراس قدر چراغ پا ہوئے کہ انہوں نے ناقدین کوجاہل تک کہہ ڈالا؛ گرچہ انہوں نے دلیل کومصادر شرع میں شمار کیا ہے؛ لیکن ظاہریہ کے نزدیک اس کی نظیر خال خال نظر آتی ہے۔ ابنِ حزم اور داؤدِ ظاہری یہ دونوں بزرگ گوایک ہی مکتبِ فکرکے نمائندے ہیں؛ لیکن ان کے مابین بھی بعض بنیادی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، یہ بات بھی نہیں کہ ابنِ حزم داؤدِ ظاہری کی تقلید کرتے ہیں؛ بلکہ افکار ونظریات، معیار اجتہاد اور اصول کے استخراج واستنباط میں یکساں اصول کے حامل ہونے کے باوجود دونوں میں بہت سے مسائل میں اختلاف بھی واقع ہوا ہے، مثلاً داؤدِ ظاہری قرآن کومخلوق سمجھتے ہیں اورابنِ حزم غیرمخلوق، ہاں اتنی بات درست ہے کہ داؤدِ ظاہری نے جس مکتبِ فکرکی داغ بیل ڈالی تھی، ابنِ حزم نے اس کومزید تناور اورمستحکم کیا ہے۔